تحریک جعفریہ پاکستان
عمومی معلومات | |
---|---|
تاسیس | 12 اپریل 1978ء |
نوعیت | سیاسی و مذہبی |
ہدف | علماء کی سرپرستی میں اسلام کی ترویج |
ہیڈ کوارٹر | راولپنڈی |
سربراہ | سید ساجد علی نقوی |
نائب سربراہ | عارف حسین واحدی |
متعلقہ ادارے | پاکستان ایجوکیشنل کونسل، مرکز مطالعات اسلامی پاکستان، جعفریہ ٹرسٹ، جعفریہ ویلفئیر فنڈ |
ویب سائٹ | https://www.jafariapress.com/ |
دیگر اسامی | تحریک اسلامی، شیعہ علما کونسل |
ملک | پاکستان |
تحریک جعفریہ پاکستان ایک شیعہ سیاسی مذہبی تنظیم ہے۔ 1978ء کو پاکستان میں نظام مصطفی کا اعلان کے بعد شیعہ حقوق کی رعایت نہ کرنے پر ایک جماعت کی تشکیل کا سوچا گیا۔ سنہ 1979ء میں اس کا پہلا سربراہ مفتی جعفر حسین منتخب ہوئے۔ تحریک جعفریہ نے اتحاد بین المسلمین کے لئے پاکستان میں ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کو قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔ تحریک جعفریہ نے مختلف سماجی کام انجام دیئے ہیں جن میں مرکز مطالعات اسلامی پاکستان، جعفریہ ٹرسٹ اور جعفریہ ویلفئیر فنڈ کا قیام ہے۔ اس تنظم کا پہلا نام «تحریک نفاذ فقہ جعفریہ» تھا۔ تنظیم کا کئی مرتبہ نام تبدیل کیا گیا۔ مفتی کی وفات کے بعد سید عارف حسین حسینی مفتی کے جانشین منتخب ہوئے اور اس دوران سید حامد موسوی کی سربراہی میں ایک گروہ اس جماعت سے الگ ہوا۔ تحریک جعفریہ کا کئی بار نام تبدیل ہوگیا۔
اہمیت
تحریک جعفریہ کے قیام سے پہلے شیعوں کا کوئی ایسا مستقل پلیٹ فارم نہیں تھا۔ ضیاء الحق نے پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا جب اعلان کیا تو اس سے یہ خدشہ ظاہر ہونے لگا کہ ایک مخصوص فقہ اور نظریات کو پوری پاکستان پر تھونپا جارہا ہے اور اسی طرح قانون سازی میں بعض قوانین شیعہ فقہ کے برخلاف بنائے جارہے ہیں، ان حقوق کے تحفظ کے لئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی بنیاد ڈالی۔[1]
تاسیس
تحریک جعفریہ پاکستان کی تاسیس سے پہلے پاکستانی شیعوں کو منظم کرنے کی کوششیں ہوئیں اس سلسلے میں پہلی بار قیام پاکستان کے بعد سنہ 1948ء میں ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان وجود میں آیا جس کے سربراہ مفتی جعفر حسین منتخب ہوئے۔[2] اس کے بعد جنوری 1965ء کو کراچی میں شیعہ مطالبات کمیٹی کی بنیاد رکھی گئی۔[3] اور سید محمد دہلوی کو اس کمیٹی کا سربراہ منتخب کیا گیا۔[4] لیکن رسمی طور پر ایک تنظیم کی حیثیت سے شناخت 12 اور 13 اپریل سنہ 1978ء کو بھکر میں ایک ملک گیر کنونشن میں دی گئی۔[5] جہاں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے نام سے تنظیم وجود میں آئی۔[6] 13 اپریل سنہ 1979ء کو بھکر کی اسی آل پاکستان شیعہ کنونشن کے دوران مفتی جعفر حسین کو قائد ملت جعفریہ پاکستان منتخب کیا گیا۔[7]
اغراض و مقاصد
پاکستان میں ایک عالم دین کی سرپرست میں اسلام کی ترویج اور زندگی کو اسلامی اقدار کے مطابق استوار کرنا اس تنظیم کا اصل ہدف ہے۔[8] اس کے ذیل میں بعض دیگر ذیلی اہداف بھی ہیں جن میں ملک میں عادلانہ نظام کا قیام، شیعوں کے لئے فقہ جعفریہ کا نفاذ، شیعہ آئینی اور قانونی و مذہبی حقوق کی تحفظ، عزاداری کا فروغ، تعلیمی مراکز کا قیام، استعماری قوتوں کے خلاف جدوجہد، اتحاد بین المسلمین کے لئے عملی کوشش، تعصب کا خاتمہ، امربالمعروف و نہی از منکر، قوم کی فکری اور نظریاتی تربیت، نادار افراد کے لئے فلاحی اداروں کا قیام اور اقلیتوں کے جائز حقوق کا تحفظ، شامل ہیں۔[9]
