محمد تقی مصباح یزدی

ویکی شیعہ سے
(آیت اللہ مصباح یزدی سے رجوع مکرر)
محمد تقی مصباح یزدی
کوائف
تاریخ ولادتسنہ 1934ء
آبائی شہریزد
رہائشقم
تاریخ وفات1 جنوری سنہ 2021ء
علمی معلومات
اساتذہآیت‌اللہ بروجردیامام خمینیعلامہ طباطباییآیت‌اللہ اراکیآیت‌اللہ بہجت
تالیفاتآموزش فلسفہ • اخلاق در قرآن • انسان‌ شناسی در قرآن • آذرخشی دیگر از آسمان کربلا • نظریہ سیاسی اسلام
خدمات
سیاسیمجلس خبرگان رہبری کے دوسرے، تیسرے اور چوتھے دور کے رکن
ویب سائٹhttp://www.mesbahyazdi.ir


محمد تقی مصباح یزدی (1934ء-2021ء)، مجتہد، فلسفی، مفسر قرآن اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ میں سے تھے۔ امام خمینی تعلیمی و تحقیقاتی ادارہ (موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی) کے سرپرست، مجلس خبرگان رہبری (ایران کی سپریم کونسل جو سپریم لیڈر کا انتخاب کرتی ہے)، شورائے عالی انقلاب فرہنگی (تہذیبی انقلاب کی شورائے عالی) اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم (حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ کی مجلس) کے رکن تھے جبکہ مجمع جہانی اہل بیت (اہل بیت عالمی اسمبلی) کی شورائے عالی کی سرپرستی بھی آپ کے مناصب میں شمار ہوتی ہے۔

مصباح یزدی دین کی مختلف قرائتوں کے مخالف تھے اور دین کی تفسیر میں علما کی مرجعیت کے قائل تھے۔ آپ ایران میں نظریہ ولایت فقیہ کے مدافع اور صاحب نظر بھی تھے۔

مصباح یزدی نے تفسیر، فلسفہ، اخلاق اور معارف اسلامی جیسے علوم انسانی کے موضوعات پر متعدد آثار بھی تدوین کئے ہیں۔ ان کتابوں میں سے «آموزش فلسفہ» اور «آموزش عقاید» نامی کتابیں حوزہ اور جامعات کے نصاب تعلیم میں شامل ہیں۔ ان کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ «معارف قرآن»، «اخلاق در قرآن» و «نظریہ سیاسی اسلام» اور «نظریہ حقوقی اسلام» ان آثار میں سے ہیں۔

محمد تقی مصباح یزدی یکم جنوری سنہ 2021ء کو بیماری کی وجہ سے تہران میں وفات پائے اور 4 جنوری کو قم میں تشییع جنازہ کے بعد حرم حضرت معصومہؑ میں دفن ہوئے۔

زندگی‌ نامہ اور تعلیم

آیت ‌اللہ محمد تقی مصباح یزدی (سنہ 1935ء) کو ایران کے شہر یزد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد (سنہ 1947ء) کو دینی تعلیم کے حصول کی غرض سے یزد کے مدرسہ علمیہ شفیعیہ میں داخل ہوئے اور حوزے کی ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی۔[1] آپ نے حوزہ کے رسمی دروس کے ساتھ ساتھ فزکس (طبیعیات)، کیمسٹری (کیمیا)، فیزیالوجی (فعلیات) جیسے علوم اور فرانسوی زبان کو بھی محقق رشتی نامی ایک عالم سے پڑھتے رہے۔[2]

مصباح یزدی نے اپنی تعلیم کو جاری رکھنے کے لئے سنہ 1952ء کو اہل خانہ کے ساتھ نجف کا رخ کیا؛ لیکن گھریلو معاشی حالات کے سبب چھ ماہ کے قلیل عرصے میں یزد واپس لوٹ آئے۔[3] اس کے بعد قم رخ کیا اور مکاسب‌، کفایہ اور شرح منظومہ کے دروس میں شرکت کی۔[4]

