ابا صلت ہروی

ویکی شیعہ سے
خواجہ ابا صلت ہرَوی
کوائف
مکمل نامعبد السلام بن صالح ہروی
تاریخ پیدائشتقریبا 160 ھ،
جائے پیدائشمدینہ
محل زندگیمدینہ، نیشابور، خراسان
مدفنمشہد سے دس کیلو میٹر دور فریمان نامی مقام پر
دینی معلومات
وجہ شہرتصحابی امام رضا ؑ


عبد السلام بن صالح (160-236 ھ) جو خواجہ ابا صلت ہرَوی کے نام سے معروف ہیں، امام علی رضا ؑ کے خاص اصحاب میں سے تھے۔ انہوں نے امام رضا ؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔

ابا صلت، حدیث سلسلۃ‌ الذہب اور مامون کے ہاتھوں امام رضاؑ کی شہادت کی نوعیت بیان کرنے والے راویوں میں سے ہیں۔ آپ سنہ 232 یا 236 ھ میں طاہر بن عبد اللہ بن طاہر کی حکومت کے دوران خراسان میں رحلت کر گئے۔ آپ کا مدفن مشہد مقدس سے دس کیلومیٹر کے فاصلے پر فریمان نامی مقام پر واقع ہے۔

نسب، ولادت اور وفات

آپ کا نام عبد السلام بن صالح بن سلیمان بن ایوب بن مَیسَرہ[1] اور ابا صلت ہروی کے نام سے مشہور ہیں۔

گویا ان کے دادا یا پر دادا "ابا صلت" "ہرات" کے رہنے والے تھے جنہیں فتوحات میں اسیر کرکے حجاز لایا گیا تھا اور غلام کی حیثیت سے عبد الرحمن بن سَمُرہ قرشی کو دے دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے مورخین ابا صلت کو عبد الرحمن بن سمرہ کے آزاد کردہ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔[2] آپ کا مشہور لقب "ہرَوی" ہے جسے شیعہ اور اہل سنت دونوں منابع میں ذکر کیا گیا ہے اور ان کے آبائی شہر ہرات سے لیا گیا ہے۔[3] "قُرشی"، "عَبْشمی"، "نیشابوری"، "بصری" اور "خراسانی" نیز ان کے القابات میں سے ہیں۔

آپ کی تاریخ ولادت کے بارے میں کوئی دقیق معلومات میسر نہیں لیکن ان کے اپنے بقول انہوں نے بچپن سے 30 سال کی عمر تک "سفیان بن عیینہ" (متوفی 196 ھ) کے پاس رہے ہیں،[4] اس بناء پر ان کی پیدائش تقریبا سنہ 160 ھ میں ہوئی ہے۔ ایک روایت کی مطابق ابا صلت مدینہ میں پیدا ہوئے۔[5] اور نیشابور میں زندگی گزاری ہے۔[6] آپ 14 شوال سن 136 ہجری کو اس دنیا سے رحلت کر گئے۔[7]

امام رضا ؑ کی خدمت میں

علماء امامیہ کا اس بات پر تقریبا اتفاق نظر ہے کہ آپ امام‌ رضا‌ ؑ کے اصحاب میں سے تھے۔[8] اگر چہ اہل سنت منابع میں ابا صلت کو امام رضا ؑ کے خادم کے طور میں پیش کیا گیا ہے۔[9] لیکن علماء امامیہ میں سے سوائے مقدس اردبیلی کے کسی نے آپ کو امام‌ رضا ؑ کا خادم قرار نہیں دیا ہے۔[10] شاید ابا صلت کی علمی‌ اور حدیثی خدمات کا پہلو ان کے خادم ہونے کے پہلو سے زیادہ معروف ہونے کی وجہ سے شیعہ علماء نے ان کے بارے میں خادم کے لفظ استعمال نہیں کئے ہیں۔

ابا صلت نیشابور میں امام رضا ؑ کی خدمت میں موجود تھے اور سرخس میں بھی امام سے ملاقات کیلئے گئے تھے۔[11] انہوں نے امام رضا ؑ کی نیشابور آمد کے موقع پر حدیث سلسلۃ‌الذہب سمیت آپ ؑ کی شہادت سے مربوط اکثر احادیث کو نقل کیا ہے۔

