چار قل
چار قُل قرآن کی ان چار سورتوں کیلئے کہا جاتا ہے جو لفظ قل سے شروع ہوتی ہیں ان میں سورہ کافرون، سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس شامل ہیں۔ یہ سورتوں کو سُوَر قل یا ذات القلاقل کے نام سے بھی یاد کئے جاتے ہیں۔ پیغمبر اکرمؐ سے منقول ایک حدیث جو "ذات القلاقل" کے نام سے مشہور ہے، میں بلاؤوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہنے کیلئے مذکورہ چار سورتوں کی تلاوت کی سفارش ہوئی ہے۔
تعارف
چارقل قرآن کریم کی ان چار سورتوں کو کہا جاتا ہے جن کی ابتداء لفظ "قل" سے ہوتی ہے۔[1] ان سورتوں میں سورہ کافرون جو "قل یا ایہا الکافرون سے، سورہ اخلاص جس کی ابتداء قل ہو اللہ احد سے، سورہ فلق جو قل اعوذ برب الفلق سے اور سورہ ناس جس کی پہلی آیت قل اعوذ برب الناس سے شروع ہوتی ہے۔[2]
ان چار سورتوں کے دیکر اسامی میں "سُوَر قل"،[3] "قَلاقِل" اور "ذات القلاقِل"۔[4] شامل ہیں۔ سورہ جن کا آغاز بھی لفظ "قُل" سے ہوتا ہے،[5] لیکن اس کے باوجود "چار قل" میں شامل نہیں ہے۔[6]
فضائل اور خصوصیات
احادیث میں ان سورتوں کی تلاوت کے الگ کوئی فضیلت نقل نہیں ہوئی؛ اس کی باوجود بعض احادیث میں خطرات سے محفوظ رہنے کیلئے سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس کو سورہ حمد[7] یا آیۃ الکرسی[8] کے ساتھ پڑھنے کی سفارش ہوئی ہے؛ اسی طرح بعض احادیث میں چار قل کے سورہ نصر کے پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[9]
نماز شب اور ماہ رجب کی راتوں کی مستحب نمازوں میں چار قل پڑھنے کی تاکید ہوئی ہے۔[10] پیغمبر اکرمؐ سے منقول ہونے والی ایک حديث میں اولاد اور مال و دولت کے ساتھ بلاؤوں سے محفوظ رہنے کیلئے "ذات القلاقل" کی تلاوت کی تاکید ہوئی ہے۔[11]
تفسیر القلاقل
ابن سینا "تفسیر القلاقل" نامی تفسیر میں تفسیر چار قل میں سے تین سورتوں (یعنی سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس) کی تفسیر کی ہیں۔ اس کتاب کا احسان یارشاطر نے "تفسیر سورہ توحید، تفسیر سورہ فلق اور تفسیر سورہ ناس کے عنوان مسے پانچ رسالوں میں نشر کیا ہے[12] اور ساتویں صدی ہجری کے مفسر محمود بن محمد حسنی واعظ نے بلابل القلاقل نامی تفسیر میں فعل امر سے شروع ہونے والے آیات کی تفسیر کی ہیں۔[13]
حوالہ جات
- ↑ لسانی فشارکی، «چارقل»، ص۶۵۷۔
- ↑ حریری، فرہنگ اصطلاحات قرآنی، ۱۳۸۴ش، ص۱۱۸۔
- ↑ رامیار، تاریخ قرآن، ۱۳۶۲ش، ص۵۹۷۔
- ↑ لسانی فشارکی، «چارقل»، ص۶۵۷۔
- ↑ سورہ جن، آیہ۱۔
- ↑ لسانی فشارکی، «چارقل»، ص۶۵۷۔
- ↑ حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۳۷۰ش، ج۵، ص۷۰۵۔
- ↑ حویزی، تفسیر نور الثقلین، ۱۳۷۰ش، ج۵، ص۷۰۲۔
- ↑ طبرسی، مجمع البیان، ۱۴۰۶ق، ج۱۰، ص۸۳۹؛ ابوالفتوح رازی، روض الجنان و روح الجنان، ۱۳۷۱ش، ج۲۰، ص۴۳۳؛ سیوطی، تفسیر الدر المنثور، ۱۴۲۰ق، ج۸، ص۶۵۸۔
- ↑ خطیب شربینی، مغنی المحتاج، ۱۳۷۷ق، ج۱، ص۲۲۱؛ الدمیاطی الشافعی، إعانۃ الطالبین، ۱۴۱۸ق، ج۱، ص۲۹۰۔
- ↑ قطب الراوندی، سلوۃ الحزین، ۱۴۰۷ق، ص۸۵؛ آقابزرگ الطہرانی، الذريعۃ إلی تصانیف الشيعۃ، دار الأضواء، ج۶، ص۳۷۶۔
- ↑ ابن سینا، پنج رسالہ، ۱۳۸۳ش۔
- ↑ علوی مہر، المدخل إلی تاریخ التفسیر والمفسرین، ۱۴۳۵ق، ص۳۱۲-۳۱۴۔
مآخذ
- آقابزرگ الطہرانی، محمدمحسن، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء، بیتا۔
- ابن سینا، حسین بن عبداللہ، پنج رسالہ، تصحیح احسان یارشاطر، ہمدان، دانشگاہ بوعلی سینا، تہران، انجمن آثار و مفاخر فرہنگی، ۱۳۸۳ش۔
- ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، تحقیق محمدجعفر یاحقی و محمدمہدی ناصح، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۱ش۔
- الدمیاطی الشافعی، عثمان بن محمد شطا، إعانۃ الطالبین علی حل ألفاظ فتح المعین، بیروت، دار الفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م۔
- حریری، محمد یوسف، فرہنگ اصطلاحات قرآنی، جلد 1، ہجرت، قم، 1384ش ۔
- حسینی، مریم، «تصحیح ابیاتی از حدیقہ سنایی بر اساس قدیمی ترین نسخہ خطی»، در مجلہ علوم انسانی دانشگاہ الزہرا، ش۳۴ و ۳۵، تابستان و پاییز ۱۳۷۹ش۔
- حلاجزادہ، لیلا، «جلال و نثر شکستہ معاصر»، در کتاب ماہ ادبیات، ش۱۵۸، آذر ۱۳۸۹ش۔
- حویزی، عبدعلی بن جمعہ، تفسیر نور الثقلین، تحقیق ہاشم رسولی محلاتی، قم، ۱۳۷۰ش۔
- خطیب شربینی، محمد بن احمد، مغنی المحتاج الی معرفہ معانی الفاظ المنہاج، [قاہرہ]، ۱۳۷۷ق/۱۹۵۸م۔
- رامیار، محمود، تاریخ قرآن، تہران، امیرکبیر، ۱۳۶۲ش۔
- سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، تفسیر الدر المنثور فی التفسیر المأثور، ج۸، بیروت، دار الفکر، ۱۴۲۰ق/۲۰۰۰م۔
- طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تصحیح سید ہاشم رسولی محلاتی و فضل اللہ یزدی طباطبایی، ج۱۰، بیروت، دار المعرفۃ، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶م۔
- علوی مہر، حسین، المدخل إلی تاریخ التفسیر والمفسرین، قم، مرکز بین المللی ترجمہ و نشر المصطفی، ۱۴۳۵ق/۱۳۹۲ش۔
- قطب الراوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، سلوۃ الحزین و تحفۃ العلیل الشہیر بالدعوات، قم، دلیل ما، ۱۴۰۷ق۔
- لسانی فشارکی، محمدعلی، مدخل چار قل، دانشنامہ جہان اسلام، ج۱۱۔