مہر السنۃ
مَہر السُنَّۃ، اس حق مہر کو کہا جاتا ہے جسے پیغمبر اسلامؐ اپنی ازواج اور بیٹیوں کے لئے معین فرمایا کرتے تھے۔ مہر السنہ کی مقدار 500 درہم تھی جو 1500 گرام خالص چاندی کے برابر ہے۔ فقہاء کے مطابق اس سے زیادہ حق مہر قرار دینا جائز ہے لیکن مکروہ ہے۔
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ موجودہ دور میں 1500 مثقال چاندی کی قیمت بہت کم ہے جبکہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے دور میں 500 درہم کی کافی قدر تھی، اس بنا پر مہر السنہ کی کوئی ثابت مقدار معین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے ہر دور میں اسی زمانے کے مطابق معین ہونا چاہئے۔ ان تمام باتوں کے باوجود کہتے ہیں کہ مہر السنۃ کوئی بھاری حق مہر نہیں ہے۔
تعریف
مہر السنہ اس حق مہر کو کہا جاتا ہے جسے پیغمبر اسلامؐ اپنی ازواج اور اسی طرح شیخ صدوق کی نقل کے مطابق اپنی بیٹیوں کے لئے حق مہر[1] قرار دیا کرتے تھے۔[2]
مقدار
احادیث کے مطابق مہر السنہ کی مقدار 500 درہم تھی۔[3] ان احادیث کو متواتر جانا گیا ہے۔[4]
بعض احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی ازواج اور بیٹیوں میں سے کسی کا حق مہر ساڑھے 12 اوقیہ (500 درہم کے برابر) سے زیادہ مقرر نہیں فرمایا ہے۔[5]
چند مختلف احادیث
حدیثی منابع میں بعض روایات، مہر السنہ سے متعلق احادیث سے مختلف دیکھائی دیتی ہیں۔ من جملہ ان میں سے ایک وہ حدیث ہے جسے شیخ صدوق نے امام باقرؑ سے نقل کی ہیں اور اس حدیث میں ام حبیبہ (زوجہ پیغمر اکرمؐ) کا حق مہر 4 ہزار درہم نقل ہوا ہے۔[6] کہا جاتا ہے کہ اس حدیث میں امام باقرؑ نے اس حق مہر کو ایک استثنائی حق مہر قرار دیا ہے جسے حبشہ کے حکمران نجاشی جو ام حبیبہ کا رشتہ مانگنے میں رسول خداؐ کا وکیل تھا، نے قرار دیا تھا اور اس نے خود یہ حق مہر ادا کر دیا تھا اور پیغمبر اکرمؐ نے اس کی ممانعت نہیں فرمائی۔[7]
اسی طرح حضرت زہراؑ کے حق مہر کے بارے میں مختلف گزارشات منقول ہیں۔ من جملہ ان میں 480 درہم، 400 مثقال چاندی اور 500 درہم نقل ہوئے ہیں۔[8] شیعہ محدث ابن شہر آشوب (488-588ھ) اپنی کتاب مَناقِب آل ابی طالب میں اس اختلاف کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ اصل میں حضرت زہراؑ کا حق مہر کچھ اور چیز تھی جس کی قیمت کے بارے میں مذکورہ اختلافات وجود میں آئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کچھ احادیث کو نقل کیا ہے جن میں سے بعض کے مطابق حضرت زہراؑ کے حق مہر میں یمنی بافت کا عبا، چمڑا اور ایک خشبودار جڑی بوٹی شامل تھی بعض اور گزارشات کی بنا پر آپ کے حق مہر میں ایک زرہ اور گوسفند یا اونٹ کا چمڑا شامل تھا۔[9]
بعض مصنفین مذکورہ احادیث، پیغمبر اکرمؐ کی سیرت اور امام جوادؑ کی ایک حدیث جس میں آپ نے اپنی زوجہ ام فضل کا حق مہر حضرت زہراؑ کے حق مہر کے برابر معین فرمایا تھا،[10] سے استناد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت زہراؑ کا حق مہر 500 درہم سے زیادہ نہیں تھا۔[11]
مہر السنہ کا وجوب یا استحباب
تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ صاحب جواہر کے مطابق فقہاء کے درمیان مشہور نظریہ یہ ہے کہ خواتین کے حق مہر کی کوئی مقدار مشخص نہیں ہے اور حق مہر کا مہر السنۃ سے زیادہ قرار دینا جائز ہے۔[12] فقہاء کے فتوا کے مطابق حق مہر کا مہر السنہ سے زیادہ معین کرنا صرف مکروہ ہے۔[13]
صاحب جواہر کے مطابق بعض فقہاء من جملہ چوتھی اور پانجویں صدی کے شیعہ فقیہ سیدِ مرتَضی[14] مہر السنہ سے زیادہ حق مہر قرار دینے کو باطل شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حق مہر، مہر السنۃ سے زیادہ ہو تو مرد پر صرف مہر السنہ کی مقدار کے برابر ادا کرنا واجب ہے۔[15]
موجودہ دور میں مہر السنہ کی مالیت
بعض اس بات کے معتقد ہیں کہ چونکہ موجودہ دور میں مہر السنۃ کی یعنی 500 درہم یا 1500 مثقال چاندی کی مالیت بہت کم ہے جبکہ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومینؑ کے دور میں اس کی کافی قدر تھی، اس بنا پر مہر السنہ کے لئے کوئی ثابت مالیت معین نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے ہر دور میں اسی زمانے کے مطابق معین ہونا چاہئے۔ اسی بنا پر موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت کو اسی زمانے کے تقاضوں کے تحت معین کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔[16]
