احباط

ویکی شیعہ سے
(ثواب کا ضائع ہونا سے رجوع مکرر)

اِحْباطْ کے معنی ہیں گناہ کی وجہ سے عبادت کا اجر و ثواب ضائع ہوجانا؛ الٰہیات میں اس موضوع پر بحث ہوتی ہے۔ علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق نظر ہے کہ گناہ کی وجہ سے انسان کے نیک اور صالح اعمال بے اثر ہوجاتے ہیں، لیکن گناہ کی وجہ سے اعمال صالح کیسے بے اثر ہوجاتے ہیں؟ اس سلسلے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ شیعہ علماء کے مشہور قول کے مطابق اعمال کا ضائع ہونا قرآن اور عقل کے خلاف ہے؛ اس لیے وہ "حَبط" کے اس طرح معنی کرتے ہیں جو قرآن و عقل دونوں کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوں۔ شیعہ علما کے نقطہ نظر سے بعض نیک اعمال کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ وہ آئندہ گناہ انجام نہ دے لہذا نیک عمل کی انجام دہی کے بعد گناہوں کے ارتکاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے شروع ہی سے عمل صالح کواس کی تمام شرائط کے ساتھ سرانجام نہیں دیا تھا اور وہ اجر و ثواب کا مستحق نہیں ٹھہرا تھا۔ البتہ بعض شیعہ علماء حبط عمل کو دنیاوی امور سے تشبیہ دیتے ہوئے اس کے ضائع ہونے کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ نیک اعمال کے احباط پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔

احباط عمل کے سلسلے میں مذہب اہل سنت میں سے اشاعرہ کا نظریہ مشہور شیعہ نظریہ کی مانند ہے اور حبط کو نادرست سمجھتے ہیں، لیکن معتزلہ حبط کے صحیح ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ معتزلہ کے نزدیک قیامت کے دن مومن کے نیک اعمال کو اس کے مجموعی گناہوں کے ساتھ مقایسہ کیا جائے گا اور کم مقدار والےاعمال کو مکمل طور پر فنا کر دیا جائے گا یا کثیراعمال کا کچھ حصہ ضائع کیا جائے گا۔

تمام مسلمانوں کے نزدیک ارتداد تمام نیکیوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ نیز تکبر کی وجہ سے ابلیس نے اپنی چھ ہزار سالہ عبادت کو تباہ کر دیا۔ قرآن اور احادیث میں حبط عمل کے دیگر اسباب و عوامل بھی بیان ہوئے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: پیغمبرخدا کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا، نفاق، امام علیؑ کی ولایت کا انکار اورریا۔

مفہوم‌ شناسی اور اہمیت

اِحْباط ایک قرآنی[1] اور کلامی[2] اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں گناہ کی وجہ سے نیک اعمال اور ان کے ثواب کا ضائع ہوجانا۔[3] شیعہ مفسر ابوالحسن شَعرانی کا عقیدہ ہے کہ حبط کی قرآنی اصطلاح کا تعلق کفار کے اعمال سے ہے اور اُن اعمال سے متعلق ہے جن کی انجام دہی کے دوران قصد قربت معدوم ہوتا ہے، لیکن اما حبط کی کلامی اصطلاح ان اعمال کے بارے میں ہے جنہیں مومن نے درست انداز اور قصد قربت کے ساتھ انجام دیے ہیں لیکن دوسری طرف سے گناہ انجام دینے کے سبب وہ اعمال بے اثر ہوچکے ہیں۔[4] لفظ "احباط " اور اس کے دیگر مشتقات قرآن مجید میں 16 بار آئے ہیں۔[5] احباط کی ضد تکفیر ہے جس کے معنی ہیں نیک اعمال کی انجام دہی سے گناہوں کا اثر ختم ہوجانا[6]

