عصمت حضرت فاطمہ(س)

ویکی شیعہ سے
(عصمت حضرت زہرا(س) سے رجوع مکرر)

عصمت حضرت فاطمہ(س) سے مراد پیغمبرخداؐ کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام‌ اللہ علیہا کا گناہ اور خطا سے پاک و مصون ہونا ہے۔ شیخ مفید کے مطابق حضرت فاطمہ زہراء(س) کی عصمت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے جبکہ علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ شیعوں کے ہاں اجماع ہے کہ حضرت فاطمہ(س) معصوم ہیں۔

حضرت فاطمہ (س) کی عصمت ثابت ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ معصومینؑ کی بعض صفات کی حامل تھیں، جیسے شرعی نقطہ نظر سے ان کے قول و فعل اور رفتار و کردار کا حجت ہونا، اسی طرح دین و دینی تعلیمات کی تفسیر و وضاحت کرنے کی صلاحیت کی حامل ہونا نیز ان کی عملی سیرت اورموقف حق و باطل کی تمیز کا معیار قرار پانا وغیرہ۔ حضرت فاطمہ زہراء(س) انسانی معاشرے کے مختلف شعبوں میں ایک بہترین رول ماڈل کی حیثیت بھی رکھتی ہیں۔

حضرت زہرا (س) کی عصمت پر مختلف دلائل پیش کیے گئے ہیں ان میں سے مشہور دلائل یہ ہیں: آیت تطہیر، حدیث بضعۃ اور وہ احادیث جو اہل بیتؑ کی عصمت پر دلالت کرتی ہیں؛ جیسے حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ وغیرہ۔ اہل سنت مفسر قرآن اور امام المشککین فخر رازی حضرت فاطمہ(س) معصوم ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

اہمیت

شیعوں کے نقطہ نظر سے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مقام عصمت کی حامل[1] اور ہر قسم کے گناہ اور خطا[2] سے پاک خاتون ہیں۔ شیخ مفید کے مطابق[3] تمام مسلمانوں کا حضرت زہراء(س) کی عصمت پر اجماع ہے اور علامہ مجلسی[4] کے مطابق شیعوں کے ہاں عصمت حضرت زہراء(س) مورد اجماع ہے۔

محققین نے حضرت فاطمہ زہراء(س) کے لیے عصمت ثابت ہونے کی صورت میں اس کے چند آثار بیان کیے ہیں؛ ان میں سے بعض یہ ہیں:

  • انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلامائمہؑ کی بعض صفات کی حامل ہونا: حضرت فاطمہ زہراء(س) کی عصمت ثابت ہونے کی صورت میں آپ(س) کے لیے انبیاء اور ائمہ معصومینؑ کی بعض صفات حاصل ہیں جیسے آپ کے قول و فعل اور تقریر کا حجت ہونا اور دین کی تفسیر و تبیین کی صلاحیت کی حامل ہونا وغیرہ[5]
  • حق و باطل کے مابین تمیز کا معیار قرار پانا: عصمت حضرت فاطمہ زہراء(س) اس بات کی باعث بنتی ہے کہ آپ(س) کی عملی سیرت اور مختلف معاملات میں آپ(س) کا موقف حق و باطل کے درمیان فرق کا معیار قرار پاتا ہے۔ جیسے غصب خلافت اور فدک کے معاملے میں آپ(س) کا اعتراض اور احتجاج حق و باطل کے درمیان تمیز کا معیار ہے۔[6]
  • اسوہ قرار پانا: عصمت حضرت زہرا(س) ثابت ہونے کا لازمہ نتیجہ یہ ہے کہ آپ(س) انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں اسول کامل کی حیثیت رکھتی ہیں؛ چنانچہ بعض قرآنی آیات[7] میں پیغمبران کے بارے میں اس مطلب کی صراحت بیان ہوئی ہے۔[8]