آپ نے آٹھ سال تک کا عرصہ آیت اللہ بروجردی اور امام خمینی کے فقہ اور اصول فقہ کے دروس میں شرکت کی۔ جبکہ اسی زمانے میں آیت اللہ اراکی سے دو سال اور آیت اللہ بہجت سے پندرہ سال تک کسب فیض کیا۔[5] آپ نے تفسیر اور فلسفہ کے علاوہ اسفار ملاصدرا و شفا ابن سینا بھی آپ نے علامہ محمد حسین طباطبائی کے پاس پڑھا۔ اخلاق اور عرفان میں آپ نے علامہ طباطبائی، آیت الله بهجت اور محمدجواد انصاری ہمدانی کی شاگردی اختیار کی۔[6] جبکہ محمد علی‌ نحوی، عبدالحسین‌ عجمین‌، سیدعلی رضا مدرّسی‌، میرزا محمد انواری‌، مرتضی حائری اور شیخ‌ عبدالجواد جبل‌ عاملی‌ آپ کے دیگر اساتذہ ہیں۔[7]

آیت‌ اللہ محمد تقی‌ مصباح‌ یزدی اپنی تعلیم کے دوران، محمدحسین‌ بہجتی‌ اردکانی‌، علی‌ بہجتی‌، علی‌ پہلوانی‌، میرزا حسن‌ نوری اور علی‌اکبر مسعودی‌ خمینی کے دوست اور کلاس فیلو رہے۔[8]

کہا جاتا ہے کہ آپ 27 سال کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔[9]

تدریس‌

آیت‌اللہ مصباح یزدی نے تفسیر اور اخلاقی‌ و تربیتی‌ مباحث کو‌ مدرسہ علمیہ‌ حقانی‌ سے شروع کیا اور اسی مدرسہ میں سید محمد باقر صدر کی کتاب فلسفتنا و اقتصادنا کا درس دیتے تھے۔ اس کے بعد کے برسوں میں در راہ حق، باقرالعلوم اور امام‌ خمینی جیسے اداروں میں اسفار اربعہ اور شفا کی تدریس کرتے رہے۔[10]

شاگرد

آیت ‌اللہ مصباح یزدی نے دوران طالب علمی سے ہی تدریس شروع کردی تھی جو اب تک جاری و ساری ہے۔ آپ کے بعض شاگردوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

  • غلام رضا فیاضی
  • محمود رجبی
  • مرتضی آقا تہرانی
  • عباس علی شاملی
  • سیداحمد رہنمایی
  • محسن‌ غرویان
  • اکبر میر سپاہ
  • سید محمد غروی
  • محمد علی شمالی[11]

سماجی اور سیاسی سرگرمیاں

انقلاب اسلامی ایران سے پہلے مصباح یزدی کی فعالیتیں دو موقعوں پر زیادہ دیکھی گئیں ایک تو تقریبا (سنہ 1964ء) سے (سنہ 1966ء) کے درمیان اور دوسرے تقریبا (سنہ 1978ء) سے (سنہ 1979ء) کے درمیان۔ ان فعالیتوں میں سے کچھ اس طرح ہیں:

  • گیارہ رکنی کمیٹی کی رکنیت۔ سنہ 1964ء کے وسط میں حوزہ علمیہ قم کے کچھ علماء و مدرسین نے سیاسی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لئے گیارہ لوگوں کی ایک مخفی کمیٹی بنائی۔ اصلاح حوزہ کے عنوان سے اس کمیٹی کے ارکان کی یہ کوشش رہی کہ حکومت پہلوی کے مقابلے لئے ایک مرکزی محور تشکیل پا جائے۔[13]
  • انقلاب اسلامی سے پہلے حکومت پہلوی کے خلاف لکھے جانے والے سیاسی بیانیوں اور خطوط پر مصباح یزدی نے دستخط کیا ہے۔ مثلا 30 ستمبر سنہ 1963ء کو امام خمینی کی گرفتاری پر اعتراض میں سرکاری کابینہ کو لکھا گیا حوزہ علمیہ قم کے فضلاء و مدرسین کا خط۔ دوسرا خط تقریبا فروری یا مارچ سنہ 1965ء کو یزد کے فضلاء کی جانب سے وزیر اعظم ہویدا کے نام لکھا گیا خط ہے جو امام خمینی کی ترکی جلاوطنی کے اعتراض میں لکھا گیا۔ مزید 5 اپریل سنہ 1978ء کو یزد کے قتل عام کے خلاف جاری شدہ بیانیہ، نومبر یا دسمبر سنہ 1978ء کو فرانس کے صدر کے نام امام خمینی کی حمایت میں حوزہ علمیہ قم کے اساتید کی طرف سے لکھا ہوا خط انہی خطوط میں شمار ہوتے ہیں۔[14]