علم کلام میں احباط کےموضوع پر وسیع سطح پر بحث ہوئی اور اس کے بارے میں مختلف آراء پیش کی گئی ہیں۔[7] علم کلام کے دانشمندوں کے مطابق، احباط کا مسئلہ ان مومنین کے سلسلے میں ہے جو نیک اعمال بجا لانے کے ساتھ ساتھ کبھی گناہ بھی کرتے ہیں اور اس طرح کے مومن معاشرے میں اکثریت میں ہیں؛ لیکن وہ کافر جو تا دم مرگ ایمان نہیں لاتے، نیز وہ مومن جو کبھی بھی گناہ انجام نہیں دیتا، احباط کی بحث سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔[8] علم کلام میں اس مسئلے پر قیامت، ثواب و عقاب یا وعدہ و وعید جیسے موضوعات کے تحت بحث ہوتی ہے۔[9]

بحث احباط کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایسا مسئلہ ہے جوانسان کی دنیا اور آخرت دونوں میں اس کی سرنوشت، اس کے نیک اور برے اعمال پر اثر انداز ہوتا ہے۔[10] اگرمومنین احباط کی طرف متوجہ رہیں تو یہ اس بات کا موجب بنتا ہے کہ وہ متنبہ رہیں کہ ان کے بعض اختیاری اعمال ان کے نیک اعمال کو تباہ کر سکتے ہیں۔[11] دینی علوم کے محققین کے مطابق احباط یا تکفیر کا غلط تصور بالترتیب انسان میں مایوسی اور غرور پیدا ہونے کا باعث بنتا ہے، اس طرح اسے خوف رجاء کی کیفیت سے نکال دیتا ہے۔ کیونکہ ممکن ہے احباط کو ملحوظ خاطر رکھ کرانسان میں یہ خیال پیدا ہو کہ اس کے سارے نیک اعمال تو حبط ہوجائیں گے لہذا وہ دوبارہ نیک اعمال بجالانے کی کوشش نہیں کرے گا اور دوسری طرف "تکفیر" کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ خیال کرے کہ اس کے سارے گناہ معاف کیے جائیں گے اور یہ تصور انسان میں غرور پیدا کرتا ہے اس طرح انسان دوبارہ گناہ کی طرف لپک سکتا ہے۔[12] نہج البلاغہ کے خطبہ قاصعہ میں امام علیؑ سے منقول حدیث کے مطابق ابلیس کی چھ ہزار سالہ عبادت اس کے تکبر کی وجہ سے ضائع ہوگئی۔[13] سورہ زمر کی آیت نمبر65 کے مطابق اسلام سے پہلے کے ادیان میں بھی حبط اعمال کی بحث رائج تھی۔

کیا احباط تمام نیکیوں کی بربادی کا سبب بنتا ہے؟

تمام اسلامی مکاتب فکر بشمول شیعوں کے نزدیک بعض گناہوں کا ارتکاب نیکیوں کی تباہی کا سبب بنتا ہے؛[14] مثال کے طور پر، تمام مسلم علماء کے عقیدہ کے مطابق، مومن کے تمام نیک اعمال اس کے ارتداد (اور اس کے بعد توبہ نہ کرنے) سے برباد ہو جاتے ہیں۔[15] تفسیر تسنیم کے مصنف عبد اللہ جوادی آملی حبط اعمال کو حبط محض اور حبط غیر محض میں تقسیم کرتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ بعض اعمال جیسے ارتداد تمام اعمال کو برباد کر دیتے ہیں جحبط محض کہا جاتا ہے اور بعض گناہ ایسے ہیں جوحبط غیر محض کا سبب بنتے ہیں، مثلا عُجب اور خودپسندی ایسا گناہ ہے جو صرف اس عمل کو برباد کرتا ہے جس میں اس نے خودپسندی کی ہے۔[16] کتاب بحار الانوار کے مصنف علامہ مجلسی کے مطابق ہر گناہ کو نیکیوں کے ضائع ہونے کا سبب نہیں سمجھا جا سکتا، بلکہ ہمیں صرف ان چیزوں پر محدود رہنا چاہیے جو آیات و روایات میں بیان ہوئی ہیں۔[17] بعض شیعہ علماء کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ اعمال صالح صرف کفر، نفاق اور ارتداد سے ضائع ہوجاتے ہیں۔[18] تاہم، گناہ کرنے سے نیکیاں کیسے ضائع ہو جاتی ہیں؟ اس سلسلے میں شیعہ علماء کے مابین دو مختلف نقطہ نظر پائے جاتے ہیں:

کلی طور پر حبط کا رد

چوتھی صدی ہجری کے شیعہ متکلم شیخ طوسی کے مطابق اگرچہ قرآنی آیات کا ظہور احباط کے اثبات پر دلالت کرتا ہے لیکن یہ قابل قبول نہیں ہے؛ کیونکہ احباط کا مسئلہ ایک عقیدتی مسئلہ ہے اورعقائد کی بنیاد عقلی استدلال پر ہے لہذا آیات کی تفسیر اس طرح کی جانی چاہیے جو عقل سے ہم آہنگ ہو۔[19] علامہ مجلسی نے ظہور آیات اور عقیدہ احباط کے مابین ہماہنگی پیدا کرتے ہوئےلکھا ہے کہ احادیث میں حبط کو اس کے حقیقی معنی میں استعمال نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ بعض نیک اعمال کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ آئندہ بعض گناہ نہ کیے جائیں اور گناہوں کے ارتکاب سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس نے شروع ہی سے عمل صالح کو اس کی تمام شرائط کے ساتھ انجام نہیں دیا ہے اور بنیادی طور پر وہ ثواب کا حقدار نہیں ٹھہرا ہے۔[20] علامہ مجلسی اس نقطہ نظر کو شیعوں کی مشہور رائے سمجھتے ہیں۔[21]

بعض علماء نے احباط کے بطلان پر عقلی اور قرآنی دلائل سے استدلال کیا ہے:[22]

  1. دلیل عقلی: گناہ کے ذریعے نیکی کا ضائع ہوجانا ایک قسم کی وعدہ خلافی اور ناانصافی ہے اور چونکہ خدا ظلم نہیں کرتا، اس لیے وہ گناہ کے ارتکاب سے انسان کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا۔[23] ہاں اگر شروع ہی سے یہ شرط رکھی جائے کہ نیکیوں کی قبولیت کی شرط یہ ہے کہ بعض گناہوں کو انجام نہ دیا جائے، اس صورت میں گناہ کرنے سے انسان ثواب کا مستحق نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے نیک عمل بغیر شرط کے انجام دیا ہے۔[24]
  2. قرآنی دلیل: قرآن کی بعض آیات (جیسے سورہ زلزال کی آیت نمبر7 اور سورہ نجم کی آیت نمبر40) کے مطابق قیامت کے دن لوگ اپنے تمام اچھے برے اعمال کے نتائج دیکھیں گے[25] اور اچھے اور برے اعمال میں سے کوئی ایک بھی ختم نہیں ہوگا۔

حبط کا جزئی ثبوت

بعض شیعہ علماء کا عقیدہ ہے کہ جزئی طور پر حبط کا اثبات ممکن ہے اور اس سلسلے میں حبط کے باطل ہونے پر عقلی یا نقلی دلیل موجود نہیں ہے۔[26] تفسیر نمونہ کے مصنف ناصر مکارم شیرازی حبط اعمال کو دنیاوی امور کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس طرح ممکن ہے کہ کسی کا اپنی زندگی میں کمایا ہوا سرمایہ ایک غلطی سے تباہ ہو جائے، بالکل اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ انسان کے گناہ کرنے سے اس کی ساری نیکیاں ضائع ہوجائیں۔ ناصر مکارم کے مطابق اس مسئلہ میں اختلاف رائے صرف لفظی نزاع ہے کوئی بنیادی یا مبانی لحاظ سے اختلاف نہیں۔[27]

معتزلہ کا اشاعرہ اور شیعہ سے اختلاف

اشاعرہ بھی شیعوں کے مشہور نظریہ کے مطابق احباط کو باطل سمجھتے ہیں۔[28] لیکن معتزلہ احباط کو درست سجھتے ہیں۔[29] پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم جعفر سبحانی کے مطابق معتزلہ کا ایسا عقیدہ رکھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کا عقیدہ ہے کہ جو مومن گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہے وہ اگر بغیر توبہ کے مر جائے تو قیامت کے دن واصل جہنم ہوگا اور ہمیشہ کے لیے عذاب الٰہی کا شکار رہے گا۔[30]