حضرت فاطمہ (س) کی عصمت کا ذکر تفسیر کی کتابوں اور قرآن مجید کی بعض آیات کے تحت کیا گیا ہے اور وہیں سے وہ کلامی منابع و ماخذ اور اصول فقہ میں داخل ہوا ہے۔[9] کہا گیا ہے کہ حضرت فاطمہ(س) کی عصمت کے تذکرے کی تاریخ رسول خداؐ کے زمانے، آپؐ کے بعض فرامین اور قرآن کی بعض آیات سے جا ملتی ہے، قرآنی آیات میں سے آیت مباہلہ اور آیت تطہیر میں عصمت حضرت زہراء کا تذکرہ ملتا ہے۔[10] حضرت فاطمہ(س) کی عصمت کے بارے میں پہلی تاریخی گزارشات بھی پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد کے زمانے اور غصب فدک کے واقعہ کی طرف لوٹتی ہیں، جس میں امام علیؑ نے[11]آیت تطہیر سے استناد کرتے ہوئے حضرت زہرا کی عصمت بیان کی ہے۔[12]

اثبات عصمت حضرت فاطمہ(س) کے لیے آیہ تطہیر سے استناد

تفصیلی مضمون: آیہ تطہیر
شیعہ علما عصمت فاطمہ(س) ثابت کرنے کے لیے آیت تطہیر سے استناد کرتے ہیں۔[13] شیعہ[14] اور اہل سنت منابع حدیثی میں منقول روایات[15] کے مطابق یہ آیت اصحاب کِساء کے شان میں نازل ہوئی ہے اس لیے آیت میں اہل بیتؑ سے مراد پنجتن آل عبا یعنی پیغمبر خداؐ امام علیؑ، حضرت زہرا(س)، امام حسن مجتبیؑ اور امام حسینؑ ہیں۔[16] بعض روایات کی بنیاد پر روزانہ نماز صبح کے وقت اور بعض دیگر احادیث کی بنیاد پر ہر نماز کے وقت پیغمبر خداؐ حضرت زہراء(س) کے دولت سرا پر تشریف لاتے تھے، ان کو سلام کر کے فرماتے تھے:اے اہل‌ بیتؑ نماز نماز! پھر آیت تطہیر کی تلاوت کرتے تھے۔[17] فخر رازی آیت تطہیر کے شان نزول اور اصحاب کساء کے تعارف کے سلسلے میں منقول روایت کو علمائے حدیث اور مفسرین کے درمیان مورد اتفاق سمجھتے ہیں۔[18] اس آیت میں اہل بیتؑ سے رجس سے دور رکھنے کے سلسلے میں ارادہ الہی کا ذکر ہوا ہے اور اہل بیتؑ کو رجس و پلیدگی سے پاک رکھنے کو عصمت کہتے ہیں۔[19]

پیغمبر خداؐ نے ایک روایت میں فرمایا: جن کے بارے میں آیت تطہیر نازل ہوئی ہیں وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان کے مصداق میں، علیؑ و فاطمہ(س) اور حسنؑ و حسینؑ ہیں[20] حضرت علیؑ نے واقعہ فدک کےسلسلے میں آیت تطہیر سے استناد کرتے ہوئے حضرت فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کو معصوم عن الخطا ثابت کیا ہے۔[21] کہا جاتا ہے کہ آیت مباہلہ بھی عصمت فاطمہ(س) پر دلالت کرتی ہے۔[22]

حدیث بضعہ سے اثبات عصمت حضرت فاطمہ

تفصیلی مضمون: حدیث بضعہ
عصمت حضرت زہراء(س) پر منجملہ دلائل میں سے ایک حدیث بَضْعَہ ہے۔[23] حدیث بضعہ کو علامہ مجلسی نے متواتر سمجھتے ہیں۔[24] اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے فاطمہ(س) کو اذیت و تکلیف پہنچائی اس نے گویا رسول خداؐ کو تکلیف پہنچائی۔ بنابر ایں، اگر حضرت زہرا(س) کسی گناہ کا مرتکب ہوتی تو بطور مطلق اور ہر صورت میں اس کو اذیت پہنچانا رسول خدا کو اذیت پہنچانے کا مترادف قرار نہ پاتا۔ کیونکہ مثلا بالفرض اگر کوئی شخص حضرت زہراء(س) کو کسی گناہ سے منع کرتا اور وہ ناراض ہوتی، تو یہ ناراضگی ایک بے جا ناراضگی تھی اسی لیے حضرت زہراء کی اس نوعیت کی ناراضگی پیغمبر خداؐ کی ناراضگی کا باعث نہ بنتی۔[25] اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی رضایت صرف عمل صالح کو شامل ہوتی ہے اور نافرمانی پر اللہ راضی نہیں ہوتا؛ اگر حضرت زہرا(س) کسی گناہ کا مرتکب ہوتی تو ایسی چیز پرراضی ہوتی جس پر اللہ ناراض ہوتا ہے۔[26] اس حدیث سے بعض علما نے گناہ سے معصوم ہونا ثابت کیا ہے جبکہ دیگر بعض علما جیسے آیت‌ اللہ وحید خراسانی نے اس حدیث سے حضرت زہراء(س) کی عصمت مطلق (گناه اور خطا دونوں سے معصوم) ثابت کی ہے۔[27]

