علی بن یقطین

ویکی شیعہ سے
علی بن یقطین
کوائف
مکمل نامعلی بن یقطین بن موسی بغدادی
تاریخ ولادت124 ھ، کوفہ
تاریخ وفات182 ھ، بغداد
نامور اقرباءیقطین بن موسی بغدادی۔
علمی معلومات
تالیفاتما سئل عنہ الصادق (ع) من الملاحم‌، الشاک بحضرتہ (ع)‌، مسائل عن ابی الحسن موسی بن جعفر‌۔
خدمات
سماجیفقیہ و متکلم۔


علی بن یقطین بن موسی بغدادی (۱۲۴۔۱۸۲ ھ)، امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے دور میں شیعہ محدث، فقیہ، متکلم اور بزرگان میں سے ہیں۔ وہ کوفہ کے رہنے والے اور بغداد میں مقیم تھے۔ شیعہ ہونے کے باوجود عباسی حکومت کے وزیر اور ان کے مورد اعتماد تھے۔ ائمہ اہل بیتؑ اور شیعہ علماء کے نزدیک بلند مرتبہ رکھتے ہیں۔ سیرت نگاروں نے ان کی طرف تین کتابوں کی تالیف کی نسبت دی ہے۔

ولادت اور بچپن

علی بن یقطین ا۲۴ ق میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ چونکہ ان کے والد یقطین بن موسی امام جعفر صادق علیہ السلام کے شیعوں میں سے تھے، اس لئے مروان بن حکم کی خلافت کے زمانہ میں حکومت ان کی تلاش میں تھی، لہذا وہ اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں (علی و عبید) کے ساتھ فرار پر مجبور ہو گئے اور کوفہ ترک کرکے مدینہ آ گئے۔ کچھ مدت کے بعد وہ بغداد چلے گئے اور وہاں انہوں نے ابزار (ایک قسم کا مصالحہ) کی خرید و فروخت کا کام کرنے لگے۔[1]

عباسی دربار میں رسائی

علی بن یقطین اموی حکومت کے زوال اور عباسی حکومت کے ظہور کے بعد کوفہ واپس آ گئے[2] [3]اور انہوں نے عباسی دربار سلطنت تک رسائی حاصل کر لی۔ شروع میں وہ دربار میں مہدی عباسی[4] کے پیشکار کی حیثیت سے رہے، بعد میں انہیں ناظم امور منتخب کیا گیا۔[5]

ہادی عباسی کے زمانہ میں دربار حکومت میں ان کی وقعت میں اضافہ ہو گیا۔ یہاں تک کہ انگشتر و مہر خلافت ان کے حوالے کر دی گئی[6] اور وہ ہارون الرشید (متوفی ۱۹۳ ھ) کے نزدیکیوں میں سے ہو گئے۔

علی بن یقطین کا شیعہ ہونا

ان کے شیعہ ہونے میں کوئی بھی شک و شبہ نہیں ہے۔ البتہ ان کا مسلک ان کے والد کی طرح عباسی خلفاء کی نظر سے مخفی تھا۔ امام موسی کاظم علیہ السلام سے وہ قریبی رابطہ رکھتے تھے اور امام کے نزدیک بہت اعتبار کے حامل تھے۔

شیعوں اور تاریخی و روائی شواہد کے مطابق علی بن یقطین کا عباسی خلافت کے دربار میں داخل ہونا امام موسی کاظم علیہ السلام کی اجازت اور ان کی رہنمائی کی وجہ سے تھا۔[7] [8] تا کہ وہ مظلوموں کی فریاد رسی اور شیعوں کی مدد کر سکیں۔[9] اسی سبب سے بارہا ہارون الرشید کے سامنے ان کے مسلک اور امام کاظمؑ سے ان کے ارتباط کی شکایت کی گئی۔ البتہ انہیں کوئی گزند نہیں پہنچی۔

علی بن یقطین کا مرتبہ

ائمہؑ کے نزدیک

علی بن یقطین دو اماموں کے دور میں رہے اور ان کی طرف سے مورد تائید و توجہ قرار پائے۔ نقل ہوا ہے کہ جب وہ بچے تھے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے ان کے حق میں دعا فرمائی۔[10] امام کاظمؑ سے ان کے سلسلہ میں کئی حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا:

  • آپ کے سلسلہ میں اسی چیز کو پسند کرتا ہوں جو اپنے سلسلہ میں پسند کرتا ہوں۔[11]
  • آپ نے گواہی دی کہ علی بن یقطین اہل بہشت ہیں۔[12][13]
  • حضرت نے ان کے لئے ضمانت لی ہے کہ آتش جہنم ان تک نہیں پہچے گی۔[14]
  • ایک دوسری روایت میں امام موسی بن جعفر فرماتے ہیں: جب میں حج پر تھا تو میرے ذہن میں کسی کا خیال نہیں آیا سوائے علی بن یقطین کے، وہ ہر وقت میرے ساتھ رہے اور میری نظروں سے غائب نہیں ہوئے جب تک میں وہاں رہا وہ ساتھ رہے۔[15]

بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام کاظمؑ کے وکیل تھے اور اس روایت کے مطابق جو شیخ طوسی نے نقل کی ہے وہ بعض خطوط اور اموال کو شیعوں میں سے دو لوگوں کے ذریعہ سے امام کاظمؑ تک بھیجتے تھے اور امام کا جواب دریافت کرتے تھے۔[16]

