روزہ خوری
یہ ایک توصیفی مقالہ ہے جو عبادات کی انجام دہی کیلئے معیار نہیں بن سکتا لہذا اس مقصد کیلئے اپنے مجتہد کی توضیح المسائل کی طرف مراجعہ فرمائیں۔ |
روزہ خوری کا مطلب ہے رمضان کے مہینے میں بغیر کسی شرعی عذر کے روزہ توڑنا۔ یہ فعل اسلام میں حرام ہے اور گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے۔ جو شخص جان بوجھ کر ماہ رمضان کے روزے توڑتا ہے اس پر روزوں کی قضاء کے ساتھ ساتھ کفارہ بھی واجب ہوتا ہے۔ فقہاء کے فتاوی کے مطابق پہلی اور دوسری مرتبہ روزہ توڑنے کی سزا 25 کوڑے ہیں۔ بعض فقہاء کے مطابق اگر کسی شخص کو دو مرتبہ روزہ توڑنے کی سزا دی جائے اور تیسری مرتبہ بھی روزہ توڑ دے تو اس کے لیے سزائے موت کا حکم ہے۔
شرعی جواز کی موجودگی میں بھی روزہ خوری کو فقہاء حرام سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے والے کو سزا کا مستحق گردانتے ہیں۔ کچھ اسلامی ممالک میں اعلانیہ روزہ کھانے کو جرم سمجھا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے کے لیے قید، کوڑے اور جرمانے جیسی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
روزہ خوری کا مفہوم اور اس کا شرعی حکم
روزہ خوری کا مطلب ہے رمضان کے مہینے میں بغیر کسی شرعی عذر کے جان بوجھ کر روزہ توڑ دینا۔[1] روزہ خوری کو حرام عمل اور کبیرہ گناہ سمجھا جاتا ہے۔[2] کتاب کافی میں منقول امام جعفر صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق جو شخص جان بوجھ کر اپنا روزہ توڑ دیتا ہے وہ دین کے دائرے سے نکل جاتا ہے۔[3]
فقہی کتابوں میں روزے سے متعلق جوفقہی احکام بیان ہوئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جانتے بوجھتے رمضان کے روزے توڑ دے اور ایسا کرنا مباح عمل سمجھے تو وہ شخص مرتد ہوجاتا ہے؛ یہاں تک کہ اگرچہ وہ روزہ نہ توڑے، لیکن اسے حلال و مباح سمجھتا ہو، تب بھی وہ مرتد قرار پاتا ہے۔[4] فقہاء کے فتاوی کے مطابق روزہ خور پر روزوں کی قضا کے علاوہ ان کا کفارہ بھی واجب ہے۔[5]
فقہاء کے نزدیک اگر کوئی شخص روزہ توڑدے لیکن اسے جائز نہیں سمجھتا تو وہ تعزیر یا شرعی سزا کا حقدار ہے۔ شرعی نقطہ نظر سے پہلی اور دوسری مرتبہ روزہ توڑنے کی سزا 25 کوڑے ہیں۔[6] بعض فقہاء کے فتویٰ کے مطابق اگر کوئی شخص دو مرتبہ سزا پانے کے بعد دوبارہ اس فعل کا ارتکاب کرے تو اس کی شرعی سزا پھانسی ہے۔ البتہ بعض فقہاء اس نظریے کے مخالف ہیں۔[7] شرعی نگاہ سے سزا کا مستحق ہونے کے علاوہ روزہ خور پر توڑے ہوئے روزوں کی قضا اور کفارہ بھی واجب ہے۔[8]
سر عام کھانا پینا اور اس کی سزا
شیعہ اور سنی فقہاء شرعی عذر کے باوجود سرعام کھانے پینے کو جائز نہیں سمجھتے اور جو بھی جان بوجھ کر اور کھلم کھلا روزہ توڑتا ہے اسے سزا کا مستحق سمجھتے ہیں۔[9] کچھ مسلم ممالک میں سر عام روزہ توڑنے کو شرعی جرم سمجھا جاتا ہے[10] اور اس جرم کے لیے قید، جلاوطنی، کوڑے، جرمانے اور بعض صورتوں میں پھانسی جیسی سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔[11]
اس سلسلے میں ایران کے اسلامی جرائم پرمبنی قانون میں دس دن سے دو ماہ تک قید اور 74 کوڑوں تک کی سزا مقرر کی گئی ہے۔[12] جمہوریہ اسلامی ایران کی سرزمین پر رہنے والے غیر مسلموں کو بھی رمضان کے مہینے میں سر عام کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہیے؛ کیونکہ ایران کے اندر اسلامی بنیاد پر بنائے گئے تعزیری قوانین اس ملک کے تمام باشندوں پر لاگو ہوتے ہیں۔[13] باقی اسلامی ممالک میں سے پاکستان میں بھی سر عام روزہ کھانے کی ممانعت کے سلسلے میں احترامِ رمضان آرڈیننس کے تحت عوامی مقامات پر کھانا پینا ممنوع قرار دیا جاتا ہے؛ احترام رمضان آرڈیننس 1981ء کل دس دفعات پر مبنی ہے۔ اس قانون میں سب سے پہلے پبلک مقامات کی وضاحت کی گئی ہے۔ آرڈینس کی دفعہ 3 کے تحت کوئی بھی ایسا فرد جس پر اسلامی قوانین کے تحت روزہ رکھنا لازم ہے اُسے روزے کے وقت کے دوران پبلک مقامات پر کھانا، پینا اور سگریٹ نوشی کی ممانعت ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا پکڑا گیا تو اُسے تین ماہ کی قید یا پانچ سو روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ [14]
