محمد تقی بہجت

ویکی شیعہ سے
(محمد تقی بہجت فومنی سے رجوع مکرر)
محمد تقی بہجت
کوائف
مکمل ناممحمد تقی بہجت
تاریخ ولادت1334 ھ،
تاریخ وفات1430 ھ،
مدفنحرم حضرت معصومہ (ع)، قم
اولادحجۃ الاسلام علی بہجت
علمی معلومات
اساتذہسید عبد الغفار مازندرانی نجفی، مرتضی طالقانی، سید ابوالحسن اصفہانی، آقا ضیاءالدین عراقی، محمد حسین غروی نائینی، محمد حسین غروی اصفہانی، محمد کاظم شیرازی، سید علی قاضی، سید حسین بادکوبہ ای، سید محمد حجت کوه کمره ای، آیت اللہ بروجردی۔
شاگردمرتضی مطہری، عبد الله جوادی آملی، محمد محمدی گیلانی، محمد یزدی، احمد آذری قمی، محمد تقی مصباح یزدی، عباس محفوظی گیلانی، سید مہدی روحانی۔
تالیفاترسالہ توضیح المسائل، مناسک حج، وسیلة النجاة حاشیہ بر وسیلة النجاة آیت الله سید ابوالحسن اصفہانی، و ...
خدمات


محمد تقی بہجت (1334۔1430ھ)، حوزہ علمیہ قم کے مراجع تقلید میں سے تھے۔ ایران میں ان کی زیادہ شہرت ان کے عرفان، زہد اور تقوی کی وجہ سے تھی۔ آیت اللہ بہجت کی نماز جماعت، ان کے عرفانی احوال، نماز میں گریہ، عوام میں مشہور تھا۔ شہر قم میں ان کی وفات ہوئی اور حرم حضرت معصومہؑ میں مدفون ہوئے۔

سوانح حیات

محمد تقی بہجت 1334 ھ (یا 1332 ھ) میں فومن کے ایک مذہبی خانوادہ میں پیدا ہوئے۔ بعد میں جس گھر میں ان کی پیدائش ہوئی تھی اس کو انہوں نے ایک دینی مدرسہ میں تبدیل کر دیا۔ 16 ماہ کی عمر ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو ان کے والد نے ان کی تربیت کی۔ ان کے والد محمود کربلائی فومن کے علاقہ کے مخصوص بسکٹ بنانے کے ذریعہ کسب معاش کرتے تھے۔[1]

عراق کی طرف ہجرت

آیت اللہ بہجت کی جوانی کی تصویر

ٓآیت اللہ بہجت نے فومن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1348 ھ میں اعلی حوزوی تعلیم کے لئے عراق کے حوزات علمیہ کا سفر کیا اور ابتداء میں انہوں نے شہر کربلا میں سکونت اختیار کی۔[2] کربلا میں 4 سال قیام کرنے کے بعد وہ نجف چلے گئے اور حوزہ کے دروس سطح کے اختتامی دروس کو وہاں کے علماء خاص طور پر آیت اللہ حاج شیخ مرتضی طالقانی سے کسب کیا۔ اس کے بعد حوزہ علمیہ کے فقہ و اصول کے دروس خارج اور اخلاق و عرفان کے لئے حوزہ علمیہ نجف کے اساتید سے استفادہ کیا۔[3]

ایران واپسی

نجف کے اساتید سے اجتہاد کی سند حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اپنے اہل خانہ سے ملاقات کے لئے 1363ھ میں ایران کا سفر کیا اور چند ماہ فومن میں قیام کیا۔ اس کے بعد حضرت معصومہ(س) کی زیارت اور حوزہ علمیہ قم کے احوال کے با خبر ہونے کے کئے قم کا قصد کیا اور چند ماہ وہاں قیام کیا۔ اس عرصہ میں انہیں نجف میں اپنے اساتید کے انتقال کی خبریں ملنے کے بعد انہوں نے قم میں رہائش کا فیصلہ کیا۔[4]

آیت اللہ محمد تقی بہجت فومنی کا 27۔2۔1388 ش میں بروز اتوار بوقت عصر عارضہ قلبی کے سبب قم کے حضرت ولی عصر (عج) ہاسپیٹل میں انتقال ہوا اور انہیں حرم حضرت معصومہ (ع) میں سپرد لحد کیا گیا۔[5]

علمی کارنامے

حوزہ علمیہ نجف کے اساتید

  • سید عبد الغفار مازندرانی نجفی
  • مرتضی طالقانی
  • سید ابو الحسن اصفہانی
  • آقا ضیاءالدّین عراقی
  • میرزا محمّد حسین نائینی
  • محمّد حسین غروی اصفہانی
  • محمّد کاظم شیرازی
  • سید علی آقای قاضی
  • سید حسین بادکوبہ ای۔[6]

حوزہ علمیہ قم کے اساتید

تدریس

حرم معصومہ میں آیت اللہ بہجت کا مقبرہ

تدریس اور تربیت شاگرد کے سلسلہ میں آیت اللہ بہجت ایک خاص روش کے حامل تھے۔ علی اکبر مسعودی خمینی ان کی روش تدریس کے بارے میں کہتے ہیں: ان کے درس کہنے کی ایک مخصوص روش تھی۔ وہ دوسرے اساتید اور بزرگان کے بر خلاف علماء کے اقوال نقل کرکے ان کی تائید یا تنقید اور ان کا انتخاب نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے درس میں اقوال نقل نہیں کرتے تھے بلکہ پہلے وہ مسئلہ پیش کرتے تھے، اس کے بعد اس کے سلسلہ میں استدلال بیان کرتے تھے۔ اگر شاگردوں نے علماء و بزرگان کے آراء و نظریات کو دیکھا ہے، مطالعہ کیا ہے تو وہ سمجھ جاتے تھے کہ جس دلیل کو استاد نے پیش کیا ہے وہ کس کی دلیل ہے اور وہ جو اشکال یا تائید کرتے تھے اس سے وہ سمجھ جاتے تھے کہ استاد نے کس کے قول پر تنقید اور کس کے قول کی تائید کی ہے۔ لہذا جو بھی ان کے درس میں شرکت کرنا چاہتا تھا اس کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ بزرگ علماء کے بنیادی اصولوں اور نظریات کا مطالعہ کرکے درس میں شرکت کرے۔[8]

شاگرد

  • مرتضی مطہری
  • عبد الله جوادی آملی
  • محمد محمدی گیلانی
  • محمد یزدی
  • احمد آذری قمی
  • محمد تقی مصباح یزدی
  • عباس محفوظی گیلانی
  • سید مہدی روحانی
  • علی پہلوانی تہرانی سعادت پرور
  • عزیز الله خوش وقت بادکوبہ ای
  • صادق احسان بخش
  • محمد علی فیض گیلانی
  • علی اکبر مسعودی خمینی
  • محمود امجد کرمان شاہی
  • محمد ہادی فقہی
  • مہدی ہادوی تہرانی

تالیفات

آیت اللہ بہجت کی فقہ و اصول کی تصانیف میں اکثر طبع نہیں ہوئی ہیں۔ وہ ان لوگوں کے جواب میں جو اپنے ذاتی مال سے ان کی ان کتابوں کو طبع کرنا چاہتے تھے، فرمایا کرتے تھے: ابھی بہت سے بزرگ علماء کی کتابیں مخطوطات کی شکل میں ہیں اور ابھی تک شائع نہیں ہوئی ہیں، آپ انہیں طبع کریں۔ ان کے شائع ہونے کے لئے ابھی بہت وقت ہے۔[9] انہوں نے اپنے علمی کاموں کی ابتداء اپنی جوانی کے زمانہ میں محدث قمی کے ساتھ کی اور ان کی کتاب سفینۃ البحار کی تالیف میں ان کی مدد کی۔ سفینۃ البحار کے خطی نسخہ کا زیادہ تر حصہ آیت اللہ بہجت کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔[10]

مطبوعہ تصانیف

غیر مطبوعہ تصانیف

  • حاشیہ بر کتاب الصلوة صاحب جواہر
  • حاشیہ بر کفایة الاصول
  • تعلیقہ بر مناسک حج شیخ انصاری
  • حاشیہ بر مکاسب
  • چند جلد اصول
  • حاشیہ بر شرایع الاسلام
  • تقریرات فقہی و اصولی دروس اساتید

اخلاقی و عرفانی خصوصیات

آیت اللہ بہجت

محمد تقی بہجت نوجوانی کے ایام سے ہی فقہ و اصول کے ساتھ عرفانی و اخلاقی مسائل پر توجہ دیتے تھے۔ ناب اور خالص عرفان سے ان کی مراد تقید و تعبد ہے۔ بعض حضرات جن میں علامہ طباطبایی، آیت‌ الله بهاءالدینی، شہید قدوسی، حسن زاده آملی، آیت‌ الله جوادی آملی و ۔۔۔ جیسے شامل ہیں، ان کی نماز جماعت میں خاص طور پر شب جمعہ میں پابندی سے شرکت کیا کرتے تھے۔ ان نمازوں میں وہ بلند آواز میں گریہ کرتے تھے۔

قم کے محلہ گزرخان میں مسجد فاطمہ کے قریب وہ ایک قدیم گھر میں رہائش پذیر تھے۔[11]

انہوں نے اپنی توضیح المسائل دیر سے شائع کی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ صبر کریں دوسرے علماء اپنی توضیح المسائل شائع کرا لیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی میری ہی تقلید کرنا چاہتا ہے تو آپ لوگ میری توضیح چھاپ سکتے ہیں۔ وہ روزانہ نماز صبح کی تعقیبات اور طلوع آفتاب کے حرم حضرت معصومہ (ع) کی زیارت کرتے تھے اور مسجد مطہری میں عبادت کرتے تھے۔[12]

دوسروں کی نگاہ میں

  • امام خمینی: جناب آقای بہجت نہایت ممتاز معنوی مقامات کے حامل ہیں۔ ان کے پاس اختیاری موت کی قوت ہے۔[13]
  • آیت اللہ سید رضا بہاء الدینی: اس وقت معنوی و روحانی اعتبار سے سب سے دنیا کے ثروت مند انسان آقای بہجت ہیں۔[15]
  • محمد تقی جعفری: اس روایت (علماء کی زیارت خدا کے نزدیک ستر مرتبہ خانہ خدا کے طواف سے بہتر ہے) کی طرف اشارہ کرنے کے بعد کہتے ہیں: علماء کے بارز مصداق آیت اللہ بہجت ہیں۔ محض ان کا دیدار اور ان سے ملاقات کرنا خود سراسر وعظ و نصیحت ہے۔ میں جب بھی ان سے ملاقات کرتا ہوں اس ملاقات کا اثر کئی دنوں تک میرے وجود میں باقی رہتا ہے۔[16]
  • آیت اللہ سید حسین بدلا: آقای بہجت کے معنوی و روحانی احوال اسی زمانہ سے جب ہم آیت اللہ بروجردی کے درس میں جاتے تھے، واضح تھے اور ہمیں معلوم تھا کہ وہ ان مقامات کی لیاقت رکھتے تھے۔[17]
  • شیخ محمد شریف رازی، کتاب گنجینہ دانشمندان کے مولف: آیت اللہ آقای حاج شیخ محمد تقی بہجت غروی فومنی، حوزہ علمیہ قم کے نامور مجتہد، مدرس اور دانش مند ہیں۔ یقینا وہ برجستہ عالم، لائق دانشور، پرہیز گار، اہل تقوی، پارسا، ریا کاری و بزم سے اعراض کرنے والے، دائم الذکر اور حوزہ علمیہ قم کے اساتذہ و علماء کے مورد توجہ ہیں۔[18]

اخلاقی دستور العمل

آیت اللہ بہجت کے عطا کردہ بہت سے اخلاقی دستور العمل اب بھی باقی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ تاکید انجام واجبات، ترک محرمات اور دینی و اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے پر ہوتی تھی۔

بعض دستور العمل اس طرح ذکر ہوئے ہیں:

جو لوگ موعظہ و نصیحت حاصل کرنا چاہتے ہیں، میں ان سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ کیا آپ نے آج تک ان نصیحتوں پر جو سنی ہیں، عمل کیا ہے یا نہیں؟ کیا آپ کو معلوم ہے جو اپنے علم پر عمل کرتا ہے اللہ اسے مجہولات کا علم عطا کرتا ہے؟ کیا اللہ کی طرف دعوت ضروری ہے کہ زبان کے ذریعہ ہو؟ کیا ارشاد نہیں ہوا ہے کہ تم اپنے کردار کے ذریعہ حق کی طرف دعوت دو؟ کیا تعلیم کی راہ و روش کی تعلیم دینی چاہئے یا اس کی تعلیم حاصل کرنی چاہے؟[19]

... کبھی ہم التماس دعا کہتے ہیں کیوں؟ لوگ اپنا درد بیان کرتے ہیں ہم ان کے لئے نسخہ تجویز کرتے ہیں تو ہو بجای شکریہ اور اس پر عمل کرنے کے کہتے ہیں دعا کیجئے۔ عجیب ہے ہم ان کے کیا کہتے ہیں اور وہ ہم سے کیا طلب کرتے ہیں۔ دعا کی شرط کو عدم دعا سے مخلوط کر دیتے ہیں۔ ایسا کہہ دینے سے ہمارے اوپر سے شرعی ذمہ داریاں ختم نہیں ہو جاتی ہیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے اعمال سے نتیجہ حاصل کریں اور ممکن نہیں ہے کہ عمل کا کوئی نتیجہ نہ ہو اور عمل کئے بغیر کوئی نتیجہ حاصل ہو جائے۔[20]

اگر سلاطین عالم جان جاتے کہ انسان کو نماز کی حالت میں کیا لذت ملتی ہے تو وہ کبھی ان مادی مسائل کی طرف نہ جاتے۔[21]

سیاسی نظریات

عصر غیبت میں اسلامی حکومت

آیت اللہ بہجت سیاست کو ایجابی و مثبت انداز سے دیکھتے تھے۔ زمانہ غیبت میں حکومت کے سلسلہ میں ان کا ماننا تھا کہ اسلامی حکومت تشکیل دینا واجب ہے اور ہم میں ملک کو چلانے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ عصر غیبت میں حکومت اسلامی قائم کرنے کے سلسلہ میں ان کی تاکید، دستورات الہی کے مکمل اجرا ہونے اور اس مصلحت اندیشی سے دوری تھی جس کے نتیجہ میں احکام الہی پر عمل نہیں ہوتا، کے ساتھ مشروط تھی۔ وہ ان لوگوں کے برخلاف جن کا ماننا ہے کہ وہ ائمہ (ع) کی سیاسی و سماجی ذمہ داریوں کو امام (ع) کے ظہور تک ایسے ہی چھوڑ دینا چاہئے، عصر غیبت میں شیعوں کی سیاسی زندگی کے قائل تھے۔ لہذا اس کے لئے فرد یا گروہ مومنین پر واجب ہے کہ وہ اس کے تحقق کے لئے قیام کریں۔ ان کا یہ دعوی اس فرضیہ پر مبنی تھا کہ عقلی و نقلی دلیل سے ثابت ہے کہ دین اسلام تا قیام قیامت باقی رہنا چاہئے اور جو اس کے علاوہ کسی اور دین کو طلب کرے گا وہ دین اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔[22]

بہجت اور ایران کا اسلامی انقلاب

اگرچہ انقلاب اسلامی کے سلسلہ میں موجود اسناد و مدارک میں ان کی کسی کاوش کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے۔ لیکن انہوں نے ہمیشہ انقلاب کی تائید اور ان علماء پر جو اس سے منسلک تھے بہت تاثیر گذار رہے۔ انہوں نے چالیس کی دہائی کے شروع میں بارہا تاکید کی کہ پہلوی دین کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ایک روز ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا ہے کہ آیت اللہ خمینی شاہ کے مقابلہ میں سخت رویہ اختیار کر رہے ہیں؟ تو آپ نے اس کے جواب میں کہا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ان کا رویہ تند نہیں بہت کند ہے؟ محمد ہادی فقہی کہتے ہیں: جب امام خمینی کو جلا وطن کیا گیا تو انہوں نے اپنے درس میں کہا کیا کوئی نہیں ہے جو حکومت کے عہدہ داروں کو قتل کر سکے؟ اس کے علاوہ ان کے اور امام خمینی کے درمیان دوستانہ مراسم تھے۔ جس کے سبب وہ ہمیشہ انہیں انقلاب کا خیر خواہ سمجھتے تھے اور ان کے لئے دعائے خیر کیا کرتے تھے۔[23]

ان کے سلسلہ میں فارسی کتب

  • فریاد گر توحید؛ تہیہ و تنظیم موسس ه‌تحقیقاتی‌ فرہنگی‌اہل‌ بیت (ع)
  • برگی از دفتر عارفان شرح حال شیخ ‌السالکین حضرت آیت اللّه العظمی بہجت؛ تألیف رضا باقی زاده
  • در محضر بہجت؛ تألیف محمد حسین رخشاد
  • بہجت عارفان؛ تألیف رضا باقی زاده

حوالہ جات

  1. زندگی نامہ آیت الله بہجت در سایت مرکز تنظیم و نشر آثار آیت الله العظمی بہجت
  2. برگی از دفتر آفتاب، رضا باقی‌ زاده، ص22.
  3. ر. ک: گنجینہ دانشمندان، محمّد شریف رازی، ج 2، ص90 آثار الحجہ، ج 2 ص65.
  4. زندگی نامہ تفصیلی آیت الله العظمی بہجت
  5. آیت الله بہجت کی موت کے سبب کا اعلان کیا گیا۔
  6. برگی از دفتر آفتاب، ص52. و مجلہ قبسات، سال دوم، شماره دوم، تابستان
  7. جزوه گذری و نظری بر زندگانی آیةالله بہجت، ص3 و 6.
  8. علی اکبر مسعودی خمینی، برگی از دفتر آفتاب، ص 54.
  9. زندگی نامہ آیت الله بہجت در سایت تبیان
  10. روزنامہ اطلاعات، 17 دی، 1373 ش.
  11. نک: ہفته نامہ کتاب قم، مقالہ «فقہ در بستر عرفان» میثم مہاجر، دی 1383 ش.
  12. برگی از دفتر آفتاب، ص68.
  13. ہفته نامہ کتاب قم، فقہ در بستر عرفان، ص4.
  14. ہفته نامہ کتاب قم، فقہ در بستر عرفان، ص4.
  15. ہفته نامہ کتاب قم، فقه در بستر عرفان، ص4.
  16. ہفته نامہ کتاب قم، فقہ در بستر عرفان، ص4.
  17. برگی از دفتر آفتاب، ص120.
  18. گنجینہ دانشمندان، ج 6 ص117.
  19. بہ سوی محبوب، ص39.
  20. ہفته نامه قم، دی سال 1383 ش.
  21. خانہ خوبان، ش42، ص25
  22. فراتی، عبد الوہاب، آیت الله بہجت و زندگی سیاسی در عصر غیبت، مجلہ علوم سیاسی، شماره 45.
  23. فراتی، عبد الوہاب، آیت الله بہجت و زندگی سیاسی در عصر غیبت، مجلہ علوم سیاسی، شماره 45.

مآخذ

  • آثار الحجة محمّد شریف رازی، ج2، ص65۔
  • گنجینہ دانشمندان، محمّد شریف زاری،ج2ص90۔
  • دانشوران و دولت مردان گیل و دیلم، ص 104، صادق احسان بخش۔
  • مجلہ قبسات، سال دوم، ش2، تابستان 76 ہجری شمسی۔
  • برگی از دفتر آفتاب، رضا باقی‌ زاده۔
  • در آسمان معرفت، علاّمہ حسن زاده آملی۔
  • خاطرات صادق، صادق احسان بخش۔
  • در محضر بہجت عارفان، رضا باقی‌ زاده۔
  • انوار ملکوت علاّمہ سید محمّد حسین حسینی تہرانی۔
  • فقہ در بستر عرفان، ہفتہ نامہ کتاب قم۔
  • فریادگر توحید۔
  • در محضر بزرگان، محسن غرویان۔
  • بہ سوی محبوب، سید مہدی ساعی۔
  • روزنامہ اطلاعات، 17 دی سال 1373ہجری شمسی۔
  • روزنامہ کیہان، 17 اسفند سال 1382 ہجری شمسی۔
  • سفر عشق۔
  • 1200 نکتہ از آیت‌ الله بہجت۔
  • فیضی از ورای سکوت۔
  • فراتی، عبد الوہاب، آیت الله بہجت و زندگی سیاسی در عصر غیبت، مجلہ علوم سیاسی، شماره 45۔