موسی بن مہدی بن منصور (145۔170 ھ)، ہادی عباسی کے نام سے مشہور، سلسلہ حکومت بنی عباس کا چوتھا خلیفہ تھا جس نے تقریبا 14 ماہ حکومت کی۔ اس کی حکومت میں سادات و شیعہ تحت نظر تھے اور ان کو ملنے والے وظیفے قطع ہوگئے تھے۔ اس کے دور حکومت میں مدینہ میں قیام صاحب فخ وجود میں آیا۔ جسے اس نے سرکوب کر دیا۔ ہادی عباسی کی نظر میں قیام صاحب فخ میں علویوں کی تحریک کے اصلی محرک امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔ لہذا جیسا کہ بعض منابع میں ذکر ہوا ہے، وہ آپ کے قتل کے درپئے تھا، لیکن اسے عملی کرنے سے پہلے وہ خود ہی اس دنیا سے چلا گیا۔ اس نے زنادقہ سے برخورد کے سلسلہ میں اپنے باپ مہدی عباسی کی سیاست پر عمل کیا اور ان میں سے بہت سے افراد کو تہہ تیغ کیا۔

ہادی عباسی
کوائف
نامموسی بن مہدی بن منصور
لقبہادی عباسی
والدمہدی عباسی
والدہخیزران
اولادجعفر
حکومت
سمتبنی عباس کا چوتھا خلیفہ
سلسلہبنی عباس
محدودہ14 ماہ
آغازسنہ 169 ھ
انجامسنہ 170 ھ
معاصرامام موسی کاظم علیہ السلام
اہم اقداماتسرکوب قیام فخ، امام موسی کاظم کے ساتھ سختی
قبل ازہارون رشید
بعد ازمہدی عباسی

تاریخی منابع کے مطابق، ہادی عباسی چاہتا تھا کہ وہ ہارون کے بجائے اپنے کمسن بیٹے جعفر کو ولی عہد مقرر کرے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکا اور اس کے بعد اس کا بھائی ہارون خلیفہ بنا۔

سوانح حیات

موسی بن مہدی بن منصور، جس کا لقب ہادی ہے، سفاح، منصور دوانیقی اور مہدی عباسی کے بعد بنی عباس کا چوتھا خلیفہ تھا۔[1] اس کا باپ مہدی عباسی اور ماں ایک کنیز تھی جس کا نام خیزران تھا۔[2] محرم سن 169 ھ میں وہ 25 برس کی عمر خلافت تک پہچا۔[3] وہ دوسرے خلفا کی بنسبت سب سے کم عمری میں اس منصب پر پہچا۔[4]

اس کا باپ مہدی عباسی اس کی تربیت پر خاص توجہ دیتا تھا[5] یہاں تک کہ 16 سال کی عمر میں وہ ولی عہد اول منتخب ہوا اور فوج کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔[6] مہدی عباسی آخر عمر میں چاہتا تھا کہ وہ ہادی کی جگہ اپنے دوسرے بیٹے ہارون کو ولی عہد بنائے لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہی اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔[7]

ہادی عباسی اپنے باپ مہدی عباسی کی موت کے وقت جرجان میں تھا[8] اور اہل طبرستان سے جنگ کر رہا تھا۔[9] اس کے بھائی ہارون نے اسی دن اس کے ہاتھ پر بیعت کی[10] اور عباسی خاندان کے بزرگوں اور فوج کے سرداروں سے اس کے لئے بیعت حاصل کی۔[11]

ہادی چاہتا تھا کہ وہ ہارون کی جگہ اپنے سات سالہ کمسن بیٹے[12] جعفر کو اپنا ولی عہد مقرر کرے[13] اور اس سلسلہ میں اس نے بہت کوشش کی۔[14] اس نے ہارون کو قانع کرنا چاہا تا کہ وہ خود ولایت عہدی سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ لیکن ہارون نے اس بات سے بچنے کے لئے راہ فرار اختیار کی اور جب تک اس کا بھائی زندہ رہا اس نے دار الحکومت کا رخ نہیں کیا۔[15]