علی بن یقطین کے ایمان اور پارسائی کے بارے میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں۔ منجملہ ان میں سے وہ روایت ہے جس میں امام کاظم نے ان کے لئے جنت کی ضمانت لی ہے۔[17]

علماء کے نزدیک

شیعہ علماء جیسے نجاشی، شیخ طوسی، علامہ حلی، ابن شہر آشوب، مامقانی و سید ابو القاسم خوئی انہیں امام کاظمؑ کے خاص اصحاب میں شمار کرتے ہیں۔ جو امام کے نزدیک بلند مرتبہ تھے اور کسی نے بھی ان کے مذمت ذکر نہیں کی ہے۔ یہ حضرات علی بن یقطین کو صاحب تالیفات، فقیہ، متکلم، ثقہ، جلیل القدر اور مورد اعتبار جیسے اوصاف سے متصف کرتے ہیں۔[18][19][20][21][22]

مقام علمی

کتب اربعہ میں علی بن یقطین سے بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں۔ رجال کی کتب میں ثبت گزارشات اس بات کی حکایت کرتی ہیں کہ انہوں نے امام صادقؑ سے ایک روایت اور امام کاظمؑ سے بہت سی روایات نقل کی ہیں۔[23]

ان کی تالیفات

کتب رجال میں ان کی ۳ کتابوں کا ذکر ہوا ہے جنہیں یہاں ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:

۱۔ ما سئل عنہ الصادق (ع) من الملاحم: اس کتاب میں امام صادقؑ سے مستقبل میں پیش آنے والے حوادث و فتن کے سلسلہ میں کئے گئے سوالات کے جوابات میں امام کی پیشنگوئیوں کا ذکر ہوا ہے ۔
۲۔ الشاک بحضرتہ: اس کتاب میں امامؑ کے محضر میں ایک اہل شک سے ہوئے مناظرہ کو شامل کیا گیا ہے۔
۳۔ مسائل عن ابی الحسن موسی بن جعفر: اس کتاب میں ان مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے جو علی بن یقطین نے امام کاظمؑ سے حاصل کئے تھے۔[24]

وفات

علی بن یقطین نے سن ۱۸۲ ھ ۵۷ برس کی عمر میں بغداد میں اس وقت وفات پائی جب امام موسی کاظم علیہ السلام ہارون الرشید کی قید میں تھے۔ ہارون کے ولی عہد محمد امین نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔[25][26]

حوالہ جات

  1. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۳.
  2. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۵ق، ص۲۷۳.
  3. مامقانی، تنقیح المقال، ص۳۱۵.
  4. طبری، تاریخ طبری، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۵۲۲.
  5. طبری، تاریخ طبری، ۱۸۷۹م، ج۶، ص۳۹۱.
  6. طبری، تاریخ طبری، ۱۸۷۹م، ج۳، ص۴۰۸.
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ق، ج۷۲، ص۳۷۰.
  8. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق، ج۱۳، ص۲۴۲ و ۲۴۳.
  9. امین، اعیان الشیعة، ۱۴۰۳ق، ج۸، ص۳۷۱.
  10. مامقانی، تنقیح المقال، ص۳۱۵.
  11. کلینی، کافی، ۱۳۶۳ش، ج۴، ص۵۲۴.
  12. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۷۳۰.
  13. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۵ق، ص۲۲۲.
  14. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۷۳۰.
  15. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۷۳۰.
  16. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ج۲، ص۷۳۵.
  17. کشی، رجال کشی، ۱۴۰۴ق، ص۲۰۴-۲۰۵.
  18. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۵ق، ص۴۵.
  19. طوسی، الفهرست، ۱۳۵۱ش، ص۱۵۴.
  20. حلی، خلاصه الاقوال، ص۱۰۰.
  21. ابن شهرآشوب، معالم العلماء، ص۹۹.
  22. خویی، معجم رجال الحدیث، ۱۴۱۳ق، ج۱۳، ص۲۴۲ و ۲۴۳.
  23. نجاشی، رجال نجاشی، ۱۴۱۵ق، ص۴۵.
  24. طوسی، الفهرست، ص۱۵۵.
  25. طوسی، الفهرست، ۱۳۵۱ش، ص۱۵۵.
  26. خویی، معجم رجال حدیث، ۱۴۱۳ق، ج۱۳، ص۲۴۲ و ۲۴۳.

مآخذ

  • ابن شہر آشوب، محمد علی، معالم العلماء، قم، بی‌ نا، بی‌ تا
  • امین، محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، ۱۴۰۳ ق
  • حلی، حسن بن یوسف، خلاصة الاقوال، نشر الفقاہہ، ۱۴۱۷ ق
  • خویی، ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، بی‌ جا، ۱۴۱۳ ق
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ، بہ کوشش دخویہ، لیدن، ۱۸۷۹-۱۸۸۱
  • طوسی، محمد بن حسن، اختیار معرفہ الرجال (معروف بہ رجال کشی)، قم، آل البیت، ۱۴۰۴ ق
  • طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، بہ کوشش محمود رامیار، مشہد، ۱۳۵۱ ش
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الکتب الاسلامیہ، ۱۳۶۳ ش
  • مامقانی، عبدالله، تنقیح المقال فی علم الرجال، نجف، المطبعہ المرتضویہ، بی‌ تا
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث، ۱۴۰۳ ق
  • نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، قم، جامعہ مدرسین، ۱۴۱۵ ق
ٗ