تنظیمی ڈھانچہ
تحریک جعفریہ کے تنظیمی ڈھانچے میں سپریم کونسل، مرکزی کونسل، سینٹرل کمیٹی، مرکزی کابینہ، صوبائی کابینہ، اضلاع اور تحصیل کی کابینہ شامل ہیں۔ سپریم کونسل تمام اداروں پر نگرانی کرتا ہے اور مرکزی کونسل کے فیصلہ جات کی توثیق بھی کرتا ہے۔ جبکہ مرکزی کونسل اسمبلی کی حیثیت رکھتا ہے جس میں 350 سے زائد ارکان ہیں۔ سینٹرل کمیٹی پالیسیوں پر عملدرآمد کا ذمہ دار ادارہ ہے۔ سیاسی امور کو مرکزی کابینہ چلاتی ہے۔[10] تنظیم کا مرکزی دفتر راولپنڈی میں ہے۔[11]
سید عارف حسین حسینی کے دور میں تحریک ایک مستقل سیاسی پارٹی بن کر ابھر گئی اور صرف مذہبی پارٹی کے بجائے سیاسی پہلو بھی اس میں شامل ہوگیا۔[12]
سربراہ
تحریک جعفریہ پاکستان کے سربراہوں میں مفتی جعفر حسین، سید عارف حسین حسینی اور سید ساجد علی نقوی کا نام آتا ہے۔ اگرچہ 7 جنوری سنہ 1965ء کو شیعہ مطالبات کمیٹی بن گئی تھی[13] جس کے سربراہ سید محمد دہلوی رہے ہیں[14] تحریک جعفریہ نے ایک رسمی تنظیم کے طور پر 12 اور 13 اپریل سنہ 1979ء کو بھکر سے کام شروع کیا۔[15] 13 اپریل سنہ 1979ء کو بھکر کی اسی آل پاکستان شیعہ کنونشن کے دوران مفتی جعفر حسین کو قائد ملت جعفریہ پاکستان منتخب کیا گیا۔[16]
29 اگست 1983ء کو مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد سے تقریبا 6 ماہ کا عرصہ بغیر قیادت کے گزر گیا اور 10 فروری سنہ 1984ء کو بھکر میں قومی قیادت کے لئے عارف حسین الحسینی انتخاب کیا گیا۔[17]
سید عارف حسینی کی شہادت کے بعد 4 ستمبر سنہ 1988ء کو سید ساجد علی نقوی پارٹی سربراہ منتخب ہوئے۔[18]
نام کی تبدیلی
سنہ 1992 میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام تبدیل کر کے تحریک جعفریہ رکھا گیا۔[19] جنوری 2002 کو جب تحریک جعفریہ پر پابندی لگی اور اسلامی تحریک رکھا گیا۔[20] پھر اسلامی تحریک پر پابندی لگی تو سنہ 2003ء میں شیعہ علماء کونسل کے نام سے کام شروع کیا۔[21] تحریک جعفریہ اور تحریک اسلامی دونوں اب بھی حکومت پاکستان کی طرف سے کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔[22]
تحریک جعفریہ کے تاریخی ادوار
شیعیان پاکستان کے قائدین | ||||
نام |
مدت قیادت |
جماعت یا تنظیم
|
تحریک جعفریہ کی اب تک کی منتخب قیادتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے وجودی سفر کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
سنہ 1964-1979 کا دور
پہلا دور سنہ 1964-1979 پر محیط ہے جو مفتی جعفر حسین کی قیادت سے پہلے کے ایام پر مشتمل ہے۔ اس دور میں شیعہ مطالبات کمیٹی تشکیل پائی اور سید محمد دہلوی قیادت کے لئے منتخب ہوئے۔۔[23]
1979-1983 کا دور
دوسرا دور 1979-1983 پر محیط ہے جو مفتی جعفر حسین کی قیادت کا عرصہ ہے جس میں سب سے اہم کام معاہدہ اسلام آباد کے لئے کی جانے والی کوشش اور اس کا نتیجہ ہے۔[24]
1984-1988 کا دور