حوالہ جات
- ↑ صالحی، معارف اسلامی، ج27، ص15۔
- ↑ دستغیب، گناہان کبیرہ، ج1، ص27؛ امام خمینی، تحریر الوسیلہ، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ج1، ص258-259۔
- ↑ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2 ص278۔
- ↑ مؤسسہ دایرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، 1392شمسی، ج5، ص145-146؛ امام خمینی، توضیح المسائل (محشّی)، 1424ھ، ج2، ص494 و 495،
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج16، ص226؛ خویی، موسوعۃ الإمام الخوئی، 1418ھ، ج21، ص305۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص521-522۔
- ↑ طباطبایی یزدی، العروة الوثقی، 1420ھ، ج3، ص522۔
- ↑ امام خمینی، توضیح المسائل (محشی)، 1424ھ، ج1، ص926؛ مؤسسہ دائرة المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، 1385شمسی، ج4، ص169۔
- ↑ علامہ حلی، منتہی المطلب، ج9، ص174-175؛ سرخسی، المبسوط، 1414ھ، ج24، ص32-33۔
- ↑ زکی زکا و سلمانپور، «بازخوانی فقہی و حقوقی جرمانگاری تظاہر بہ روزہخواری در قانون مجازات اسلامی ایران و کدجزای افغانستان»، ص60۔
- ↑ «مجازات روزہ خواری در ایران و سایر کشورہای اسلامی»، مندرج در سایت خبری و تحلیلی شرق۔
- ↑ قانون مجازات اسلامی ایران، کتاب پنجم، مصوب سال 1375شمسی۔
- ↑ قانون مجازات اسلامی ایران، کتاب پنجم، مصوب سال 1392شمسی۔
- ↑ https://urdu.arynews.tv/what-is-ramazan]-ordinance-1981/ "احترامِ رمضان آرڈیننس کیا ہے؟"] اردو اے آر وائی نیوز
مآخذ
- احترامِ رمضان آرڈیننس کیا ہے؟ اردو اے آر وائی نیوز، تاریخ درج: 19 مئی 2018ء، تاریخ اخذ:17 مارچ 2025ء۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، تحریرالوسیلہ، تہران، موسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی، بیتا۔
- امام خمینی، سید روح اللہ، توضیح المسائل (محشی)، بہ کوشش محمدحسن بنی ہاشمی خمینی، قم، انتشارات اسلامی، بیتا۔
- خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخوئی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الإمام الخوئی، چاپ اول، 1418ھ۔
- دستغیب، سید عبدالحسین، گناہان کبیرہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی۔
- زکی زکا، احمد و عباس سلمانپور، «بازخوانی فقہی و حقوقی جرم انگاری تظاہر بہ روزہ خواری در قانون مجازات اسلامی ایران و کد جزای افغانستان»، فصلنامہ مطالعات تطبیقی حقوق کشورہای اسلامی، شمارہ 3، 1402ہجری شمسی۔
- سرخسی، محمد بن احمد، المبسوط، بیروت، دارالمعرفۃ، 1414ھ۔
- صالحی، ناد علی، معارف اسلامی، قم، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
- طباطبایی یزدی، سید محمد کاظم، العروة الوثقی، قم، موسسۃ النشر الاسلامی، 1420ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، منتہی المطلب فی تحقیق المذہب، مشہد، مجمع البحوث الاسلامیۃ، 1412ھ۔
- قانون مجازات اسلامی جمہوری اسلامی ایران، مرکز پژوہشہای مجلس، مصوب 1392ہجری شمسی۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علیاکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیۃ، 1407ھ۔
- «مجازات روزہخواری در ایران و سایر کشورہای اسلامی»، مندرج در سایت خبری تحلیلی شرق، تاریخ درج مطلب: 31 اردیبہشت 1398شمسی، تاریخ بازدید: 3 اسفند 1403ہجری شمسی۔
- موسسہ دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل بیت(ع)، قم، موسسہ دائرةالمعارف فقہ اسلامی، 1387ہجری شمسی۔
- موسوی آزاده، سید رضا و ایمان اسفندیار و سید حامد رضوی، «تاملی بر روزه خواری در رویہ قضایی؛ فعل مجرمانہ یا فعل حرام؟»، فصلنامہ تمدن حقوقی، شماره 11، 1401ہجری شمسی۔
- موسوی گلپایگانی، سید محمدرضا، مجمع المسائل، قم، دارالقرآن الکریم، 1409ھ۔
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، تصحیح عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، چاپ ہفتم، 1404ھ۔