مستدرک الوسائل (کتاب)

ویکی شیعہ سے
مستدرک الوسائل
مؤلفمیرزا حسین نوری (محدث نوری)
زبانعربی
موضوعفقہ
ناشرموسسہ آل البیت لاحیاء التراث قم


مُستَدرَكُ الوَسائل و مُستَنبَطُ المَسائل، مستدرک کے نام سے مشہور فقہی احادیث و روایات پر مشتمل کتاب ہے۔ جس کے مولف محدث نوری کے نام سے معروف میرزا حسین نوری (متوفی 1320 ھ) مشہور شیعہ علماء میں سے ہیں۔ یہ کتاب شیخ حر عاملی کی تصنیف وسائل الشیعہ کے تکملہ کے طور پر تحریر کی گئی ہے اور اس کا شمار میرزای نوری کی اہم ترین تالیف میں کیا جاتا ہے۔

کتاب کا تعارف اور اعتبار

  • محدث نوری نے مستدرک الوسائل میں ان 32 ہزار سے زائد روایات کی جمع آوری کی ہے جو وسائل الشیعہ میں ذکر نہیں ہوئی ہیں۔
  • کتاب مستدرک الوسائل کا شمار معتبر شیعہ کتب روایی میں ہوتا ہے جو چودہویں صدی ہجری میں تصنیف کی گئی ہے۔
  • احکام شرعی کے اجتہاد و استنباط کے سلسلہ میں وسائل الشیعہ کے بعد تفحص و جستجو کو مکمل کرنے کے لئے مستدرک الوسائل کی روایات کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے تا کہ روایات کی جستجو کامل ہو جائے اور معارض روایت کے نہ ہونے کا یقین حاصل ہو جائے۔
  • محدث نوری نے اپنی عمیق تحقیق و جستجو کے سبب ان بہت سے معتبر روایی منابع و کتب تک رسائی حاصل کی جن کا ذکر شیخ حر عاملی کی وسائل الشیعہ میں نہیں ہوا تھا۔ یہ منابع 75 روایی کتب پر مشتمل ہیں جن میں ہر ایک کے اعتبار کے اثبات کا تذکرہ محدث نوری نے کتاب مستدرک الوسائل کے خاتمہ میں کیا ہے۔
  • مولف کتاب نے بہت سی ان روایات کو جو معتبر شیعہ کتب روایی میں فراموشی کی نذر ہو گئیں تھیں، جمع کیا اور ان کے صحیح و معتبر ہونے سلسلہ میں تحقیق انجام دینے کے بعد انہیں شیعہ روایی مجموعہ میں اضافہ کرکے اس مجموعہ کے مزید استغناء کا اہتمام کیا۔

مقصد تالیف

محدث نوری نے وسائل الشیعہ کا انتخاب اس لئے کیا کہ ان کا ماننا تھا کہ حر عاملی نے فراوان احادیث و روایات کو جمع کیا ہے اور کوئی بھی کتاب اس کے پایہ تک نہیں پہنچتی ہے اور کوئی بھی مجتہد فقیہ استنباط و استخراج احکام شرعی میں ان روایات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا ہے۔

مولف کے مطابق، مستدرک نویسی کے بنیادی عناصر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

1۔ وہ روایات جو قدیم معتبر کتب روایی میں موجود تھیں لیکن شیخ حر عاملی کے ہاتھوں تک نہیں پہچ سکیں۔

2۔ وہ روایات جو ان کتابوں میں تھیں جن کے نام اور مولفین تک شیخ حر عاملی دسترسی پیدا نہیں کر سکے اور محدث نوری نے اپنی تحقیقات سے ان کے اور ان کے مصنفین کے اسماء اور معتبر ہونے تک رسائی حاصل کی ہے۔

3۔ بعض روایات ان معتبر کتابوں میں تھیں جو ان کے اختیار میں تھیں لیکن انہوں نے ان سے اعراض کیا یا ان کی طرف ملتفت و متوجہ نہیں ہوئے۔

محدث نوری مستدرک الوسائل کی تالیف کے مقصد کی تبیین کے سلسلہ میں تحریر کرتے ہیں: ان روایات کی جمع آوری اور وسائل الشیعہ سے ان کا الحاق بہترین عبادت میں شمار ہونے کے ساتھ ساتھ ان احادیث کی جمع آوری کے عظیم اور مہم فوائد ہیں، جن سے اساس دین کامل اور شریعت پیغمبر (ص) تابناک تر ہو جائے گی۔[1]

اسلوب تحریر

محدث نوری نے کتاب مستدرک الوسائل کو وسائل الشیعہ کے اسلوب اور روش پر تحریر کیا ہے:

