سید دلدار علی نقوی

ویکی شیعہ سے
سید دلدار علی نقوی
غفران مآب سے منسوب تصویر
غفران مآب سے منسوب تصویر
کوائف
مکمل نامسید دلدار علی نقوی
لقب/کنیتغفران مآب
نسبنقوی سادات
تاریخ ولادت17 ربیع الثانی 1166ھ
آبائی شہرنصیر آباد
رہائشلکھنؤ
تاریخ وفات19 رجب 1235 ھ
مدفنلکھنؤ
نامور اقرباءسید محمد نقوی (والد)، سید محمد سلطان العلما، سید مہدی و سید حسین علیین (فرزند)
اولادپانچ بیٹے
جانشینسلطان العلما سید محمد رضوان مآب
علمی معلومات
مادر علمیلکھنؤ، نجف، کربلا اور مشہد
اساتذہوحید بہبہانی، صاحب ریاض، سید بحر العلوم، سید محمد مہدی شہرستانی
شاگردسید احمد علی محمد آبادی، سید محمد قلی، میرزا جعفر، سید یاد علی، میر مرتضیٰ...
اجازہ روایت ازصاحب ریاض، سید بحر العلوم، سید محمد مہدی شہرستانی
اجازہ اجتہاد ازسید بحر العلوم
اجازہ اجتہاد بہسید محمد سلطان العلماء
تالیفاتحاشیہ شرح ہدایۃ الحکمہ، منتہی الافکار، اساس الاصول، شرح حدیقۃ المتقین، صوارم الٰہیات ...
خدمات
سماجینصیر آباد میں ایک مسجد اور لکھنؤ میں ایک امام بارگاہ کا قیام


سید دلدار علی نقوی (1166_1235ھ) غفران مآب کے لقب سے مشہور، برصغیر کے معروف شیعہ مجتہد، اور متکلم تھے۔ آپ نے نجف اشرف اور مشہد میں دینی تعلیم حاصل کی اور سید بحر العلوم، صاحب ریاض، میرزا مہدی شہرستانی اور سید محمد مہدی خراسانی جیسے علماء سے روایت اور اجتہاد کا اجازنامہ حاصل کیا۔ آپ پہلے اخباری مسلک کے پیرو تھے اور تحقیق کے بعد اصولی مکتب اختیار کیا۔ سید دلدار علی نقوی ہندوستان میں اصولی مسلک کے بانی کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ مسلک اصولی کی حقانیت کے اثبات میں آپ نے اساس الاصول نامی ایک کتاب تصنیف کی۔
سید دلدار علی نقوی کا لکھنؤ میں اودھ خاندان کے شیعہ حکمرانوں میں احترام کیا جاتا تھا۔ آپ نے اودھ حکمرانوں کی مدد سے حرم امام حسینؑ کی تعمیر نو اور لکھنؤ میں برصغیر پاک و ہند کی شیعہ آبادی میں پہلی نماز جمعہ قائم کی۔ آپ نے ہندوستان کے مختلف مقامات پر امام بارگاہیں اور مساجد قائم کیں۔ آپ نے مراۃ العقول فی علم الاصول، منتہی الافکار فی اصول الفقہ جیسی کتابیں تالیف کرنے کے ساتھ ساتھ تشیع کے خلاف لکھی گئی کتاب "تحفہ اثنا عشریہ" کے رد میں کتابیں تحریر کیں۔

سوانح حیات

ولادت و نسب

سید دلدار علی نقوی ولد محمد معین نقوی سنہ 1166ھ میں لکھنؤ کے قریب واقع[1] قصبہ نصیر آباد میں پیدا ہوئے۔[2] کتاب "ورثۃ الانبیاء" میں آپ کی تاریخ ولادت 17 ربیع الثانی 1166ھ بتائی گئی ہے۔[3] آپ کا نسب 22 واسطوں سے امام علی النقیؑ سے ملتا ہے۔[4] تاریخ لکھنؤ کے مطابق سید دلدار علی کو سنہ 1235ھ میں ان کی وفات کے بعد غفران مآب کا لقب دیا گیا۔ اس وقت سے آپ غفران مآب کے نام سے مشہور ہوئے۔[5]

آپ کے اجداد میں سے نجم الدین پہلے شخص ہیں جنہوں نے ایران کے شہر سبزوار سے سلطان محمود غزنوی کے سپہ سالار مسعود غازی کی مدد کیلئے ہندوستان کا سفر کیا اور لکھنؤ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر کسی جگہ سکونت اختیار کی۔[6]۔

وفات

امام بارگاہ غفران مآب میں آیت اللہ سید دلدار علی کی آرامگاہ

سید دلدار علی نقوی نے 19 رجب سنہ 1235ھ بمطابق 3 مئی 1820ء کو لکھنؤ میں وفات پائی۔[7] آپ یہاں اپنے تعمیر کردہ امام بارگاہ دار التعزیہ میں مدفون ہوئے جسے آج کل امام بارگاہ غفران مآب کہا جاتا ہے۔

