بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی (کتاب)

ویکی شیعہ سے
بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی
مشخصات
مصنفعماد الدین طبری(553ہ ق)
موضوعفضائل شیعہ(احادیث)
زبانعربی
تعداد جلد1
طباعت اور اشاعت
ناشرجامعۃ المدرسین قم (ایران)


بِشارَةُ الْمُصْطَفیٰ لِشیعةِ الْمُرْتَضیٰ‏ چھٹی صدی ہجری قمری کے شیعہ عالم دین کی تالیف ہے۔ مؤلف کا نام ابو جعفر محمد بن علی بن رستم طبری ہے جو عماد الدین طبری (متوفا ۵۵۳ق) کے نام سے مشہور ہیں۔ یہ کتاب حضرت علی بن ابی طالب کے شیعوں کے مقام و منزلت، آئمہ اطہار کے پیروکاروں اور اولیائے الہی کی کرامات کے بیان میں ہے۔

نام کتاب

الذریعہ سمیت دیگر مصادر میں اس کتاب کا نام بشارہ المصطفی لشیعۃ المرتضی آیا ہے[1] لیکن ابن شہر آشوب نے اس کا نام «‌البشارات‌» لکھا ہے۔[2]بعض اہل سنت محدثین اسے «‌بشارۃ المصطفی فی بیعۃ المرتضی‌» اور «‌بشارۃ المصطفی بشیعۃ المرتضی‌» ذکر کرتے ہیں۔[3]

موضوع

آقا بزرگ طہرانی الذریعہ میں اس کتاب کے موضوع کے متعلق لکھتے ہیں: یہ ایک روائی کتاب ہے، یہ ایک روائی ہے جو شیعوں کے درجات و منزلت، اولیاء کی کرامات اور خدا کے نزدیک شیعوں کے منزلت و مقام کے متعلق لکھی گئی نیز یہ کتاب سترہ(17) حصوں پر مشتمل تھی لیکن افسوس کہ اس کے چھ حصے مفقود ہو گئے اور اسوقت یہ کتاب گیارہ (11) حصوں پر مشتمل ہے۔[4]

اعتبار

بشارۃ المصطفی شیعہ علما کی مورد اعتماد کتاب ہے۔ علامہ حلی، علامہ مجلسی، محقق بحرانی، شیخ حر عاملی اور دیگر علما کی تالیفات کے مصادر اور اسی طرح فقہی، کلامی، حدیثی اور ادعیہ کی کتب کے مآخذ میں سے ہے۔[5]

اس کتاب کی تمام روایات اسناد کے ساتھ ذکر ہونے اور خاص طور پر پپانچویں اور چھٹی صدی ہجری کے ایرانی علما کے ناموں کے ذکر کیوجہ سے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

عماد الدین طبری نے ری، آمل، نیشابور، نجف اور کوفہ کے جن بعض محدثین سے استفادہ کیا ان کا ذکر اس کتاب میں کیا ہے۔ نیز پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں کوفہ کی تشیع کی شناخت میں نہایت اہمیت رکھتی ہے خاص طور پر زیدی مسلک کے اسانید جیسے ابو عبد اللہ علوی اور ابو البرکات زیدی وغیرہ۔

روش تحریر

یہ ایک روائی کتاب ہے۔ مصنف نے کسی روایت کی سند حذف کئے بغیر تمام روایات اسناد کے ساتھ ذکر کی ہیں۔

طبری نے خود اس کتاب میں ابواب ترتیب نہیں دئے لیکن اہل بیت پیامبر اکرم(ص): امام علی(ع) تا حضرت مہدی (عج) کی احادیث کی جمع آوری کی ہے۔[6]

مضامین

اس کتاب میں نگاہ پیغمبر میں شیعہ کی فضیلت و مقام کی روایات ذکر ہوئی ہیں اور مناسب مقام پر زیبا اشعار ذکر ہوئے ہیں نیز فضائل آئمہ اور ان کے دشمنوں کی مذمت میں مروی روایات مذکور ہیں۔

خاص طور پر پہلے زائر کربلا جابر کی عطیہ عوفی کے ہمراہ امام حسینؑ کی زیارت مسند اور تفصیلی ذکر ہوئی ہے۔

طبری نے اپنی کتاب کو سترہ(17) حصوں میں تقسیم کیا لیکن اس وقت ہماری دسترس میں اس کتاب کے دس(10) اجزا ہیں جو اول کتاب سے لے کر دسویں کے آخر تک ہے۔[7] کتاب کے اجزا مخصوص اجزا پر مشتمل نہیں ہیں مختلف مقامات پر مختلف موضوعات کی ابحاث مذکور ہیں۔