انقلاب کے بعد کے عہدے

ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد آپ مختلف مناصب پر فائز ہوئے جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

  • جامعات کے نصاب کو اسلامی کرنے کے لئے حوزہ و یونیورسٹی معاونتی مرکز میں فعالیت؛[حوالہ درکار]
  • جبہہ پائیداری نامی پارٹی کی تشکیل دینے کا مشورہ: سنہ 2011ء سے مصباح یزدی کے کچھ شاگرد اور چاہنے والوں کے ذریعے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دی گئی۔ انھوں نے مصباح یزدی کو اس پارٹی کے فقہاء کی کونسل کے رکن کے عنوان سے پیش کیا، آپ نے اس پارٹی کے آئین کی تائید کی۔[18] اور ان کو مشورہ دیتے تھے لیکن اس کی رکنیت قبول نہیں کی۔[19]
  • آیت‌اللہ مصباح سنہ 1997ء میں تہران کی نماز جمعہ میں خطبہ سے پہلے تقریر کرتے تھے۔ آپ کی یہ تقریریں بعد میں " نظریہ سیاسی اسلام" کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہوئیں۔[20]

علمی خدمات

  • سنہ 1967ء میں مصباح یزدی، آیت اللہ بہشتی کی دعوت پر مدرسہ علمیہ حقانی گئے اور وہاں کے کچھ انتظامی امور کو سنبھالا لیکن بعد میں صرف تفسیر، فلسفہ و فقہ کی تدریس پر اکتفا رکھا۔[21] سنہ 1974ء کے بعد علی شریعتی کے حمایتیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان اختلافات میں شدت آگئی۔ آیت اللہ مصباح اور کچھ طلاب شریعتی کے مخالف تھے۔ وہ لوگ اسلام کے بارے میں شریعتی کے خیالات کو انحراف سمجھتے تھے۔ اس اختلاف کی وجہ سے مدرسہ کے مدیر شہید قدوسی نے کچھ حمایتیوں اور مخالفین کو مدرسہ سے نکال دیا اور آیت اللہ مصباح نے بھی مدرسہ چھوڑ دیا۔[22]
  • مؤسسہ در راہ حق میں شعبہ تعلیم فعال ہونے پر مصباح یزدی کو تعاون کے لئے دعوت دی گئی۔ یہ ادارہ دینی شبہات کا جواب دینے کے لئے تشکیل پایا تھا اور موسسہ در راہ حق کی تعلیمی فعالیت کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تعلیمی سلسلے بھی وسیع ہوتے رہے۔[23] اور "بنیاد فرہنگی باقر العلوم" کی تاسیس تک پہنچے جو مصباح یزدی کے زیر انتظام رہا۔[24]
  • مختلف علوم انسانی کے شعبوں میں تعلیمات اسلامی کے وضاحت اور ان سے استفادہ اور معارف اسلامی و علوم انسانی میں محققین کی تربیت کی غرض سے سنہ 1995ء میں موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ ادارہ مصباح یزدی کی حیات میں انہی کی نگرانی میں چلتا رہا ہے۔[25]
  • سنہ 1996ء کی گرمیوں سے مصباح یزدی کی نگرانی اور سازمان بسیج مستضعفان کے تعاون سے "طرح ولایت" کا آغاز ہوا۔ اس منصوبہ کا مقصد یہ تھا کہ اساتید اور طلبہ کو اسلامی افکار کے مبانی سے آشنا کرایا جائے۔ ان تعلیمی سلسلوں کا نصاب، مصباح یزدی اور ان کے شاگردوں کے افکار پر مشتمل ہے۔[26]

