منہ بولی اولاد

ویکی شیعہ سے

منہ بولا بیٹا یا منہ بولی اولاد وہ ہے جسے کوئی دوسرا (اپنے ماں باپ کے علاوہ) اپنی فرزندی میں لے لے۔ قرآن میں منہ بولے بیٹے کا اسلام سے پہلے کے تصور اور نزول قرآن کے وقت کا ذکر ملتا ہے۔

قبل از اسلام (جاہلیت کے زمانے میں) منہ بولے بیٹے پر سگے بیٹے کی طرح وراثت اور محرمیت کے احکام نافذ ہوتے تھے۔ قرآن نے اس سے متعلق بعض احکام جیسے وراثت اور محرمیت کو کالعدم قرار دیا ہے۔ پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اپنے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کی مطلقہ زینب بنت جحش سے شادی کی۔ اس سے پہلے منہ بولے بیٹے کی بیوی (طلاق یافتہ) سے شادی کرنا جائز نہیں سمجھا جاتا تھا۔

منہ بولی اولاد کون ہے؟

منہ بولا اسے کہا جاتا ہے جسے کسی دوسرے نے (اپنے ماں باپ کے علاوہ) اپنی فرزندی میں قبول کیا ہو۔[1] اس بنیاد پر منہ بولے بیٹے کا ان والدین سے ایک خاص تعلق قائم ہوتا ہے۔[2] فقہی اصطلاح میں منہ بولا بیٹے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی وجہ سے دوسرے کے بچے کو اپنے سگے بچے کے عنوان سے قبول کرے؛ چاہے اس بچے کی اپنے والدین سے نسبت معلوم نہ ہو یعنی یہ نہ معلوم ہوکہ کس کا بچہ ہے جیسے وہ بچہ راستے میں کہیں بھٹکا ہوا ملے۔ یا معلوم ہو جیسے یتیم بچہ۔[3]

تاریخی سابقہ

منہ بولے بیٹے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔[4] اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اس زمانے کے روم اور فارس کی ترقی یافتہ قوموں میں بھی اس کا رواج تھا۔[5] اور ایران میں عرب کے حملے اور اسلامی احکام سے پہلے بھی یہ رائج تھا۔[6] عرب میں اسلام سے پہلے منہ بولے بیٹے یا تبنی کا رواج تھا اور منہ بولے بیٹے کو دُعی کہا جاتا تھا۔ اسی طرح منہ بولا بیٹا اُس باپ سے میراث پاتا تھا جس سے اسے پالا ہوتا تھا اور اس کی (مطلقہ یا بیوہ) سے باپ نکاح نہیں کر سکتا تھا۔[7]

قرآن کی نظر میں

منہ بولے بیٹے کے بارے میں قرآن کی آیات کا نزول بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ نزول قرآن کے زمانے میں بھی منہ بولے بیٹے کا تصور پایا جاتا تھا۔[8] قرآن نے منہ بولے بیٹے کے بارے میں قبل از اسلام تصور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پہلی بار سورہ قصص کی نویں آیت میں ذکر ہوا ہے۔ جب حضرت موسیٰؑ کو پانی سے نکالا گیا فرعون کی بیوی آسیہ نے کہا: اسے اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں شاید اس سے ہمیں فائدہ ہو۔ دوسری بار سورہ یوسف کی اکیسویں آیت میں ذکر ہوا ہے کہ جب عزیز مصر نے یوسف کو خریدا اور اپنی بیوی زلیخا سے کہا اسے اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں۔[9] اسی طرح سورہ انعام کی ۷۴ آیت میں آزر کا حضرت ابراہیم کے باپ کے عنوان سے ذکر ہوا ہے لیکن وہ ان کا چچا یا ان کی والدہ کا شوہر تھا، اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ آزر نے حضرت ابراہیم کو بیٹا (منہ بولا) بنایا ہوا تھا۔[10] بعض مفسرین کے مطابق منہ بولا بیٹا ایک معاہدہ کا مصداق ہے جس کا اشارہ سورہ نساء کی ۳۳ آیت میں ملتا ہے (اور وہ جن سے آپ نے عہد و پیمان باندھا ہے)۔[11] اہل عرب خدا کے بارے میں بھی منہ بولے بیٹے اور بیٹے کا تصور رکھتے تھے۔[12] قرآن کی بہت سی آیات میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ جیسے: سوره بقره، آیت ۱۱۶؛ سوره یونس، آیت ۶۸؛ اور بعض آیتیں خدا کے لیے منہ بولے بیٹے کی بھی نفی کرتی ہیں جیسے: سوره اسراء، آیت ۱۱۱؛ سورہ مریم، آیت ۹۲؛ سورہ انبیاء، آیت ۲۶۔

