"شان نزول" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi |
||
سطر 31: | سطر 31: | ||
سیوطی نے شان نزول کے درج ذیل فوائد شمار کئے ہیں : <ref>الاتقان، ج۱، ص۲۹-۳۳ .</ref> | سیوطی نے شان نزول کے درج ذیل فوائد شمار کئے ہیں : <ref>الاتقان، ج۱، ص۲۹-۳۳ .</ref> | ||
{{ستون آ|2}} | {{ستون آ|2}} | ||
# آیت یا آیات کے شان نزول کی حکمت کی شناخت۔ | # [[آیت]] یا آیات کے شان نزول کی حکمت کی شناخت۔ | ||
# آیات قرآنی کی درست فہم اور غموض اور ابہام کا کشف ہونا۔ | # آیات [[قرآنی]] کی درست فہم اور غموض اور ابہام کا کشف ہونا۔ | ||
#شان نزول کے ذریعے افراد کا تعین ۔ | #شان نزول کے ذریعے افراد کا تعین ۔ | ||
#آیات کے الفاظ یا عام اور خاص کے لحاظ سے اسباب کی پہچان ۔ | #آیات کے الفاظ یا عام اور خاص کے لحاظ سے اسباب کی پہچان ۔ | ||
{{ستون خ}} | {{ستون خ}} | ||
واحدی قرآن پاک کی دقیق تفسیر کیلئے آیات کے شان نزول اور اس سے | واحدی [[قرآن پاک]] کی دقیق تفسیر کیلئے آیات کے شان نزول اور اس سے مربوط مسائل سے آگاہی کو ضروری سمجھتا ہے ۔ <ref>اسباب النزول، ص۳۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |
نسخہ بمطابق 06:14، 25 فروری 2017ء
اہم تفاسیر | |
---|---|
شیعہ تفاسیر | تفسیرابوالجارود150-160ھ. • تفسیر قمی 307ھ • تفسیر عیاشی 320ھ • تفسیر تبیان 460ھ • تفسیر مجمع البیان 548ھ • جوامع الجامع 548ھ • تفسیر الصافی 1091ھ • تفسیر المیزان 1402ھ |
سنی تفاسیر | تفسیر طبری 310ھ • تفسیر ابن عطیہ 541ھ • تفسیر قرطبی 671ھ • تفسیر ابن کثیر 774ھ • تفسیر جلالین 864/911ھ |
تفسیری رجحان | |
تقابلی تفسیر • علمی تفسیر • عصری تفسیر • تاریخی تفسیر • فلسفی تفسیر • کلامی تفسیر • عرفانی تفسیر • ادبی تفسیر • فقہی تفسیر | |
تفسیری روشیں | |
تفسیر قرآن بہ قرآن • تفسیر روایی • تفسیر عقلی • تفسیر اجتہادی | |
اقسام تفسیر | |
ترتیبی تفسیر • موضوعی تفسیر | |
اصطلاحات علم تفسیر | |
اسباب نزول • ناسخ و منسوخ • محکم و متشابہ • تحدی • اعجاز قرآن • جری |
شان نُزول یا اسباب نزول سے مراد وہ حوادث یا واقعات ہیں کہ جن کے وقوع کے وقت قرآن کی آیت یا آیات نازل ہوئی ہوں ۔ایسی موقعیت یا حوادث کو شان نزول کہا جاتا ہے ۔ قرآنی آیات کی تفسیر میں شان نزول کو ایک اہم اور بنیادی کردار حاصل ہے ۔ نیز علوم قرآن سے متعلق کتابوں میں ان پر خصوصی توجہ دی گئی ہے ۔مسلمان علما نے اسباب نزول کے متعلق مستقل کتابیں تالیف کی ہیں ۔ قرآن کی تمام آیات شان نزول نہیں رکھتی ہیں۔ بعض قرآن شناس علما نے اسباب نزول سے متعلق آیات کی کل تعداد تقریبا ۴۶۰ بیان کی ہے ۔
لغوی معنا
اسباب سبب کی جمع ہے۔ ہر وہ چیز جس کے ذریعے سے ہدف تک پہنچنے میں مدد لی جا سکے وہ سبب ہے ۔قرآن پاک میں پیوند، آلہ، باعث، دستاویز اور تعلق داری کے معانی میں استعمال ہوا ہے ۔[1]
سبب اور اسباب کا کلمہ قرآن کریم میں درج ذیل مفاہیم میں استعمال ہوا ہے :