گفتگو و مناظرہ

آیت‌الله مصباح یزدی، عبدالکریم سروش، احسان طبری و فرخ نگہدار کے مناظرے کی تصویر

سنہ 1981ء میں مارکس ازم کے گروپوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچنے کے موقع پر آیت‌اللہ مصباح یزدی نے احسان طبری، فرخ نگہدار اور عبد الکریم سروش کے ساتھ ایک مناظرے میں شرکت کی۔ اس مناظرے میں مصباح یزدی اور سروش نے مل کر مارکس ازم کے نظریات کا جواب دیا۔ یہ گفتگو اسلامی جمہوریہ ایران کے ٹیلیویژن سے نشر ہوئی۔ آیت اللہ یزدی نے اس نظریہ کے جواب و تنقید کا سلسلہ جاری رکھا اور آپ کی 6 جلدی کتاب «پاسداری از سنگرہای ایدئولوژیک» اسی نظریہ مارکس ازم کے جواب پر مشتمل ہے۔ اس کی پہلی جلد سنہ 1981ء میں چھپی اور دوسری پانچ جلدیں بعد میں شائع ہوئیں۔[28] مصباح یزدی، 23 مئی سنہ 1997ء (صدارتی انتخابات میں سید محمد خاتمی کی کامیابی) کے بعد ایک بار پھر ٹیلیویژن کے مناظرے میں حاضر ہوئے اور حجتی کرمانی کے ساتھ گفتگو میں شرکت کی۔ اس مناظرے کا موضوع اس وقت کی حکومت (سید محمد خاتمی) کی ثقافتی پالیسیاں تھیں اور مصباح یزدی چونکہ حکومت کی پالیسیوں کے حامی نہیں تھے لہذا وہ حکومت کے نقاد کے طور پر گفتگو میں شامل ہوئے۔[29]

افکار و نظریات

دینی افکار کے مختلف شعبوں میں آیت‌اللہ مصباح یزدی کی متعدد تالیفات ہیں۔ انھوں نے اپنے آثار میں اپنے فکری نظام کو بیان کیا ہے۔ دین کی حد اکثری تفسیر، مغربی تہذیب سے بیگانگی، دین کی متعدد تفسیروں کی درستگی کی مخالفت، دین شناسی میں علماء کی مرکزیت اور ولایت مطلقہ فقیہ کا دفاع، آپ کے نظریات نہیں سے ہیں۔

دین کی حد اکثری تفسیر

آیت‌ اللہ مصباح یزدی کے نظریہ کے مطابق، دین ایسا جامع مجموعہ ہے جس میں انسان کی دنیا و آخرت سنوارنے کے تمام احکام موجود ہیں اور دین نے انسان کی زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی نظر میں دین کسی بھی چیز کی قدر و قیمت کو معین کرتا ہے یعنی اس کی قدر و قیمت کا تعین اور زندگی کی سعادت کے لئے اس سے استفادہ کرنے کی کیفیت کو معین کرنا دین کا فرض ہے۔ ہاں کسی بھی چیز کی پیدائش کی کیفیت کو علم معین کرتا ہے۔[30]