حدیث بضعہ اہل‌ سنت کے منابع حدیثی میں بھی نقل ہوئی ہے جیسے صحیح بخاری[28] اور صحیح مسلم[29][30] بعض روایات میں فاطمہ(س) کی رضایت یا ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی رضایت یا ناراضگی قرار دی گئی ہے۔[31]

حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ سے اثبات عصمت فاطمہ

وہ احادیث جن سے عصمتِ اہل‌ بیتؑ ثابت ہوتی ہے جیسے حدیث ثقلین او رحدیث سفینہ ان سے عصمت فاطمہ(س) بھی ثابت ہوتی ہے۔[32] کیونکہ حضرت فاطمہ(س) بطور مسلم اہل‌ بیتؑ میں سے شمار ہوتی ہیں۔[33] علامہ مجلسی کے مطابق جو احادیث اہل بیت اطہارؑ سے متمسک رہنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں جیسے حدیث ثقلین اور حدیث سفینہ؛ وہ احادیث عصمت حضرت فاطمہ(س) پر بھی دلالت کرتی ہیں؛ کیونکہ وجوب تمسک صرف چوده معصومینؑ کی نسبت ثابت ہے۔ جو شخص کسی گناہ کا مرتکب ہوجائے تو نہ صرف اس سے متسمک رہنا اور اس کی پیروی کرنا واجب نہیں ہے بلکہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کی رو سے اس کو گناہ سے منع کرنا واجب ہے۔[34]

ایک روایت میں آیا ہے کہ جب حضرت محمدؐ معراج پر ئے تو نور فاطمہ اور نور ائمہ معصومینؑ کو دیکھا اور اللہ سے سوال کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ آواز آئی: یہ علیؑ، فاطمہ(س)، حسنؑ، حسینؑ اور ذریت حسینؑ ہیں جو پاک و معصوم ذوات ہیں۔[35]

عصمت فاطمہ اہل سنت کی نظر میں

بعض اہل سنت علما اور مفسرین قرآن جیسے شہاب‌ الدین آلوسی(متوفیٰ: 1270ھ) اس آیت:"وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ؛"ترجمہ:"اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم! بے شک اللہ نے تمہیں منتخب کر لیا ہے اور تمہیں پاک و پاکیزہ بنایا ہے۔ اور تمہیں تمام جہانوں کی عورتوں سے برگزیدہ بنا دیا ہے۔"کی رو سے[36] حضرت مریم کو گناہ اور آلودگیوں سے پاک سمجھتے ہیں۔[37]

شیعہ عالم دین حسن حسن زادہ آملی (متوفیٰ: 1400شمسی) کے مطابق چھٹی صدی ہجری کے مفسر اہل سنت فخر رازی کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ وہ ہر چیز میں شک کرتے تھے یہاں تک زیادہ شک کرنے کی وجہ سے انہیں "امام المُشَکِّکین" کا لقب ملاہے، اس کے باوجود عصمت حضرت زہرا(س) میں اسے کوئی شک و تردید نہیں۔[38]

