پاکستان

ویکی شیعہ سے
پاکستان
عام معلومات
سرکاری دیناسلام
کل آبادی228٬935٬145 نفر
رقبہ796,095 کیلومیٹر
حکومتجمہوریت، پارلیمانی نظام
کرنسی کی اکائیروپیہ
دار الحکومتاسلام آباد
اہم شہرکراچی، لاہور، پشاور
ادیاناسلام (96%)، دیگر (4%)
سرکاری زباناردو/ انگریزی
اسلام
مسلم آبادی96 فیصد
شیعوں کی تعداد
ملکی آبادی کے تناسب سے فیصد19 فیصد
پارٹیاں اور شیعہ گروہ
پارٹیاںمجلس وحدت مسلمین، تحریک جعفریہ
شیعہ مراکز
علمی مراکزوفاق المدارس شیعہ،
زیارتگاہیںبی بی پاکدامن،
شیعہ شخصیات
مذہبیشیخ بشیر نجفی،‌
سیاسیقائد اعظم، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو


پاکستان براعظم ایشیا کے جنوب میں واقع ایک اسلامی ملک ہے جس کا نظام اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس کی آبادی کا اکثر حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سنہ 1947ء کو یہ ملک آزاد ہوکر ہندوستان سے الگ ہوگیا۔ اس ملک کی عوام مختلف اقوام پر مشتمل ہے۔

اس ملک کی آبادی کا 20 فیصد حصہ شیعوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کے مختلف صوبوں کے مختلف صوبوں، شہروں اور دیہاتوں میں آباد ہے۔ پاکستان کے سیاسی نظام میں چونکہ مذہبی تفریق نہیں ہے اس وجہ سے شیعوں کے لئے اس ملک میں کسی قسم کی محدودیت نہیں ہے۔ اور بہت سارے سیاستدان اور اعلی عہدے دار شیعہ رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ شناخت کے ساتھ بھی مختلف ادارے اور پارٹیاں کام کر رہی ہیں۔ دینی مدارس، مختلف علمی اور تربیتی ادارے بھی شیعوں کی تعلیم و تربیت کا کام کرتے ہیں۔ آخری دہائیوں میں شیعوں کے خلاف مذہبی انتہاپسندی بڑھ گئی ہے اور شیعوں کے قتل و کشار کا باعث بنی ہے۔

محل وقوع اور آبادی

پاکستان کا کل رقبہ 796٬095 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں سے 6774 کلومیٹر بارڈر ہے جس کے شمال مغرب میں افغانستان، جنوب میں ایران، شمال مشرق میں چین، مشرق اور جنوب مشرق میں ہندوستان اور جنوب میں بحر ہند واقع ہے۔

پاکستان کی کل آبادی 2011-2012 کی مردم شماری کے 180/7 میلین افراد پر مشتمل تھی۔[1] اور 2020ء کی مردم شماری کے مطابق 228٬953٬145 افراد پر مشتمل ہے۔[2] اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا ملک شمار ہوتا ہے۔ پاکستان میں موجود اقوام میں، پنجابی، سندی، پٹھان،‌ بلوچ اور مہاجر ہیں۔ رسمی زبان اردو ہے جبکہ انگریزی بھی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ پنجابی، سندی، ساراکی، پشتو، بلوچی، ہندکو اور براہویی، اس ملک کی رائج زبانوں میں سے ہیں۔


سیاسی تاریخ

پاکستان کا پولیٹکل نقشہ

ہندوستان سے علیحدگی

پاکستان سنہ 1947ء کو ہندوستان سے الگ ہوکر مستقل ہوگیا۔ پاکستان کی آزادی کا سلسلہ سنہ 1857ء کے سر سید احمدخان کے قیام سے ملتا ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے مبارزے اس وقت شدت پکڑ گئے جب آٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے آغاز میں برطانیہ کی حمایت سے قوم پرستی شدت پکڑ گئی اور مسلمانوں کو ہندوستان کے آزادی طلب اقدامات کے اصلی عوامل سمجھے جانے لگے۔ سنہ 1906ء کو مسلمانوں کے مطالبات کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے آل مسلم لیگ تشکیل پائی۔ اور مطالبات مانے نہ جانے پر اس پارٹی کی طرف سے مستقل ملک کا مطالبہ سامنے آیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلم لیگ سربراہی کے ساتھ آزادی کی تحریک ایک نئے باب میں داخل ہوگئی اور اس کے نتیجے میں سنہ 1947ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس وقت بھی پاکستان برطانیہ کے مشترک المنافع اعضاء میں باقی رہا۔ پاکستان مستقل ہونے پر مسلمان اور ہندو تصادم میں تقریبا 80 لاکھ مسلمانوں نے ہندوستان سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔[3]

اس ملک کا پہلا آئین 1956ء کو تدوین ہوا۔ اس کے بعد بھی کئی مرتبہ اس آئین میں ترمیم اور تبدیلی آگئی ہے۔ آئین پاکستان کو پاس کرنے کے بعد برطانیہ کی حکومت ریاست پر سے ختم ہوئی اور مستقل نظام تصویب ہوگیا۔[4]

سرحدی اختلافات

سنہ 1971ء میں بعض اختلاف کے سبب صوبہ بنگال، بنگلادیش کے عنوان سے پاکستان سے الگ ہوگیا۔ کشمیر اور گلگت بلتستان بھی پاکستان اور ہندوستان کے مابین متنازع علاقوں میں تبدیل ہوگئے۔ [یادداشت 1] اس کے بعد کشمیر، پاک و ہند کے مابین تقسیم ہوا۔ کشمیر کا کل رقبہ دو لاکھ بائیس ہزار مربع کلومیٹر ہے اور اس کا دو تہائی حصے سے زیادہ جموں کشمیر، ہندوستان کے ماتحت ہے۔ اور ایک تہائی حصہ جس کا کل رقبہ 83 ہزار 716 مربع کلومیٹر پاکستان کے تحت تصرف رہ گیا۔[5]