1۔ انہوں نے کتاب کے ابواب کی ترتیب کو وسائل الشیعہ کے ابواب کی ترتیب کی طرز پر اسم گزاری کی ہے تا کہ قارئین کو اپنی مورد نظر روایات کو آسانی سے پیدا کر سکیں اور اگر ان کی نظر بعض ابواب کی اسم گزاری کے سلسلہ میں صاحب وسائل سے مختلف نظر آتی ہے تو اس کے باوجود بھی ہم آہنگی کی رعایت کی گئی ہے تا کہ یہ دونوں کتاب ایک مولف کی ہی نظر آئے۔

2۔ اگر کسی خاص باب میں جدید روایات نہیں ملی ہیں تو اس باب کو حذف کر دیا ہے۔

3۔ اس کتاب میں صاحب وسائل کو شیخ سے تعبیر کیا گیا ہے اور کتاب وسائل الشیعہ کو اصل کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔

4۔ اکثر ابواب کے آخر میں اس باب سے مربوط مباحث کے سلسلہ میں اہم نکات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جیسے وہ احکام جو اس باب میں ذکر ہونے چاہئے تھے یا ذکر نہیں ہونے چاہئے تھے یا اور اسی طرح سے اس باب سے متعلق مباحث۔

5۔ بعض اوقات کسی روایت کو شیخ حر عاملی نے کسی خاص باب میں ذکر نہیں کیا ہے لیکن دوسری جگہ پر ذکر کیا ہے تو محدث نوری نے اس روایت کو اس خاص باب میں ذکر کیا ہے جس میں ان کے اعتبار سے اس کا ضروری تھا۔

تصنیف کتاب کی تاریخ

محدث نوری نے تقریبا سن 1295 ہجری میں شہر سامرا میں امامین عسکریین (ع) کے جوار اور میرزای شیرازی کے محضر میں اس کتاب کی تالیف کا آغاز کیا اور سن 1313 ھ ق میں یعنی میرزائے شیرازی کے انتقال کے ایک سال کے بعد اس کے اصلی حصہ کو پایہ تکمیل تک پہچایا اور سن 1319 ھ ق میں نجف میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی شب ولادت 10 ربیع الثانی میں اس کے دوسرے حصہ جسے خاتمہ کہتے ہیں، مکلمل کیا۔[2]

کتاب کی خصوصیات

  • بعض ضعیف روایات جو وسائل الشیعہ میں ذکر ہوئی ہیں اس کتاب میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کی گئی ہیں۔
  • وسائل میں کثرت اور فراوانی کے ساتھ ذکر بعض غریب اور نادر روایات کو اس کتاب میں ثابت کیا گیا ہے۔
  • بعض موقوف روایات کو اس میں مکمل سند کے ساتھ پیش ذکر کیا ہے۔
  • بعض غیر ظاہر روایات کی دلالت کو اس میں واضح اور آشکار کیا گیا ہے۔
  • بعض آداب شرعی، فروع و احکام کے سلسلہ کی روایات کو جن کا ذکر وسائل میں نہیں ہوا ہے انہیں اس میں لایا گیا ہے۔[3]

دیگر حدیثی کتب سے موازنہ

اہم حدیثی کتب مصنف متوفی تعداد احادیث توضیحات
المحاسن احمد بن محمد برقی 274 ھ تقریباً 2604 مختف عناوین کا مجموعۂ احادیث
کافی محمد بن یعقوب کلینی 329 ھ تقریباً 16000 اعتقادی، اخلاقی آداب اور فقہی احادیث
من لا یحضر الفقیہ شیخ صدوق 381 ھ تقریباً 6000 فقہی
تہذیب الاحکام شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 13600 فقہی احادیث
الاستبصار فیما اختلف من الاخبار شیخ طوسی 460 ھ تقریباً 5500 احادیث فقہی
الوافی فیض کاشانی 1091 ھ تقریباً 50000 حذف مکررات کے ساتھ کتب اربعہ کی احادیث کا مجموعہ اور بعض احادیث کی شرح
وسائل الشیعہ شیخ حر عاملی 1104 ھ 35850 کتب اربعہ اور اس کے علاوہ ستر دیگر حدیثی کتب سے احادیث جمع کی گئی ہیں
بحار الانوار علامہ مجلسی 1110 ھ تقریباً 85000 مختلف موضوعات سے متعلق اکثر معصومین کی روایات
مستدرک الوسائل مرزا حسین نوری 1320 ھ 23514 وسائل الشیعہ کی فقہی احادیث کی تکمیل
سفینہ البحار شیخ عباس قمی 1359ھ 10 جلد بحار الانوار کی احادیث کی الف ب کے مطابق موضوعی اعتبار سے احادیث مذکور ہیں
مستدرک سفینہ البحار شیخ علی نمازی 1405 ھ 10 جلد سفینۃ البحار کی تکمیل
جامع احادیث الشیعہ آیت اللہ بروجردی 1380 ھ 48342 شیعہ فقہ کی تمام روایات
میزان الحکمت محمدی ری شہری معاصر 23030 غیر فقہی 564 عناوین
الحیات محمد رضا حکیمی معاصر 12 جلد فکری اور عملی موضوعات کی 40 فصل