- رسی کے معنا میں اور ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی چیز کو حاصل کیا جائے، آیت مَن کانَ یظُنُّ أَن لَّن ینصُرَهُ اللَّهُ فِی الدُّنْیا وَالْآخِرَةِ فَلْیمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَی السَّمَاءِ ثُمَّ لْیقْطَعْ فَلْینظُرْ هَلْ یذْهِبَنَّ کیدُهُ مَا یغِیظُسوره حج آیت نمر۱۵۔ترجمہ:جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔
- وسیلہ اور آلہ یا طریق اور راستہ جیسا کہ آیت إِنَّا مَكَّنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ وَآتَيْنَاهُ مِن كُلِّ شَيْءٍ سَبَبًا سوره کہف آیت۸۴۔ترجمہ:ہم نے اسے زمین میں اقتدار عطا کیا تھا اور اسے ہر طرح کا ساز و سامان مہیا کر دیا تھا۔
- پیوند اور تعلق داری إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِينَ اتُّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ﴿١٦٦﴾سورت بقرہترجمہ: اور (وہ مرحلہ کتنا کھٹن ہوگا) جب وہ (پیر) لوگ جن کی (دنیا میں) پیروی کی گئی اپنے پیرؤوں (مریدوں) سے برأت اور لاتعلقی ظاہر کریں گے اور خدا کا عذاب ان سب کی آنکھوں کے سامنے ہوگا اور سب وسائل اور تعلقات بالکل قطع ہو چکے ہوں گے۔ (166)
- ابواب اور دروازے جیسے أَمْ لَهُم مُّلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ ﴿١٠﴾ سورت ص ترجمہ: یا کیا آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کی حکومت ان کیلئے ہے (اگر ایسا ہے) تو پھر انہیں چاہیے کہ سیڑھیاں لگا کر چڑھ جائیں۔ (10)
- طرق اور راستے جیسےوَقَالَ فِرْعَوْنُ یا هَامَانُ ابْنِ لِی صَرْحًا لَّعَلِّی أَبْلُغُ الْأَسْبَابَترجمہ:اور فرعون نے کہا اے ہامان! میرے لئے ایک اونچا محل بنا (بنوا) تاکہ میں (اس پر چڑھ کر) راستوں تک پہنچ جاؤں۔ (36)
نزول سے مراد قران کریم کی آیات کا وحی کی صورت میں نازل ہونا ہے۔ یہ کلمہ اپنے مشقات کے ساتھ قرآن پاک میں کئی مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔[2]
شان نزول کے بغیر آیات اور سورے
بہت سی ایسی آیات اور سورے ہیں جو کسی سبب اور کسی خاص انگیزے کے بغیر نازل ہوئے ہیں ،ان آیات اور سورتوں کی وحی کے موقع پر کسی قسم کا کوئی حادثہ یا واقعہ یا سوال اس وقت نہیں پوچھا گیا تھا کہ جن کے شان نزول یا اسباب نزول کے متعلق تفحص اور جستجو کی جائے ، بلکہ ایسے موقعوں پر عمومی اور کلی لحاظ سے شان نزول اور سبب نزول کو تلاش کیا جائے گا اور اس سے مراد بشری ضرورتوں کو الہی رہنمائیوں کے ذریعے اور انسانی قدرت سے بالاتر افکار کو وحی کے ذریعے مکمل اور پورا کرنا ہے تا کہ اس کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں حق کو باطل سے تشخیص دے جا سکے ۔[3]
کسی خاص شان نزول کے بغیر نازل ہونے والی آیات یا سورے قرآن پاک کے کچھ حصے کو شامل ہیں کہ جن کی طرف درج ذیل قابل ذکر ہیں :
