جبل نور

ویکی شیعہ سے
مکہ میں جبل نور

کوہ نور یا جَبَل نور شہر مکہ میں واقع ایک پہاڑی کو کہا جاتا ہے۔ غار حراء بھی اسی پہاڑے میں موجود ہے جہاں پہلی بار حضرت محمدؐ پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اسی بنا پر اس کو جبل النور کہا جاتا ہے۔

خصوصیات

کوہ نور مکہ کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ یہ مخروطی شکل کا پہاڑ ہے اور مکہ کی دوسری پہاڑیوں سے ـ جن کے دامن پر شہر مکہ واقع ہے ـ سے الگ تھلگ ہے۔[1] متقدم مآخذ کے مطابق، ماضی بعید میں مکہ سے کوہ حراء تک کا فاصلہ ایک فرسخ[2] تھا[3] یا تین میل[4] تھا؛ لیکن آج ـ شہر مکہ کی توسیع کی بنا پر ـ کوہ حراء، شہر کی حدود میں واقع ہے اور رہائشی عمارتوں نے اس کو گھیر لیا ہے۔ مسجد الحرام تک اس پہاڑ کا فاصلہ 4 سے 6 کلومیٹر کے درمیان ہے۔[5] اس پہاڑ سے مِنٰی بخوبی قابل مشاہدہ ہے، اور یہ مِنٰی سے عرفات والی سڑک کے کنارے واقع ہے۔[6]

غار حراء کا ایک منظر

سطح سمندر سے اس کی اونچائی 560 میٹر ہے[7] اور اس کی چوٹی تک پہنچنے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور یہ وہی راستہ ہے جو دوسری جگھوں سے الگ ہوچکا ہے۔[8] اس پہاڑ پر پانی اور سبزہ دکھائی نہیں دیتا۔[9] کوہ حراء کی چوٹی کا رقبہ تقریبا 40 میٹر مربع تک پہنچتا ہے۔ چوٹی کے اطراف کھلے ہوئے ہیں اور کوئی بھی چٹان یا رکاوٹ اس کے سامنے واقع نہیں ہوا چنانچہ اوپر سے اطراف کا منظر کسی رکاوٹ کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔

غار کے کوائف

غار حراء

غار حراء کوہ حراء کے سب سے اونچے نقطے پر واقع ہوئی ہے اور غار سے چوٹی تک کا فاصلہ 20 میٹر کے لگ بھگ ہے۔ زائرین غار اور چوٹی تک پہنچنے کے لئے دو بہت ہی قریب واقع چٹانوں کے بیچ سے گذرتے ہیں جہاں سے گذرنے کے بعد غار کا منظر نمایاں ہوجاتا ہے۔[10]

غار کا آخری حصہ مکمل طور پر مسجد الحرام اور کعبہ کی جانب اور اس کا دہانہ تقریبا بیت المقدس کی جانب ہے۔[11] کوہ حراء کے اوپر سے مسجد الحرام اور اس کے گلدستے دکھائی دیتے ہیں۔[12] غارے کے دہانے کی وسعت ایک درمیانی قد کے آدمی کے گذرنے اور نماز پڑھنے کے لئے کافی ہے۔ غار کا اندرونی حصہ طلوع سے غروب آفتاب تک روشن ہے، مگر جھلسا دینے والی گرمی کا وہاں گذر نہیں ہے۔[13]

کچھ مؤرخین کے نزدیک غار حراء، غار ثور کے ساتھ ـ جہاں رسول اللہ(ص) نے مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے پناہ لی تھی ـ مشتبہ ہوئی ہے۔[14]

کوہ حراء دینی اور تاریخی روایات کی روشنی میں

مروی ہے کہ آدم(ع) نے خانۂ کعبہ کو پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے استفادہ کرکے تعمیر کیا اور کوہ حراء ان پانچ پہاڑوں میں سے ایک ہے۔[15] مروی ہے کہ کوہ حراء کوہ فاران کا دوسرا نام ہے جس کا تذکرہ تورات میں[16] آیا ہے، لیکن بظاہر فاران ایسی اصطلاح ہے جس کا اطلاق مکہ کے تمام پہاڑوں پر ہوتا ہے، نہ کہ صرف کوہ حراء پر۔[17]