سیاسی نظام اور پارٹیاں

پاکستان فیڈرل گورنمنٹ کے تحت چلتا ہے۔ جس میں چار صوبے اور گلگت بلتستان کا علاقہ شامل ہے۔ ہر صوبے کی ایک صوبائی اسمبلی ہوتی ہے جس کے اراکین کو عوام انتخاب کرتی ہے۔ اور جیتنے والی پارٹی صوبائی حکومت تشکیل دیتی ہے۔ پاکستان میں قوانین قومی اسمبلی اور سینٹ اسمبلی سے پاس ہوتے ہیں۔ تمام اسمبلیوں کی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے۔ پاکستان کے صدر مملکت کو قومی اسمبلی، سینٹ اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ووٹ دے کر پانچ سال کے عرصے کے لئے انتخاب کرتے ہیں۔ البتہ ملک میں اجرائی امور وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔[6] پاکستانی سیاست میں فوج کا کلید کردار رہتا ہے۔[حوالہ درکار]

اہم سیاسی پارٹیاں

سب سے قدیمی پارٹی پاکستان مسلم لیگ ہے جو برطانیہ کے ہندوستان پر تسلط کے دوران سنہ 1916ء کو معرض وجود میں آئی۔ قائد اعظم کی سرپرستی میں آزادی کی تحریک میں بڑا کردار رہا۔ دوسری بڑی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی ہے جسے ذوالفقار علی بھٹو نے سنہ 1967ء میں تاسیس کی۔ ضیاء الحق کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی جانے کے بعد پارٹی سربراہ ان کی بیٹی بینظر بھٹو بنی اور ان کے قتل ہونے کے بعد ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری سربراہ ہیں۔[حوالہ درکار]

پاکستان مسلم لیگ (ق) جسے پرویز مشرف نے بنایا اور آج کل محدود پیمانے پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف، اس پارٹی کو عمران خان نے تاسیس کیا اور اس کے نتیجے میں عمران خان نے حکومت سنبھالی اور ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔[حوالہ درکار]

ان کے علاوہ بعض مذہبی پارٹیاں بھی ہیں جیسے جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف)۔ جماعت اسلامی کو سنہ 1941ء میں ابوالاعلی مودودی نے تاسیس کی۔ مودودی اسلامی تحریک کے تھیوری دینے والوں میں سے ہیں۔ جن کے نظریات مصر کے اخوان المسلمین سے ملتے جلتے ہیں۔

جمعیت علما اسلام کو مولانا شبیر احمد عثمانی نے سنہ 1945ء میں بنایا جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کے لئے مستقل ملک کی تاسیس کی حمایت کرنا تھا۔ فکری طور پر یہ پارٹی دیوبندی ہے اور تاسیس سے اب تک پاکستان مسلم لیگ کی طرح کئی ٹکڑوں میں بٹ گئی ہے[7]

پاکستان میں مختلف ادیان



پاکستان میں مختلف ادیان و مذاہب کا تناسب      اہل سنت (77٪)     اہل تشیع (19٪)     ہندو (1/85٪)     عیسائی (1/6٪)     سکھ (0/04٪)     دیگر (3.821568627451٪)

اس ملک کے نظام میں مذہب کا بڑا رول نظر آتا ہے۔ سنہ 1973ء کے آئین میں ملک کا نظام اسلامی جمہوریہ تصویب ہوا ہے۔ قوانین کو شریعت سے موازنہ کرنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل تشکل دی گئی۔[8] اس کے باوجود اکثر اقلیتوں کے نمائندے قومی اسمبلی میں موجود ہیں اور ہر اقلیت اپنے دینی مراسم کو پوری آزادی کے ساتھ مناتی ہے۔[9] 96% آیادی مسلمان ہے جس میں سے 77% اہل سنت اور 19% شیعہ ہیں۔ 1.75 ہندو 1.6 عیسائی 0.04 سیکھ بھی پاکستان میں بستے ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر اقلیتیں جیسے، مجوسی، احمدی، بدھ مت اور قادیانی بھی پاکستان میں ہیں۔[10]

اس ملک کے اکثر باشندے اہل سنت اور حنفی مسلک ہیں اور عقیدتی اعتبار سے تین گروہ میں تقسیم ہوتے ہیں:

  • بریلوی: پاکستان میں سب سے بڑا اہل سنت فرقہ بریلوی ہے۔ یہ فرقہ امام احمد رضاخان بریلوی (1876-1931ء) سے منسوب ہے۔ بریلوی خود کو فقہ میں حنفی مذہب، اور عقائد میں ماتریدی مسلک سے منسلک سمجھتے ہیں۔ البتہ یہ فرقہ تصوف سے بھی نزدیک ہے۔[11]
  • دیوبندی: یہ فرقہ اپنے نام کو ہندوستان کے گاوں دیوبند سے منسوب کرتے ہیں۔ اس فرقے کے بزرگان وہاں کے معروف مدرسہ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل ہیں۔ اس مدرسے کے شاگرد عقائد میں ماتریدی اور فقہ میں حنفی مسلک سمجھے جاتے ہیں۔ اس فرقے میں اگرچہ تصوف کے اکثر گروہوں کا احترام کرتے ہیں لیکن خود چشتیہ طریق کے راہی ہیں۔ یہ گروہ سلفی شمار ہوتا ہے۔[12]
  • اہل حدیث: یہ فرقہ دیوبندیوں سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔ اہل حدیث وہابیت کی طرف مائل ہیں اور ان کی طرح توحید کی تفسیر انتہا پسندانہ ہے۔[حوالہ درکار]


شیعیت کی ابتدا

ذوالفقار علی بھٹو؛ وزیر اعظم پاکستان (1973-1977ء)

شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک حصہ تقسیم پاک و ہند کے وقت ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آ کر ملک کے مختلف علاقوں میں آباد ہوا اور دوسرا حصہ وہ ہے جو تقسیم پاک و ہند سے پہلے ہی پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد تھا۔ پاکستان کے قیام میں اس مذہب سے وابستہ لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جسے تاریخ میں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ اور اسکے استقلال میں ابتدا سے لے کر آج تک پاکستان کے شیعہ اس ملک کے دوسرے شہریوں کے شانہ بشانہ کوشاں ہیں۔