ہادی جسمانی اعتبار سے قوی تھا۔[16] وہ شجاع اور امور حکومت میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ سخی مشہور ہے۔ حالانکہ وہ ان سب کے باوجود ایک سخت گیر، جسور اور متعصب انسان شمار کیا جاتا ہے۔[17] اپنے ہونٹوں میں نقص کی وجہ سے وہ موسی اطبق بھی مشہور تھا۔[18] وہ عربی ادب اور تاریخ کا شوقین اور موسیقی کا دلدادہ تھا۔[19]

موت

اس نے تقریبا 14 ماہ حکومت کی اور سن 170 ھ میں بغداد[20] میں [21]25 یا 26 برس کی عمر میں وفات پائی۔[22] بعض کے مطابق اس کی موت کا سبب بیماری تھی اور بعض کے مطابق اسے اس کی ماں کے حکم سے نیند کی حالت میں قتل کیا گیا۔[23] اس کے بھائی ہارون نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور بغداد کے عیسی آباد علاقہ میں اسے دفن کیا گیا۔[24]

علویوں سے سلوک

تاریخی منابع کے مطابق وہ شیعوں پر سختی کرتا تھا اور ان کے ساتھ بے رحمی سے پیش آتا تھا۔ اس نے وہ تمام وظیفے جو مہدی عباسی کے زمانے میں شیعوں کو ملتے تھے، قطع کر دیئے۔[25] ابو الفرج اصفہانی نے ان باتوں کا سبب اس خوف کو قرار دیا ہے جو اسے شیعوں اور علویوں کے قیام سے تھا۔[26] اسی طرح سے اس نے اپنے تمام گورنروں کو حکم دیا کہ وہ شیعوں کے حرکات و سکنات کو زیر نظر رکھیں اور ان کے درمیان اپنے جاسوس چھوڑیں۔[27] اس کے زمانے میں تمام علویوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ روزانہ شب میں دار الامارہ میں حاضر ہو کر اپنی حاضری ثبت کرائیں۔[28]

قیام فخ کی سرکوبی

مفصل مضمون: قیام شہید فخ

ہادی عباسی کی سختیوں نے حجاز میں شیعوں پر حلقہ تنگ کر دیا، یہاں تک کہ ان حالات سے نجات پانے کے لئے وہ امام علی (ع) کی اولاد میں سے ایک علوی بزرگ حسین بن علی بن حسن کے پاس حاضر ہوئے اور انہیں قیام کے لئے تشویق کیا۔[29] حالانکہ بعض کا ماننا ہے کہ حسین بن علی جو صاحب فخ کے نام سے مشہور ہیں، وہ بھی مدتوں سے یہی چاہتے تھے اور یہ مانتے تھے کہ حکومت علویوں کا حق ہے۔ ہادی عباسی کے ظلم و ستم نے ان کے لئے یہ راہ ہموار کر دی۔[30]

انہوں نے قیام کے لئے زمینہ فراہم ہونے کے ساتھ سن 169 ھ میں اپنی تحریک کا آغاز کیا۔[31] ابتدا میں انہوں نے مدینہ کو فتح کیا اور تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا[32] اور بنی عباس کی حکومت کے کارندوں کو قید میں ڈال دیا۔[33] انہوں نے مسجد نبوی کو اپنی حکومت کا مرکز قرار دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مکہ کی سمت حرکت کی اور مکہ سے 6 میل کے فاصلہ پر فخ نامی درہ میں پڑاو ڈالا۔[34]

اسی وقت عباسی فوج عیسی بن موسی کی سر کردگی میں فخ کے مقام پر پہچی[35] اور جنگ کے بعد حسین اور ان کے ساتھی شکست کے بعد قتل کر دیئے گئے۔[36] یہ واقعہ تاریخ میں واقعہ فخ کے نام سے مشہور ہو گیا اور حسین بن علی بن حسن شہید فخ یا صاحب فخ کے عنوان سے مشہور ہو گئے۔[37] ایک روایت کی مطابق جس کی نسبت امام علی رضا (ع) کی طرف دی گئی ہے، یہ واقعہ، واقعہ کربلا کے بعد علویوں کے لئے دردناک ترین واقعہ تھا[38] اور اس کے سلسلہ میں بہت سے مرثیے نظم کئے گئے ہیں۔[39]

