داعش کے خلاف فتوا

ویکی شیعہ سے

داعش کے خلاف فتوا مرجع تقلید آیت اللہ سیستانی (ساکن عراق )، نے 2013ء میں داعش کے خلاف جہاد کا فتوا دیا۔ اس فتوے اور جہاد کے واجب کفائی کے اعلان کے بعد عراق کے ہزاروں افراد نے داعش سے جنگ کرنے کے لیے حشد الشبعی میں شمولیت اختیار کی۔ اس فتوے کو حشد الشعبی کی سرکاری طور جوازیت کا بھی اہم سبب سمجھا جاتا ہے۔

اسباب

سنہ 2013ء میں عراق میں ایک تکفیری گروہ داعش کے نام سے معرض وجود میں آیا۔[1] انہوں نے فلوجہ اور سامرا پر قبضہ کیا اور سنی رہائشی صوبوں الانبار،نینوااور صلاح الدین میں داخل ہوئے۔ پھر انھوں نے موصل پر بھی قبضہ کر لیا۔[2] داعش نے ان علاقوں میں دہشت گردانہ کاروائیاں اور لوگوں کا قتل و عام شرع کیا۔[3] حکومت نے اس معاملے سے نمٹنے کے لیے عوامی فورس تشکیل دی جو حشد الشبعی کے نام سے مشہور ہوئی۔[4]

جہاد کا فتوا

حشد الشبعی کے سرگرم ہونے کے تین روز کے بعد 13 جون 2014ء کو آیت اللہ سیستانی نے جہاد کا فتوا دیا۔ یہ فتوا واجب کفائی تھا اس معنی میں کہ پہلے یہ سب پر واجب تھا لیکن جب جہاد کے لیے فوج کافی ہو گئی تو دوسروں پر سے اس کا فرض ہونا ساقط ہو گیا۔[5] اس فتوےمیں جو کہ شہر کربلا میں ان کے نمائندہ عبدالمہدی کربلائی کے ذریعے نماز جمعہ میں بیان ہوا ،کہا گیا کہ وہ افراد سب جو اسلحہ چلانے کی توانائی رکھتے ہیں، ان سے درخواست کی گئی کہ وہ عراقی فوج کے شانہ بشانہ داعش کے خلاف جنگ لڑیں۔[6] کہا جاتا ہے کہ اس فتوے نے مزاحمتی گروپس اور حکومت عراق کو ایک روحانی طاقت اور حشد الشبعی کے نیم فوجی دستوں کو جوازیت بخشی اور عراق کو زوال سے بچایا۔[7]

فتوا بطور خلاصہ

عصر حاضر میں عراق کی سرزمین اور ملت عراق کو جو خطرات لاحق ہیں،وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس سرزمین اور اس کے عوام کی جان و ناموس کی حفاظت کی جائے۔یہ دفاع سبھی عراقی شہریوں کے لئے واجب کفائی ہے۔اس بنا پر جو شہری بھی اسلحہ اٹھانے اور دہشتگردوں سے مقابلے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اپنے ملک و ملت اور مقدس مقامات کا دفاع اور حفاظت کر سکتے ہیں ،اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر عسکری قوتوں سے ملحق ہو جائیں۔[8]

رد عمل

آیت اللہ سیستانی کے فتوا دینے سے عراق کے بہت سے لوگ داعش سے مقابلے کےلئے حشد الشعبی میں شامل ہوئے۔[9] عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمھدی نے اس فتوے کو داعش کے خلاف جنگ میں ایک اہم موڑ قرار دیا۔[10] عراقی پارلیمنٹ کے سپیکر محمد حلبوسی نے کہا کہ عراقیوں نے آیت اللہ سیستانی کے چند کلمات پر مشتمل ( فتوے ) کی وجہ سے دہشت گردوں سے مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کر سکے۔[11] اس فتوے پر مختلف مذہبی اور سیاسی شخصیات کا ردعمل سامنے آیا۔ جیسے افریقہ میں جمیت اہل بیت کے سربراہ نے کہا: اگر یہ فتوا نہ ہوتا تو داعش افریقہ اور دنیا کے دوسروں خطوں میں داخل ہوئی ہوتی ۔[12] اسی طرح تکفیری گروپس کے حامی میڈیا نے داعش کے خلاف اس فتوا کے بعد داعش میں افراد کے اضافے کے لئے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔[13] اس فتوے کے پانچ سال پورے ہونے پر پرعراقی پالیمینٹ نے ایک بل پاس کیا کہ ۱۳ حزران (آیت اللہ سیستانی کے فتوے کے دن کو )کو قومی دن کو عنوان سے منایا جائے۔ [14]

