حیدر علی خان بہادر

ویکی شیعہ سے
(حیدر علی خان سے رجوع مکرر)
نواب حیدر علی خان بہادر
سلطنت خداداد کا پہلا بادشاہ
گنبد سلطانی
گنبد سلطانی
کوائف
نامحیدر علی
لقبخان بہادر
محل زندگیمیسور
والدحیدر علی
والدہمجیدہ بیگم
مذہبشیعہ
وفاتیکم محرم سنہ 1197 ھ (بمطابق 7 دسمبر 1782ء)
مدفنبنگلور
حکومت
سمتبادشاہ
محدودہجنوبی ہندوستان
آغاز1761ء
انجام1782ء
مرکزمیسور
اہم اقداماتایسٹ انڈیا کمپنی سے جنگ
قبل ازٹیپو سلطان


حیدر علی خان بہادر (1750-1799ء) اٹھارویں صدی عیسوی کے شیعہ حاکم اور جنوبی ہندوستان میں سلطنت خداداد میسور (1761-1799) کے بانی ہیں۔ آپ نے ہندوستان میں برطانوی استعمار کے خلاف جنگیں لڑی۔19 سال کی عمر میں آپ راجہ میسور کی فوج میں شامل ہوئے اور مختلف عہدوں کو سنبھالتے ہوئے آخر میسور کے فرمانروا بن گئے۔ خان بہادر انگریزوں کے علاوہ مختلف باغیوں، مرہٹوں اور نظام دکن سے بھی برسر پیکار رہے۔ آپ نے سلطنت خداداد کی سرحدوں کو 80 ہزار مربع میل تک پھیلایا۔اینگلو میسور جنگوں میں سے پہلی اور دوسری جنگ آپ کے دور حکومت میں لڑی گئیں۔آپ کی رعایا میں مسلمان اور ہندو یکسان نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ہندوؤں کے مندروں کی تعمیر تک کروائی۔آپ برطانوی استعمار کے خلاف لڑنے والے پہلے مسلمان حاکم ہیں۔آپ نے بحریہ کو اپنی فوج میں شامل کیا۔

سوانح حیات

سلطنت خداداد میسور کے بانی اور پہلے حاکم نواب حیدر علی سنہ 1134 ہجری مطابق سنہ 1721ء کو صوبہ سَرا میں بالاپور کے قریب بودی کوٹہ نامی گاوں میں پیدا ہوئے۔[1] آپ کی والدہ کا نام مجیدہ بیگم تھا۔[2]

حیدر علی کا تعلق ہندوستان کے «نَوَاِئط» قبیلے سے بتایا جاتا ہے جن کی اکثریت شیعہ تھی۔ حیدر علی بھی شیعہ اور ائمہ اثنا عشرؑ کا ماننے والا تھا۔[3] نوائط قبیلہ نصر بن کنانہ کی نسل سے قرار دیا جاتا ہے جو کوفہ سے نو میل کے فاصلے پر «وائط» میں آباد تھے لہذا «بنو وائط» کہہ کر پکارے گئے اور ہندوستان میں کثرت استعمال سے «نوائط» ہوگئے۔ref>رضوی، تاریخ شیعیان علی، 2006ء، ص567</ref>

حیدرعلی اگرچہ انپڑھ تھے[4] لیکن شجاع، بہادر اور ایک قدرتمند سیاستدان تھے[5] آپ کا نام حیدر علی تھا اور حسن کارکردگی کے سبب آپ کو «خان بہادر» کا لقب دیا جاتا ہے۔[6]

19 سال کی عمر میں آپ کی شادی ہوئی۔[7] بیوی کی بیماری کی وجہ سے ان کی رضامندی سے دوسری شادی کی جس کے نتیجے میں شہباز اور ٹیپو سلطان پیدا ہوئے۔[8]

سنہ 1782ء میں اچانک آپ پر کینسر کی بیماری کے آثار ایک پھوڑے کی شکل میں نمودار ہوئے۔[9] 6 دسمبر سنہ 1782ء کی شام کے قریب نواب نے تاریخ دریافت کی تو معلوم ہوا محرم کی چاند رات ہے آپ نے غسل کر کے پاک لباس پہن لیا۔[10] اور کلمہ و درود پڑھتے ہوئے خالق حقیقی سے جاملے[11] آپ کی وفات یکم محرم سنہ 1197 ھ کو بمطابق 7 دسمبر سنہ1782ء کو ذکر کیا گیا ہے۔[12] سلطان ٹیپو اس وقت ملیبار میں لڑائی میں مصروف تھے۔[13] اسی لئے حیدر علی کی وفات کو سب سے پوشیدہ رکھ کر رات کی تاریکی میں دفنا دیا اور ٹیپو سلطان کے آنے تک حیدرعلی کے چھوٹے بیٹے کریم کو مملکت کے امور چلانے کے لئے جانشین انتخاب کیاگیا۔[14]