اسلامی اور مغربی تہذیبوں میں تعارض

مصباح یزدی، کفر والحاد کے عنوان سے مغربی تہذیب کے ساتھ تعاون یا اسے قبول کرنے کو مسترد کرتے ہیں۔اگرچہ موڈرن ٹکنالوجی سے استفادہ کرنے کی ضرورت کو قبول رکھتے ہیں۔ ان کی نظر میں ہیومن ازم، سیکولر ازم اور لیبرل ازم تین عناصر ہیں جن پر کفر و الحاد کی تہذیبی بنیاد ہے اور اس کے مقابل میں خدا محوری، دین پذیری، ولایت فقیہ اور اطاعت الہٰی کے دائرے میں انسان کی فعالیت کا قانونی طور سے محدود ہونا تفکر اسلامی کی حقیقی بنیاد ہیں۔ یہ دونوں تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل میں ہیں: پہلی تہذیب، انسان کو ہر طرح کی حد پار کر جانے کی آزادی کی طرف دعوت دیتی ہے یہاں تک کہ اطاعت الہٰی سے بھی آزادی۔ اور دوسری تہذیب ہم کو اللہ کی اطاعت محض کی دعوت دیتی ہے۔[31]

دین کی متعدد تفسیروں کی مخالفت

مصباح یزدی کی نظر میں دین کی مختلف تفسیریں قابل قبول نہیں ہیں اور دینی احکام و دینی امور واضح ہیں اور ان کو سمجھنے کے لئے علمی تفسیر اور توجہات کی ضرورت نہیں ہے۔[یادداشت 1][32]

دین شناسی میں علماء کی مرجعیت

آیت‌اللہ مصباح اس بات کے مخالف ہیں کہ باہر کے دانشوران، دین کے بارے میں نظریہ کاری میں مشغول ہوں اور وہ صرف علماء کی نظر کو معتبر اور ماہرانہ مانتے ہیں۔ [یادداشت 2][33]

ولایت فقیہ

آیت‌اللہ مصباح، ولایت مطلقہ فقیہ کے قائل ہیں اور اس نظریہ کے بنیادی حامیوں میں سے ہیں[34] آپ کی نظر میں حکومت اسلامی کی صرف ایک شکل ہوسکتی ہے اور وہ ہے ولایت فقیہ۔ اور فقیہ کی حکومت اسلامی تمام وہ اختیارات رکھتی ہے جو معصوم کو حاصل ہوتے ہیں۔[حوالہ درکار] انھوں نے ولی فقیہ کی حاکمیت اور مشروعیت کو اللہ تعالی اور امام زمانہ کی طرف سے سمجھتا ہے اور انہی کی طرف سے انکو منصوب جانتا ہے اور جبکہ عوام اور مجلس خبرگان کی حیثیت صرف کشف اور شناسائی کی ہے لیکن اسلامی حکومت کی تاسیس اور ولایت فقیہ عوام کے ماننے پر مبتنی ہے۔ اور فقیہ کو زبردستی اسلامی حکومت تشکیل دینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔[35] اس فکر کے پیش نظر صرف وہی قانون معتبر ہے جو اللہ اور دین سے ماخوذ ہے اور ولی فقیہ چونکہ اللہ کی طرف سے منسوب ہے اس لئے ایران کا آئین کی مشروعیت بھی ولی فقیہ کی تائید سے حاصل ہوگی۔[36]

آثار

تفسیر قرآن، فلسفہ اسلامی، عقائد و کلام، اخلاق اور اندیشہ سیاسی اسلام کے عنوان سے آیت اللہ مصباح یزدی کے آثار ہیں۔ [37] آپ کی ذاتی سائٹ میں آپ کے سو سے زیادہ آثار کی فہرست دی ہے اور ان میں سے بہت سی کتابوں کے متن تک بھی رسائی فراہم کی ہے۔[38] آپ کے آثار میں مندرجہ ذیل کتابوں کو شمار کیا جاسکتا ہے:

  • معارف قرآن: اس 9 جلدی کتاب میں آپ نے قرآن کی تفسیر موضوعی بیان کی ہے اور خدا شناسی، انسان شناسی، جہان شناسی، راہ رہنما شناسی، قرآن شناسی، اخلاق، سماج، تاریخ، اور قانون و سیاست کی بحثیں کی ہیں۔ اس کتاب کا کچھ حصہ اردو اور انگلش میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔[39]
  • آموزش فلسفہ: یہ کتاب مصباح یزدی کے دروس کا مجموعہ ہے جو ان کے کچھ شاگردوں کی محنت سے تدوین و تالیف پایا ہے اور پھر آپ کے قلم سے مکمل ہوا ہے۔ یہ کتاب بعض حوزہ اور یونیورسٹی کے مراکز میں نصاب کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ معرفت شناسی، وجود شناسی، خدا شناسی اس کتاب کے تین اہم حصے ہیں۔ یہ کتاب انگلش، عربی اور اس کے کچھ حصے روسی اور بوسینیائی زبان میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔[40]
  • آموزش عقائد: یہ کتاب، کلام اسلامی کے بارے میں آپ کے دروس ہیں جو کہ بعد میں خود آپ کے قلم سے تحریر ہوکر منتشر ہوچکے ہیں یہ کتاب کے کلام کے موضوع میں حوزہ ہائے علمیہ کا نصاب درسی ہے اور کئی زبانوں مثلا انگلش، عربی، اسپانیولی، روسی اور ہندی میں ترجمہ ہوچکی ہے۔[41]


نقد و بررسی مکاتب اخلاقی، رابطہ علم و دین، نظریہ سیاسی اسلام، نظریہ حقوقی اسلام، شرح بر اسفار ملاصدرا، شرح الہیات و برہان شفا و شرح نهایۃالحکمۃ، آپ کی بعض دیگر تالیفات ہیں۔[42]

وفات

آیت اللہ مصباح کی نماز جنازہ میں آیت اللہ خامنہ ای کی امامت

محمد تقی مصباح یزدی یکم جنوری سنہ 2021ء کو بیماری کی وجہ سے تہران میں وفات پائے۔[43] آپ کی وفات پر حوزہ علمیہ ایران کے تمام مدارس میں دو جنوری کو چھٹی ہوئی۔[44]‌ آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے ایک تعزیتی پیام میں آپ کو فقیہ، حکیم مجاہد، عظیم متفکر، لائق مدیر، حق کے اظہار میں صدائے گویا اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے والے جیسی صفات سے توصیف کیا اور دینی نظریات کی پرورش، ممتاز شاگردوں کی تربیت جیسے مختلف شعبوں میں آپ کی خدمات کو کم نظیر قرار دیا۔ نیز آیت اللہ مصباح کی وفات کو انہوں نے حوزہ علمیہ اور حوزہ معارف اسلامی کے لئے ایک بڑا ضائعہ قرار دیا۔[45]

آیت اللہ خامنہ ای نے دو جنوری کو اپنے دفتر میں نماز میت پڑھی۔[46]آپ کا جنازہ دو جنوری کو شہر ری میں حرم شاہ عبدالعظیم حسنی کے حرم میں تشییع ہوا اور محمد محمدی ری‌شہری نے نماز جنازہ پڑھائی۔[47] آیت اللہ مصباح یزدی کا جنازہ وہاں سے مشہد لے جایا گیا اور حرم امام رضاؑ کا طواف کرایا گیا۔[48] مصباح یزدی 4 جنوری کو قم میں تشییع جنازہ کے بعد حرم حضرت معصومہؑ میں دفن ہوئے۔ جہاں قم کے مراجع تقلید میں سے آیت‌اللہ نوری ہمدانی نے ان کے جنازے پر نماز پڑھی۔[49]