احکام

اسلام جاہلیت کی طرز پر منہ بولے بیٹے کے تصور اور اثرات کو سگے بیٹے کی طرح قبول نہیں کرتا ہے۔ قرآن صراحت کے ساتھ اس کو سورہ احزاب کی آیت ۴ میں اس کی نفی کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا جَعَلَ أَزْوَاجَكُمُ اللَّائِي تُظَاهِرُونَ مِنْهُنَّ أُمَّهَاتِكُمْ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ذَلِكُمْ قَوْلُكُمْ بِأَفْوَاهِكُمْ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ[؟؟]؛ اور تمہاری ازواج کو جنہیں تم لوگ ماں کہہ بیٹھتے ہو ان کو اللہ نے تمہاری مائیں نہیں بنایا اور نہ ہی تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ حق بات کہتا اور(سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔ اس آیت میں لفظ (ادعیا) (دعی کی جمع) ہے جس سے مراد منہ بولا بیٹا ہے اور اس میں اس بات کا اعلان ہے کہ کہ ماں باپ کا بچے کے ساتھ اک طبیعی اور حقیقی تعلق ہوتا ہے اور یہ تعلق کسی معائدے، قرارداد یا صرف کہنے سے نہیں بنتا۔ [13] اسی طرح بعد کی آیت میں تاکید کرتا ہے ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ فَإِنْ لَمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ۔[؟؟] منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو اللہ کے نزدیک یہی قرین انصاف ہے، پھر اگر تم ان کے باپوں کو نہیں جانتے تو یہ تمہارے دینی بھائی اور دوست ہیں) بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے زید بن حارثہ جو کہ آٹھ سال کے تھے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا اور یہ تیس سال تک ان کے منہ بولے بیٹے کے عنوان سے رہے۔[14] لیکن جب قرآن نے منہ بولے بیٹے کو باطل قرار دیا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ نے اس سنت کو ختم کرنے کے لیے اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلقہ زینب بنت جحش سے شادی کی۔ [15] قرآن سورہ احزاب کی آیات ( 36-40) میں اس شادی کا تذکرہ کرتا ہے۔ اسی طرح یہ اعتراض کہ پیغمبرؐ نے کیوں اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کی کا جواب اسی سورے کی آیت نمبر ۴۰ میں اس طرح دیتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ[؟؟]؛ محمدؐ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ہاں وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیّین ہیں) [16] قرآن منہ بولے بیٹے کے تین طرح کے رائج اثرات یعنی نَسَب مَحرَمیت اور وراثت کو رد کرتا ہیں۔

نسب

سورہ احزاب کی چوتھی آیت میں منہ بولے بیٹے کا نسبی تعلق اور سگے باپ کی جگہ کسی اور کے نام کو استعمال کرنے کو بالکل رد کرتا ہے۔ روایات میں بھی منہ بولے بیٹے اور اس کو قبول کرنے والے کے درمیان نسبی تعلق کے ثبوت نہیں ملتے ہیں۔ فقہی کتابوں میں بچے کا نسبی رشتہ داروں سے نسبی تعلق کے آثار بہت سی جگہوں پر بیان ہوئے ہیں۔ لیکن بعض کا مانا ہے کہ اسلام صرف بعض اثرات جیسے محرمیت، وراثت اور شادی کو تسلیم نہیں کیا گیا ہے لیکن باقی اثرات جیسے حضانت، شرعی ولایت، والدین اور اولاد کے درمیان نفقہ کا حق اور اولاد اور باپ کے درمیان سود وغیرہ) برقرار ہیں۔[17]

محرمیت

اسلام میں تین چیزیں محرمیت کا باعث بنتی ہیں۔ ان میں نسب (والدین کا اولاد کے ساتھ نسبی تعلق)، سبب (جیسے شادی کے بعد دلہن سے محرمیت یا ربیبہ کی محرمیت ہم بستری کے باعث) اور رضاعت۔ ان میں سے ہر ایک اپنے شرعی اصول و ضوابط ہیں۔[18] سورہ احزاب کی آیات ( ۳۶ تا ۴۰) میں منہ بولے بیٹے کی بیوی کا منہ بولے باپ کا نا محرم ہونے اور اس کی طلاق کے بعد اس سے شادی کے حلال ہونے کو بیان کرتی ہیں۔ بعض فقہائے معاصر نے منہ بولے بیٹے کی محرمیت کے بارے میں فتوا دیا ہے جن پر تنقیدیں بھی ہوئی ہیں اور ان کا دفاع بھی کیا گیا ہے۔[19] منہ بولے بیٹے اور اسے بیٹا بنانے والوں کے درمیان محرمیت کی مشکل کو حل کرنے کے لیے بعض راہ حل پیش کئے گئے ہیں جیسے رضاعت یا عقد بیان ہوا ہے۔ ان مسائل کے حل کا فقہی کتابوں میں رضاعت اور نکاح یا مراجع کرام کے استفتائات میں بیان ہوا ہے۔[20]