امام موسی کاظم (ع) سے سلوک

ہادی عباسی نے واقعہ فخ کے بعد امام موسی کاظم (ع) پر علویوں کو قیام کے لئے ورغلانے کا الزام لگایا اور انہیں اس قیام کا اصلی قصوروار ٹہرایا۔ یہی سبب ہے کہ بعض محققین کے مطابق اس نے امام کاظم (ع) کو قتل کرنے کا ارادہ کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسے عملی جامہ پہناتا، موت نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا۔[40]

زنادقہ سے مقابلہ کی سیاست جاری رکھنا

ہادی عباسی اپنے باپ مہدی عباسی کی طرح زنادقہ سے متنفر تھا اور ان کے تعاقب و مجازات کے درپئے رہتا تھا۔[41] اس نے ان کے ایک گروہ کا خاتمہ بھی کیا[42] جن میں یزدان بن باذان و علی بن یقطین[43] شامل تھے اور اسی طرح سے اس نے ان کے ایک گروہ کو جنہوں نے جزیرہ کے علاقہ میں قیام کیا تھا، قتل کیا۔[44]

حوالہ جات

  1. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۲۴ و ۵۰۱-۵۰۲.
  2. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۲۴.
  3. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۷.
  4. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۱.
  5. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۹.
  6. خضری، تاریخ خلافت عباسی، ۱۳۸۳ش، ص۵۱.
  7. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۴.
  8. دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۳۸۶؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۷؛ ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۸، ص۳۷۱؛ ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۳۸۰.
  9. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۸۷؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۶، ص۸۷؛ ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۸، ص۳۰۵؛ ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۶۸.
  10. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۸، ص۳۰۵.
  11. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۴۰۴؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۲۴.
  12. ابن حزم، جمہرة أنساب العرب، ۱۴۰۳ق، ص۲۳.
  13. مسعودی، مروج الذهب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۳۳؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۸؛ ابن مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۴۹۰.
  14. ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۶، ص۹۶.
  15. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۴.
  16. مسعودی، التنبیہ والإشراف، قاہره، ص۲۹۷.
  17. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۱.
  18. ابن العمرانی، الإنباء، ۱۴۲۱ق، ص۷۳؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۶، ص۱۰۱.
  19. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۲.
  20. ابن اعثم، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۸، ص۳۷۲.
  21. مسعودی، التنبیہ والإشراف، قاہره، ص۲۹۷.
  22. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۴۰۶؛ ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۶، ص۱۰۱.
  23. ابن مسکویہ، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۳، ص۴۸۸؛ ابن عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۲، ص۳۱۴.
  24. طبری،تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۲۰۵؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۴۰۶؛ دینوری، اخبار الطوال، ۱۳۶۸ش، ص۳۸۶.
  25. اصفہانی، الاغانی، ۱۹۹۴م، ج۵، ص۶.
  26. اصفہانی، الاغانی، ۱۹۹۴م، ج۵، ص۶.
  27. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۲.
  28. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ۱۳۸۳ش، ص۶۷.
  29. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج۲، ص۴۰۴.
  30. اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص۳۷۲.
  31. ابن کثیر، البدایہ والنہایہ، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۷.
  32. ابن الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ق، ص۱۸۹.
  33. خضری، تاریخ خلافت عباسی، ۱۳۸۳ش، ص۵۲.
  34. ابن الطقطقی، الفخری، ۱۴۱۸ق، ص۱۹۰.
  35. مقدسی، البدء و التاریخ، بیروت، ج۶، ص۹۹.
  36. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۱۹۲-۲۰۴؛ مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۲۶-۳۲۷؛ اصفہانی، مقاتل الطالبیین، بیروت، ص۳۶۴-۳۸۵.
  37. طقوش، دولت عباسیان، ۱۳۸۰ش، ص۹۳.
  38. ابن عنبہ، عمدة الطالب، ۱۴۱۷ق، ص۱۶۴.
  39. مسعودی، مروج الذہب، ۱۴۰۹ق، ج۳، ص۳۳۷.
  40. حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدهم، ۱۳۸۳ش، ص۶۷.
  41. ابن کثیر، البدایة والنهایة، بیروت، ج۱۰، ص۱۵۷.
  42. ابن اثیر، الکامل، ۱۹۶۵م، ج۶، ص۸۹.
  43. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، ۱۳۸۷ش، ج۸، ص۱۹۰؛ ذهبی، تاریخ الإسلام، ۱۴۱۳ق، ج۱۰، ص۳۳.
  44. خضری، تاریخ خلافت عباسی، ۱۳۸۳ش، ص۵۲.