تیسرا دور سید عارف حسین حسینی کی قیادت سے شہادت تک کا ہے جو 1984-1988 پر محیط ہے۔ اس دور میں سابقہ ادوار کے شیعہ مطالبات پر عملدرآمد کی کوشش اور اتحاد بین المسلمین[25] کے لئے کی جانے والی کاوشیں اور قرآن و سنت کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنسز[26] قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ جہاد افغانستان[27] اور ایران میں اسلامی انقلاب کی حمایت،[28] بیت المقدس کی آزادی اور لبنانی و فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے لئے ہر ممکن جدوجہد بھی اس سلسلے کے کاموں میں شامل ہیں۔[29] البتہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد اگست 1983 سے فروری 1984 تک کا عرصہ تحریک جعفریہ، قیادت سے خالی رہی۔ اکتوبر سنہ 1983 کو سرگودھا میں مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا اور مرکزی کونسل کے انتخاب کے لئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تاکہ وہ مرکزی کونسل کا قیام عمل میں لائے۔ تاکہ مفتی کا جانشین انتخاب ہوسکے۔ ان شخصیات میں سے بعض نے مختلف صوبوں میں دورے کئے اور مرکزی کونسل کے اراکین کا انتخاب ہوا ان دورہ جاتا میں محمد حسین نجفی اور سید وزارت حسین نقوی پیش پیش رہے۔ 30 دسمبر 1983ء کو ملک کے اخباروں میں غیر متوقع طور پر سید حامد علی شاہ موسوی کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد کے نام سے خبر چلی۔[30] سید حامد علیشاہ موسوی کو مفتی جعفر حسین کے بعض مخالف لوگوں نے تیار کیا۔ طے یہ تھا کہ ہر علاقے کے علماء اپنے علاقے سے قیادت کے لئے موزوں شخص کو چن لیا جائے تاکہ اس کا نام مرکزی کونسل میں پیش کیا جائے اسی کے تحت راولپنڈی کے اکابرین نے سید حامد علی شاہ کا نام پیش کیا اور بعض افراد نے اسی اجتماع ہی میں ان کو قائد ملت جعفریہ کے نام سے پکارنا شروع کیا۔[31]
10 فروری 1984 کو بھکر میں آئندہ قیادت کا انتخاب طے ہوا اور قیادت کے لئے مفتی سید عنایت علی شاہ ملتان والے کا نام مرکزی کونسل میں پیش کرنا طے پایا اور 10 فروری کو طے شدہ فیصلہ کے مطابق مفتی عنایت کا نام قیادت کے لئے پیش کیا گیا تو ان پر بعض اعتراضات ہوئے پھر سید صفدر حسین نجفی کا نام پیش ہوا اور انکے انکار کے بعد سید وزارت حسین نقوی نے سید عارف کا نام دیا اور یوں آپ قیادت کے لئے منتخب ہوئے۔ سید عارف حسین کی جوان قیادت میں تنظیم کے ڈھانچے میں کافی تبدیلی آگئی، سرگرمیاں تیز ہوگئیں اور تنظیم پورے ملک میں پھیل گئی۔ اس دور میں تنظیم کے لئے بہت ساری مشکلات بھی درپیش ہوئیں۔ جن میں ضیاء الحق کا مارشل لاء، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے اندرونی اختلاف اور دھڑابندی، فرقہ واریت کا عروج اور تحریک جعفریہ کی مختلف شخصیات کا ٹارگٹ کلنگ، اور شیعہ اجتماعات پر حملے شامل ہیں۔ اس دور کے حادثات میں سب سے بڑا سانحہ سنہ 1988ء کو گلگت میں رونما ہو جس میں سنہ 1988 کی عید الفطر کے دن اس علاقے پر حملہ ہوا اور 13 دیہات کو آگ لگا دی گئی، اور 70 فیصد سے زیادہ جل گئے۔ 1500 گھرانے بےگھر ہوگئے اور تقریبا 95 لوگ مارے گئے۔
سنہ 1988ء کے بعد کا دور