اسلامی مصادر کے حوالے سے مذکور ہے کہ ابتدائی صدیوں سے ہی یہاں اسلام کے آثار پائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ بلاذری کی فتوح البلدان میں فتوح السند کے ذیل کی روایات کے مطابق خلافت راشدہ کے دور سے مسلمانوں کے یہاں آنے کی اطلاعات مذکور ہیں مثلا حضرت عمر کے دور میں مغیرہ بن ابی العاص کا دیبل آنا، حضرت عثمان کے دور میں حکیم بن جبلۃ عبدی کا "ثغر الہند" آنا،حضرت علی کی اجازت سے حارث بن مرہ عبدی کا 36 ہجری[13] یا 38 ہجری کے آخر اور 39ہجری کے شروع میں آنااور اسکا فوجی کامیابیوں کی بدولت مکران قندابیل اور قیقان کے علاقوں تک چلے جانا نیز 42 ہجری میں اسکا قتل مذکور ہے [14]۔ان مذکورہ حوالوں کی روشنی میں یہاں اسلام کے پیغام کا پہنچنا حتمی ہے۔

زیدیوں کی آمد

ابن خلدون کے بقول منصور کی بادشاہت کے دوران سندھ کا عامل عمر بن حفص بن عثمان بن قبيصۃ بن أبی صفرۃ تھا یہ تشیع کی جانب میلان رکھتا تھا ۔ محمد نفس ذکیہ کا بیٹا "عبد اللہ اشتر" اس بزرگوار کا مزار کراچی میں ساحل سمندر پر موجود ہے پاکستان میں اس شخصیت کو "عبد اللہ شاہ غازی" کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اسکے پاس سندھ آیا تو اسنے اسے کافی احترام سے نوازا ۔400 افراد پر مشتمل زیدیوں کی ایک جماعت بھی اسکے پاس پہنچ گئی ۔حاکم عباسی منصور کو جب اسکی خبر پہنچی تو اسنے ہشام بن عمر ثعلبی کو اس کے قلع قمع کرنے کیلئے سندھ روانہ کیا جہان ہشام کے بھائی اور ان کے درمیان قتال ہوا جس کے نتیجے میں عبد اللہ مارا گیااور اس کے زیر تسلط علاقہ ان کے قبضے سے نکل گیا[15] اسی کے قریب ذہبی اور ابو الفرج اصفہانی نے نقل کیا۔[16] سندھ میں قیام کے دوران عبد اللہ اشتر سے ایک بیٹا(طبری اور نصر بخاری نے اسکا نام محمد[17] کنیت ابو الحسن ذکر کی ہے اور ابن خلدون نے عبد اللہ ذکر کیا ہے) پیدا ہوا عبد اللہ اشتر کے قتل کے بعد اسے اسیر کر کے واپس بھیج دیا گیا۔طبری نے یہ واقعات 151ہجری میں نقل کئے ہیں[18] ۔ان واقعات کی روشنی میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ 151 ہجری میں یا اس کے آس پاس زیدیوں کا رہن سہن شیعیت کے رواج کا باعث بنا ۔

اسماعیلیوں کی آمد

ملتان میں اسماعیلیوں کی آمد کے سلسلے میں ابن عنبہ عمدہ الطالب میں اس طرح لکھتے ہیں کہ عمر اطرف بن امیر المومنین کی نسل سے جعفر بن محمد حجاز سے فرار ہو کر ملتان میں داخل ہوا لوگوں کی ایک جماعت نے اس کی تقویت کی یہانتک کہ وہ یہاں ملک کہا جانے لگا ۔اس کی اولاد کی تعداد 364مذکور ہے ۔ ابن خداع نے 28 اعقاب ذکر کئے ھیں ۔عبیدالی نے 50 سے اوپر بیہقی نے اسکے اعقاب کی تعداد 80 ذکر کی ۔ابو الحسن عمری نے 44 اعقاب ذکر کرنے کے بعد کہا کہ مجھے ابو الیقظان عمار نے کہا: انکی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ان میں علماء، ملوک امراء اور نسابہ ہیں ان میں سے اکثریت مذہب اسماعیلیہ کی پابند ہے اور انکی زبان ہندی ہے نیز وہ اپنے انساب کے محافظ ہیں ۔[19] ۔ نیز مقدسی بشاری (336ہ ق - 380ہ ق) احسن القاسیم میں اقلیم سندھ کے متعلق کہتا ہے کہ وہاں میں نے قاضی ابو محمد منصور داؤدی کو انکا رہبر و امام پایا جس کی عمدہ تصانیف تھیں پھر ملتان کے لوگوں کی صفات حمیدہ بیان کرنے کے بعد لکھتا ہے کہ ملتان کا رائج الوقت سکہ فاطمی درہم کی مانند اور وہاں خطبہ فاطمیوں کا پڑھا جاتا تھا اور وہ شیعہ تھے۔ اذان میں حی علی خیر العمل کہتے نیز اقامت میں فصول اذان دو مرتبہ کہتے ۔انکے نمائدگان مصر جاتے تھے ۔[20] ۔اسی طرح مسعودی جب 300 ہجری قمری میں سندھ پہنچا تو اپنے سفر کی داستان مروج الذہب میں یوں لکھتا ہے :جب میں منصورہ(سندھ کا ایک معروف شہر تھا)کے شہروں میں آیا تو وہاں علی بن ابی طالب کی کثیر اولاد تھی پھر عمر بن علی اور محمد بن علی کی اولاد بھی وہاں موجود تھی ۔[21] ان تاریخی شہادتوں کی بناپر اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ اسماعیلیوں کی قابل توجہ تعداد دوسری صدی کے آخر اور تیسری صدی کے اوائل میں یہاں موجود تھی اپنی زندگی صرف اسماعیلی تعلیمات کے مطابق بسر نہیں کر رہے تھے بلکہ ان کی حکومت بھی یہاں قائم تھی ۔