بزرگوں کے اقوال

محدث نوری کے شاگرد آقا بزرگ تہرانی اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: اس کتاب کا اعتبار بھی ان روایی معتبر کتب کی طرح ہے جو اخیرا تالیف کی گئی ہیں اور تمام مجتہدین پر لازم ہے کہ وہ استنباط احکام شرعی کے سلسلہ میں دوسری کتابوں کی طرح اس کتاب کی روایات کو مورد توجہ قرار دیں تا کہ روایات کے سلسلہ میں ان کی جستجو و تفحص کامل ہو جائے اور انہیں عدم تعارض روایات کا یقین حاصل ہو جائے۔[4]

کتاب کفایۃ الاصول کے مولف آخوند خراسانی اپنے درس میں جس میں 500 سے زیادہ مجتہدین شرکت کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے: ہمارے دور اور اس زمانہ میں کسی بھی مجتہد پر حجت تمام نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ محدث نوری کی کتاب مستدرک الوسائل کی طرف رجوع نہ کر لے اور اس کی روایات کی اطلاع حاصل نہ کر لے۔

خاتمہ مستدرک الوسائل

محدث نوری نے کتاب مستدرک کے آخر میں خاتمہ کے نام سے ایک بخش تحریر کیا ہے جو آقا بزرگ تہرانی کی تعبیر کے مطابق نفیس ترین چیز ہے جو کتابوں میں پائی جاتی ہے اور جو انسان کو درایہ و رجال کی تمام کتابوں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔[5]

خاتمہ کے عناوین

محدث نوری نے کتاب کے خاتمہ کے دوازدہ گانہ فوائد میں ان مباحث کی طرف اشارہ کیا ہے:

1۔ منابع کتاب

2۔ اس کتاب کے منابع، اعتبار اور ان کے مولفین

3۔ ان کتابوں پر محدث نوری کی سند اور ان کے شیوخ روایت

ثقۃ الاسلام کلینی کی کتاب الکافی کے حالات

شیخ صدوق کی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ کے مشیخہ کی شرح

شیخ طوسی کی کتاب تہذیب الاحکام کے بارے میں بعض نکات

اصحاب اجماع اور ان کی تعداد

8۔ اصحاب امام صادق (ع) کی توثیق

9۔ ان کی وثاقت اور امارات پر دلالت کرنے والے الفاظ

10۔ وہ معتبر روات جن کے نام وسائل الشیعہ کے خاتمہ میں ذکر نہیں ہوئے ہیں۔

11۔ حجیت قطع کے سلسلہ میں اخباری علماء کے نظریات

12۔ علم حدیث کا مقام و مرتبہ۔[6]

خطے نسخے

  • اس کتاب کا ایک خطی نسخہ آستان قدس رضوی مشہد مقدس کے کتب خانہ موجود ہے۔ یہ نسخہ مولف کتاب کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ اس نسخہ کے آخر میں آقا بزرگ تہرانی کا دستخط بھی موجود ہے جس میں انہوں نے اس نسخہ کی تائید کی ہے۔
  • اس کا ایک خطی نسخہ سید عبد العزیز طباطبایی کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ اس نسخہ میں آقا بزرگ تہرانی کے حواشی جو انہوں نے مستدرک الوسائل پر لکھے ہیں وہ بھی موجود ہیں۔
  • اس کا ایک خطی نسخہ تہران کے کتب خانہ نصیری میں بھی موجود ہے۔

نشر و طبع

یہ کتاب 18 جلدوں میں عربی میں موسسہ آل البیت لاحیاء التراث کی طرف سے سن 1408 ہجری میں قم میں طبع اور نشر ہوئی ہے۔

حوالہ جات

  1. نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، ج۱، ص۶۰-۶۲
  2. تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۲۱، ص۸
  3. نرم افزار جامع فقہ اهل بیت
  4. تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۲۱، ص۸
  5. تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۲۱، ص۸
  6. تہرانی، آقا بزرگ، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، ج۲۱، ص۸

مآخذ

  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعۃ، بیروت، دار الاضواء، ۱۴۰۳ ق
  • نوری، میرزا حسین، مستدرک الوسائل، بیروت، مؤسسۃ آل البیت لاحیاء التراث، ۱۴۰۸ ق