سید عارف حسین حسینی کی شہادت کے بعد تحریک جعفریہ کے سینئر نائب صدر سید ساجد علی نقوی سربراہ منتخب ہوئے۔[32] اس دور میں مذہبی منافرت کم کرنے کی کوشش کی گئی، مختلف اہل سنت جماعتوں کے ساتھ رابطے قائم کئے گئے۔ تحریک جعفریہ پاکستان ملی یکجہتی کونسل کی رکن بن گئی۔ اور سنہ 2001ء میں مجلس متحدہ عمل میں شمولیت اختیار کی۔ مختلف رفاہی اور سماجی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔ 90 کی دہائی میں تعلیمی اور رفاہ عامہ پر کام ہوا؛ اسلامک ایمپلائز اور جعفریہ ٹرسٹ اور پاکستان ایجوکیشنل کونسل کی تاسیس ہوئی اور اس ٹرسٹ کے تحت 26 سکول بنائے گئے۔ اگرچہ اس دور میں تحریک کی کارکردگی پر معترض افراد کی طرف سے بعض دیگر تنظیمیں بھی وجود میں آئیں۔ اور تنظیم پر پابندیاں بھی لگ گئیں۔
کارکردگی
تحریک جعفریہ کے اس طویل سیاسی سفر میں انجام دئے گئے بعض کام مندرجہ ذیل ہیں:
اتحاد بین المسلمین
سید عارف حسین نے پاکستانی شیعوں کی قیادت سنبھالتے ہی اتحاد بین المومنین پر کام شروع کیا۔[33] ساتھ ہی ہر تقریر میں اتحاد بین المسلمین کی افادیت پر بھی زور دیا[34]آپ اتحاد بین المسلمین کو ضرورت کے تحت نہیں بلکہ آپ اسے ایک حقیقت سمجھتے تھے اسی لئے پوری زندگی میں کسی تحریر یا تقریر میں کسی مسلمان کو اذیت دینے والی بات نہیں کی۔ اس کی واضح دلیل یہی ہے کہ آپ نے افغانستان کی جہاد میں شہادت کی تمنا کی ہے۔[35] سید ساجد علی نقوی کے دور میں بھی اتحاد پر زور دیا گیا جس کی خاطر مختلف مذہبی جماعتوں سے تعلقات بڑھایا۔اور اسی سبب اتحاد بین المسلمین کمیٹی، ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارمز قائم کرنے میں کردار ادا کیا۔[36]
جماعت کا ملکی سیاست میں شرکت
مفتی جعفر حسین کے دور میں ایم آر ڈی میں شرکت کی۔[37] سید عارف حسین کے دور میں جماعت نے ملکی سیاست میں آنے کا عزم ظاہر کیا اور بعض مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تنظیم کو ملکی حصار سے نکال کر دنیا میں بھی متعارف کرایا، لوگوں میں تنظیم کا اعتبار بڑھ گیا، عالمی استکبار کے خلاف آواز بلند کی اور پاکستان میں وحدت اسلامی کے لئے کوششیں تیز کردی، تنظیم کو سیاسی جہت دی گئی اور سیاسی منشور تدوین ہوا۔ سنہ 1988 سے تحریک جعفریہ نے ملکی انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا۔[38] سنہ 1992 میں تحریک کا ایک وزیر بھی رہا۔[39] سنہ 1993ء میں مخدوم مرید کاظم صوبائی اسمبلی میں کامیاب ہوئے اور صوبائی وزیر بن گئے۔[40] سنہ 1994 میں گلگت بلتستان میں اپنی حکومت قائم کی۔[41] سنہ 1997ء میں سینٹ میں نمائندگی حاصل کی۔ اس کے بعد میں ملکی اور صوبائی انتخابات میں شرکت کرتی رہی ہے۔
تحریک جعفریہ کے مختلف دور میں ملکی مسائل کے علاوہ عالمی مسائل پر بھی خاص توجہ دی گئی جس میں جہاد افغانستان[42] ایران میں اسلامی انقلاب کی حمایت،[43] بیت المقدس کی آزادی اور لبنانی و فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے لئے ہر ممکن جدوجہد کی گئی۔[44]
ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان کا قیام
مارچ 1948ء میں ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس” کے مقابلے میں مفتی جعفر حسین اور دیگر علما نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے مذکورہ کانفرنس کے چند روز بعد ہی لاہور میں ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا قیام عمل میں لایا۔[45]
شیعہ مطالبات کمیٹی کا قیام
