احباط

ویکی شیعہ سے
(حبط اعمال سے رجوع مکرر)

اِحْباطْ کے معنی ہیں گناہ کی وجہ سے عبادت کا اجر و ثواب ضائع ہوجانا؛ الٰہیات میں اس موضوع پر بحث ہوتی ہے۔ علمائے شیعہ احباط کو نہیں مانتے ہیں اسے صرف اس صورت میں مانتے ہیں جب ایک مومن مرتد ہوجاتا ہے۔ احباط عمل کے سلسلے میں مذہب اہل سنت میں سے اشاعرہ کا نظریہ شیعہ نظریہ کی مانند ہے اور حبط کو نادرست سمجھتے ہیں، لیکن معتزلہ حبط کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انسان کا گناہ اس کے نیک اعمال کے ثواب کو نابود کردیتا ہے۔

قرآن و احادیث میں حبط عمل سے متعلق گفتگو ہوئی ہے اور اس کے چند مصادیق بیان ہوئے ہیں۔ لیکن چونکہ علمائے شیعہ عقلی لحاظ سے احباط کو قبول نہیں کرتے ہیں اس لیے وہ "حَبط" کے اس طرح معنی کرتے ہیں جو عقیدہ عدم حبط کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں۔ بعض شیعہ علما نے احباط کی نفی میں قرآن ہی کی چند آیات سے استدلال کیا ہے۔

علمائے شیعہ میں سے ایک قلیل تعداد جیسے شیعہ مرجع تقلید اور مفسر قرآن ناصر مکارم شیرازی کا عقیدہ ہے کہ احباط کی نفی پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔ لہذا یہ ایک ممکن امر ہے۔

مفہوم‌ شناسی اور اہمیت

اِحْباط ایک قرآنی[1] اور کلامی[2] اصطلاح ہے جس کے بارے میں علم کلام میں وسیع سطح پر بحث ہوتی ہے اور اس کے بارے میں مختلف نظریات بیان کیے جاتے ہیں۔[3] احباط کے معنی ہیں نیک اعمال اور ان کے ثواب کا ضائع ہوجانا۔[4] احباط کی ضد تکفیر ہے جس کے معنی ہیں نیک اعمال کی انجام دہی سے گناہوں کا اثر ختم ہوجانا[5]

لفظ "احباط " اور اس کے دیگر مشتقات قرآن مجید میں 16 بار آئے ہیں۔[6] علم کلام میں اس مسئلے پر قیامت، ثواب و عقاب یا وعدہ و وعید جیسے موضوعات کے تحت بحث ہوتی ہے۔[7]

احباط کے بارے میں مسلمان علما کا مشترکہ اور اختلافی نظریہ

تمام اسلامی مکاتب فکر بشمول شیعوں کے نزدیک بعض گناہوں کا ارتکاب نیکیوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے؛[8] مثال کے طور پر، تمام مسلم علماء کے عقیدہ کے مطابق، مومن کے تمام نیک اعمال اس کے ارتداد (اور اس کے بعد توبہ نہ کرنے) سے برباد ہو جاتے ہیں۔[9] علما کا احباط کے سلسلے میں اس بات پر اختلاف ہے کہ کیا صرف کفر و ارتداد سے سارے نیک اعمال ضائع ہوجاتے ہیں یا باقی گناہوں سے بھی ایسا ہوسکتا ہے؟اشاعرہ شیعوں کے مشہور نظریہ کے مطابق احباط کے متاخر الذکر معنی کو باطل سمجھتے ہیں۔[10] لیکن معتزلہ مجموعی طور پر احباط کو درست سجھتے ہیں۔[11] معتزلہ چند عقلی دلائل کے ذریعے اپنے دعوے کو اثبات کرتے ہیں۔[12] علمائے شیعہ اور اشاعرہ نے ان کے استدلال کو رد کیا ہے۔[13]

احباط کے بارے میں شیعہ نظریہ

مذہب شیعہ میں مشہور نظریہ یہ ہے کہ احباط صحیح نہیں ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے شیعہ متکلم شیخ طوسی مکمل طور پراحباط کو نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اگرچہ قرآنی آیات کا ظہور احباط کے اثبات پر دلالت کرتا ہے لیکن یہ قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ احباط کا مسئلہ ایک عقیدتی مسئلہ ہے اورعقائد کی بنیاد عقلی استدلال پر ہے لہذا آیات کی تفسیر اس طرح کی جانی چاہیے جو عقل سے ہم آہنگ ہو۔[14] جعفر سبحانی کے مطابق گناہ کے ذریعے نیکی کا ضائع ہوجانا ایک قسم کی وعدہ خلافی اور ناانصافی ہے اور چونکہ خدا ظلم نہیں کرتا، اس لیے وہ گناہ کے ارتکاب سے انسان کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا۔[15] جعفر سبحانی مزید لکھتے ہیں کہ قرآن کی بعض آیات (جیسے سورہ زلزال آیت7 اور سورہ نجم آیت نمبر40) کے مطابق قیامت کے دن لوگ اپنے تمام اچھے برے اعمال کے نتائج دیکھیں گے، اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے سارے اعمال چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، ختم نہیں ہونگے۔[16]