خاندانی پس منظر

حیدر علی کا تعلق قریش قبیلہ سے بتایا جاتا ہے[15] آپ کے اسلاف میں شیخ ولی محمد نے دسویں صدی ہجری کے اواخر میں مکہ سے ہندوستان گُلبَرگَہ کی طرف ہجرت کی۔[16] آپ کے والد کا نام فتح محمد اور والدہ کا نام مجیدہ بیگم تھا۔[17] آپ کے والد فتح محمد سرا کے صوبہ دار عابد خان کے ماتحت دوہزار پیادہ و پانچ سو سوار فوجیوں پر کمانڈ کرتے تھے۔[18] پانچ سال کی عمر میں آپ کے والد سنہ1137ھ مطابق 1724ء ایک جنگ میں مارے گئے۔[19] والد کی وفات کے بعد بالاپور کے حاکم عباس قلی خان نے حیدرعلی کو بھائی اور ماں کے ساتھ گرفتار کیا اور فتح محمد کے مال کو غارت کیا۔[20]حیدر علی کے چچا زاد بھائی حیدر جو اس وقت راجہ میسور کی ملازمت میں تھے[21] نے انہیں آزاد کرایا اور رہائی کے بعد فتح حیدر کی بیوہ اپنے بچوں کو لیکر بنگلور اور وہاں سے سرنگاپٹم چلی گئی اور اس کے بعد حیدر علی کے چچازاد بھائی حیدر کی سرپرست میں رہنے لگے۔ جنہوں نے سپہ گری اور شہسواری کی تربیت دلوائی۔[22]

راجہ کے ملازم سے سلطان تک کا سفر

حیدر علی 19 سال کی عمر میں نندراج کی فوج میں ایک عام سپاہی کی صورت میں شامل ہوئے۔[23] کارکردگی کی بنیاد پر «نائک»[یادداشت 1]کے عہدے پر فائز ہوئے[24] اور ترقی کرتا ہوا گورنری[25]، سپہ سالاری اور نیابت سلطان کے عہدے پر فائز ہوئے۔[26] کہا جاتا ہے کہ سنہ 1163ھ کو بالا گھاٹ میں جب افغانوں نے نواب نظام الملک ناصر جنگ[یادداشت 2] کو قتل کیا تو ہر طرف بغاوتیں ہوئیں لیکن حیدر علی نے ثابت قدم رہ کر بغاوتوں کو کچل دیا۔[27] مشرقی میسور کے اندر ہونے والی بغاوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حیدر علی کا انتخاب ہوا اور انہوں نے بخوبی انجام تک پہنچایا۔[28]