7 جنوری 1964ء کو کراچی میں شیعہ مطالبات کمیٹی کی تشکیل کے بعد سید محمد دہلوی اس کے سربراہ منتخب ہوئے۔[46] سید محمد دہلوی نے شیعہ مطالبات کے حصول کے لئے ملک گیر دورہ جات میں مطالبات دہراتے رہے۔ اور مختلف شہروں میں اجتماعات ہوتے رہے۔[47] آخرکار 2 نومبر کو حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔[48] اگرچہ علیحدہ شیعہ دینیات بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔ 1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔[49]
معاہدہ اسلام آباد
پاکستان میں ضیاءالحق کی طرف سے نظام مصطفے کے مبہم اعلان کے بعد مفتی جعفر اور دیگر علماء نے شیعہ قوم کا موقف حکومت تک پہنچایا۔[50] 5 مئی سنہ 1979ء کو صدر سے ملاقات ہوئی اور ضیاء الحق نے 9 مئی کو کراچی میں اہم اعلان کرنے کا وعدہ دیا لیکن اس دن صرف اتنا کہا کہ نظام مصطفے کے نفاذ میں کسی فقہ کو مایوس نہیں کیا جائے گا۔ 20 جون سنہ 1980ء کو امامیہ فقہ کے منافی زکات اور عشر آرڈیننس جاری کرکے حکومت نے مکتب تشیع کو یکسر نظر انداز کیا۔[51] 4 اور 5 جولائی کو شیعہ کنونشن اسلام آباد میں ملک بھر سے لوگ آئے اور اسلام آباد کی شاہراہوں پر احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ احتجاج کے دوران وفاقی وزیر مذہبی امور سے ناکام مذاکرات بھی ہوگئے۔[52] مذاکرات سے واپس آکر مفتی نے قوم سے خطاب کے دوران سیکرٹریٹ کی جانب پیش قدمی اور اسے محاصرہ کرنے کا حکم دیا۔[53] اس دوران اگرچہ کئی جوان زخمی اور محمد حسین شاد نامی ایک جوان شہید ہوگیا لیکن سیکرٹریٹ کا محاصرہ ہوگیا۔[54] حکومت نے فوج کو چوکس کیا۔ کئی ہسپتال میں ایمرجنسی نافذ کی گئی۔[55] 6 جولائی کو مفتی کی سربراہی میں چھ رکنی وفد نے صدر ضیاءالحق سے ملاقات کی اور صدر نے وہیں پر تحریری شکل میں شیعہ مطالبات کو مانتے ہوئے معاہدے پر دستخط کئے۔ جو بعد میں معاہدہ اسلام آباد سے مشہور ہوا۔[56]
قرآن و سنت کانفرنسز کا انعقاد
سید عارف حسینی کے دور میں قرآن و سنت کانفرنسز منعقد ہوئے جس کے نتیجے میں 6 جولائی سنہ 1987ء کو مینار پاکستان پر پہلی قرآن و سنت کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔[57] اس کے بعد ملک کے مختلف شہر ملتان،[58] فیصل آباد،[59] ڈیرہ اسماعیل خان،[60] اور بعض دیگر شہروں میں بھی قرآن و سنت کانفرنس منعقد ہوئی۔[61]
فلاحی اور سماجی اداروں کا قیام
- ۔پاکستان ایجوکیشنل کونسل
یہ ایک آزاد اور غیرسیاسی ادارہ ہے جس کا مقصد محروم اور پسماندہ علاقوں کی عوام کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا ہے جس کے تحت کئی سکول چل رہے ہیں۔[62]
- ۔ مرکز مطالعات اسلامی پاکستان
- ۔ جعفریہ ٹرسٹ
- ۔ جعفریہ ویلفئیر فنڈ
متعلقہ مضامین
حوالہ جات
- ↑ سانچہ:Cite book
- ↑ سید سعید رضوی، خورشید خاور، ص 115۔
- ↑ سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
- ↑ سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص71۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص72۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام ج1 ص 4723۔
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان، دستور ،ص1۔
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان، دستور ،ص1۔
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان، دستور.