اس سلسلے میں معتزلہ کے نظریات ایک جیسے نہیں ہیں، علما نےان کے تین مختلف قسم کے نظریات بیان کیے ہیں:

  1. مکتب اعتزال کے بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ قیامت کے دن نیک اعمال کے پورے مجموعے کو گناہوں کے پورے مجموعہ سے ان کی قدر و قیمت کے لحاظ سے جانچا جائے گا، اور جو کثرت سے ہوگا اسے مقدم کیا جائے گا۔ دونوں کی مقدار میں کمی نہیں کی جائے گی؛[31]
  2. بعض دوسرے گروہ کا نظریہ ہے کہ قیامت کے دن نیک اعمال اور کُل گناہوں کے درمیان موازنہ کیا جائے گا، یعنی اعمالِ صالحہ کو گناہوں سے ماپا جائے گا۔ اگر گناہوں کی مقدار نیک اعمال سے کم ہو تو اتنی ہی نیکیاں ضائع ہو جائیں گی اور باقی اعمال اپنی حالت میں قائم و سالم رہیں گے۔[32] دسویں صدی ہجری کے شیعہ عالم دین مقدس اردبیلی کا کہنا ہے کہ اس نظریے کا درست ہونا کوئی بعید بات نہیں اور اس کے خلاف کوئی عقلی یا روایی دلیل موجود نہیں ہے۔[33]
  3. ایک تیسرے نظریے کے مطابق آخری عمل معیار ہوگا؛ چنانچہ اگر کسی انسان کا آخری عمل گناہ ہو تو اس کی تمام نیکیاں ضائع ہو جائیں گی۔[34]

معتزلہ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے کچھ عقلی دلائل پیش کیے ہیں،[35]، علمائے شیعہ اور اشاعرہ نے ان دلائل کا جواب دیا ہے۔[36]

احباط کے عوامل و اسباب

تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر کوئی مومن مرتد ہو جائے تو اس کا کفر اس کے تمام سابقہ اعمال کو ضائع کردیتا ہے۔[37] قرآنی آیات میں ایمان کے بعد ارتداد، [38] نیکی کا حکم کرنے والوں(آمران بہ معروف) کو قتل کرنا،[39] قیامت اور آیات الہی کا انکار کرنا[40] اور نفاق[41] کو نیک اعمال کے ضیاع کے اسباب و عوامل میں شمار کیا گیا ہے۔[42] شیعہ کتب احادیث میں درج ذیل گناہوں کو حبط عمل کا سبب قرار دیا گیا ہے: امام علیؑ کی ولایت کا انکار، [43] مصیبت کے وقت بے صبری،[44] شادی شدہ مرد یا عورت پر زنا کا الزام لگانا،[45] بدگمانی،[46] ریاکاری[47] اور مخاصمت و جھگڑا کرنا۔[48]

پیغمبر خدا(ص) کے حضور میں بلند آواز میں بات کرنا

سورہ حجرات کی آیت نمبر2 میں مؤمنین کواپنی آواز کو پیغمبرخدا(ص) کی آواز سے بلند کرنے اور آپ(ص) کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ ان کے اعمال کہیں حبط نہ ہوجائیں۔ شیعہ مفسرین کا کہنا ہے کہ کفر و شرک سمیت انسان کے دوسرے گناہ کیسے حبط عمل کا سبب بن سکتے؟ لہذا انہوں نے اس آیت کی توجیہ کرتے ہوئے کچھ مختلف قسم کے جوابات دیے ہیں:[49]