کتاب کی چار فصلیں مکمل طور پر مسند صورت میں مکمل اسناد کے ساتھ مذکور ہیں۔ لیکن باقی فصول میں روایات مرسلہ منقول ہیں شاید یہ نسخے کی نقل اتارنے والوں کی جانب سے ایسا ہوا ہو۔[8]

قلمی نسخے

موجود قلمی نسخے چار فصلوں سے زیادہ پر مشتمل نہیں ہیں، اسی وجہ سے محدث نوری کے نزدیک بعید ہے کہ یہ کتاب چار فصلوں سے زیادہ پر مشتمل ہو لیکن ظاہری طور پر کتاب چار فصلوں سے زیادہ پر مشتمل ہے چونکہ سید بن طاووس نے ماہ رمضان کے اعمال میں پیغمبر کا خطبہ شعبانیہ اسی کتاب سے نقل کیا ہے جبکہ یہ خطبہ موجودہ قلمی نسخوں میں موجود نہیں ہے۔[9]

ابن حجر نے لسان المیزان میں اسماعیل بن ابی القاسم بن احمد ابواسحاق آملی دیلمی کے حالات میں لکھا کہ اس نے بشارۃ المصطفی سے روایت نقل کی ہے جبکہ موجودہ قلمی نسخوں میں وہ روایت موجود نہیں ہے۔[10] بہر حال موجودہ قلمی نسخے حال حاضر میں درج ذیل مقامات پر موجود ہیں:

  • کتابخانہ ملک تہران.
  • نجف اشرف کا چاپی نسخہ جو سال ۱۳۶۹ ق میں ۲۹۰ صفحات پر چھپا۔ یہ نسخہ شیخ حسن جواہری کی کاوشوں سے احیا ہوا۔[11]
  • قم (ایران) کا چاپی نسخہ جو سال ۱۴۲۲ق میں ۴۶۶صفحات پر طبع ہوا۔ جواد قیومی اصفہانی نے اس کی کوشش کی اور جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ نے طبع کیا۔

طباعت اور ترجمہ

بشارۃ المصطفی کئی مرتبہ عراق، لبنان اور ایران میں طبع ہوئی۔

سید ابوالفضائل مجتہدی نے اسکا فارسی میں ترجمہ کیا اور وہ «‌بشارات نبوی بہ شیعیان علوی‌» کے نام سے چھپا۔ یہ ترجمہ ۴۳۱ صفحہ پر مؤسسہ فرہنگی انتشاراتی مکیال نے سال ۱۳۷۹ش چھپوایا۔

حوالہ جات

  1. تہرانی، الذریعہ، ج۳، ص۱۱۷.
  2. ابن شہرآشوب، معالم العلماء، ص۱۵۴.
  3. عسقلانی، لسان المیزان، ۱۳۹۰ق، ج۱، ص۴۲۹. ج۲، ص۲۶۵.
  4. بشارہ المصطفی(ص) و لشیعہ المرتضی(ع)، مترجم فربودی،  ۱۳۸۷ش ، ص۷.
  5. کتابخانہ دیجیتال نور.
  6. کتابخانہ دیجیتال نور.
  7. تہرانی، الذریعۃ، ج۳، ص۱۱۸.
  8. قیومی اصفہانی، ص۱۲.
  9. مجتہدی، بشارات نبوی بہ شیعیان علوی، ۱۳۷۹ش، ص۳۲.
  10. مجتہدی، بشارات نبوی بہ شیعیان علوی، ۱۳۷۹ش، ص۳۲.
  11. طبری، بشارۃ المصطفی، ۱۴۲۰ق، ص۱۲.

مآخذ

  • امین سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، ۱۴۲۱ق.
  • تہرانی، آقا بزرگ، الذریعۃ الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دار الاضواء.
  • طبری، عمادالدین، بشارۃ المصطفی، قم، جامعہ مدرسین، تحقیق جوادقیومی، ۱۴۲۰ق.
  • طبری آملی عمادالدین، محمد بن علی، بشارہ المصطفی(ص) و لشیعہ المرتضی(ع) مترجم:فربودی، محمد، نہاوندی، قم،  ۱۳۸۷ش .
  • عسقلانی، ابن حجر، لسان المیزان، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی، ۱۳۹۰ق.
  • مازندرانی، محمد بن علی، معالم العلماء بی‌تا، بی‌جا.
  • مجتہدی، سید ابوالفاضل، بشارات نبوی بہ شیعیان علوی، موسسہ فرہنگی انتشاراتی مکیال، ۱۳۷۹ش.
  • کتاب شناخت سیرہ معصومان، مرکز تحقیقات کامپیوتری علوم اسلامی نور.

بیرونی رابط

آشنایی با منابع دست اول شیعہ: بشارۃ المصطفی لشیعۃ المرتضی