- گذشتہ امتوں کی تاریخ اور واقعات سے مربوط آیات و سورتیں ہیں البتہ کچھ گذشتہ امتوں کے قصص سے مربوط آیات سبب نزول کے تحت نازل ہوئے ہیں جیسا کہ ذو القرنین سے مربوط حصہ لوگوں کے استفسار کے جواب میں آیا ہے ۔یہ امور اس لحاظ سے قرآن میں آئے ہیں کہ پیامبر(ص) کے معاصرین اور اسی طرح تمام زمانوں کے انسان ان واقعات سے آگاہ ہوں، وہ انہیں اپنے حافظوں میں محفوظ رکھیں اور اپنی زندگی کے مختلف موارد میں ان واقعات سے سعادت و یا شقاوت و بدبختی،قوموں کے عروج و زوال ،انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے رموز سے آگاہی اور عبرت حاصل کریں اور قوموں کی سرفرازی اور سعادت کے عوامل جانیں اور شقاوت و بدبختی کے اسباب سے اپنے آپ کو بچائیں ۔[4]
- قرآن کریم کی کچھ آیات اور سورتیں ہیں جو غیبی خبروں اور عالم برزخ،جنت و جہنم اور قیامت کے حالات ،بہشتیوں اور دوزخیوں کے احوال پر مشتمل ہیں کہ جن میں مخصوص شان نزول کو تلاش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔[5]
مخصوص شان نزول کی حامل آیات اور سورتیں
قرآن پاک کی بعض آیات اور سورتیں کسی سبب کی حامل ہیں کہ جو کسی سبب یا علت کے ہمزمان نازل ہوئیں۔ قرآن کے اس حصے کی وہی آیات اور سورتیں ہیں جن کے بارے میں تفاسیر یا اسباب النزول کے عنوان سے لکھی جانے والی کتابوں میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اس بنا پر اسباب نزول کی اصطلاح کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ آیات یا قرآن کی بعض سورتیں کسی سبب کی کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں اور یہ واقعات رسول خدا کی زندگی میں رونام ہوئے ۔[6] دوسرے الفاظ میں:
- ایسے اہم اور جالب نظر یا شدید خطرناک اور نہایت برے رونما ہونے والے واقعات ہوتے تھے،
- رسول اکرم کے سامنے لوگ سوال کرتے تھے ،
- مسلمانوں کیلئے ایسے حالات اور شرائط مہیا ہوجاتے کہ جن میں ان حالات و شرائط کے لحاظ سے انکی حالت کو مشخص ہونا چاہئے؛
ان امور کے بعد آیات اور کبھی سورتیں نازل ہوتیں جن میں اس واقعے ،سوال کے جواب یا مسلمانوں کی ذمہ داری کے تعین کا بیان ہوتا ۔بہرحال ان میں مسئلے کی حقیقت اور اساس کو بیان کیا جاتا ۔[7]
شان نزول کے فوائد
سیوطی نے شان نزول کے درج ذیل فوائد شمار کئے ہیں : [8]
واحدی قرآن پاک کی دقیق تفسیر کیلئے آیات کے شان نزول اور اس سے مربوط مسائل سے آگاہی کو ضروری سمجھتا ہے ۔ [9]
حوالہ جات
- ↑ حجتی، اسباب نزول، ص۱۷.
- ↑ حاجی میرزایی، اسباب نزول، در دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، ص۱۹۲.
- ↑ سیدمحمدباقر حجتی، اسباب نزول، ص۱۹.
- ↑ سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۱۹.
- ↑ سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۱۹-۲۰.
- ↑ سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.
- ↑ سیدمحمدباقر حجتی ، اسباب نزول، ص۲۰.
- ↑ الاتقان، ج۱، ص۲۹-۳۳ .
- ↑ اسباب النزول، ص۳۔
منابع
- حجتی، سیدمحمدباقر، اسباب نزول، تہران: وزارت ارشاد اسلامی اداره کل، انتشارات و تبلیغات، زمستان ۱۳۶۵ش.
- دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ج۱، کوشش بہاءالدین خرمشاہی، تہران: دوستان-ناہید، ۱۳۷۷ش.