مروی ہے کہ رسول اللہ(ص) کے معجزات میں سے ایک یہ تھا کہ کوہ حراء آپ(ص) کے قدموں تلے حرکت میں آیا اور پھر آپ(ص) کے حکم پر ساکن ہوگیا۔[18]

امام علی(ع) سے مروی ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) ہر سال حراء میں خلوت گزینی کرتے تھے اور میں آپ(ص) کو دیکھتا تھا اور میرے سوا کئی بھی آپ(ص) کو نہیں دیکھتا تھا۔[19]

یہ پہاڑ دوران جاہلیت میں بھی محترم تھا اور جاہلی اشعار، خاص طور پر "عَوف بن اَحْوَص" اور رسول اللہ(ص) کے چچا ابو طالب(ع) کی شاعری میں، اس کا تذکرہ آیا ہے۔[20] رسول اللہ(ص) کے دادا عبدالمطلب(ع) نے سب سے پہلے کوہ حراء میں اعتکاف کیا تھا۔[21] (دیکھئے: تحنث)

غار حراء کی زیارت

بعض فقہاء غار حراء کی زیارت کو مناسک حج کے مستحبات میں سے قرار دیتے ہیں۔[22] ماضی سے اب تک لوگ غار حراء کی زیارت کے لئے جاتے ہیں اور کہا گیا ہے کہ دعا وہاں مستجاب ہوتی ہے۔[23]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ، ص107۔
  2. فرسخ اکثر اسلامی اصطلاحات میں استعمال ہوتا ہے ایک فرسخ تین میل یا 5544 میٹر یا 12000 قدم یا 18000 فٹ کے برابر ہے۔ (فیروزالغات اردو، ایجوکیشنل پبلی کییشنز، دہلی؛ وہبہ الزحيلی، الفقہ الإسلامي وأدلتہ)۔
  3. رجوع کنید بہ ابن‌جبیر، رحلہ ابن‌جبیر، ص130۔، ابن‌بطوطہ، رحلہ ابن‌بطوطہ، ج1، ص158۔
  4. ابن‌جبیر، رحلہ ابن‌جبیر، ص192۔، یاقوت حموی، معجمع البلدان، ذیل مادّہ۔، فاسی، شفاء الغرام، ج1، ص280۔، قس حمیری، الروض المعطار، ص190۔
  5. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ، ص107۔
  6. ابن‌جبیر، رحلہ ابن‌جبیر، ص130۔، ابن‌بطوطہ، رحلہ ابن‌بطوطہ، ج1، ص158۔، قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ، ص107۔
  7. عبدالغنی، تاریخ امراء المکہ، ص22۔
  8. حمیری، الروض المعطار، ص190۔
  9. یاقوت حموی، معجمع البلدان، ذیل مادّہ۔
  10. خادمی، راہنمای حج، ج2، ص157۔
  11. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ، ص108۔
  12. خادمی، راہنمای حج، ج2، ص157۔
  13. قائدان، تاریخ و آثار اسلامی مکہ، ص107ـ108۔
  14. رجوع کریں: ازرقی، اخبار مکہ، ج2، ص288۔، فاسی، شفاء الغرام، ج1، ص280۔، نہروالی، کتاب الاعلام، ص440۔
  15. ہیثمی، مجمع الزوائد، ج3، ص288۔، فاسی، شفاء الغرام، ج1، ص91۔
  16. کتاب اول سموئیل نبی، 1:25۔
  17. عاملی، الصحیح، ج1، ص197۔
  18. رجوع کنید بہ ابن‌حنبل، مسند، ج2، ص419۔، طبرسی، الاحتجاج، ج1، ص326۔، مقریزی، امتاع الاسماع، ج5، ص57۔
  19. نہج البلاغہ، ترجمہ سید جعفر شہیدی، خطبہ 192، ص222۔۔
  20. رجوع کریں: بکری، معجم، ذیل مادّہ۔، فاسی، شفاء الغرام، ج1، ص281۔، نہروالی، کتاب الاعلام، ص440۔
  21. ابن‌اثیر، ج2، ص15۔
  22. رجوع کریں: شہید اول، الدروس الشرعیہ، ج1، ص468۔، سبزواری، ذخیرہ المعاد، ص695۔، قس ابن‌تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج15، جزء26، ص68۔
  23. ابن‌جبیر، رحلہ ابن‌جبیر، ص190۔، فاسی، شفاء الغرام، ج1، ص199، 280۔