مثال کے طور پر گذشتہ زمانوں میں بعض فقہاء 500 درہم کو دینار کے ساتھ موازنہ کرتے تھے اور چونکہ ان کے دور میں دس درہم ایک دینار کے برابر ہوتی تھی، مہر السنۃ کو 50 دینار یعنی 50 مثقال سونا قرار دیتے تھے۔ اسی طرح بعض فقہاء یہ تجویز دیتے ہیں کہ موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت کا اندازہ پیغمبر اکرمؐ کے زمانے میں 500 درہم کی قدرت خرید کے مطابق معین کی جانی چاہئے، کیونکہ بعض احادیث کے مطابق پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زہرا(س) کے حق مہر کے پیسے سے آپ اور حضرت علیؑ کی مشترکہ زندگی کے لئے کچھ وسائل مہیا کئے تھے، موجودہ دور میں مہر السنۃ کی مالیت معین کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔[17]
50 مثقال سونے کی مالیت اور حضرت زہرا (س) کے حق مہر سے خریدے گئے وسائل کی سادگی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ لیا گیا ہے کہ مہر السنۃ کوئی بھاری اور غیر قابل برداشت حق مہر نہیں ہے۔[18]
حوالہ جات
- ↑ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲۔
- ↑ ملاحظہ کریں: شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، الروضۃ البہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۵، ص۳۴۴۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۰۰، ص۳۴۷-۳۴۸؛ شیخ صدوق، المقنع، ۱۴۱۵ق، ص۳۰۲؛ شہید ثانی، ۱۴۱۰، ج۵، ص۳۴۴۔
- ↑ مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔
- ↑ حمیری، قربالاسناد، ۱۴۱۳ق، ص۱۶-۱۷۔
- ↑ شیخ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ۱۴۱۳ق، ج۳، ص۴۷۳۔
- ↑ مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۳۔
- ↑ ابن شہرآشوب، مناقب آلابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔
- ↑ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ۱۳۷۹ق، ج۳، ص۳۵۱۔
- ↑ مفید، الارشاد، ۱۴۱۳ق، ج۲، ص۲۸۴۔
- ↑ مروج طبسی، فاطمہ الگوی حیات زیبا، ۱۳۸۰ش، ص۳۵-۳۶۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۳۔
- ↑ ملاحظہ کریں حلی، شرایعالاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۶۹؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق ج۳۱، ص۴۷۔
- ↑ ملاحظہ کریں: سید مرتضی، الانتصار، ۱۴۱۵، ص۲۹۲۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۱، ص۱۵۔
- ↑ مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴۔
- ↑ مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۴-۱۱۵۔
- ↑ مسعودی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، ص۱۱۵-۱۱۶۔
مآخذ
- ابن شہر آشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل ابی طالب علیہمالسلام، قم، علامہ، چاپ اول، ۱۳۷۹ق۔
- حمیری، عبد اللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، مؤسسہ آل البیت، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
- سید مرتضی، علی بن حسین، الانتصار فی انفرادات الامامیہ، تصحیح و تحقیق گروہ پژوہش دفتر انتشارات اسلامی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
- شہید ثانی، زین الدین بن علی، الروضۃ البہیۃ فی شرح اللمعۃ الدمشقیۃ، تحقیق سید محمد کلانتر، قم، کتاب فروشی داوری، چاپ اول، ۱۴۱۰ق۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی (ع)، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
- شیخ صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق و تصحیح علی اکبر غفاری، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ دوم، ۱۴۱۳ق۔
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الائمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، ۱۴۰۳ق۔
- محقق حلی، جعفر بن حسن، شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام، تحقیق و تصحیح عبدالحسین محمدعلی بقال، قم، اسماعیلیان، چاپ دوم، ۱۴۰۸ق۔
- مروجی طبسی، محمد جواد، فاطمہ الگوی حیات زیبا، قم، بوستان کتاب، چاپ اول، ۱۳۸۰ش۔
- مسعودی، عبدالہادی، «پژوہشى دربارہ مَہرُ السُّنّہ (مہر محمّدى)»، در محمدی ری شہری، محمد، تحکیم خانوادہ از نگاہ قرآن و حدیث، ترجمہ حمید رضا شیخی، قم، سازمان چاپ و نشر دار الحدیث، چاپ دوم، ۱۳۸۹ش۔
- مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ على العباد، تحقیق و تصحیح مؤسسہ آل البیت، قم، کنگرہ شیخ مفید، چاپ اول، ۱۴۱۳ق۔
- نجفى، محمد حسن، جواہر الكلام فی شرح شرائع الاسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، ۱۴۰۴ق۔