ارث

اسلام سے پہلے منہ بولے بیٹے کے تصور کے مطابق منہ بولا بیٹا سگے بیٹے کی طرح میراث کا حقدار ہوتا تھا۔ سور احزاب کی چوتھی اور چالیسویں آیتوں کے نزول کے بعد منہ بولا بیٹے کے سگے بیٹے کے عنوان سے تصور کی نفی کی گئی، اس کے بعد سے وراثت کے اثرات بھی باطل ہوگئے ۔[21] اسی طرح آیات ارث جیسے سورہ نساء کی آیت ۱۱ میں، جس میں والدین اور اولاد کی میراث کا ذکر ہوا ہے، وہ ان کے سگے ہونے پر دلالت کرتی ہے۔[حوالہ درکار]


منہ بولی اولاد کے ساتھ شادی

آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی نے منہ بولی اولاد کے ساتھ شادی کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ اکثر اوقات اس طرح کی شادی منہ بولی اولاد کے حق میں نہیں ہوتی بلکہ مصلحت کے خلاف ہوتی ہے۔ [22] اسی طرح بعض افراد نے آیہ محارم اور ربیبہ سے استناد کرتے ہوئے شادی کی حرمت کے مفہوم کی توسیع کے پیش نظر منہ بولی اولاد کے ساتھ شادی کو حرام جانا ہے۔[23]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. ہاشمی شاہرودی، «فرزندخوانده»، ۱۳۹۲ش، ص۶۸۰۔
  2. خنجری علی‌ آبادی، «بررسی فرزند خواندگی در فقہ امامیہ و حقوق موضوعہ ایران»، ۱۳۹۶ش، ص۱۱۔
  3. انصاری شیرازی، موسوعۃ أحکام الأطفال و ادلتہا، ۱۴۲۹ھ، ج۳، ص۲۳۴۔
  4. امامی، «وضع حقوقی فرزند خواندگی در ایران»، ۱۳۷۸ش، ص۲۴۔
  5. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ق، ج۱۶، ص۲۷۵۔
  6. امامی، «وضع حقوقی فرزند خواندگی در ایران»، ۳۷۸ش، ص۲۴۔
  7. حجت، «تحولات فرزند خواندگی در نظام حقوقی اسلام، ایران و فرانسہ»، ۱۳۸۴ش، ص۳۰؛ عالمی طامہ، «عقد فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۴۲-۴۴۔
  8. سبزواری، الاستنساخ بین التقنیۃ و التشریع، ۱۴۲۳ھ، ص۱۳۳۔
  9. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۶، ص۵۲۔
  10. غریب، «زوجین نابارور و فرزند خواندگی از دیدگاه فقہ شیعی»، ۱۳۸۷ش، ص۹۹، نقل از: غفاری، دراسات فی علم الدرایۃ، ۱۳۶۹ش، ص۱۳۸۔
  11. عالمی طامہ، «عقد فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۴۸-۴۹؛ تبادکانی، «ارث»، دائرة المعارف قرآن کریم، ج۲، ص۴۸۹۔
  12. مصطفوی، التحقیق فی کلمات القرآن الکریم، ۱۴۰۲ھ، ج۳، ص۲۱۹۔
  13. قرائتی، تفسیر نور، ۱۳۸۳ش، ج۹، ص۳۲۹۔
  14. عالمی طامہ، «عقد فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۵۲۔
  15. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ش، ج۱۷، ص۱۹۶۔
  16. طباطبائی، المیزان، ۱۴۱۷ھ، ج۱۶، ص۳۲۴۔
  17. عالمی طامہ، «عقد فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۳۹۔
  18. شریعتی‌ نسب، «محرمیت در فرزند خواندگی»، ۱۳۹۳ش، ص۲۲۷۔
  19. صانعی، مجمع المسائل، ج۲، ص۳۵۷و۳۵۸؛ صدر اللہی دامغانی، «مسئلہ فرزند خواندگی»، ۱۳۸۷ش، ص۵۔
  20. فاضل لنکرانی، جامع المسائل (فارسی)، [بی‌تا]، ج۱، ص۴۰۷۴۰۹؛ مکارم شیرازی، حیلہ‌ های شرعی و چاره‌ جوئی‌های صحیح، ۱۴۲۸ق، ص۹۷-۹۹؛ انصاری شیرازی، موسوعة أحکام الأطفال و أدلتها، ۱۴۲۹ق، ج۳، ص۲۴۶-۲۴۸۔
  21. تبادکانی، «ارث»، دائرة المعارف قرآن کریم، ج۲، ص۴۸۹۔
  22. «حکم ازدواج فرزند خوانده با سرپرست»۔
  23. میر داماد نجف ‌آبادی، «بررسی مشروعت ازدواج فرزند پذیر با فرزند خوانده با نگاه بہ آیات قرآن کریم»، ۱۳۹۶ش، ص۱۴۔

مآخذ