حوالہ جات

  1. ملاحظہ کیجیے: مفید، الفصول المختاره، 1413ھ، ص88؛ سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ھ، ج4، ص95؛ ابن‌ شهرآشوب، مناقب آل‌ابی‌ طالب، 1379ھ، ج3، ص332؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص335۔
  2. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص69۔
  3. مفید، الفصول المختاره، 1413ھ، ص88۔
  4. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص335۔
  5. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص72۔
  6. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص72۔
  7. ملاحظہ کیجیے: سوره احزاب، آیه 21؛ سوره ممتحنه، آیه 4۔
  8. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص72۔
  9. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص72۔
  10. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص71۔
  11. ملاحظہ کیجیے: صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص191و192۔
  12. کافی و شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، ص71۔
  13. ملاحظہ کیجیے: سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ھ، ج4، ص95؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص335۔
  14. ملاحظہ کیجیے: کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص287؛ بحرانی، غایة المرام، 1422ھ، ج3، ص193-211۔
  15. ملاحظہ کیجیے: مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاءالتراث العربی، ج4، ص1883، ح61؛ ترمذی، سنن تزمذی، 1395ھ، ج5، ص351، ح3205 و ص352، ح3206 و ص663، ح3787؛ ابن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، 1421ھ، ج28، ص195، ج44، ص118-121۔
  16. بحرانی، غایة المرام، 1422ھ، ج3، ص193؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص311؛ سبحانی، منشور جاوید، 1383شمسی، ج4، ص387-392۔
  17. ملاحظہ کیجیے: کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص338و339؛ طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج16، ص318 و 319؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج22، ص402۔
  18. فخر رازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج8، ص247۔
  19. فاریاب، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیه، 1390شمسی، ص335 و 336۔
  20. کوفی، تفسیر فرات الکوفی، 1410ھ، ص339 و 340۔
  21. ملاحظہ کیجیے: صدوق، علل الشرایع، 1385شمسی، ج1، ص191و192۔
  22. ملاحظہ کیجیے:‌ انصاری زنجانی، موسوعة الکبری، نشر دلیلنا، ج21، ص132؛ «آیات مباهله،‌ تطهیر و روایات، عصمت حضرت فاطمه(س) را ثابت می‌کند»، خبرگزاری شبستان۔
  23. ملاحظہ کیجیے: سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ھ، ج4، ص95؛ ابن‌شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1379ھ، ج3، ص333؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص335۔
  24. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص335۔
  25. سید مرتضی، الشافی فی الامامة، 1410ھ، ج4، ص95؛ ابن‌ شهر آشوب، مناقب آل ابی‌ طالب، 1379ھ، ج3، ص333؛ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص337 و338۔
  26. سبحانی، پژوهشی در شناخت و عصمت امام، 1389شمسی، ص27۔
  27. ملاحظہ کیجیے: روحی برندق، «قلمرو عصمت فاطمه زهرا(س) در حدیث فاطمه بضعة منی»، ص83-85۔
  28. بخاری، صحیح البخاری، 1422ھ، ج5، ص21 و 29۔
  29. مسلم نیشابوری، صحیح مسلم، دار احیاء التراث العربی، ج4، 1902 و 1903۔
  30. ملاحظہ کیجیے: مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص336 و 337؛ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج22، ص404 و 405۔
  31. ملاحظہ کیجیے: صدوق، عیون اخبار الرضا(ع)، 1378ھ، ج2، ص46 و 47؛ مفید، الامالی، 1413ھ، ص95؛‌ طبرانی، المعجم الکبیر، 1415ھ، ج1، ص108 و ج22، ص401؛ ابن‌مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی‌ طالب، دار الاضواء، 284 و 285۔
  32. سبحانی، پژوهشی در شناخت و عصمت امام، 1389شمسی، ص27؛ محقق، عصمت از دیدگاه شیعه و اهل تسنن، 1391شمسی، ص256۔
  33. محقق، عصمت از دیدگاه شیعه و اهل تسنن، 1391شمسی، ص256۔
  34. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج29، ص340۔
  35. خزاز رازی، کفایة‌ الاثر، 1401ھ، ص185 و186۔
  36. سوره آل عمران، آیه 42۔
  37. ملاحظہ کیجیے: آلوسی، روح المعانی، 1415ھ، ج2، ص149-150؛ مظهری، تفسیر المظهری، 1412ھ، ج2، قسم1، ص47 و 48۔
  38. حسن‌زاده آملی، هزار و یک نکته، 1365شمسی، ص603، نکته 748۔