کشمیر میں تشیع کی آمد

کشمیر کے بارے میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ "میر سید علی ہمدانی" کا کشمیر میں ورود تشیع کی ابتدا ہے ۔لیکن مستندات تاریخی کے لحاظ سے سید شرف الدین موسوی بن امین الدین موسوی ان سے پہلے کشمیر میں سب سے پہلے مبلغ کی حیثیت سے کشمی میں وارد ہوئے جو یہاں "بلبل شاہ" کے نام سے معروف ہیں ۔آپ رینچن شاہ کے عہد حکومت میں وسط ایشیا سے وارد کشمیر ہوئے ۔ حاکم وقت "رینچن" ظاہرا بدھ مت تھا اس نے اسی عالم بزرگوار کے ہاتھوں اسلام قبول کیا اور بنام "صدر الدین" موسوم ہوا۔ اسی نے کشمیر کی سر زمین پر پہلی مسجد عالی کدل کے مقام کے نزدیک بنوائی جو اب بھی "رینٹن مسجد" کے نام سے معروف ہے نیز شرف الدین کیلئے ایک خانقاہ بنوائی ۔ان کا سن وفات 7 رجب 727 ہجری قمری ہے اور ان کا مزار اس خانقاہ میں ہے۔ یہ جگہ اس بزرگوار کی مناسبت سے "بلبل لنکر" کے نام سے معروف ہے [22] ۔ جبکہ میر سید علی ہمدانی 785 ہجری قمری میں کشمیر آئے ۔ان کا سن ولادت 714 ہجری قمری اور وفات 784 ہجری قمری ہے ۔[23] نیز اس بات کا بھی تذکرہ بھی ضروری ہے کہ وادئ کشمیر میں شرف الدین موسوی کے بعد 766 ہجری قمری سے پہلے بھی شیعہ اثنا عشری جیسے سید میر علی ہمدانی کے چچا زاد بھائی میر سید تاج الدین حسینی ہمدانی اور انکے فرزندسید حسن بہادراور سید مسعود موجود تھے۔[24] پس ان حقائق کی روشنی میں کہنا چاہئے کہ آٹھویں قرن کی ابتدا میں کشمیر اثنا عشری تعلیمات سے بہرہ مند تھا ۔

قیام پاکستان میں کردار تشیع

یوں تو قیام پاکستان میں دوسرے مکاتب فکر کے برعکس اہل تشیع حضرات نے کسی تفریق کے بغیر قیام پاکستان میں حصہ لیا لیکن کچھ ایسی شخصیات کا تذکرہ ضروری ہے جن کے بغیر تاریخ پاکستان کی تکمیل ممکن نہیں ہے ۔

قائد اعظم محمد علی جناح

فائل:قائد اعظم.jpg
محمد علی جناح

پاکستان کے بانی محمد علی جناح جنہیں قائد اعظم اور بابائے قوم کے لقب سے نوازا گیا ،آپ 25 دسمبر 1876ء کو وزیر مینشن، کراچی، سندھ میں پیدا ہوئے، جوکہ اُس وقت بمبئی کا حصہ تھا۔ آپ کا پیدائشی نام ؒمحمد علی جناح بھائی رکھا گیا۔ گوکہ ابتدائی اسکول کے ریکارڈ کے مطابق جناح کی تاریخِ پیدائش 8 اکتوبر 1875ء تھی[25] لیکن موجودہ حکومتی ریکارڈ میں تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876ء مذکور ہے۔[26] قائد اعظم کی دوسری شادی رتن بائی سے ہوئی جنہوں نے اپریل کے مہینے میں اسلام قبول کیا اور 19 اپریل کو انکا نکاح قائد اعظم سے ہوا جس میں ابو القاسم شریعتمدار نے وکالت کے فرائض انجام دئے۔ قائد اعظم 11 ستمبر 1948 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ۔ابتدائی طور پر آپ اسماعیلیہ مکتب پر عمل پیرا تھے لیکن بعد میں اثنا عشری مکتب کو قبول کیا ۔[27] اور پھر آخر عمر تک اسی پر کاربند رہے ۔[28]نیز آپکی تجہیز و تکفین کے فرائض ہدایت اللہ عرف کلو نے اور نمازِ جنازہ شیعہ اثنا عشری عالم دین مولانا انیس الحسنین نے گورنر ہاؤس میں پڑھائی جس میں ڈیڑھ سو کے لگ بھگ افراد نے شرکت کی [29]اور اور دوسری مرتبہ عمومی طور حنفی فقہ کے مطابق ہوا۔ دفنانے کے بعد تلقین سید غلام علی وکیل احسن اکبر آبادی اور آغا حسین بلتستانی نے پڑھی ۔[30]

راجہ محمودآباد

فائل:امیر احمد (راجہ محمود آباد).jpg
راجہ محمود آباد

بیسویں صدی میں انڈیا کی امیر ترین شخصیت راجہ امیر حسن خان آف ریاست محمود آباد(جسکی آمدنی کا اندازہ ماہانہ 40لاکھ روپیہ تھا) کی بھر پور مالی مدد سے آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد ڈلی ۔امیر حسن نے اپنی وصیت میں اپنے بیٹے امیر احمد کا سرپرست قائد اعظم کو قرار دیا کا ان کی وفات کے بعد انکے فرزند امیر احمد خان راجہ بنے اور مسلم لیگ کے کم عمر ترین ممبر بنے۔ سن 1937میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ لکھنؤ اجلاس کا انتظام و خرچہ راجہ صاحب نے اس وقت اٹھایاجب مسلم لیگ کے دولتمند زمینداروں نے کانگریس کے خوف سے مالی معاونت سے ہاتھ روک لیا تھا۔مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی اور اسکے صدر رہے نیز اسی فیڈریشن کی کاوشوں کی بدولت 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔مسلمانوں کے ڈان، تنویر، حق، ہمدم اور دیگر نشریات کیلئے خطیر رقم دیتے۔ نشرواشاعت کیلئے مسلم پریس لگوایا۔دس سال نجف کربلا بغداد رہنے کے بعد 1957 میں کراچی آ کر قیام کیا ۔1965کی جنگ میں بھارت کی حکومت نے راجہ صاحب کو ملک دشمن قرار دے کر تمام خاندانی املاک بحقِ سرکار ضبط کرلیں چونکہ راجہ صاحب ایک دشمن ملک ( پاکستان) کے شہری تھے۔ایوب کے دور میں وزارتوں کی پیشکش کو ٹھکرایا۔ 1968 میں لندن مسقر ہوئے اور تنخواہ کی ملازمت اختیار کی اور 1973 میں فوت ہوئے ۔انہیں مشہد حرم امام رضا میں دفنایا گیا۔[31]۔[32]