زمانی اور مکانی محدودیت

داعش کے زیر اثر مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانے کے بعدعراق کی بعض سیاسی شخصیات نے حشدالشعبی کو منحل کرنے کی بات لیکن آیت اللہ سیستانی نے اعلان کیا کہ جہاد کا فتوا ااپنی قوت کے ساتھ ابھی باقی ہے کیونکہ اس فتوے کی اصلی وجہ داعش ابھی باقی ہے۔ [15] آیت اللہ سیستانی کے نمائندہ نے کربلا میں اس فتوے صادر ہونے کے پانچویں سال اس بات کا اعلان کیا کہ فتوے کی میعاد ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ ابھی جاری ہے۔[16] نیز برطانیہ میں آیت اللہ سیستانی کے نمائندے نے اس فتوے کے صادر ہونے کے کچھ دن بعد اعلان کیا کہ اس فتوے کے مخاطب وہ عراقی ہیں جو عراق میں رہتے ہیں اور وہ عراقی اور شیعہ مومنین جو دوسرے ملکوں میں رہتے ہیں ان پر اس کا اطلاق نہیں ہو گا ۔ [17]

حوالہ جات

  1. نباتیان، زمینہ یای فکری سیاسی جریان بعثی تکفیری داعش، ۱۳۹۳ش، ص۵۳ و ۸۸۔
  2. نباتیان، زمینه‌های فکری سیاسی جریان بعثی تکفیری داعش، ۱۳۹۳ش، ص۵۵۔
  3. أبشع ۱۰ جرائم لداعش، سائٹ آر۔تی عریک۔
  4. الحشد الشعبی۔۔ القوة النظامیۃ البدیلۃفی العراق، سایت مرکز الجزیرة للدراسات۔
  5. محمدی، شرح اصول فقہ، ۱۳۸۷ش، ج۱، ص۲۰۲۔
  6. آیت الله سیستانی فتوای جهاد صادر کرد، پایگاه اطلاع‌رسانی حوزه۔
  7. مستند جدارالماء: مصاحبہ با سران الحشد الشعبی۔
  8. الحشد الشعبی بین مصادرة التضحیات والإصرار علی حلہ، سایت الاخبار۔
  9. مستند جدارالماء: مصاحبہ با سران الحشد الشعبی۔
  10. فتوای جہاد آیت‌الله سیستانی نقطہ عطفی در مقابلہ با داعش بود، خبرگزاری تسنیم۔
  11. الحلبوسی یشکر السیستانی، خبرگزاری ناس۔
  12. اگر فتوای جہاد نبود، داعش بہ آفریقا و سایر کشورہای جہان می‌رسید، خبرگزاری رسمی حوزه۔
  13. واکنش تروریست‌ها به حکم جهاد آیت الله سیستانی، سایت شبکه خبر۔
  14. الحلبوسی یشکر السیستانی، ، خبرگزاری ناس۔
  15. السیستانی یجدد فتوی الجہاد، سایت العربی الجدید۔
  16. بیان ہام للمرجع السیستانی، شبکۃ العالم۔
  17. فتوی الجہاد الکفائی تخص العراقیین، خبرگزاری براثا۔

مآخذ

  • «اگر فتوای جہاد نبود، داعش بہ آفریقا و سایر کشورهای جہان می‌رسید۔»، در خبرگزاری رسمی حوزه، تاریخ درج مطلب۴ اردیبہشت ۱۳۹۷، دیکھے جانے کی تاریخ ۷ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «فتوای جہاد آیت الله سیستانی نقطہ عطفی در مقابلہ با داعش بود۔»، در خبرگزاری تسنیم، تاریخ ۳۰ فروردین ۱۳۹۸، دیکھے جانے کی تاریخ ۷ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «واکنش تروریست‌ہا بہ حکم جہاد آیت الله سیستانی»، ایران نیوز ایجنسی، تاریخ اندراج ۲۵ خرداد ۱۳۹۳، دیکھے جانے کی تاریخ ۷ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «أبشع ۱۰ جرائم لداعش»، سائٹ: آر۔تی عربیک، تاریخ ابدراج ۲۰۱۵/۱۲/۴م، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «الحشد الشعبی: القوة النظامیۃ البدیلۃ فی العراق»، سایٹ: مرکز الجزیرة للدراسات، تاریخ اندراج مطلب ۲۰۱۵/۱/۱ء، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «الحشد الشعبی بین مصادرة التضحیات والإصرار علی حلِّہ»، سایٹ: الاخبار، تاریخ انداج ۱ گست ۲۰۱۷ء، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «الحلبوسی یشکر السیستانی بشأن الجہاد الکفائی»، ناس نیوز ایجنسی، تاریخ اندراج مطلب ۱۳ جون ۲۰۱۹ء، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «بیان ہام للمرجع السیستانی فی ذکری فتوی الجہاد الکفائی»، العالم چینل ، تاریخ اندراج مطلب ۳ فروری ، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «السیستانی یجدد فتوی "الجہاد الکفائی" التی أسست الملیشیات»،سائٹ: العربی الجدید، تاریخ اندراج مطلب ۷ اپریل ۲۰۱۹ء، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • «ممثل الامام السیستانی: فتوی الجہاد الکفائی تخص العراقیین فقط»، سائٹ: براثا، تاریخ اندراج مطلب ۲۰۱۴/۶/۱۵، دیکھے جانے کی تاریخ ۱۴ بہمن ۱۳۹۸ہجری شمسی۔
  • مستند جدارالماء: مصاحبہ با سران الحشد الشعبی
  • محمدی، علی، شرح اصول فقہ، قم، دارالفکر، ۱۳۸۷ہجری شمسی۔