  • نبی اکرم(ص) کی آواز پر آواز بلند کرنا یا آپ(ص) کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا، اگر آنحضرت(ص) کی توہین کا سبب بنے تو یہ کفر ہے اور تمام مسلمانوں کا متفقہ نظریہ ہے کہ کافر انسان کے تمام اعمال حبط (کالعدم) کیے جائیں گے۔[50]
  • نبی مکرم اسلام (ص) کے حضور میں موجود ہونا ہی ایسا عمل ہے جس کا اپنا اجر و ثواب ہے۔ اگر اہل ایمان آںحضرت(ص) کی توہین کے ارادہ سے آپ(ص) سے اونچی آواز میں بات کریں تو اس سے نبی (ص) کی بارگاہ میں حاضری کا ثواب ختم ہو جائے گا۔[51]
  • مومن کے تمام نیک اعمال پیغمبر خدا(ص) کے ہتک حرمت سے حبط ہونا ایک ممکن امر ہے اور اس کے برخلاف کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔[52]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. مصباح یزدی، آموزش عقاید، 1384شمسی، ص467۔
  2. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  3. حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42۔
  4. شعرانی، نثر طوبی، 1380شمسی، ج1، ص152۔
  5. عبدالباقی، المعجم المفهرس، 1407ھ، ص193۔
  6. حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42۔
  7. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  8. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص142؛ گروهی از نویسندگان، «احباط و تکفیر»، ص60۔
  9. شجاعی، «احباط و تکفیر»، ص179۔
  10. گروهی از نویسندگان،‌ «احباط و تکفیر»، ص58۔
  11. کوشا،‌ «احباط و تکفیر»، ص158۔
  12. رستگار مقدم گوهری، «مفهوم‌شناسی احتباط از منظر قرآن»، ص315۔
  13. نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، خطبه 192، ص287۔
  14. سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، 1378شمسی، ج4، ص195۔
  15. مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص334۔
  16. جوادی آملی، تسنیم، 1387شمسی، ج10، ص584-586۔
  17. مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص334۔
  18. یزدی، و زینب عباسی آغوی، «احباط و تکفیر عمل»، ص86۔
  19. شیخ طوسی، الاقتصاد، 1406ھ، ص200۔
  20. ملاحظہ کیجیے: مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332-334۔
  21. مجلسی،‌ بحار الانوار، 1403ھ، ج5، ص332۔
  22. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص509۔
  23. سبحانی، منشور جاوید، 1390ش، ج8، ص509۔
  24. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص510۔
  25. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص510۔
  26. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج3، ص115۔
  27. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج3، ص115۔
  28. تفتازانی، شرح المقاصد، 1409ھ، ج5، ص140۔
  29. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ھ، ص422۔
  30. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص510۔
  31. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ھ، ص425-426۔
  32. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ق، ص425-426۔
  33. مقدس اردبیلی، الحاشیة علی الهیات الشرح الجدید للتجرید، 1419ھ، ص470۔
  34. ایجی، المواقف فی علم الکلام، عالم الکتب، ص379۔
  35. قاضی عبدالجبار، شرح الاصول الخمسه، 1422ھ، ص423-426۔
  36. ملاحظہ کیجیے: حلی، کشف المراد، 1382شمسی، ص272-273؛ حِمَّصیّ رازی، المُنْقِذُ مِن التقلید، 1412ھ، ج2، ص42-44؛ ایجی، المواقف فی علم الکلام، عالم الکتب، ص379۔
  37. ملاحظہ کیجیے: تفتازانی، شرح المقاصد، 1412ھ، ج5، ص142؛ جوادی آملی، تسنیم، 1387شمسی، ج10، ص603۔
  38. سوره بقره، آیه 217۔
  39. سوره آل‌عمران، آیات 21-22۔
  40. سوره اعراف، آیه 147۔
  41. سوره احزاب، آیه 19۔
  42. سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص519-532۔
  43. صفار، بصائر الدرجات، 1404ھ، ص77۔
  44. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج3، ص224۔
  45. شیخ صدوق، ثواب الأعمال و عِقاب الأعمال، 1406ھ، ص285۔
  46. ابن‌حیون، دعائم الاسلام، 1385ھ، ج2، ص352۔
  47. شیخ صدوق، الأمالی، 1376شمسی، ص582۔
  48. ابن‌شعبه حرّانی، تحف العقول، 1404ھ، ص309۔
  49. جعفری، «آشنایی با چند اصطلاح قرآنی (4) احباط و تکفیر»، ص45۔
  50. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج22، ص138۔
  51. شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج9، ص341؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372شمسی، ج9، ص196۔
  52. مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، 1374شمسی، ج2، ص115؛ سبحانی، منشور جاوید، 1390شمسی، ج8، ص522۔