امام محمد تقی ؑ کی خدمت میں

اس بات میں تو کوئی شیک و تردید نہیں ہے کہ ابا صلت‌ نے امام جواد ؑ کو درک کیا ہے کیونکہ جب امام رضا ؑ بستر شہادت پر تھے تو اس وقت امام جواد ؑ مدینہ سے طوس تشریف لائے تھے اور اس دوران امام‌ جواد ؑ اور ابا صلت کے درمیان ہونے والی گفتگو تاریخ میں ثبت ہے۔ اسی طرح امام رضا ؑ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی امام جواد ؑ سے دو دفعہ ملاقات ہوئی؛ ایک اس وقت جب امام جواد ؑ نے اپنے والد گرامی امام رضا ؑ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دوسری دفعہ اس وقت ملاقات ہوئی جب مامون کے حکم پر اباصلت کو قید خانے میں میں ڈالا گیا اور امام جواد ؑ نے معجزہ کے ذریعے اپنے آپ کو زندان پہنچایا اور ابا صلت کو مامون کے قید سے رہائی دلوائی۔ [12]

ابا صلت کی علمی اور حدیثی خدمات

آپ نے علم کی تلاش میں عراق، حجاز اور یمن کا سفر کیا اور حماد بن زید، عطاء بن مسلم، معتز بن سلیمان، "عبد الرزاق صنعانی، مالک بن انس، فُضیل بن عیاض اور عبداللہ بن مبارک سے حدیث نقل کی ہیں۔[13]

ابا صلت کچھ عرصہ بغداد میں حدیث نقل کرنے میں مشغول رہے[14] اور مأمون کے دور حکومت میں جنگ کے ارادے سے مرو آئے لیکن جب خلیفہ کے دربار میں داخل ہوئے تو مأمون کو ان کی باتیں پسند آئیں یوں مامون نے آپ کو اپنے خاص افراد میں شامل کیا۔ ابا صلت مرجئہ، جہمیہ، زنادقہ اور قدریہ کی بطلان کو ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھا اسی بنا پر انہوں نے متعدد بار مأمون کی موجودگی میں بشر مریسی کے ساتھ مناظرہ کیا۔[15]

  • ابا صلت کی توثیق اور ان سے نقل حدیث کرنے والے راوی

ابا صلت ہروی علم رجال کے تمام شیعہ ماہرین کے یہاں مورد وثوق اور قابل اعتماد شخص تھے۔ اسی طرح علم رجال کے اہل سنت ماہرین میں سے یحیی بن معین، عجلی اور ابن شاہین نے ان کی توثیق کی ہیں۔[16] جبکہ جوزجانی، نسائی، ابو حاتم رازی، عقیلی، ابن حبان، ابن عدی اور دار قطنی نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے۔[17]

ابا صلت، نے امام رضاؑ سے بہت ساری احادیث نقل کی ہیں جن میں سے اکثر احادیث کو شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا، الأمالی اور خصال میں نقل کی ہیں۔ ابا صلت سے روایت نقل کرنے والوں میں ان کے بیٹے محمد، "احمد بن یحیی بلاذری"، "عبداللہ بن احمد"، "ابی خثیمہ"، "ابو بکر بن ابی الدنیا، یعقوب ابن سفیان بسوی، سہل بن زنجلہ، احمد بن منصور رمادی اور عباس بن محمد دوری وغیره کا نام لیا جا سکتا ہے۔[18]

مذہب

اگرچہ اباصلت کو امام رضاؑ کے اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کے مذہب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک طرف سے شیخ طوسی انہیں اہل سنت میں سے قرار دیتے ہیں،[19] جبکہ اہل سنت محدثین کی ایک گروہ نے صرف شیعہ ہونے کی وجہ سے ان پر نکتہ چینی کی ہیں۔[20] یہ گروہ اباصلت کے سنی ہونے کو قبول نہیں کرتے اور صرف شیعہ ہونے کی بنا پر انہیں کم اہمیت اور چہ بسا ان کی توہیم کرتے ہیں۔[21]

امیر المؤمنین ؑ کی فضیلت میں احادیث نقل کرنا

اہل سنت مشہور محدثین سے امیرالمؤمنین حضرت علیؑ کی فضیلت میں احادیث نقل کرنا خاص طور پر حدیث "مدینۃ العلم"، ابا صلت ہروی کی شخصیت کے برجستہ ترین پہلو میں سے ہے۔ مثلا حدیث "مدینۃ العلم" کو انہوں نے ابو معاویہ اور عبد الرزاق‌ صنعانی‌ سے نقل کیا ہے۔[22]بعض تاریخی منابع کے مطابق ابا صلت مختلف طریقوں سے امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کی فضیلت میں اہل سنت بزرگان سے احادیث نقل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے۔[23]اسی سلسلے میں بعض منابع میں آیا ہے:

ابا صلت ایک مالدار شخص تھا اور امیر المؤمنین حضرت علی ؑ کی فضیلت میں احادیث کی تلاش میں وہ بزرگان کی خوب خاطر مدارات کرتے تھے تاکہ وہ اس کیلئے مطلوبہ احادیث نقل کریں۔[24]