اولاد

آپ کے پانچ بیٹے تھے ان کے نام یہ ہیں:

  • سلطان العلما سید محمد نقوی (1199-1284ھ): آپ کا شمار ہندوستان کے مشہور شیعہ علما، مجتہدین اور متکلمین میں ہوتا ہے اور 19 سال کی عمر میں اجتہاد کے مرتبے پر فائز ہوئے۔[8] سلطان العلماء مختلف کتابوں کے مصنف تھے جن میں سے احياء الاجتہاد، بضاعۃ مزجاۃ، گوہر شاہوار(اصول و فقہ) اور مناقب ائمہ اطہارؑ آپ کی اہم تصنیفات ہیں۔[9]
  • سید علی(1200۔1259ھ): آپ اپنے زمانے کے منفرد قاری تھے، تجوید اور سید الشہداء کے مرثیوں پر مشتمل کتابیں آپ کے قلمی آثار میں شامل ہیں۔ [10]
  • سید حسن(1205-1273ھ): آپ کا شمار بھی لکھنؤ کے مشہور علما میں ہوتا ہے۔ آپ کی تالیفات میں باقيات الصالحات، تذکرۃ الشيوخ، تحرير اقلديس جیسی کتابیں قابل ذکر ہیں۔ آپ نے 1273ھ میں ہندوستان میں وفات پائی۔[11]
  • سید مہدی: آپ نے اپنے والد کی حیات میں ہی 23 سال کی عمر میں وفات پائی۔[12]
  • سید العلماءسید حسین علیین(1211-1273ھ):[13] آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ مفسر اور محدث تھے۔[14]

علمی زندگی

آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد کے پاس حاصل کی۔ ہندوستان میں موجود دیگر علما سے مزید علم حاصل کیا۔[15] ہندوستان سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد مزید علم کے حصول کے لیے عراق کا رخ کیا۔ عراق میں آپ نے اس وقت کے مشہور اساتذہ و فقہاء وحید بہبہانی، صاحب ریاض، سید بحر العلوم اور سید محمد مہدی شہرستانی سے کسب فیض کیا۔[16]
سید دلدار علی نقوی سنہ 1194ھ میں مشہد گئے یہاں انہوں نے سید محمد مہدی خراسانی کے درس میں شرکت کی اور ان سے اجازہ اجتہاد حاصل کیا۔ آپ سنہ 1200ھ میں ہندوستان واپس آئے اور نصیر آباد میں اصول فقہ کی درس تدریس شروع کی۔ محسن امین آملی کے مطابق اودھ ریاست کے وزیر آپ کو نصیر آباد سے لکھنؤ لے آئے تھے۔[17]

ہندوستان میں اصولی مکتب کی ترویج

محمد امین استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے بر صغیر میں آنے اور یہاں اصولی کتب کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاک و ہند کی شیعیت میں اخباریت رائج تھی اور آپ بھی ابتدائی طور پر اخباری ہی تھے لیکن ایران و عراق کی طرف سفر کرنے اور نجف میں شیخ جعفر کاشف الغطا اور آیت اللہ سید محسن بغدادی سے ملاقات اور ان کے ساتھ بحث و مباحثے کے بعد کربلا جاکر دونوں مکاتب کا تقابلی جائزہ لینے کا عزم کیا اور یوں اس مطالعے سے امین استر آبادی کے بعض نظریات کا غلط ہونا ثابت ہوا، یوں مکتب اصولی کی حقانیت کو جان گئے۔ لکھنؤ واپسی پر سب سے پہلے اساس الاصول کے نام سے فوائد مدنیہ کے رد میں استدلالی جواب لکھا۔ یہ کتاب ہندوستان کے مدارس علمیہ کے نصاب کا حصہ بنی۔[18] بعد از آں آپ ہندوستان میں اصولی مسلک کے فروغ میں متحرک مجتہد کے طور پر مشہور ہوئے۔[19] ساتھ ہی ساتھ آپ ہندوستان میں مدارس علمیہ کے بانی اور یہاں کے شیعہ مجتہد کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔[20] سید احمد علی محمد آبادی، سید محمد بن محمد حامد کنتوری، المعروف سید محمد قلی، امیر سبحان علی خان، سید حمایت حسین نیشاپوری کنتوری، مرزا زین العابدین، سید یاد علی (تفسیر قرآن(فارسی) کے مصنف) اور سید میر مرتضیٰ محمد کشمیری (اسرار الصلاۃ اور اوزان شریعیہ کے مصنف) آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔[21] آپ نے درس و تدریس کے علاوہ نصیر آباد اور لکھنؤ میں ایک کتابخانہ، دو مساجد اور دو امام بارگاہیں قائم کیں۔[22]