- ↑ سید محمد ثقلین کاظمی، امامیہ ڈائریکٹری ۲۰۰۱،ص ۳۴۱۔
- ↑ زندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینی ص 50 تا 53۔
- ↑ سید عارف حسین نقوی، تذکرہ علمای امامیہ پاکستان ص255۔
- ↑ سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص71۔
- ↑ دانشنامہ جہان اسلام ج1 ص 4723۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص91۔
- ↑ جعفریہ نہضت، دانشنامہ جہان اسلام۔
- ↑ جعفریہ نہضت، دانشنامہ جہان اسلام۔
- ↑ جعفریہ نہضت، دانشنامہ جہان اسلام۔
- ↑ از شیعیان پاکستان چہ میدانید، رہا نیوز ایجنسی۔
- ↑ حکومت نے 85 کالعدم تنظیموں کو عطیات دینے پر پابند عائد کر دی، فہرست جاریروزنامہ پاکستان۔
- ↑ سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص81۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص171
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص271۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص196۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص206۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص217۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص96۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص96۔
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان ،تحریک کا سیاسی سفر،ص۴۱،۱۴
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص170
- ↑ ملاحظہ کریں: تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص170 تا ص190۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص171
- ↑ شیعیان و چالش ھای پیش رو وضعیت سیاسی، اقتصادی و فرہنگی شیعیان در پاکستان، گفت گو با علامہ سید ساجد علی نقوی، فصل نامہ شیعہ شناسی، ص221۔
- ↑ روزنامہ جنگ لاہور ۱۰ جولائی ۱۹۸۳ ؛ تحریک جعفریہ پاکستان، تحریک کا سیاسی سفر، ص۱۰،۱۱
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب ص ۱۴۴
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان، کارکردگی رپورٹ، 1992 تا 1994 ص22۔
- ↑ تحریک جعفریہ پاکستان، کارکردگی رپورٹ، 1992 تا 1994 ص25۔
- ↑ حسین آبادی، محمد یوسف، تاریخ بلتستان، ص312۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص196۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص206۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص217۔
- ↑ علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم مرکز افکار اسلامی۔
- ↑ سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص79۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص79۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص79۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص79۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص80۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص80۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیرنور، ص81۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص254۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص266۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص268۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص271۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر نور، ص271۔
- ↑ تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص159۔
مآخذ
- از شیعیان پاکستان چہ میدانید، رہا نیوز ایجنسی۔
- اسلامی تحریک پاکستان، دستور اسلامی تحریک پاکستان، راولپنڈی
- تحریک جعفریہ پاکستان، تحریک کا سیاسی سفر
- تحریک جعفریہ پاکستان، کارکردگی رپورٹ، 1992 تا 1994
- تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب۔
- تسلیم رضا خان، سفیرنور
- حسین عارف نقوی، تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان، اسلام آباد 1362 شمسی۔
- حکومت نے 85 کالعدم تنظیموں کو عطیات دینے پر پابند عائد کر دی، فہرست جاری روزنامہ پاکستان۔
- دانشنامہ جہان اسلام
- روزنامہ جنگ لاہور ؛ تحریک جعفریہ پاکستان، تحریک کا سیاسی سفر، تاریخ درج: ۱۰ جولائی ۱۹۸۳ تاریخ اخذ: 1 جون سنہ 2021ء۔
- زندگی نامہ علامہ شہید عارف حسین الحسینی از ولادت تا شہادت، تہیہ کنندہ: موسسہ شہید الحسینی قم، نشر شاہد، 1369 شمسی۔
- سید سعید رضوی، خورشید خاور، ص 115۔
- سید محمد ثقلین کاظمی، امامیہ ڈائریکٹری ۲۰۰۱، ،ناشر منہاج الصالحین، ٹھوکر نیاز بیگ، لاہور۔
- سید نثار علی ترمذی، ہفت روزہ رضا کار لاہور، 20 اگست بروز جمعرات۔2020۔
- شیعیان و چالش ھای پیش رو وضعیت سیاسی، اقتصادی و فرہنگی شیعیان در پاکستان، گفت گو با علامہ سید ساجد علی نقوی، فصل نامہ شیعہ شناسی، سال سوم ،شمارہ10، تابستان1384۔
- علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم مرکز افکار اسلامی۔
- محمد یوسف حسین آبادی، تاریخ بلتستان، سکرد 2003۔