آثار

ابا صلت نے امام رضا ؑ کی شہادت کے حوالے سے ایک کتاب تألیف کی جسے نجاشی نے ذکر کیا ہے[25] اور شیخ صدوق نے عیون اخبار الرضا[26] میں اس کتاب سے استفادہ کیا ہے۔

اس بات کے پیش نظر کہ امام رضا ؑ کی شہادت سے متعلق احادیث کو غالبا ابا صلت سے نقل کی گئی ہیں، یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کی مذکوره کتاب کم از کم پانچویں یا چھٹی صدی تک موجود تھی۔[حوالہ درکار]

آرامگاہ

اس وقت ابا صلت سے منسوب ایک آرامگاہ "خواجہ ابا صلت" کے نام سے مشہد کے مشرق میں شہر سے باہر موجود ہے۔ قم اور سمنان میں بھی ان سے منسوب مزارات موجود ہیں۔[27] مشہد میں ابا صلت کا مقبرہ، اس کا گنبد اور صحن کربلایی محمد علی درویش اور لوگوں کے تعاون سے تعمیر ہوا ہے۔ بعض اہل عرفان جیسے درویش علی متوفی ۷۲۶ق، ان کے مزار کے نزدیک مدفون ہیں۔

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. خطیب بغدادی شافعی، تاریخ بغداد، ج ۱۱، ص۴۶،ش ۵۷۲۸‌ و سمعانی‌ شافعی‌، الانساب، ج ۵، ص۶۳۷ ۶۳۸.
  2. تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۲۶.
  3. خطیب‌ بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت،‌ دار الکتب العلمیہ، ج ۱۱، ص۴۶،ش ۵۷۲۸؛ الأنساب، ج ۵، ص۶۳۷؛ مزّی‌ شافعی‌، تہذیب‌ الکمال فی أسماء الرجال، ج ۱۱، ص۴۶۰،ش ۴۰۰۳؛ نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی‌، ص۲۴۵‌،ش ۶۴۳‌.
  4. نک: سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۴۸.
  5. اختیار معرفۃ الرجال، ص۶۱۵ ۶۱۶.
  6. تذہیب التہذیب، ج۲، ص۴۵۷.
  7. تاریخ بغداد، ج ۱۱‌، ص۵۱‌،ش ۵۷۲۸ و سیر‌ أعلام‌ النبلاء‌، ج ۱۱، ص۴۴۸.
  8. رجال النجاشی، ص۲۴۵،ش ۶۴۳؛ رجال الطوسی، ص۳۸۰،ش ۱۴ و ص۳۸۳،ش ۴۸ و ص۳۶۹،ش ۵؛ ابن شہر آشوب: مناقب آل ابی طالب، ج ۴، ص۳۹۶؛ رجال ابن داود حلّی، ص۲۲۴،ش ۹۳۸ (قسم اول)؛ خلاصۃ الأقوال فی معرفۃ الرجال، ص۲۰۹،ش ۶۷۲، ص۴۲۰،ش ۱۷۰۹.
  9. مقدس اربیلی، حدیقۃ الشیعۃ،ج۲،ص ۸۴۰.
  10. مقدس اربیلی، حدیقۃ الشیعۃ،ج۲،ص ۸۴۰.
  11. عیون اخبار الرضا، ج۲، ص۱۸۳ ۱۸۴؛ تہذیب التہذیب، ج۶، ص۳۱۹.
  12. ابن بابویہ، عیون أخبار الرضا، ج۲، ص۲۴۲ ص۲۴۵
  13. الجرح و التعدیل، ج۳، ص۴۸؛ الکامل فی ضعفاء الرجال، ج۵، ص۱۹۶۸؛ تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۲۶؛ تہذیب التہذیب، ج۶، ص۳۱۹.
  14. تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۲۶، ج۱۱، ص۴۴۸.
  15. تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۴۷.
  16. نک: تاریخ الثقات، ص۳۰۳؛ تاریخ اسماء الثقات، ص۲۲۷؛ رجال نجاشی، ج۲، ص۶۰۶۱؛ تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۵۰.
  17. احوال الرجال، ص۲۰۵۲۰۶؛ الضعفاء الکبیر، ج۳، ص۴۸؛ کتاب المجرحین، ج۲، ص۱۵۱؛ الکامل فی ضعفاء الرجال، ج۱۱، ص۵۱.
  18. المعرفۃ و التاریخ، ج۳، ص۷۷؛ انساب الاشراف، ص۱۹؛ تاریخ بغداد، ۱۱/۴۶؛ سیر اعلام النبلاء، ج۱۱، ص۴۴۶ ۴۴۷؛ تہذیب التہذیب، ج۶، ص۳۱۹ ۳۲۰.
  19. رجال طوسی، ۳۹۶؛ قس: تاریخ بغداد، ج۱۱، ص۴۷۴۸.
  20. الضعفاء الکبیر، ج۳، ص۷۰؛ میزان الاعتدال، ج۲، ص۶۱۶؛ قس: اختیار معرفۃ الرجال، ص۶۱۵ ۶۱۶.
  21. طبسی، جایگاہ روایی اباصلت ہروی از دیدگاہ فریقین، پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ ۳۰، ص۹۹
  22. تاریخ بغداد ج۱۱، ص۴۸ و تہذیب الکمال فی أسماء الرجال ج۱۱، ص۴۶۲‌.
  23. طبسی، جایگاہ روایی اباصلت ہروی از دیدگاہ فریقین، پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، شمارہ ۳۰، ص۹۶
  24. ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ، ج۷،ص۳۵۹؛ ابن عساکر، تاریخ دمشق، ج۴۲، ص۳۸۲
  25. رجال نجاشی، ج۲، ص۶۱.
  26. ج۲، ص۲۴۲ ۲۴۵.
  27. مطلع الشمس، ج۲، ص۳۸۵۳۸۶.