میسور میں مرہٹوں کے مقابلے کے لئے حیدرعلی خان کو سپہ سالار بنایا گیا[29] اور اسی جنگ میں اسے «خان بہادر» کا لقب دیا گیا۔[30] سنہ 1167ھ میں نظام کے بھائی صلابت جنگ کی حمایت میں حیدرعلی نے مرہٹوں کی فوج کو شکست دے کر چھینے ہوئے بعض علاقوں پر دوبارہ قبضہ کیا اور بعض داخلی بغاوتوں کو ناکام بنایا[31] اس کے نتیجے میں صلابت جنگ کی سفارش سے دہلی کے مغل بادشاہ نے حیدرعلی کے لئے «سرا» کی نوابی لکھ دی اور «نواب حیدر علی» کہلانے لگے۔[32] راجہ میسور کے وزیر اعظم کَھنڈے راؤ نے حیدرعلی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو ختم کرنے کے لئے راجہ کو حیدر علی کے خلاف اگسایا۔[33] جب حیدرعلی کی فوج اَرکَاٹ میں مقیم تھی تو مرہٹہ سے یہ کہکر مدد طلب کی کہ ایک مسلمان میسور پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور فوجی دستے وہاں کو روانہ ہوئے۔[34] حیدرعلی پیشگی اطلاع پر راتوں رات سرنگاپٹم سے بھاگ کر بنگلور پہنچ گئے اور ارکاٹ سے اپنی فوج بنگلور بلا لیا۔[35] لیکن کھنڈے راؤ اور مرہٹہ افواج نے وہاں تک تعاقب کیا لیکن شکست کھا کر واپس میسور لوٹ آئے۔[36] پھر حیدرعلی نے نندراج سے مل کر دوبارہ سری رنگاپٹنم پر حملہ کیا اور کھنڈے راؤ کو شکست دی[37] اور اسے گرفتار کیا اور مرتے دم تک آہنی پنجرے میں بند کر رکھا۔[38] میسور کے حالات کے پیش نظر سلطنت کا نظم و نسق میسور کے ہندو راجہ سے اٹھا کر اپنے ذمے لیا[39] سنہ1175ھ کو میسور میں راجہ کو برطرف کرکے خودمختاری کا اعلان کیا اور خود کو سلطان کا لقب دیا۔[40]آپ کی خودمختاری کا اعلان ایسے وقت میں ہوا جب برطانیہ اور فرانس ہندوستان پر آپس میں لڑ رہے تھے اور حیدر علی ان کو ہندوستان سے دور کرنا چاہتے تھے۔[41]


سلطنت خداداد

جنوبی ہندوستان میں حیدر علی کے توسط قائم شدہ حکومت کو سلطنت خداداد میسور کہا جاتا ہے۔ یہ حکومت 1761ء سے1799 تک جاری رہی۔[حوالہ درکار]

اس کا پہلا بادشاہ حیدر علی اور دوسرا ٹیپو سلطان تھے۔ اس حکومت کا دارالحکومت کرناٹک کا شہر میسور تھا۔[42]) اس سلطنت کا قیام ایسے وقت میں ہوا جب اٹھارویں صدی عیسوی میں سلطنت مغلیہ زوال کے ساتھ ہی ہندوستان کی مختلف مقامی ریاستیں خودمختار ہوئیں اور آپس میں لڑائیاں بڑھ گئیں اور کہا جاتا ہے کہ انہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کے مختلف علاقوں پر قبضہ جمایا اور دوسری طرف حیدرعلی کی سلطنت خداداد میسور وجود میں آگئی[43]

حیدر علی نے سنہ1761ء بمطابق 1171ھ کو راجہ کرشنا راج وڑیار کو گوشہ نشین کرنے[44] اور امور مملکت سنبھالنے کے بعد، مقامی راجاوؤں کے باہمی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سرحدوں کو توسیع دی اور «صوبہ سرا»،[45] «بالاپور»، «بدنور»[46] کلیکوٹ[47] اور بعض دیگر علاقوں پر قبضہ کیا[48] اور اپنی سلطنت کو 33 گاؤں سے بڑھا کر 80 ہزار مربع میل پر پھیلا دیا۔[49]

«بدنور» کو «حیدرنگر» نام دے کر دارالحکومت قرار دیا اور اپنے نام کا پہلا سکہ رائج کیا۔[50] سکے پر اپنے دستخط کے ابتدائی حروف اور ہندو دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بھی نقش کرائی جو مذہبی رواداری کا بہترین مظاہرہ تھا۔[51]

جنگیں

انگریزوں سے جنگ میں ٹیپو سلطان کے توپ

حیدر علی نے مرہٹوں اور انگریزوں کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔[52] انگریزوں سے جنگ کے لئے آپ نے نظام دکن سے اتحاد کیا اور برطانیہ سے پہلی جنگ شروع سنہ1766 تا سنہ1769ء تک لڑی گئی۔[53]اور حیدرعلی کی فوج مدراس کے قریب پہنچ گئے تو برطانیہ صلح کرنے پر مجبور ہوگیا۔[54] اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں طرف میں سے کسی ایک پر حملہ ہوا تو ایک دوسرے کی حمایت کی جائے گی لیکن سنہ1182ھ کو جب مراہٹوں کے خلاف حیدرعلی نے انگریزوں سے مدد مانگی تو انہوں نے مدد کرنے سے انکار کردیا.[55]