سید امیر علی ،ڈی آغا خان۔مہا راجہ محمد علی محمد، کرنل سید عابد حسین ، تراب علی ،نواب محسن الملک،مرزا ابو الحسن اصفہانی ،.....، علماء میں سے سید محمد دہلوی،حافظ کفایت حسین،سید ابن حسن جارچوی،مرزا یوسف حسین لکھنوی،نجم الحسن کراروی،شیخ جواد،علامہ رشید ترابی، علامہ مفتی جعفر حسین...... ایسی شخصیات ہیں جنکے نام لئے بغیر تشکیل پاکستان کی رو داد نا تمام ہے۔ اسی طرح خواتین میں سے فاطمۂ جناح مادر ملت، ملکۂ اوَدھ، صغریٰ بیگم،لیڈی نصرت ہارون اور لاہور کے سیکریٹریٹ کی عمارت پر پاکستان کا پرچم لہرانے والی شیر دل خاتون فاطمۂ صغریٰ کے اسما قابل ذکر ہیں۔[33]

مختلف مکاتب فکر کی آبادی

پاکستان کے قیام کی بنیاد اسلام ہے ۔اس ملک کے قیام ،استقلال اور بقا میں اسلام کو مرکزیت اور بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر 1973 کے آئین میں اس ملک کو جمہوری اسلامی کے نام سے تعبیر کیا گیا نیز آئین پاکستان کو اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ایک ادارہ کا قیام عمل میں لایا گیا ۔پس اس وجہ سے ملک کی اسمبلیوں میں اقلیتوں کی نمائندگی کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے نیز پاکستان کا ہر شہری آئین کی رو سے "اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق رکھتا ہے اسی طرح ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے ، برقرار اور ان کے انتظام کرنے کا حق ہے۔[34]

  • محدود تخمینے کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا 96.4٪ حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں سے اہل سنت برادران (کے تمام مکاتب فکر ملا کر)85 تا 90٪ ہیں جبکہ اہل شیعہ حضرات 10 تا 15 ٪ ہیں ۔ باقی دیگر مسالک کے لوگ مقیم ہیں ۔ جولائی 2015 کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 199،085،847 (یعنی انیس کروڑ نوے لاکھ پچاسی ہزار آٹھ سو سینتالیس ) افراد پر مشتمل ہے[35] جبکہ مؤسسہ PEW کے 2009 کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی‏: 164.741.924(سولہ کروڑ سینتالیس لاکھ ہزار اکتالیس ہزا نو چوبیس)، میں سے شیعہ آبادی : 26.000.000 - 17.000.000 نفوس پر مشتمل ہے ۔ اس لحاظ سے شیعہ آبادی کا تناسب : 15‏- 10 فی صد ہے ۔[36] لیکن 2000 عیسوی میں شیعہ آبادی کا تناسب 25٪ ،2007 اور 2008 عیسوی میں یہ تناسب کم ہو کر 20٪ رہا[37]۔
  • اس مسلمانوں کی مجموعی آبادی میں سے شیعہ مکتب کے علاوہ بریلوی اور دیو بندی مکتب قابل ذکر ہیں جو فقہی لحاظ سے حنفی مذہب پر عمل پیرا ہیں لیکن عقائد کے حوالے سے ان کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج پائی جاتی ہے چونکہ بریلوی مکتب عقائد کے لحاظ سے امام احمد رضا خان بریلوی کے پیروکار ہیں جبکہ دیو بندی حضرات اپنے عقائد میں ابن تیمیہ کی تعلیمات سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔
  • جنوبی ایشیاء خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں مسلک اہلسنت و الجماعت یا اہلِ سُنت والجماعت کو امام احمد رضا خان کی مناسبت سے بریلوی مسلک کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عالمی مذاہب کی اجمالی آکسفورڈ ڈکشنری (مطبوعہ سن 2000ء) کے مطابق اس مکتبہ فکر کے ماننے والے بھارتی اور پاکستانی مسلمانوں کی تعداد 200 ملین سے زیادہ ہے۔دارالعلوم جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی قادری صوفی بزرگ، امام احمد رضا (متوفیٰ 1921ء) نے 1904ء میں قائم کیا[38]
  • بہرہ :اسماعیلیہ مستعلیہ ہیں ان کی زیادہ تر تعداد کراچی اور حیدر آباد رہائش پذیر ہے۔
  • اثنا عشری خوجے:1947 کی آزادی کے بعد اثناعشری خوجوں نے بھارت کو چھوڑ کر پاکستان کو اپنا مستقل وطن قراردیا ابتدائی طور پر انہوں کراچی اور حیدر آباد کا جائے سکونت قرار دیا ۔1960 ہجری کی دہائی کے اوائل میں خوجوں کی ایک تعداد نے افریقہ کو چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کر لی جنکی زیادہ تر تعداد کراچی میں مقیم ہوئی ۔1971 کی ہند وپاک جنگ کے دوران ایک محدود تعداد کراچی سے دوبارہ شرق افریقہ واپس لوٹ گئے لیکن ایک سال بعد ہی یوگنڈا حکومت کی جانب سے ایشیائی باشندوں کے اخراج کے حکم کے بعد کافی تعداد میں کراجی مہاجرت کر آئے ۔ بہر حال انکی مجموعی تعداد تقریبا بیالیس ہزار (42000) نفوس پر مشتمل ہے ۔[39]
  • آغا خانی:یہ گروہ اسماعیلیوں کی ایک شاخ ہے جو آغا خان اول (1800-1881م) سے منسوب ہیں ۔انکی جائے سکونت پاکستان کے شہر کراچی گلگت اور ہنزہ نیز حیدرآباداور ملتان ہے ۔
  • نور بخشی : شیعہ صوفی عالم دین محمد نور بخش کے پیروکار ہیں جو بلتستان کے باسی ہیں۔
  • ذکری:مہدویت کا ادعا کرنے والے سید محمد جونپوری(847-910ہجری قمری) کے ماننے والے ہیں۔ ذکری مکتب کے لوگ صوبہ بلوچستان میں مکران ،لسبیلہ ، گوادر، تربت اور پنج گور میں زندگی بسر کرتے ہیں ۔ [40]