مآخذ

  • قرآن کریم۔
  • ابن‌حیون، نعمان بن محمد، دَعائِمُ الاِسلام و ذِکر الحلال و الحرام و القضایا و الأحکام، قم، مؤسسه آل‌البیت(ع)، 1385ھ۔
  • ابن‌شعبه حرّانی، حسن بن علی، تحف العقول، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1404ھ۔
  • ایجی، عبدالرحمن بن احمد، المواقف فی علم الکلام، بیروت، عالم الکتب، بی‌تا۔
  • تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، قم، الشریف الرضی، 1412ھ۔
  • جعفری، یعقوب، «آشنایی با چند اصطلاح قرآنی (4) احباط و تکفیر»، در مجله درس‌هایی از مکتب اسلام، شماره 10، دی ماه 1372ہجری شمسی۔
  • جوادی آملی، عبدالله، تسنیم، قم، اسراء، 1387ہجری شمسی۔
  • حلی، حسن بن یوسف، کشف المراد فی شرح تجرید الإعتقاد، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1382ہجری شمسی۔
  • حِمَّصیّ رازی، محمود، المُنْقِذُ مِن التقلید، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1412ھ۔
  • رستگار مقدم گوهری، هادی، «مفهوم‌شناسی احتباط از منظر قرآن»، در مجله پژوهش‌های قرآنی، شماره 29 و 30، بهار و تابستان 1381ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، قم، توحید، 1378ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، منشور جاوید، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1390ہجری شمسی۔
  • سیدرضی، محمد بن حسین، نهج البلاغه، تصحیح صبحی صالح، قم، هجرت، 1414ھ۔
  • شجاعی، احمد، «احباط و تکفیر»، در جلد 1 دانشنامه کلام اسلامی، قم، مؤسسه امام صادق(ع)، 1387ہجری شمسی۔
  • شعرانی، ابوالحسن، نثر طوبی، تهران، انتشارات اسلامیه، 1380ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، تهران، کتابچی، 1376ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، ثواب الأعمال و عِقاب الأعمال، قم، دار الشریف الرضی، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، الاقتصاد فی ما یتعلّق بالاعتقاد، بیروت، دار الاضواء، 1406ھ۔
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • صفار، محمد بن حسن، بصائر الدرجات فی فضائل آل محمد(ص)، قم، کتابخانه آیت‌الله مرعشی نجفی(ره)، 1404ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تهران، ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • عبدالباقی، محمد‌فؤاد، المعجم المفهرس لألفاظ القرآن الکریم، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔
  • قاضی عبدالجبار، ابن احمد، شرح الاصول الخمسه، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1422ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الإسلامیّه، 1407ھ۔
  • کوشا،‌ محمدعلی، «احباط و تکفیر»، در دانشنامه معاصر قرآن کریم، قم، سلمان آزاده، 1397ہجری شمسی۔
  • گروهی از نویسندگان،‌ «احباط و تکفیر»، در مجله کلام اسلامی، شماره 39، پاییز 1380ہجری شمسی۔
  • مجلسی،‌ محمدباقر بن محمدتقی، بِحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار(ع)، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش عقاید، قم، شرکت چاپ و نشر بین‌الملل سازمان تبلیغات اسلامی، 1384ہجری شمسی۔
  • مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، الحاشیة علی الهیات الشرح الجدید للتجرید، قم، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، 1419ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، تهران، دار الکتب الإسلامیّه، 1374ہجری شمسی۔
  • یزدی، اقدس، و زینب عباسی آغوی، «احباط و تکفیر عمل»، در مجله تحقیقات کلامی، شماره 14، پاییز 1395ہجری شمسی۔