چالیس کنجیوں والا پیالہ

ویکی شیعہ سے
چالیس کنجیوں والا پیالہ

چالیس کنجیوں والا پیالہ؛ یہ پیتل یا تانبے کا ایک ظرف ہے جس پر قرآن کی آیات، دعائیں اور کچھ اذکار کندہ ہیں۔ ان ظروف میں چالیس چابیاں یا دھات کے چالیس ٹکڑے ہوا کرتے تھے اور ان پر اذکار کندہ ہوتے تھے اسی وجہ سے اسے جام چہل کلید (چالیس کنجیوں والا پیالہ) کہتے تھے۔ ان میں سے کچھ کنجیوں پر بسم اللہ تحریر ہوتا ہے، اسی لیے یہ چالیس "بسم اللہ" والا پیالہ کے نام سے بھی مشہور ہے۔

عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ پیالہ بدنصیبی کو ختم کردیتا ہے۔ بعض خطّوں میں اس پیالے کو نظر بد سے محفوظ رہنے، نومولود بچوں کی حفاظت، عورتوں کے بانجھ پن کے علاج اور بد ارواح سے بچنے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ تاریخی لحاظ سے اس پیالے کا استعمال صفوی دور سے چلا آرہا ہے۔ ان میں سے بعض کے پیالوں درمیان میں پنجے کی علامت ہے جو حضرت عباسؑ کے پانی پلانے کی طرف اشارہ ہے۔

تعارف اور اہمیت

ماہر لسانیات دہخدا کا خیال ہے کہ چالیس کنجیوں والا پیالہ پیتل کا ایک ظرف ہے جس پر قرآن کی آیات اور انبیائے کرام کے اسماء کندہ ہیں۔[1] کتاب "تہران قدیم" میں آیا ہے کہ چالیس کنجیوں والے پیالے پر سورہ فتح کندہ ہے اور اسے تانبے سے بنایا گیا ہے۔ اس کے ارد گرد پیتل کے چالیس چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لٹکائے گئے ہیں جن میں سے ہر ایک پر "نصر من اللہ" اور "انا فتحنا" جیسے جملے کندہ ہیں۔[2] سوره فتح کے علاوہ آیۃالکُرسی، چہار قُل،فَاللّٰهُ خَیرٌ حافِظاً وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّاحِمینَ»،[3] «آیہ وَ اِنْ یکادُ…»، دعائے نادِ علیاً اور بعض دوسرے اذکار کندہ ہیں۔[4] کتاب"دایرة المعارف بزرگ اسلامی" کے مصنف کے مطابق اس طرح کے بعض پیالوں پر لوہے کا پنجہ لگا ہوتا ہے جو حضرت عباسؑ کے پانی پلانے کی طرف اشارہ ہے۔[5] یہ ظرف بعض اوقات تانبے کا بنا ہوتا ہے۔[6]

پیالے پر آویزاں دھات کے ٹکڑوں کو کنجی سے تشبیہ دی گئی ہے اس لیے اسے جام چہل کلید (یعنی چالیس کنجیوں والا پیالہ) بھی کہا جاتا ہے۔[7]چونکہ بعض پیالوں کی کنجیوں پر "بسم الله" کندہ ہوتا ہے اس لیے اسے "جام چہل بسم الله" (چالیس بسم الله والا پیالہ) بھی کہا جاتا ہے۔[8]

مآخذ کا جائزہ

دینی مآخذ میں اس پیالے کے بارے میں کوئی سند پائی نہیں جاتی، البتہ بعض منابع میں چالیس کنجیوں والے پیالے کو شہر مشہد کے تحفہ تحائف کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔[9] ان پیالوں کو حرم امام رضاؑ میں پانی پینے کے لیے رکھے جاتے تھے۔ حرم میں زیارت کے لیے آنے والے زائرین استعمال شدہ پیالوں کو بطور تبرک لے جاتے تھے اور ان کی جگہ نئے پیالے رکھے جاتے تھے۔[10] بعض مآخذ کے مطابق صفوی دور حکومت میں ان پیالوں کو بطور تبرک استعمال میں لائے جاتے تھے ان سے پہلے ایسی کوئی سند موجود نہیں جس کے مطابق کہا جائے کہ ان سے پہلے بھی ان پیالوں کو مقدس مانا جاتا تھا۔[11]

ثقافی حیثیت

علم لغت کے دانشور دہخدا کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کو نظر بد سے محفوظ رکھنے کے لیے چالیس کنجیوں والے ان پیالوں میں پانی بھر کر بچوں کے سر پر چھڑکتے تھے۔[12] کردی منطقوں میں بچوں کو بدنصیبی سے محفوظ رکھنے کے لیے ان پیالوں میں پانی پلائے جاتے تھے۔[13] شاہرود کے نواحی علاقوں میں بچوں کو بد ارواح سے محفوظ رکھنے کے لیے ان پیالوں کو استعمال کرتے تھے۔[14] کتاب "تہران قدیم" کے نقل کے مطابق مختلف مشکلات و مسائل کے حل کے لیے مخصوص پیالوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔[15] ان پیالوں میں سے ایک چالیس کنجیوں والا پیالہ ہے جسے وسعت رزق کے لیے مجرب سمجھا جاتا تھا۔ تاریخی نقل کے مطابق چالیس مرتبہ ان پیالوں سے سر پر پانی ڈالا جائے تو یہ وسعت رزق کا سبب بنتا ہے۔[16] کتاب "تہران قدیم" کے مطابق عورتوں کے بانجھ پن کے علاج اور نومولود بچوں کے چالیسواں دن کے رسم و رواج میں بھی ان پیالوں کو استعمال میں لایا جاتا تھا۔[17]

تاریخی حیثیت

چالیس کنجیوں والے پیالوں کی تاریخ سنہ 9،[18] 10 اور 11صدی ہجری میں ملتی ہے.[19]سب سے پرانا چالیس کنجیوں والے پیالے کا تعلق صفوی دور حکومت سے ہے جن پر سورہ فاتحہ، سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق، سورہ ناس، سورہ نصر، آیۃ الکرسی اور بعض دعائیں جیسے دعائے ناد علی اور ائمہ معصومین پر صلوات کندہ ہوتی تھی۔ اس دور میں یکم رمضان المبارک 1039ہجری کو ان پیالوں کی ساخت کا آغاز ہوا۔[20] صفوی دور سے تعلق رکھنے والے چالیس کنجیوں والے پیالوں پر نستعلیق رسم الخط اور خط ثلث رسم الخط کے ساتھ دعائیں لکھی جاتی تھیں اور ان میں نقش و نگار، اشعار اور بارہ برج شامل تھے۔[21]

حوالہ جات

  1. دهخدا، لغتنامه، ذیل جام چهل کلید.
  2. شهری باف، طهران قدیم، 1383ہجری شمسی، ج1، ص534.
  3. سوره یوسف، آیه64.
  4. محمدی، «جام چهل کلید»، 1367ہجری شمسی، ج12، ص68.
  5. محمدی، «جام چهل کلید»، 1367ہجری شمسی، ج12، ص68.
  6. شریعت زاده، فرهنگ مردم شاهرود، 1371ہجری شمسی، ج2، ص517.
  7. شریعت زاده، فرهنگ مردم شاهرود، 1371ہجری شمسی، ج2، ص517.
  8. محمدی، «جام چهل کلید»، 1367ہجری شمسی، ج12، ص68؛ نجفی، فرهنگ فارسی عامیانه، 1378ہجری شمسی، ذیل واژه چهل کلید.
  9. حاجی، «سوغات مشهدی با چهل کلید مشکل گشا»، 1391ہجری شمسی.
  10. حاجی، «سوغات مشهدی با چهل کلید مشکل گشا»، 1391ہجری شمسی.
  11. حاجی، «سوغات مشهدی با چهل کلید مشکل گشا»، 1391ہجری شمسی؛ «جام چهل کلید»، روزنامه قدس، 1385ہجری شمسی.
  12. دهخدا، لغتنامه، ذیل جام چهل‌کلید.
  13. شمس، فولکور مردم کرد، 1393ہجری شمسی، ص118.
  14. شریعت‌زاده، فرهنگ مردم شاهرود، 1371ہجری شمسی، ج2، ص255.
  15. شهری‌باف، طهران قدیم، 1383ہجری شمسی، ج4، ص517.
  16. شهری‌باف، طهران قدیم، 1383ہجری شمسی، ج4، ص518.
  17. کتیرایی، از خشت تا خشت، 1378ہجری شمسی، ص82–88.
  18. «رونمایی مجازی از صحیفه سجادیه»، خبرگزاری ایسنا، 1399ہجری شمسی.
  19. شریعت‌زاده، فرهنگ مردم شاهرود، 1371ہجری شمسی، ج2، ص79.
  20. «رونمایی مجازی از صحیفه سجادیه»، خبرگزاری ایسنا، 1399ش.
  21. شریعت‌زاده، فرهنگ مردم شاهرود، 1371ش، ج2، ص79.

مآخذ

  • «جام چهل‌کلید»، روزنامه قدس، 8 اسفند 1385ہجری شمسی، شماره 5509.
  • حاجی، غزاله، سوغات مشهدی با چهل‌کلید مشکل‌گشا»، شهرآرانیوز، 1391ہجری شمسی.
  • دهخدا، علی‌اکبر، و دیگران، لغت‌نامه، تهران، دانشگاه تهران، 1390–1385ہجری شمسی.
  • «رونمایی مجازی از «صحیفه سجادیه» صفوی‌ها در موزه ملی ایران»، خبرگزاری ایسنا، تاریخ درج مطلب: 11 فروردین 1399ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 13 خرداد 1402ہجری شمسی.
  • شریعت‌زاده، علی‌اصغر، فرهنگ مردم شاهرود، تهران، شریعت‌زاده، 1371ہجری شمسی.
  • شمس، اسماعیل، فولکور مردم کرد، قم، مجمع ذخائر اسلامی، 1393ہجری شمسی.
  • شهری‌باف، جعفر، طهران قدیم، تهران، معین، 1383ہجری شمسی.
  • کتیرایی، محمود، از خشت تا خشت، تهران، ثالث، 1378ہجری شمسی.
  • محمدی، پروانه، «جام چهل‌کلید»، دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، تهران، مرکز دایرةالمعارف بزرگ اسلامی، 1367ہجری شمسی.
  • نجفی، ابوالحسن، فرهنگ فارسی عامیانه، تهران، نیلوفر، 1387ہجری شمسی.