شیعہ نشین علاقے

پاکستان میں تشیع کی آبادی اسکے مختلف علاقوں میں مقیم ہے ۔اسی وجہ سے اس کی درست اور دقیق تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔درج ذیل چارٹ کے ذریعے پاکستان میں شیعہ نشین علاقوں کا تعین کیا جا سکتا ہے ۔

صوبہ مقامات
بلوچستان کوئٹہ۔ جعفر آباد
پنجاب لاہور۔ملتان۔راولپنڈی۔کچھی۔لیہ
خیبر پختونخواہ کوہاٹ۔ہنگو۔ڈیرہ اسماعیل خان۔پارا چنار
سندھ کراچی۔حیدر آباد
گلگت بلتستان بلتستان۔نگر۔گلگت

شیعہ اور سیاست

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ پاکستان کے قیام میں مکتب تشیع کا بنیادی کردار رہا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بانئ پاکستان بھی مکتب تشیع سے تعلق رکھتے تھے ۔ اسی وجہ پاکستان کے قیام کے دن سے ہی مکتب تشیع سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا پاکستان کی سیاست میں بنیادی کردار رہا ہے لیکن یہ کردار مذہب کے پیرائے میں بہت کم رہا اس کے مقابلے میں سیاسی پارٹیوں کے ضمن میں یا شخصی اور خاندانی سرگرمیوں کی بنا پر ہمیشہ سے پاکستان میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔لہذا کچھ ایسے خاندانوں کا نام لیا جا سکتا ہے جو اپنے مضبوط خاندانی کیرئر کی بنا پر اپنے علاقوں میں ہمیشہ مؤثر رہے اور حکومت میں کلیدی عہدوں پر فائز رہے ہیں.

  • سادات شاه جیونہ
  • سادات قتال پور خانیوال
  • تالپور خاندان
  • گردیزی خاندان ملتان
  • سردار یزدان خان کا خاندان[حوالہ درکار]

سیاسی جماعتیں

مفتی جعفر حسین
سید عارف حسین حسینی

پاکستان کے قیام میں اہل تشیع کی بے باکانہ شرکت اور قیام پاکستان کو تشکیل دینے والے اصلی عناصر میں سے ہونے کے باوجود وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل تشیع نے محسوس کیا کہ ان کے مذہبی اور آئینی حقوق سے چشم پوشی کی جارہی ہے جیسا کہ صدر ضیأ الحق کے دور حکومت میں جب ملک میں اسلامی قوانین کے اجرا کی بات کی گئی تو اس ملک میں کسی تفریق کے بغیر فقہ حنفیہ کے نفاذ کا اعلان کیا گیا اور اس کے ضمن میں چند احکامات کا اعلان ہوا جن میں فقہ حنفیہ کے مطابق تمام مسلمان شہریوں سے زکات لینا، نظام تعلیم کو کسی تفریق کے بغیر سنی مکتب کے مطابق قرار دینا اور شیعہ اوقاف کو حکومت کی نگرانی میں دینا وغیرہ جیسے احکامات شامل تھے۔ اس بات کے پیش نظر زعمائے قوم نے اپنے مذہبی اور آئینی حقوق کے تحفظ کیلئے ایک جماعت تشکیل دی۔ جس کا نام تحریک نفاذ فقہ جعفریہ رکھا گیا اور اس جماعت نے ردعمل میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز 1979 میں شروع کیا۔ اس تحریک کے سربراہ کی حیثیت سے مولانا مفتی جعفر حسین صاحب مرحوم صدر بنے اور تحریک کی جانب سے اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے اسلام آباد میں شیعہ قوم نے احتجاجی اجتماع کیا اور اس وقت کے موجودہ صدر کے سامنے شیعہ قوم کے مطالبات پیش کئے اور بالآخر حکومت نے ان کے مطالبات مان لئے ۔مولانا مفتی جعفر کی وفات کے بعد 1983 میں مولانا سید عارف حسین حسینی آف پارا چنار صدر منتخب ہوئے ان کے زیر قیادت نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا نام تبدیل کر کے تحریک جعفریہ رکھا گیا اور یوں اس جماعت نے باقاعدہ پاکستان کی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۔سید عارف حسین حسین کو 1988 عیسوی میں شہید کر دیا گیا اور ان کی شہادت کے بعد مولانا سید ساجد حسین نقوی اس تحریک کے صدر منتخب ہوئے۔ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کو روکنے کیلئے حکومت نے 2002 عیسوی میں کچھ جماعتوں پر پابندی لگائی گئی تو اس کے نتیجے میں اسے بھی اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے سے روک دیا گیا۔آخری سالوں میں مجلس وحدت مسلمین کے نام سے بھی ایک جماعت تشکیل پائی ہے۔ یہ جماعت بھی پاکستان کی عملی سیاست میں شیعوں کے حصہ لینے کا اعتقاد رکھتی ہے۔ اس کے راہنما راجہ ناصر عباس جعفری ہیں۔[حوالہ درکار]


فرقہ واریت اور دہشت گردی کی لہر

بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں بد قسمتی سے فرقہ واریت اور دہشت گردی کی آگ نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس میں اہل تشیع کو خاص طور پر نشانہ بنایا جانے لگا اور اس لہر میں بے شمار علما اور پڑھے لکھے افراد کو شہادت سے ہمکنار کیا۔ اس فرقہ واریت میں ایک مخصوص ترتیب شدہ منصوبے کے تحت کام کیا گیا۔ سپاہ صحابہ کے نام سے بننے والی جماعت نے فرقہ واریت کو بہت زیادہ ہوا دے کر ملکی حالات خراب کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی طور پر اس قتل وغارت اور ٹارگٹ کلنگ کو مکتب تشیع سے شروع کیا گیا اور آہستہ آہستہ اس کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے دوسرے مکاتب فکر کے لوگ بھی اس کا شکار ہوئے۔ بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کی تجزیے کے مطابق افغانستان سے روس کی افواج کو نکالنے کی غرض سے صدر ضیاءالحق کے دور میں بنائے گئے مذہبی شدت پسند جہادی گروہوں کے افغانستان سے روسی افواج کے نکل جانے کے بعد ان گروہوں کی ملک واپسی کی وجہ سے اس فرقہ واریت کو زیادہ ہوا ملی۔[حوالہ درکار] مکتب دیوبند اور وہابیت پسند تبلیغات بھی اس فرقہ واریت پسندانہ گروہوں کی تقویت کا باعث بنیں اور اس میں غیر ملکی افکار کی رضایت بھی خارج از امکان قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔

پاکستان میں اہل سنت کے اکثر دینی مدارس دو مکاتب فکر بریلوی اور دیو بندی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں مکاتب فکر فقہی لحاظ سے ابو حنیفہ کی فقہ پر عمل کرتے ہیں لیکن اعتقادی لحاظ سے بریلوی احمد رضا خان اور دیو بندی ابن تیمیہ کی شدت پسندانہ تعلیمات کو مانتے ہیں۔ مکتب دیو بند اعتقادی لحاظ سے ابن تیمیہ کی تعلیمات پر کار بند ہونے کی وجہ سے عام طور پر دوسرے مکاتب فکر کے خلاف عملی اقدام کے معاون ہوتا ہے۔ اس مکتب نے اپنی فعالیتوں کو مدارس کی حد تک محدود نہیں رکھا بلکہ سیاست کے میدان میں عملی طور پر حصہ لیتے ہیں۔ اس غرض کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور دوسرے ناموں سے پاکستان کی سیاست میں حصہ لیتے ہیں۔ مکتب دیو بند کے ایک اندازے کے مطابق ہند، پاکستان، مرکزی ایشیا اور افغانستان میں مجموعی طور پر 40000 مدارس موجود ہیں۔[حوالہ درکار]


مذہبی اور ثقافتی فعالیت

نجف میں مقیم مراجع تقلید میں سے ایک حافظ بشیر نجفی

پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں اور ترقی سے آگاہی کیلئے بہتر ہے کہ اسے دو حصوں میں بیان کیا جائے ۔

مذہبی فعالیت

مذہبی فعالیت کا بہترین نمونہ اس کے مختلف علاقوں میں موجود علمی مدارس ہیں ۔قیام پاکستان سے پہلے برصغیر پاک وہند کا مذہبی علمی مرکز لکھنؤ تھا ۔ یہ علمی مرکز بہت عرصے تک حوزۂ علمیہ کی حیثیت سے قوم تشیع کی راہنمائی کا فریضہ انجام دیتا رہا اور اس حوزے نے نامی گرامی صاحبان اجتہاد اور غیر اجتہاد علماء مذہب تشیع کی نمائندگی کیلئے سید محمد قلی ، سید حامد حسین موسوی، ناصر الملت، ابو القاسم حائری ، و...... پیش کئے ۔ استقلال پاکستان کے بعد لکھنؤ بھارت کا حصہ قرار پایا ۔ اس کے بعد پاکستان میں مدارس علمیہ کا قیام عمل میں آنا شروع ہوا ۔ مختلف علاقوں میں لوگوں کی مذہبی تشنگی دور کرنے کیلئے علمائے کرام نے مدارس کھولنا شروع کیے اور ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد دنیا میں مذہبی بیداری کی سوچ بیدار ہونے کے بعد یہاں مدارس کی تعداد خاطر خواہ اضافہ ہوا ۔یہ بات قابل ذکر ہے لکھنؤ کا حوزہ بند ہو جانے کے بعد شیعت کا علمی مرکز نجف قرار پایا اور ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہ مرکزیت نجف سے قم میں منتقل ہو گئی یہی وجہ ہے کہ ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد پاکستان کے دینی مدارس کا قم سے رابطہ زیادہ رہتا ہے نیز دینی مدارس کے کی اکثر طلبہ پاکستان میں تعلیمی مراحل کے اختتام کے بعد مزید تعلیم کیلئے حوزۂ علمیہ قم جاتے ہیں ۔صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد حوزۂ علیمہ نجف میں دوبارہ علمی رونقیں بحال ہو گئی ہیں لہذا اب طلاب پاکستان سے نجف بھی جاتے میں ۔ پاکستان کے چند علماء کے اسمائے گرامی یہ ہیں :-

پاکستان کے دینی مدارس

بزرگان کی مساعی ِ جمیلہ سے تقسیم ِ ہند سے قبل ہی موجودہ پاکستان میں مدارس وجود میں آ چکے تھے۔لکھنؤ کے دینی مراکز میں متحدہ ہندوستان سے دُور دراز سے طلباء تحصیل ِ علم کیلئے جاتے تھے۔اس کے ساتھ موجودہ پاکستان میں بھی مختلف مقامات پر مدارس کے قیام کا آغاز ہو گیا تھا۔1914ء میں چکڑالہ،میانوالی میں مدرسہ قائم ہوا۔ 1925ء میں مدرسہ باب العلوم ملتان کے قیام کا اصولی فیصلہ ہوا اور کچھ عرصہ بعد مدرسہ نے کام شروع کر دیا۔چند سال بعد جلال پور ننگیانہ (سرگودھا)میں مدرسہ محمدیہ کی تاسیس ہوئی۔[41] پاکستان میں اہم شیعہ مدارس

مقام مدارسِ طلبہ مدارسِ طالبات اہم مدارس
پنجاب 218 55 جامعۃ المنتظر(لاہور)۔عروۃالوثقیٰ (لاہور)۔جامعہ الکوثر (اسلام آباد)،مدرسۂ جعفریہ(خوشاب)،مخزن العلوم(ملتان)،مدرسۂ امام خمینی (ماڑی انڈس)، مظہر الایمان (چکوال)، مدرسۂ بعثت( چنیوٹ)،مدرسۂ جامعۂ المصطفیٰ (لاہور)،......۔
سندھ 77 11 دانشگاه جعفريہ واگریجی،امام حسین فاؤنڈیشن(کراچی)،مدرسۂ جعفریہ(کراچی)،...
خیبر پختونخواہ 10 2 جامعہ شہید عارف حسینی(پشاور)،جامعہ عسکریہ(ہنگو)، باب النجف(جاڑا،ڈیرہ اسماعیل خان)،....
بلوچستان 8 2 جامعہ امام صادق (کوئٹہ)،دار العلم جعفریہ،...
قبائلی علاقہ جات 3 1 جامعۂ جعفریہ (پارا چنار)،....
آزاد کشمیر 3 3 جامعۂ نقویہ،شہید عارف حسینی(کوٹلی)،....
گلگت بلتستان جامعہ قبازردیہ، جامعۃ النجف اور جامعہ منصوریہ(سکردو)، محمدیہ ٹرسٹ کے مدارس (مہدی آباد)، جامعۃ الزہراء(سکردو)، جامعہ جعفریہ (گلگت)...