مآخذ

  • ابن‌اثیر، "الکامل فی التاریخ"۔
  • ابن‌بطوطہ، "رحلۃ ابن‌بطوطۃ"، چاپ محمدعبدالمنعم عریان، بیروت، 1407ھ ق /1987ع‍۔
  • ابن‌تیمیہ، "مجموع الفتاوی"، چاپ مصطفی عبدالقادر عطا، بیروت، 1421ھ ق /2000ع‍۔
  • ابن‌جبیر، "رحلۃ ابن‌جبیر"، چاپ حسین نصّار، قاہرہ، 1992ع‍۔
  • ابن‌حنبل، "مسندالامام احمدبن حنبل"، بیروت، دارصادر، بی‌تا۔
  • ازرقی، محمد بن‌عبداللّہ، "اخبار مکۃ و ماجاء فیہا من الآثار"، چاپ رشدی صالح ملحس، بیروت، 1403ھ ق /1983ع‍، چاپ افست قم، 1369ھ ش۔
  • بکری، عبداللّہ بن‌عبدالعزیز، "معجم مااستعجم من اسماء البلاد و المواضع"، چاپ مصطفی سقّا، بیروت، 1403ھ ق /1983ع‍۔
  • حمیری، محمد بن‌عبداللّہ، "الروض المعطار فی خبر الأقطار"، چاپ احسان عباس، بیروت، 1984ع‍۔
  • خادمی، محمدحسن، "راہنمای حج و عمرہ"، تہران، 1383ھ ش۔
  • سبزواری، محمدباقر بن‌محمدمؤمن، "ذخیرۃ المعاد فی شرح الارشاد"، چاپ سنگی تہران، 1273ـ1274ق، چاپ افست قم، بی‌تا۔
  • شہید اول، محمد بن‌مکی، "الدروس الشرعیۃ فی فقہ الامامیۃ"، قم، 1412ـ1414ھ ق۔
  • طبرسی، احمد بن‌علی، "الاحتجاج"، چاپ محمدباقر موسوی خرسان، نجف، 1386ھ ق /1966ع‍، چاپ افست قم، بی‌تا۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، "الصحیح من سیرۃ النبی الاعظم صلی‌اللّہ‌علیہ‌وآلہ‌وسلم"، قم، 1403ھ ق۔
  • عبدالغنی، عارف، "تاریخ امراء مکۃ المکرمۃ: من 8ھ ق ـ1344ھ ق"، دمشق، 1413ھ ق /1992ع‍۔
  • فاسی، محمد بن‌احمد، "شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام"، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، بی‌تا۔
  • قائدان، اصغر، "تاریخ و آثار اسلامی مکہ مکرّمہ و مدینہ منوّرہ"، تہران، 1384ھ ش۔
  • مقریزی، احمد بن‌علی، "امتاع الاسماع بما للنبی صلی‌اللّہ‌علیہ‌وسلم من الاحوال و الاموال و الحفدۃ و المتاع"، چاپ محمد عبدالحمید نمیسی، بیروت، 1420ھ ق /1999ع‍۔
  • نہروالی، محمد بن‌احمد، "کتاب الاعلام باعلام بیت‌اللّہ الحرام"، چاپ علی محمد عمر، قاہرہ، 1425ھ ق /2004ع‍۔
  • ہیثمی، علی‌بن ابوبکر، "مجمع الزوائد و منبع الفوائد"، بیروت، 1408ھ ق /1988ع‍۔
  • یاقوت حموی، "معجمع البلدان"۔