حوالہ جات

  1. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص42۔
  2. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387، ص54۔
  3. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص42۔
  4. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387، ص42 و 43.
  5. «ابعاد علمی»، پایگاه اطلاع‌رسانی آثار آیت‌الله مصباح یزدی.
  6. «ابعاد علمی»، پایگاه اطلاع‌رسانی آثار آیت‌الله مصباح یزدی.
  7. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص42 و 43۔
  8. آشنایی با استاد، زندگی نامہ، ابعاد علمی، دوستان دورہ تحصیل، سایت اطلاع‌رسانی آثار آیت‌االلہ مصباح یزدی، رجوع کی تاریخ 2/12/2020ء۔
  9. «شرح حال»، پایگاه اطلاع‌رسانی آثار آیت‌الله مصباح یزدی.
  10. آشنایی با استاد، زندگینامہ، ابعاد علمی، تدریس، سایت اطلاع‌رسانی آثار آیت‌اللہ مصباح یزدی، رجوع کی تاریخ 2/12/2020ء۔
  11. آشنایی با استاد، سایت اطلاع رسانی آثار آیت‌اللہ مصباح یزدی، رجوع کی تاریخ 2/12/2020ء۔
  12. عربی، اندیشہ ماندگار، ص159۔
  13. عربی، اندیشہ ماندگار، ص161۔
  14. جعفربگلو، سوابق علامہ مصباح‌ یزدی در مبارزہ با رژیم پہلوی، سایت مرکز اسناد انقلاب اسلامی، رجوع کی تاریخ 2/12/2020ء
  15. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص198۔
  16. آشنایی با مجمع جہانی اہلبیت، سایت مجمع جہانی اہلبیت، رجوع کی تاریخ26/10/2017ء۔
  17. اعضای جامعہ مدرسین؛ سائٹ جامعہ مدرسین، رجوع کی تاریخ 26/10/2017ء ۔
  18. «گفتگوی مرتضی آقا تہرانی با خبرگزاری فارس»،
  19. گفتگوی آیت‌اللہ مصباح یزدی با ہفتہ‌نامہ 9دی، شمارہ 35، دی ماہ 1390ہجری شمسی۔
  20. معرفی کتاب نظریہ سیاسی اسلام، آیت‌اللہ مصباح یزدی کے آثار کی معلوماتی سائٹ، رجوع کی تاریخ 28/10/2017ء۔
  21. جعفریان، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران(1320-1357)، 1390، ص403۔
  22. جعفریان، جریان‌ہا و سازمانہای مذہبی-سیاسی ایران(1320-1357)،1390، ص405و 406
  23. عربی، اندیشہ ماندگار، 1381، ص152۔
  24. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص189۔
  25. عربی، اندیشہ ماندگار، 1381ہجری شمسی، ص154۔
  26. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص189۔
  27. «آغاز دورہ جدید درس اخلاق آیت اللہ مصباح»، پایگاہ اطلاع‌رسانی آثار آیت‌اللہ مصباح یزدی۔
  28. آثار نوشتاری، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ، تاریخ رجوع30/10/2017ء۔
  29. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387، ص452۔
  30. مصباح یزدی، علم دینی، سال 1391ہجری شمسی۔
  31. مصباح یزدی، نظریہ سیاسی اسلام، 1386، ج1، ص174-178۔
  32. مصباح یزدی، کاوش‌ہا و چالش‌ہا، 1382، ج1، ص99۔
  33. مصباح یزدی، نظریہ سیاسی اسلام، 1386ہجری شمسی، ج2، ص278۔
  34. برزگر و دیگران، «تحلیل متاتئوریک ریشہ‌ہای نظریہ مشروعیت حکومت اسلامی در اندیشہ سیاسی آیت‌اللہ مصباح یزدی»، ص20۔
  35. مصباح یزدی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، 1382ہجری شمسی، ص69 و 70۔
  36. مصباح یزدی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، 1382ہجری شمسی، ص117 و 118۔
  37. صنعتی، گفتمان مصباح، 1387ہجری شمسی، ص925۔
  38. «راہنمای سیر مطالعاتی آثار آیت اللہ مصباح يزدی»، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ
  39. «معارف قرآن(1)، خداشناسی»، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ
  40. «آموزش فلسفہ»، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ
  41. «آموزش عقاید»، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ
  42. «آثار نوشتاری»، پایگاه اطلاع‌رسانی آثار آیت‌الله مصباح یزدی.
  43. «آیت‌اللہ مصباح یزدی دار فانی را وداع گفت»، خبرگزاری فارس.
  44. تعطیلی حوزہ ‌ہای علمیہ بہ مناسبت رحلت آیت اللہ مصباح یزدی، خبرگزاری حوزہ.
  45. پیام تسلیت آیت‌اللہ خامنہ‌ای در پی درگذشت آیت‌اللہ محمدتقی مصباح یزدی، پایگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای.
  46. اقامہ نماز رہبر انقلاب بر پیکر آیت‌اللہ مصباح یزدی، پایگاہ اطلاع‌رسانی آیت‌اللہ خامنہ‌ای.
  47. آیین تشییع آیت‌اللہ مصباح‌یزدی در حرم حضرت عبدالعظیم(ع) برگزار شد، خبرگزاری ایرنا.
  48. طواف پیکر آیت‌اللہ مصباح یزدی در حرم مطہر رضوی، خبرگزاری مہر.
  49. پیکر آیت‌اللہ مصباح یزدی در حرم حضرت معصومہ(س) آرام گرفت، خبرگزاری ایرنا۔