مآخذ

  • آلوسی، محمود بن عبدالله، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی‏، تحقیق علی عبدالباری عطیه، بیروت، دار الکتب العلمیة، منشورات محمد علی بیضون‏، 1415ھ۔
  • «آیات مباهله،‌ تطهیر و روایات، عصمت حضرت فاطمه(س) را ثابت می‌کند»، خبرگزاری شبستان، تاریخ درج مطلب: 19 اسفند 1396شمسی، تاریخ بازدید: 11 شهریور 1400ہجری شمسی۔
  • ابن حنبل، احمد بن محمد بن حنبل، مسند الامام احمد بن حنبل، تحقیق شعیب الأرنؤوط، عادل مرشد و دیگران، بیروت، مؤسسه الرسالة، چاپ اول، 1421ھ۔
  • ابن‌ شهرآشوب، محمد بن علی، مناقب آل ابی‌ طالب(ع)، قم، علامه، چاپ اول، 1379ھ۔
  • ابن‌ مغازلی، مناقب الامام علی بن ابی‌ طالب، دار الاضواء، بی‌تا۔
  • ‌انصاری زنجانی، اسماعیل، موسوعة الکبری عن فاطمة الزهراء(ع)، قم، نشر دلیلنا، بی‌ت۔
  • بحرانی، سید هاشم، غایة المرام و حجة الخصام فی تعیین الامام، تحقیق سید علی عاشور، بیروت، مؤسسه تاریخ اسلامی، چاپ اول، 1422ھ۔
  • بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح البخاری، تحقیق محمد زهیر بن ناصر الناصر، بیروت، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ھ۔
  • ترمذی، محمد بن عیسی، سنن تزمذی، تحقیق و تعلیق احمد محمد شاکر، محمد فؤاد عبدالباقی و ابراهیم عطوه، مصر، شرکة مکتبة و مطبعة مصطفی البابی الحلبی، چاپ دوم، 1395ھ-1975ء۔
  • حسن‌زاده آملی، حسن، هزار و یک نکته، تهران، رجاء، چاپ پنجم، 1365ہجری شمسی۔
  • خزاز رازی، علی بن محمد، کفایةالاثر فی النص علی الائمة الاثنی عشر، تحقیق عبداللطیف حسنی کوهکمری، قم، بیدار، 1401ھ۔
  • روحی برندھ، کاوس، «قلمرو عصمت فاطمه زهرا(س) در حدیث فاطمه بضعة منی»، فصلنامه پژوهش‌های اعتقادی کلامی، شماره 22، تابستان 1395ہجری شمسی۔
  • سبحانی، جعفر، پژوهشی در شناخت و عصمت امام، مشهد، بنیاد پژوهش‌های اسلامی، 1389ہجری شمسی۔
  • سید مرتضی، علی بن حسین، الشافی فی الامامة، تهران، مؤسسه الصادق(ع)، چاپ دوم، 1410ھ۔
  • صدوق، محمد بن علی، علل الشرایع، قم، کتاب‌فروشی داوری، چاپ اول، 1385ہجری شمسی۔
  • صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا(ع)، تحقیق مهدی لاجوردی، تهران، نشر جهان، چاپ اول، 1378ھ۔
  • طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسه الاعلمی، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرانی، سلیمان بن احمد، المعجم الکبیر، تحقیق حمدی بن عبد المجید السلفی، قاهره، مکتبة ابن تیمیة، چاپ دوم، 1415ھ۔
  • فاریاب، محمد حسین، عصمت امام در تاریخ تفکر امامیه تا پایان قرن پنجم هجری، قم، مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی، چاپ اول، 1390ہجری شمسی۔
  • فخر رازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • کافی، عبدالحسین و جواد شفیعیان، «عصمت فاطمه(س)»، در دانشنامه فاطمی (ج2)، تهران، پژوهشگاه فرهنگ و اندیشه اسلامی، چاپ اول، 1393ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تحقیق علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تهران، دار الکتب الاسلامیه، چاپ چهارم، 1407ھ۔
  • کوفی، فرات بن ابراهیم، تفسیر فرات الکوفی، تحقیق و تصحیح محمد کاظم، تهران، وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامی، چاپ اول، 1410ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار(ع)، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • محقق، فاطمه، عصمت از دیدگاه شیعه و اهل تسنن، تحقیق و بررسی خلیل بخشی‌ زاده، قم، آشیانه مهر، چاپ اول، 1391ہجری شمسی۔
  • مسلم نیشابوری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، تحقیق محمد فؤاد عبد الباقی، بیروت، دار احی اء التراث العربی، بی‌تا۔
  • مظهری، محمد ثناء الله، تفسیر المظهری، پاکستان-کویته، مکتبة رشدیه، چاپ اول، 1412ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الامالی، تحقیق حسین استادولی و علی‌ اکبر غفاری، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، 1413ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الفصول المختاره، قم،‌ کنگره جهانی شیخ مفید، چاپ اول، ‌1413ھ۔