اسی عہدشکنی کی وجہ سے حیدر علی نے فرانسیسیوں سے اتحاد کیا۔ برطانیہ کی فوج بندرماہی پر اتر گئی جبکہ حیدر علی کی فوج نے کرناٹک پر حملہ کیا۔ یہ جنگ سنہ1780ء سے 1784ء تک جاری رہی۔[56] اس جنگ کے دوران حیدر علی وفات پاگئے۔ اور ان کی جگہ ان کے بیٹے ٹیپو سلطان آگئے.[57]

تیسری(1790-1792)[58] اور چوتھی جنگ(1798-1799) سلطان ٹیپو کے دور میں لڑی گئیں اور آخری جنگ میں ٹیپو سلطان شہید ہوئے[59]

خصوصیات

حیدر علی ایک محنتی اور جفاکش، سیاہ رنگ کا تنومند اور میانہ قد کے مالک تھے۔[60] سرخ رنگ کے کپڑے اور دستار پہنتے تھے۔ گھوڑوں کے عاشق تھے۔ کوئی بھی کارنامہ انجام دینے والے کو انعام سے نوازتے تھے۔[61] آپ کو «کم گو»، «خوش گو»، «بردبار»، «قیافہ شناس» اور «رعیت نواز» کہا گیا ہے۔[62]

آپ کی شاہی مہر پر یہ شعر درج تھا: «بہر تسخیر جہاں شد فتحِ حیدر آشکار۔ لافتی الّاعلی لاسیف الّا ذوالفقار» جبکہ جیبی مُہر پر صرف «فتح حیدر» کَندہ تھا۔[63]

تاریخ سلطنت خداداد کے نقل کے مطابق حیدر علی ایک غیر متعصب حاکم تھے [64] اور کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین برداشت نہیں کرتے تھے۔[65] ہندو مذہبی رسومات میں بھی شرکت کرتے تھے۔[66]

مونوگراف

  • الماس ایم اے نے سنہ 1992ء میں حیدر علی کی زندگی پر «نواب بہادر علی خان» کے نام سے ایک ناول لکھی۔
  • «حیدر علی» کے نام سے ہندو مؤلف نریندر کرشن سنہا نے سلطان حیدر علی کی سوانح حیات پر مشتمل یہ کتاب لکھ دیا ہے جسے اقتدار حسین صدیقی نے ترجمہ کیا ہے اور نیشنل بک ٹرسٹ نئی دہلی سے کئی بار چھپ چکی ہے۔
  • سید امجد علی اشہری نے سوانح حیدر علی سلطان کے نام سے تالیف کی ہے جسے ادارہ ادبیات اردو حیدر آباد نے سنہ 1920 میں مطبع روز بازار امرتسر سے چھاپ کر منظر عام پر لایا ہے۔

نوٹ

  1. پالیکاران دکن کی اصطلاح میں نائک سپہ دار فوج پیادہ کو کہتے تھے اور یہ ایک خطابی اعزاز سمجھا جاتا تھا۔(اشہری، «سوانح حیدر علی سلطان»، 1920ھ ص43؛)
  2. نواب ناصر جنگ، سلطنت آصفیہ کے بانی آصف جاہ کے بعد کا ہے آصف جاہ مغل دربار کے تورانی سرداروں کے سربراہ تھے۔ آصف جاہ کے بعد ان کے بیٹے «ناصر جنگ» اور «صلابت جنگ» مختصر مدت کے لئے برسر اقتدار رہے۔ (کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، 1960ء ص40)

