غار حرا
| ابتدائی معلومات | |
|---|---|
| استعمال | زیارت گاہ |
| محل وقوع | مکہ مکرمہ، سعودی عرب |
| قدمت | پیغمبر اکرمؐ کی بعث سے پہلے |
| مشخصات | |
| معماری | |
غارِ حراء مسلمانوں کے نزدیک مقدس مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ بعثت سے پہلے یہ وہ جگہ تھی جہاں رسول اکرمؐ تنہائی اختیار کرکے عبادت کیا کرتے تھے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ کی رسالت کا آغاز ہوا۔
غار حرا مکہ کے شمال مشرق میں کوہ نور پر واقع ہے۔

اہمیت اور پس منظر
تاریخی اور حدیثی مآخذ کے مطابق، غارِ حراء میں پہلی مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت محمدؐ پر نازل ہوئے اور قرآن کی ابتدائی آیات (سورہ علق) آپؐ پر نازل کیں اور آپؐ کو رسالت کے منصب پر فائز کیا۔[1] روایات کے مطابق بعثت سے قبل خاص کر ماہ رمضان میں رسول اللہؐ عبادت کے لیے اس غار میں جایا کرتے تھے۔ ان دنوں میں حضرت علیؑ اور حضرت خدیجہ(سلام اللہ علیہا) آپ کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔[2]
تیسری صدی ہجری کے مورخ بلاذُری کے مطابق، قریش کے بعض موحد افراد بھی رمضان کے مہینے میں اس غار میں عبادت کرتے تھے[3] اور بعض لوگ حضرت عبد المطلب کو سنت تَحَنُّث کا بانی سمجھتے ہیں۔ تاہم علم تاریخ کے شیعہ محقق رسول جعفریان کا کہنا ہے کہ نبی اکرمؐ کا یہ عمل زیادہ تر انفرادی نوعیت کا تھا اور آپ سے پہلے یہ عمل اس طرح رائج نہ تھا۔[4] کہتے ہیں کہ رسول خداؐ کی غارِ حراء میں موجودگی تین خصوصیات پر مشتمل تھی؛ خلوت نشینی، عبادت اور کعبہ پر نظر ڈالنا۔[5]
سنہ 9 صدی ہجری کی تالیف شفاء الغرام نامی کتاب کے مولف کےمطابق بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ مدینہ کی طرف ہجرت کے وقت نبی اکرمؐ نے مشرکین کے شر سے بچنے کے لیے غارِ حراء میں پناہ لی تھی، لیکن شفاء الغرام کے مولف نے اس قول کو حیرت انگیز قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مشہور روایت کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے ہجرت کے موقع پر غار ثور میں پناہ لی تھی۔[6]

فقہی کتب میں اس غار کی زیارت کو حج کے مستحب اعمال میں شمار کیا گیا ہے[7] اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں دعا قبول ہوتی ہے۔[8] یہ غار مشہور ہے اور لوگ اس کی زیارت کے لیے وہاں جاتے ہیں۔[9]
چند اہم معلومات
غارِ حراء مکہ کے شمال مشرق میں[10] ایک مخروطی شکل (مثلث نما) کی پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے جس کے دامن میں منیٰ کا علاقہ واقع ہے۔[11] غار کا دہانہ تقریباً دو میٹر اونچا ہے، اس کی چوڑائی تقریباً 1/20 میٹر اور لمبائی تقریباً دو میٹر ہے۔[12]
اس غار کا محل وقوع اس طرح ہے کہ اس کا انتہائی حصہ مسجد الحرام اور کعبہ کی طرف ہے جبکہ اس کا دہانہ بیت المقدس کی سمت ہے۔[13] سورج طلوع ہونے سے لے کر غروب تک یہ غار روشنی کے زد پر ہے، لیکن سورج کی گرمی اس کے اندر داخل نہیں ہوتی۔[14]
غار حراء اور کوہِ نور کی چوٹی کے درمیان تقریباً 20 میٹر کا فاصلہ ہے۔[15] یہ پہاڑی ماضی میں مسجد الحرام سے 4 سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا، لیکن اب شہر مکہ کی توسیع کے بعد یہ شہری حدود میں شامل ہوچکا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ دیار بَکری، تاریخ الخمیس، بیروت، ج1، ص281؛ خویی، منہاج البراعۃ، ج12، ص39؛ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، 1403ھ، ج15، ص363۔
- ↑ نہجالبلاغہ، تصحیح صبحی صالح، خطبہ 192، ص301؛ خویی، منہاج البراعۃ، ج12، ص39۔
- ↑ بلاذری، أنساب الأشراف، 1417ھ، ج1، ص105۔
- ↑ جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص227۔
- ↑ صالحی دمشقی، سبل الہدی و الرشاد، 1414ھ، ج2، ص238۔
- ↑ فاسی، شفاء الغرام، 1386شمسی، ج1، ص498۔
- ↑ شہید اول، الدروس، 1417ھ، ج1، ص468؛ بہجت، جامع المسائل، 1426ھ، ج2، ص359؛ شیخ انصاری، مناسک حج، 1425ھ، ص122؛ سبزواری، مہذّب الأحکام، 1413ھ، ج14، ص401۔
- ↑ ابنجبیر، رحلۃ ابنجبیر، 1992ء، ص190؛ فاسی، شفاء الغرام، بیروت، ج1، ص199، 280۔
- ↑ فاسی، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، 1386شمسی، ج1، ص498۔
- ↑ حشمتی، «حراء»، ص823۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، 1386شمسی، ص93۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، 1386شمسی، ص94۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، 1386شمسی، ص94۔
- ↑ قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، 1386شمسی، ص94۔
- ↑ حشمتی، «حراء»، ص823۔
مآخذ
- بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، بیروت، دار الفکر، چاپ اول، 1417ھ۔
- بہجت، محمدتقی، جامع المسائل، قم، دفتر معظملہ، چاپ دوم، 1426ھ۔
- جعفریان، رسول، سیرہ رسول خدا(ص)، قم، دلیل ما، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
- حشمتی، فریدہ، «حراء»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج12، تہران، بنیاد دایرۃ المعارف اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- دیار بَکری، حسین، تاریخ الخمیس فی أحوال أنفس النفیس، بیروت، دار الصادر، بیتا۔
- سبزواری، سید عبدالأعلی، مہذّب الأحکام (للسبزواری)، قم، مؤسسہ المنار، چاپ چہارم، 1413ھ۔
- سیدرضی، محمد بن حسین، نہج البلاغۃ، تصحیح صبحی صالح، قم، ہجرت، چاپ اول، 1414ھ۔
- شہید اول، محمد بن مکی، الدروس الشرعیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، 1417ھ۔
- شیخ انصاری، مرتضی، مناسک حج (محشّٰی، شیخ انصاری)، قم، مجمع الفکر الإسلامی، چاپ اول، 1425ھ۔
- صالحی دمشقی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خبر العباد، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، 1414ھ۔
- علامہ مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
- فاسی، محمد بن احمد، شفاء الغرام باخبار البلد الحرام، ترجمہ: محمد مقدس، تہران، مشعر، 1386ہجری شمسی۔
- قائدان، اصغر، تاریخ آثار اسلامی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ، قم، مؤسسہ فرہنگی ہنری مشعر، چاپ یازدہم، 1389ہجری شمسی۔
- ہاشمی خویی، میرزا حبیباللہ، منہاج البراعۃ فی شرح نہج البلاغۃ، مترجم: حسن حسنزادہ آملی و محمدباقر کمرہای؛ محقق: ابراہیم میانجی، تہران، مکتبۃ الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1400ھ۔