مآخذ

  • ابن ابی حاتم، عبدالرحمن بن محمد، الجرح و التعدیل، حیدرآباد دکن، ۱۳۷۲ق.
  • ابن بابویہ، محمدبن علی، عیون اخبار الرضا، بہ کوشش مہدی الاجوردی، قم، چاپخانہ علمیہ و قم، ناشر رضا مشہدی، ۱۳۶۳‌ش.
  • ابن حبان، محمد، کتاب المجرحین، بہ کوشش محمود ابراہیم زاید، بیروت، دارالمعرفۃ.
  • ابن حجر عسقلانی، احمد بن علی، تہذیب التہذیب، حیدرآباد دکن، ۱۳۲۶ ق.
  • ابن شاہین، عمربن احمد، تاریخ اسماء الثقات، بہ کوشش عبدالمعطی.
  • امین قلعجی، بیروت، ۱۴۰۶ ق.
  • ابن عدی. عبداللہ، الکامل فی ضعفاء الرجال، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت،‌دار الفکر، ۱۴۱۵ق.
  • ابن کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌دار الفکر، بی‌تا
  • اعتماد السلطنہ، محمد حسن، مطلع الشمس، تہران، ۱۳۰۰ق.
  • بسوی، یعقوب بن سفیان، المعرفۃ و التاریخ، بہ کوشش اکرم ضیاء عمری، بغداد، ۱۳۹۶ق.
  • بلاذری، احمدبن یحیی، انساب الاشراف، بہ کوشش محمد باقر محمودی، بیروت، ۱۳۹۷ق.
  • جوزجانی، ابراہیم بن یعقوب، احوال الرجال، بہ کوشش صبحی بدری سامرائی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • خطیب بغدادی، احمدبن علی، تاریخ بغداد، قاہرہ، ۱۳۴۹ ق. و بیروت، دارالکتب العلمیہ.
  • ذہبی، محمدبن احمد، تذہیب التہذیب، نسخہ عکسی موجود در کتابخانہ مرکز
  • ذہبی، محمدبن احمد، سیراعلام النبلاء، بہ کوشش صالح سمر، بیروت، ۱۴۰۶ق.
  • ذہبی، محمدبن احمد، میزان الاعتدال، بہ کوشش علی محمد بجاوی، قاہرہ، ۱۳۸۲ق.
  • طوسی، محمدبن حسن، اختیار معرفہ الرجال، بہ کوشش حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ ش.
  • طوسی، محمدبن حسن، رجال، نجف، ۱۳۸۰ق.
  • طبسی، محمد محسن، جایگاہ روایی اباصلت ہروی از دیدگاہ فریقین، پژوہشنامہ حکمت و فلسفہ اسلامی، زمستان ۱۳۸۸، شمارہ ۳۰، صفحہ ۹۱ تا ۱۱۲.
  • عجلی، احمدبن عبداللہ، تاریخ الثقات، بہ کوشش عبدالمعطی قلعجی، بیروت، ۱۴۰۵ق.
  • عقیلی، محمدبن عمرو، الضعفاء الکبیر، بہ کوشش عبدالمعطی امین قلعجی، بیروت، ۱۴۰۴ق.
  • نجاشی، احمدبن علی، رجال، بہ کوشش محمد جواد نائینی، بیروت، ۱۴۰۸ق.