بعض شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ جزئی طور پر حبط کا اثبات ممکن ہے اور اس سلسلے میں حبط کے باطل ہونے پر عقلی یا نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔[17] تفسیر نمونہ کے مصنف ناصر مکارم شیرازی حبط اعمال کو دنیاوی امور کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح ممکن ہے کہ کسی کا اپنی زندگی میں کمایا ہوا سرمایہ ایک غلطی سے تباہ ہو جائے، بالکل اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کے گناہ کرنے سے اس کی ساری نیکیاں ضائع ہوجائیں۔ ناصر مکارم کے مطابق اس مسئلہ میں اختلاف رائے صرف لفظی نزاع ہے کوئی بنیادی یا مبانی لحاظ سے اختلاف نہیں۔[18] بحار الانوار کے مصنف علامہ مجلسی کا عقیدہ ہے کہ ہر گناہ نیک عمل کے ضائع ہونے کا سبب نہیں بن سکتا، اگرچہ قرآن اور روایات کچھ موارد بیان ہوئے ہیں لیکن وہ احباط کے بعض مصادیق میں سے ہیں۔[19] اس کے باوجود انہوں نے بعض دیگر کتابوں میں اس مطلب کی اس طرح سے وضاحت کی ہے جس سے حبط عمل ثابت نہیں ہوتا۔[20]

احباط کے عوامل و اسباب

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مومن مرتد ہو جائے تو اس کا کفراس کے تمام سابقہ اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔[21] قرآنی آیات میں ایمان کے بعد ارتداد، [22] نیکی کا حکم کرنے والوں(آمران بہ معروف) کو قتل کرنا،[23] قیامت اور آیات الہی کا انکار کرنا[24] اور نفاق[25] کو نیک اعمال کے ضیاع کے اسباب و عوامل میں شمار کیا گیا ہے۔[26] البتہ شیخ طوسی کا کہنا ہے کہ چونکہ آیات قرآنی کے ظاہر معنی عقلی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہیں اس لیے اس طرح ان مے معنی کرنا چاہیے کہ عقلی معیارات سے سازگار ہوں۔ [27]

شیعہ کتب احادیث میں درج ذیل گناہوں کو حبط عمل کا سبب قرار دیا گیا ہے: امام علیؑ کی ولایت کا انکار، [28] مصیبت کے وقت بے صبری،[29] شادی شدہ مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگانا،[30] بدگمانی،[31] ریاکاری[32] اور مخاصمت و جھگڑا کرنا۔[33] علامہ مجلسی نے ان روایات کو احباط کے سلسلے میں شیعہ نظریہ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں حبط اپنے حقیقی معنی میں استعمال نہیں ہوا ہے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض نیک اعمال کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ آئندہ کچھ گناہ نہ کرے اور گناہوں کے ارتکاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے شروع ہی سے عمل صالح کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ انجام نہیں دیا تھا اور بنیادی طور پر وہ ثواب کا مستحق ہی نہیں ٹھہرا تھا۔[34] مجلسی اس نقطہ نظر کو شیعوں کی مشہور رائے سمجھتے تھے۔[35]

پیغمبر خدا(ص) کے حضور میں بلند آواز میں بات کرنا

سورہ حجرات آیت نمبر2 میں مؤمنین کواپنی آواز کو پیغمبرخدا(ص) کی آواز سے بلند کرنے اور آپ(ص) کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ ان کے اعمال کہیں حبط نہ ہوجائیں۔ شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ کفر و شرک سمیت انسان کے دوسرے گناہ کیسے حبط عمل کا سبب بن سکتے؟ لہذا انہوں نے اس آیت کی توجیہ کرتے ہوئے کچھ مختلف قسم کے جوابات دیے ہیں:[36]