علمی مقام و رتبہ

سید دلدار علی نقوی کے علمی مقام و رتبے کے سلسلے میں مختلف القابات علما کے درمیان مشہور ہیں۔ صاحب جواہر نے آپ کو علامہ فائق، خاتم المجتہدین، آیت الله العظمی فی الاولین و الاخرین جیسے القابات سے یاد کیا ہے۔[23]آقا بزرگ تہرانی نے آپ کو ہندوستان کے مشہور شیعہ علما میں سے قرار دیا ہے۔[24]صاحب ریاض اور سید بحر العلوم نے آپ کی اساس الاصول اور الموعظۃ الحسینیہ نامی کتابوں پر تقریظ لکھی ہے۔[25]

روایت اور اجتہاد کی اجازت

آپ نے سید بحر العلوم[26] اور ميرزا مہدى شہرستانى(1130-1216ھ) سے روایت و اجتہاد کا اجازہ حاصل کیا ہے۔[27]اعیان الشیعہ کے نقل کے مطابق آپ نے اپنی بعض تالیفات نجف اپنے اساتذہ کی خدمت میں بھیج دیں تو تمام اساتذہ نے آپ کو نقل روایت اور اجتہاد کی اجازت دی۔[28]

نماز جمعہ کا قیام

لکھنؤ میں پہلی بار آپ سید دلدار علی نقوی نے نماز جمعہ قائم کی۔ کہا جاتا ہے کہ آپ امام زمانہ کی غیبت میں نماز جمعہ کے اثبات کو ائمہ طاہرین کی تعلیمات کی روشنی میں تحریری صورت میں لکھ چکے تھے۔ انہی دنوں محمد علی کشمیری نے نماز جماعت کی فضیلت پر ایک کتاب لکھی جس کی وجہ سے نواب آصف الدولہ نے نماز جماعت قائم کرنے پر زور دیا تو سنہ 1200ھ کے ماہ رجب کی تیرھویں کو وزیر اعظم حسن رضا خان کے محل میں پہلی نماز جماعت پڑھی گئی اور رجب کی 27ویں تاریخ کو لکھنؤ میں مذہب شیعہ کی پہلی نماز جمعہ آپ کی اقتدا میں پڑھی گئی۔[29]

علمی آثار

سید دلدار علی نقوی نے فقہ، اصول فقہ، کلام اور منطق میں متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں۔ آپ کی اکثر کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جبکہ بعض تصنیفات اب تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوئی ہیں[30]:

  • مرآة العقول فی علم الاصول (عمادالاسلام فی علم الکلام): یہ کتاب فخر الدین رازی کی کتاب نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول کے رد میں لکھی گئی ہے۔ یہ کتاب پانچ جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
  • آپ نے مولوی عبد العزیر دہلوی کی کتاب (تحفہ اثنا عشریہ) کے مختلف ابواب کے رد میں الگ الگ کتابیں تحریر کی ہیں۔ دہلوی کی کتاب کے باب توحید کے رد میں صوارم الہیات، باب نبوت کے رد میں حسام الاسلام، باب امامت کے رد میں تتمہ صوارم الہییات، باب تولی و تبری کے رد میں کتاب ذوالفقار، معاد اور رجعت کی بحث کے رد میں کتاب احیاء السنۃ تصنیف کی ہے۔
  • شرح حدیقۃ المتقین؛ جس میں باب طہارت، صوم اور زکات کی فارسی زبان میں شرح کی ہے۔
  • استر آبادی کی کتاب الفوائد المدنیہ کے رد میں آپ نے عربی میں کتاب اساس الاصول تصنیف کی۔ سید بحرالعلوم و صاحب ریاض نے اس کتاب پر تقریظ بھی لکھی ہے۔
  • میرزا قمی کی کتاب قوانین کے بعض مطالب کے رد میں آپ نے منتہی الافکار فی اصول الفقہ کی کتاب عربی میں تالیف کی ہے۔[31]