حوالہ جات

  1. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص30-31؛ ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص95۔
  2. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص95۔
  3. رضوی، تاریخ شیعیان علی، 2006ء، ص570
  4. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ:حامد اللہ افسر و عتیق صدیقی، 1998ء ص13
  5. رضوی، تاریخ شیعیان علی، 2006ء، ص568
  6. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص38-37
  7. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص38
  8. کرمانی، سید میر حسین علی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص39
  9. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص154۔
  10. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص256
  11. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص155۔
  12. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص257
  13. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص154۔
  14. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص257
  15. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص23؛ Narasingha Sil, Tipu Sultan in History: Revisionism Revised, SAGE Open, April-June 2013:1-11
  16. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص23
  17. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص30-31
  18. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص51۔
  19. کرمانی، سید میر حسین علی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص 33
  20. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ:حامد اللہ افسر و عتیق صدیقی، 1998ء ص9
  21. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص51۔
  22. محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ:حامد اللہ افسر و عتیق صدیقی، 1998ء ص9
  23. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص54؛ حسنی ندوی، سلطان ٹیپو شہید ایک تاریخ ساز قائد شخصیت، 1433ھ، ص23
  24. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص196۔
  25. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص100۔
  26. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔
  27. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص41
  28. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص41-42
  29. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ ص99
  30. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص41-42
  31. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص57-52
  32. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان،1420ھ، ص-105-104۔
  33. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص24۔
  34. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، ص106۔
  35. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص24۔
  36. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، ص107۔
  37. ساموئل سٹرنڈبرگ،Tipu Sultan (The Tiger of Mysore) ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، ص25۔
  38. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص73-68
  39. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص75
  40. Kate Brittlebank, Tipu Sultan's search for legitimacy, Delhi 1997, pp 22.
  41. Kate Brittlebank, Tipu Sultan's search for legitimacy, Delhi 1997, pp 22.
  42. کریمی ندوی، چند ایام ٹیپو سلطان کے دیار میں، الاسلام اکیڈمی کرناٹک، سنہ 2017، ص23۔
  43. ساموئل سٹرنڈبرگ، ٹیپو سلطان(شیر میسور)، مترجم: محمد زاہد ملک، ص26۔
  44. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص75
  45. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص80
  46. ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، 1420ھ، ص116۔
  47. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص112۔
  48. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص78-96
  49. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص23۔
  50. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264
  51. نریندر کرشن سنہا، حیدر علی، ترجمہ:اقتدار حسین صدیقی، 1974ء ص67
  52. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص24۔
  53. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص198۔
  54. William Henry Beveridge, A comprehensive history of India: civil, military and social, London 1871 Vol 2 pp 292,500.
  55. William Henry Beveridge, A comprehensive history of India: civil, military and social, London 1871 Vol 2 pp 292,500.
  56. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص139-140۔
  57. کلود فریزر دولافوس، تاریخ ہند، ترجمہ محمدتقی فخرداعی گیلانی، 1316شمسی، ص253، 256
  58. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص230-232۔
  59. حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، 1433ھ ص44۔
  60. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص266-261
  61. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص260-258
  62. ملاحظہ کریں: کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264-261
  63. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص266
  64. محمود، تاریخ سلطنت خداداد، ص167-170۔
  65. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص264
  66. کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء ص265

مآخذ

  • الیاس ندوی، سیرت ٹیپو سلطان، کاکوری آفسٹ پریس لکھنؤ 1420ھ، 1999ء۔
  • ساموئل سٹرنڈبرگ،Tipu Sultan (The Tiger of Mysore) ٹیپو سلطان(شیر میسور) ، مترجم: محمد زاہد ملک، علم و عرفان پبلشرز لاہور۔
  • سید امجد علی اشہری، سوانح حیدر علی سلطان، مطبع روز بازار امرتسر، 1920ء
  • سید علی حسین رضوی، تاریخ شیعیان علی، امامیہ اکیڈمی کراچی، 2006ء۔
  • سید محمد واضح رشید حسنی ندوی، ٹیپو سلطان شہید ایک تاریخ ساز قائد، مجلس تحقیقات و نشریات اسلام لکھنو، 1433ھ2011ء.
  • سید میر حسین علی کرمانی، نشان حیدری تاریخ ٹیپو سلطان، ترجمہ محمود احمد فاروقی، 1960ء
  • کلود فریزر دولافوس، تاریخ هند، ترجمه محمدتقی فخرداعی گیلانی، ]تهران[ 1316شمسی ہجری۔
  • محمود بنگلوری، محمود خان، تاریخ سلطنت خداداد میسور، مطبوعہ برقی کوثر پریس بنگلور، 1939ء
  • محب الحسن، تاریخ ٹیپو سلطان، مترجم: مترجم حامداللہ افسر اور عتیق صدیقی، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، 1982ء۔
  • نریندر کرشن سنہا، حیدر علی، ترجمہ:اقتدار حسین صدیقی، نیشنل بک ٹرسٹ نئی دہلی 1974ء
  • Kate Brittlebank, Tipu Sultan's search for legitimacy, Delhi 1997
  • Narasingha Sil, Tipu Sultan in History: Revisionism Revised, SAGE Open, April-June 2013:1-11
  • William Henry Beveridge, A comprehensive history of India: civil, military and social, London 1871