  • نبی اکرم(ص) کی آواز پر آواز بلند کرنا یا آپ(ص) کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا، اگر آنحضرت(ص) کی توہین کا سبب بنے تو یہ کفر ہے اور تمام مسلمانوں کا متفقہ نظریہ ہے کہ کافر انسان کے تمام اعمال حبط (کالعدم) کیے جائیں گے۔[37]
  • نبی مکرم اسلام (ص) کے حضور میں موجود ہونا ہی ایسا عمل ہے جس کا اپنا اجر و ثواب ہے۔ اگر اہل ایمان آںحضرت(ص) کی توہین کے ارادہ سے آپ(ص) سے اونچی آواز میں بات کریں تو اس سے نبی (ص) کی بارگاہ میں حاضری کا ثواب ختم ہو جائے گا۔[38]
  • مومن کے تمام نیک اعمال پیغمبر خدا(ص) کے ہتک حرمت سے حبط ہونا ایک ممکن امر ہے اور اس کے برخلاف کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔[39]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص467۔
  2. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  3. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  4. حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42۔
  5. حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42۔
  6. عبدالباقی، المعجم المفهرس، 1407ھ، ص193۔
  7. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  8. سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، 1378شمسی، ج4، ص195۔
  9. مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص334۔
  10. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص140۔
  11. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ھ، ص422۔
  12. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ھ، ص423-426۔
  13. ملاحظہ کیجیے: حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272-273؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42-44؛ ایجی، المواقف فی علم الکلام، عالم الکتب، ص379۔
  14. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص200۔
  15. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص509۔
  16. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص510۔
  17. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج3، ص115۔
  18. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج3، ص115۔
  19. ملاحظہ کیجیے: مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332-334۔
  20. ملاحظہ کیجیے: مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332-334۔
  21. ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ج5، ص142؛ جوادی آملی، تسنیم، 1387شمسی، ج10، ص603۔
  22. سوره بقره، آیه 217۔
  23. سوره آل‌عمران، آیات 21-22۔
  24. سوره اعراف، آیه 147۔
  25. سوره احزاب، آیه 19۔
  26. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص519-532۔
  27. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص200۔
  28. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص77۔
  29. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص224۔
  30. شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عِقاب الأعمال، 1406ھ، ص285۔
  31. ابن‌حیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج2، ص352۔
  32. شیخ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص582۔
  33. ابن‌شعبه حرّانی، تحف العقول، 1404ھ، ص309۔
  34. ملاحظہ کیجیے:نگاه کنید به: مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332-334۔
  35. مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332-334۔
  36. جعفری، «آشنایی با چند اصطلاح قرآنی (4) احباط و تکفیر»، ص45۔
  37. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج22، ص138۔
  38. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص341؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج9، ص196۔
  39. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج2، ص115؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص522۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد، دَعائِمُ الاِسلام و ذِکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، 1385ھ۔
  • ابن‌شعبه حرّانی، حسن بن علی، تحف العقول، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ھ۔
  • ایجی، عبدالرحمن بن احمد، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بی‌تا۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • جعفری، یعقوب، «آشنایی با چند اصطلاح قرآنی (4) احباط و تکفیر»، در مجله درس‌هایی از مکتب اسلام، شماره 10، دی ماه 1372ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبدالله، تسنیم، قم، اسراء، 1387ہجری شمسی۔
  • حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1382ہجری شمسی۔
  • حِمَّصیّ رازی، محمود، المُنْقِذُ مِن التقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1412ھ۔
  • رستگار مقدم گوهری، هادی، «مفهوم‌شناسی احتباط از منظر قرآن»، در مجله پژوهش‌های قرآنی، شماره 29 و 30، بهار و تابستان 1381ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، قم، توحید، 1378ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • سیدرضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، هجرت، 1414ھ۔
  • شجاعی، احمد، «احباط و تکفیر»، در جلد 1 دانشنامه کلام اسلامی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1387ہجری شمسی۔
  • شعرانی، ابوالحسن، نثر طوبی، تهران، انتشارات اسلامیه، 1380ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تهران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عِقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فی ما یتعلّق بالاعتقاد، بیروت، دار الاضواء، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی(ره)، 1404ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • عبدالباقی، محمد‌فؤاد، المعجم المفهرس لألفاظ القرآن الکریم، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، ابن احمد، شرح الاصول الخمسه، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الإسلامیّه، 1407ھ۔
  • کوشا،‌ محمدعلی، «احباط و تکفیر»، در دانشنامه معاصر قرآن کریم، قم، سلمان آزاده، 1397ہجری شمسی۔
  • گروهی از نویسندگان،‌ «احباط و تکفیر»، در مجله کلام اسلامی، شماره 39، پاییز 1380ہجری شمسی۔
  • مجلسی،‌ محمدباقر بن محمدتقی، بِحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار(ع)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، قم، شرکت چاپ و نشر بین‌الملل سازمان تبلیغات اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، الحاشیة علی الهیات الشرح الجدید للتجرید، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1419ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیّه، 1374ہجری شمسی۔
  • یزدی، اقدس، و زینب عباسی آغوی، «احباط و تکفیر عمل»، در مجله تحقیقات کلامی، شماره 14، پاییز 1395ہجری شمسی۔