حوالہ جات

مآخذ

  • ابن اثیر، عز الدین، الکامل، بیروت، دار صادر، ۱۹۶۵ء۔
  • ابن اعثم الکوفی، ابو محمد احمد، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دار الأضواء، چاپ اول، ۱۴۱۱ھ۔
  • ابن الطقطقی، محمد بن علی، الفخری، تحقیق عبد القادر محمد مایو، بیروت، دار القلم العربی، ۱۴۱۸ھ۔
  • ابن العمرانی، محمد بن علی بن محمد، الإنباء فی تاریخ الخلفاء، تحقیق قاسم السامرائی، قاہرہ، دار الآفاق العربیہ، ۱۴۲۱ھ۔
  • ابن جوزی، ابو الفرج عبد الرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد عبد القادر عطا و مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ھ۔
  • ابن حزم، جمہرة أنساب العرب، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۱۴۰۳ھ۔
  • ابن خلدون، عبد الرحمن بن محمد، تاریخ ابن خلدون، تحقیق خلیل شحادة، بیروت، دار الفکر، چاپ دوم، ۱۴۰۸ھ۔
  • ابن عماد حنبلی، شہاب الدین ابو الفلاح، شذرات الذهب فی اخبار من ذہب، تحقیق الأرناؤوط، بیروت، دار ابن کثیر، چاپ اول، ۱۴۰۶ھ۔
  • ابن عنبہ، احمد بن علی، عمدة الطالب في أنساب آل ابی طالب، قم، انصاریان، ۱۴۱۷ق/۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • ابن قتیبہ، ابو محمد عبد الله بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشہ، قاہره، الہیئہ المصریہ العامہ للکتاب، چاپ دوم، ۱۹۹۲ء۔
  • ابن کثیر، البدایہ و النهایہ، دار الفکر، بیروت، بی‌ تا
  • ابن مسکویہ، ابوعلی مسکویہ الرازی، تجارب الامم، تحقیق ابو القاسم امامی، تہران، سروش، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • اصفہانی، ابو الفرج علی بن حسین، مقاتل الطالببین، تحقیق سید احمد صقر، بیروت، دار المعرفہ، بی‌ تا۔
  • اصفہانی، ابو الفرج علی بن حسین، الاغانی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۹۹۴ء۔
  • حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ترجمہ سید محمد تقی آیت اللہی، تہران، امیر کبیر، ۱۳۷۶ہجری شمسی۔
  • خضری، سید احمد رضا، تاریخ خلافت عباسی، تہران، سمت، ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • دینوری، ابو حنیفہ احمد بن داود، اخبار الطوال، تحقیق عبد المنعم عامر، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ہجری شمسی۔
  • ذہبی، شمس الدین محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الأعلام، تحقیق عمر عبد السلام تدمری، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ دوم، ۱۴۱۳ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ھ۔
  • طقوش، سہیل، دولت عباسیان، ترجمہ حجت الله جودکی، قم، پژوہشکده حوزه و دانشگاه، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • مسعودی، أبو الحسن علی بن حسین، مروج الذہب و معادن الجوہر، تحقیق اسعد داغر، قم، دار الہجرة، ۱۴۰۹ھ۔
  • مسعودی، علی بن الحسین، التنبیہ والإشراف، تصحیح عبد الله اسماعیل الصاوی، قاہرہ، دار الصاوی، بی‌ تا۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بیروت، مکتبہ الثقافہ الدینی، بی‌ تا۔
  • یعقوبی، احمد بن أبی‌ یعقوب، تاریخ یعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌ تا۔