التماس دعا

ویکی شیعہ سے
دعا و مناجات

االتماس دعا کا مطلب دعائے خیر کی درخواست ہے[1] التماس دعا کی درخواست عام طور پر ان سے کی جاتی ہے جو مقدس مقام کی زیارت کو جاتے ہیں یا کوئی عبادت انجام دیتے ہیں[2] شیعہ فقہا روایات کی بنیاد پر[3] عیادت کرنے والے کی بیمار سے دعا کی التماس کو مستحب جانتے ہیں[4] اسی طرح شیعہ مآخذ کی ایک روایت کے مطابق کسی فقیر کی مدد کرنے کے بعد اس سےدعائے خیر کی درخواست کرنے کی تلقین ہوئی ہے کیونکہ فقیر کی دعا اس شخص کےحق میں قبول ہوتی ہے جس نے اس کی مدد کی ہو[5]

بعض شیعہ فقہا مستند روایات کےمطابق مومنین سے دعائے خیر کی درخواست کوبھی مستحب سمجھتے ہیں[6] انہی روایات میں سے ایک کے مطابق خدا نے حضرت موسیؑ کو تلقین کی اس زبان سے اسے پکاروجس سے گناہ نہ کیا ہو حضرت موسیؑ نے سوال کیا کہ کیسے کریں؟ جواب ملا: دوسروں کی زبان سے اپنے لئے دعا کرو۔[7] اگر کسی نے دعا کی درخواست کی ہے اس کو پورا کرنا واجب نہیں ہے[8] بعض فقہا سورہ یوسف کی آیت ۹۷ کی بنا پر التماس دعا کو خدا سے بخشش کی درخواست بھی سمجھتے ہیں[9] اس آیت کے مطابق حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے ان کو کنواں میں پھینکنے کی وجہ سے پشیمان ہونے کے بعداپنے والد حضرت یعقوب سے اپنے لئے مغفرت کی دعا کی درخواست کی[10]

شیعہ التماس دعا کے سلسلے مردوں اور زندوں میں فرق کے قائل نہیں ہیں وہ مردوں سے بھی دعا کی درخواست کو جائز سمجھتے ہیں[11] اس کے برعکس وہابی مرحومین سے دعا جیسے حضرت محمدؐ سے دعا کو ناجائز اوربدعت سمجھتے ہیں[12] وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مردے زندوں کی آواز کو نہیں سنتے[13] اوران کی دلیل یہ بھی ہے کسی صحابی نے یہ کام نہیں کیا[14] شیعہ علما کا ماننا ہے کہ مردے خدا کے حکم سے زندوں کی آواز کو سنتے ہیں[15] اور صحابہ رحلت پیغمبرؐ کے بعد ان سے دعائے خیر طلب کرتے تھے۔[16]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. دہخدا، لغت‌نامہ، التماس دعا کے ذیل میں۔
  2. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۹۰ش، ج۱، ص۵۲۸ و ۵۲۹۔
  3. کلینی،‌ الکافی، ۱۳۸۷ش، ج۵، ص۳۱۶۔
  4. بطور مثال دیکھیے: نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴، ص۵؛ نجفی، جواہر الکلام، ۱۳۶۲ش، ج۴، ص۵؛ علوی گرگانی، المناظر الناضرة، ۱۳۹۵ش، ج۶، ص۶۴۔
  5. حر عاملی، ہدایۃالامۃ، ۱۴۱۲ھ، ج۴، ص۱۲۳۔
  6. کاشف‌الغطاء، ہدی المتقین، ۱۴۲۳ھ، ص۸۵؛ صددی، مجموع الرسائل الفقہیہ، ۱۴۳۴ھ، ص۵۹۵۔
  7. ابن فہد حلی، عدة الداعی، ۱۴۰۷ھ، ص۱۳۱۔
  8. بطور مثال رجوع کیجیے: صددی، مجموع الرسائل الفقہیہ، ۱۴۳۴ھ، ج۱، ص۵۹۵۔
  9. صددی، مجموع الرسائل الفقہیہ، ۱۴۳۴ھ، ص۵۹۵۔
  10. سوره یوسف، آیه ۹۷۔
  11. بطور مثال رجوع کیجیے: کاشف‌الغطاء، منہج الرشاد، ۱۳۷۹ش، ص۴۶۔
  12. رجوع کیجیے: ابن عثیمین، فقہ العبادات للعثیمین، ۱۴۳۱ھ، ص۹۰؛ ابابطین، الرد علی البردة،‌ دار الآثار، ص۴۸۔
  13. بطورنمونہ رجوع کیجئے: ابن عثیمین، فقہ العبادات للعثیمین، ۱۴۳۱ھ، ص۹۰؛ ابابطین، الرد علی البردة،‌ دار الآثار، ص۴۸۔
  14. مثال کے لیے رجوع کیجیے: ابن عثیمین، مجموع فتاوی ورسائل محمد بن صالح العثیمین، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۳۳۹؛ زینو، مجموعہ رسائل التوجیهات الإسلامیہ، ۱۴۱۷ھ، ج۳، ص۷۵۔
  15. مثال کےطور پر رجوع کیجے : سبحانی، الوهابیپ، ٰ۱۴۲۶ھ، ص۳۰۵–۳۰۷؛ کاشف‌الغطاء، منہج الرشاد، ۱۳۷۹ش، ص۴۶ و ص۵۵۔
  16. بطور نمونہ دیکھیے: سبحانی، الوهابیہ، ۱۴۲۶ھ، ص۳۰۵–۳۰۷.

مآخذ

  • ابابطین، عبداللہ بن عبدالرحمن، الرد علی البردة، تحقیق ابوعبدالاعلی خالد محمد، ،‌ دار الآثار، چاپ اول، بے ‌تا۔
  • ابن عثیمین، محمد بن صالح، فقہ العبادات، اللجنۃ العلمیہ فی مؤسسۃ الشیخ محمد بن صالح العثمین الخیریہ، تاریخ انتشار در شاملہ: ۸ ذوالحجة ۱۴۳۱ھ۔
  • ابن عثیمین، محمد بن صالح، مجموع فتاوی ورسائل محمد بن صالح العثیمین، ترتیب: فهد بن ناصر السلیمان،‌دار الوطن،‌ دار الثریا، ۱۴۱۳ھ۔
  • ابن فہد حلی، احمد بن محمد، عدة الداعی و نجاح الساعی، تحقیق و تصحیح: احمد موحدی قمی،‌ دار الکتب الإسلامی، ۱۴۰۷ھ۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۹۰ش۔
  • حر عاملی، محمد بن حسن، هدایۃ الامہ الی احکام الائمہ(ع)، تحقیق قسم الحدیث فی مجمع البحوث الاسلامیہ، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۴۱۲ھ۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ، دانشگاه تہران، مؤسسہ انتشارات و چاپ، ۱۳۹۰ش۔
  • زینو، محمد بن جمیل، مجموعہ رسائل التوجیهات الإسلامیہ لإصلاح الفرد والمجتمع، ریاض،‌ دار الصمیعی للنشر والتوزیع، ۱۴۱۷ھ۔
  • سبحانی، جعفر، الوهابیہ بین المبانی الفکریۃ و النتائج العملیہ، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، ۱۴۲۶ھ۔
  • صددی، علی‌فاضل، مجموع الرسائل الفقہیہ، قم، طلاب البحرین فی الحوزة العلمیۃ بمدینۃ قم المقدسۃ، ۱۴۳۴ھ۔
  • علوی گرگانی، محمدعلی، المناظر الناضرة فی أحکام العترة الطاہرة (الطہارة)، قم، فقیہ اہل بیت(ع)، ۱۳۹۵ش۔
  • کاشف‌الغطاء، جعفر،

منہج الرشاد لمن آراد السداد نص الرسالۃ الجوابیہ التی بعث بہاآالشیخ جعفر کاشف الغطاآ الی الامیر عبدالعزیزبن سعود، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، ۱۳۷۹ش۔

  • کاشف‌الغطاء، ہادی، ہدی المتقین الی شریعۃ سید المرسلین، نجف، مؤسسۃ کاشف الغطاء، ۱۴۲۳ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، پیشکش: محمدحسین درایتی، قم، دارالحدیث، ۱۳۸۷ش۔
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تحقیق عباس قوچانی، بیروت،‌ دار احیاء التراث العربی، ۱۳۶۲ش۔