نوٹ

  1. مصباح یزدی کی نظر میں قرآن کی آیات اور روایتوں کو وہ شخص یقینا سمجھ سکتا ہے جو عربی زبان اور اس کی ادبیات سے واقف ہو۔ اور دینی امور کو سمجھنے کے لحاظ سے ان کی درجہ بندی کرنا ایک الحادی خیال ہے۔ دینی یقینیات کا دائرہ، کافی وسیع ہے اور انھیں کی بنیاد پر عمل کرنا چاہئے۔
  2. مصباح یزدی، دین کی سمجھ، تحقیق اور اس کے استنباط میں علماء کو صاحب تقوی اور ہوا و ہوس نیز ماحول کی مرعوبیت سے پاک مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک اس زمانے میں ایسے نمونہ لوگ وہ ہیں جنھوں نے پچاس سال سے زیادہ آیت‌اللہ بروجردی، امام خمینی اور علامہ طباطبائی جیسے لوگوں کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے

مآخذ

  • آشنائی با استاد، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ، رجوع کی تاریخ 1396/7/24ہجری شمسی۔
  • برزگر، ابراہیم، و اکبر تقوی شوازی، فریبرز محرمخانی، «تحلیل متاتئوریک ریشہ‌ہای نظریہ مشروعیت حکومت اسلامی در اندیشہ سیاسی آیت‌اللہ مصباح یزدی»، 1393ہجری شمسی، مجلہ پژوہش‌ہای سیاسی اسلامی، شمارہ 6۔
  • جعفریان، رسول، جریان‌ہا و سازمان‌ہای مذہبی-سیاسی ایران(1320-1357)، قم، نشر علم، 1390ہجری شمسی۔
  • جعفربگلو، محمد، سوابق علامہ مصباح‌یزدی در مبارزہ با رژیم پہلوی، سایت مرکز اسناد انقلاب اسلامی، رجوع کی تاریخ 96/7/29۔
  • سائٹ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، بخش اعضای جامعہ مدرسین، رجوع کی تاریخ 1396/8/4ہجری شمسی۔
  • «شورای فقہی در راس پایداری»، گفتگوی مرتضی آقاتہرانی با خبرگزاری فارس، تاریخ انتشار 1391/05/10ہجری شمسی، رجوع کی تاریخ 1396/8/8۔
  • صنعتی، رضا، گفتمان مصباح، قم، 1387ہجری شمسی۔
  • عربی، حسین علی، اندیشہ ماندگار (گذری بر زندگی و اندیشہ‌ہای حکیم فرزانہ حضرت آیت‌اللہ مصباح)، قم، 1381ہجری شمسی۔
  • «گفتگوی آیت‌اللہ مصباح یزدی با ہفتہ نامہ 9دی»، شمارہ 35، دی ماہ 1390ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، علم دینی، سال 1391ہجری شمسی، آیت‌اللہ مصباح یزدی کی سائٹ، رجوع کی تاریخ 1396/8/6ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، نظریہ سیاسی اسلام، قم، 1386ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، کاوش‌ہا و چالش‌ہا، قم، 1382ہجری شمسی۔
  • مصباح یزدی، محمدتقی، نگاہی گذرا بہ نظریہ ولایت فقیہ، قم، 1382ہجری شمسی۔