متعلقہ صفحات

حوالہ جات

  1. سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص242۔
  2. سید محسن الامین، اعیان الشیعہ، چاپ دار التعارف، ج6 ص425
  3. سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص500۔
  4. سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص37 و جامعہ المصطفی العالمیہ نیوز ایجنسی، تاریخ درج؛22 خرداد 1391 ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ؛ 23اپریل 2019ء
  5. سید آغا مہدی لکھنوی، تاریخ لکھنؤ، کتب پرنٹر اینڈ پبلیشرز، ص319، تاریخ لکھنو، مرکز احیاء آثار برصغیر آفیشل ویب سائٹ
  6. محسن امین عاملی، اعیان الشیعہ، ج6، ص425۔
  7. مرتضی حسین صدر الافاضل، مطلع انوار، احوال دانشوران شیعہ پاکستان و ہند، 1374 ہجری شمسی، ص250
  8. مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃ الادب، ج3، ص59
  9. مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃ الادب، ج3، ص59
  10. مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃالادب، کتابفروشی خیام، ج6، ص232
  11. مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃالادب، کتابفروشی خیام، ج6، ص233
  12. سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص 97۔
  13. سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص52
  14. سید احمد و سید مہدی ،ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، ص204/205
  15. مرتضی حسین، صدر الافاضل، مطلع انوار، احوال دانشوران شیعہ پاکستان و ہند، کراچی، ص246
  16. جامعہ المصطفی العالمیہ ینوز ایجنسی، تاریخ درج: 22 خرداد 1391ہجری شمسی، تاریخ مشاہدہ: 23 اپریل 2019ء
  17. سید محسن امین، اعیان الشیعہ، 1406ھ، ج6، ص425
  18. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ إلى تصانيف الشيعۃ، 1408ھ، ج17، ص167.
  19. زیدی، نقش دلدار علی نقوی در گرایش شیعیان شبہ قاره ہند بہ مسلک اصولی، ص219۔
  20. زیدی، نقش دلدار علی نقوی در گرایش شیعیان شبہ قاره ہند بہ مسلک اصولی، ص220۔
  21. سید محسن امین، اعیان الشیعہ، 1406ھ، ج6، ص425
  22. مطلع الانوار، ص250 و 251، امین، اعیان الشیعه، 1406ھ، ج6، ص425۔
  23. سید محسن الامین، اعیان الشیعہ، 1406، ج6 ص426
  24. آقا بزرگ تہرانی، طبقات اعلام الشیعہ، مشہد، ج2، ص519
  25. سید سبط حیدر زیدی، نقش دلدار علی نقوی در گرایش شیعیان شبہ قارہ ہند بہ مسلک اصولی، ص220
  26. آقا بزرگ تہرانی، إجازات الروايۃ و الوراثۃ في القرون الأخيرۃ الثلاثہ، ج1، ص542
  27. سید محسن الامین، أعيان الشيعۃ، ج10، ص163، معارف، ج3، ص84، موسوعۃ طبقات الفقہاء، ج13، ص628
  28. سید محسن الأمين، أعيان الشيعہ، ج6، ص425
  29. نماز جمعہ کی تفصیل کیلئے دیکھیں: سید احمد نقوی، ورثہ الانبیاء، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ قم، 1389ہجری شمسی، ص252و253...
  30. صدر الافاضل، مطلع انوار، احوال دانشوران شیعہ پاکستان و ہند، 1374ہجری شمسی، ص241
  31. سید محسن الامین، اعیان الشیعه، 1406ھ، ج6، ص426.

مآخذ

  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن منزوی، الذریعہ إلى تصانيف الشيعۃ، قم، اسماعيليان،1408ھ۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن منزوی، طبقات اعلام الشیعہ: الکرام البررۃ فی القرن الثالث بعد العشرۃ، مشہد، دار المرتضی للنشر، بی¬تا۔
  • حسینی عاملی، سید محسن الامین، اعیان الشیعہ، بیروت، چاپ دار التعارف، 1406ھ۔
  • زیدی، سید سبط حیدر، نقش دلدار علی نقوی در گرایش شیعیان شبہ قارہ ہند بہ مسلک اصولی، مجلہ سفیر- ویژہ نامہ شمارہ 3 ناشر: مشہد، موسسہ فرہنگی قدس، سال۱۳۸۵ہجری شمسی۔
  • صدر الافاضل، مرتضی حسین، مطلع انوار، احوال دانشوران شیعہ پاکستان و ہند، مترجم: محمد ہاشم، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، ۱۳۷۴ ہجری شمسی۔
  • مدرس تبریزی، محمدعلی، ریحانۃالادب فی تراجم المعروفین بالکنیہ او اللقب، تہران، کتابفروشی خیام، 1369 ہجری شمسی۔
  • مرتضی حسین صدر الافاضل؛ مطلع انوار؛ احوال دانشوران شیعہ پاکستان و ہند؛ مترجم: محمد ہاشم؛ چاپ:بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی ، ۱۳۷۴ ہجری شمسی۔
  • مہدی لکھنوی، سید آغا، تاریخ لکھنؤ، کراچی، کتب پرنٹر اینڈ پبلیشرز، 1396ھ۔
  • نعمانی، خلیل الرحمان، تحفۂ اثنا عشریہ، بی¬جا، بی¬نا، بی¬تا۔
  • نقوی، سید احمد، معروف بہ علامہ ہندی، ورثہ الانبیاء حصۂ تذکرۃ العلماء، قم، مؤسسہ کتاب شناسی شیعہ، 1389شمسی ہجری۔