2011 کے آخر میں بعض علماء کے بیان کے مطابق اس وقت پاکستان میں مدارس کی تعداد 524 اور مدارس کے طلاب کی تعداد19000 کے قریب ہے ۔[42] نیز جامعۃ المنتظر کے تحت نظر چلنے والے مدارس کی تعداد38، جامعہ اہل بیت کے تحت 17 ،مخزن العلوم کے تحت 30 ہیں اور محمدیہ ٹرسٹ بلتستان کی تگ و دو سے تقریبا 23 مدارس کا قیام عمل میں آیا ہے۔ ۔[43]

صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں مدارس کی تعلیمات کو تعلیمی اداروں میں قبول کیا جانے لگا جس کے تحت پاکستان کی دوسرے مکاتب فکر کی مانند وفاق المدارس الشیعہ کے نام سے ادارہ بنایا گیا جس کا ترتیب دیا ہوا سلیبس مدارس رائج ہوا اور طلبہ کو ان کے درجے مطابق اسناد دی جانے لگیں جس کی آخری ڈگری "سلطان الافاضل " کہلاتی ہے ۔

دیگر علمی فعالیتیں:

دینی مدارس کے علاوہ قوم کو دینی احکامات اور قرآنی تعلیمات سے روشناس کروانے کیلئے ملک کے مختلف حصوں میں تبلیغی یا دینیات سینٹرز کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے جو عام طور پر مدارس دینی سے ہی وابستہ ہوتے ہیں جبکہ کچھ مخصوص افراد کے تحت نظر کام کرتے ہیں۔ ۔مدارس ہوں یا دینیات سینٹرز یہ تمام ادارے اپنے اخراجات مخیر حضرات کی مدد پورا کرتے ہوئے اپنی فعالیت جاری رکھتے ہیں۔جامعہ اہل البیت کی نگرانی میں تقريباً 60 پرائمری اسکول،50 مساجد کام کر رہی ہیں ۔ محمدیہ ٹرسٹ کے تحت 45 مساجد، 25امام بارگاہیں، 154 تبلیغی سینٹرز اور ايک يتيم خانہ کام کر رہے ہیں[44] ۔تنظیم المکاتب کے تحت 1200 دینی سینٹر اور مدارسِ مولانا غلام رضا سریوال کے نام سے حیدر آباد اور اسکے گردو نواح کے مختلف علاقوں میں ترویج دین میں مشغول ہیں۔اسی طرح تعلیمی اداروں میں طلباء کی دینی تعلیم و تربیت کیلئے آئی ایس او (ISO)، اصغریہ سٹوڈنٹس اور جعفریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (JSO) اور غیر تعلیمی اداروں میں آئی او (IO) وغیرہ تنظیمیں موجود ہیں ۔گذشتہ چند سالوں سے تربیت کے حوالے سے چند روزہ ورکشاپوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں مختلف عناوین سے پروگرام تشکیل دئے جاتے ہیں ۔

خوشی اور غمی کے ایام

ایام خوشی

عید الفطر ،عید الاضحی، ولادت رسول خدا، عید غدیر ، عید مباہلہ ،15 شعبان وغیرہ ان ایام میں سے ہیں جنہیں شیعہ افراد خوشی کے ایام کے طور پر مناتے ہیں ان میں سے عید الفطر اور عید الاضحیٰ دوسرے مسلم مکاتب فکر کے ساتھ باہم مناتے ہیں دیگر ایام کے منانے میں دوسرے مکاتب شیعہ حضرات کے ساتھ شامل نہیں ہیں البتہ 15 شعبان کی رات کو دیگر مسلم برادری اپنی تعلیمات کے مطابق" شب برات " کے عنوان سے جبکہ شیعہ حضرات اس تاریخ کو ولادت امام زمانہ کے حوالے سے مناتے ہیں۔

ایام غم

اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنے کا مؤثر ترین ذریعہ مذہبی شخصیات کے ایام شہادت اور وفات منانا ہے ۔اسی کے تحت مذہب تشیع میں ہادیان برحق کے ایام منانا ان کے مذہبی شعار میں سے سمجھا جاتا ہے اور رسول خداؐ حضرت علی اور دیگر ہادیان برحق خاص طور پر حضرت امام حسین ؑ کے ایام شہادت کو نہایت پر جوش طریقے سے منایا جاتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ عزاداری امام حسینؑ مزہب تشیع کی پہچان شمار ہوتی ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے عنوان سے اول محرم سے لے کر دس محرم تک کے ایام "عزاداری حضرت امام حسینؑ" کے نام سے مخصوص ہیں ۔ ایک قول کے مطابق پاک و ہند میں تعزیہ داری کا سلسلہ تیمور کے زمانے سے شروع ہوا لیکن بعید نہیں عزاداری حضرت امام حسین ؑ منانے کا سلسلہ اس سے کہیں پہلے ملتان میں شروع ہو چکا ہو کیونکہ دوسری صدی کے آخر یا تیسری صدی کے اول میں اسماعیلیوں کی حکومت قائم تھی اور یہاں فاطمیوں کا خطبہ پڑھا جاتا اور ملتان سے سفراء کا مصر آنا جانا مذکور ہے جبکہ ابن تعزی کے مطابق مصر اور شام میں فاطمیوں کی حکومت کے قیام کے بعد 366ہجری قمری میں عزاداری سید الشہداء برپا پونا شروع ہوئی [45] ۔پس ان باتوں کے پیش نظر عزاداری سید الشہداء کا تیمور کے برصغیر میں آنے سے پہلے برپا ہونا خارج از امکان نہیں ہے بلکہ قریب وقوع ہے نیز مذہب تشیع کے ماننے والوں کو جب بھی حکومتوں سے آسودگی نصیب ہوئی انہوں نے ان ایام کے برپا کرنے کو دیگر ایام منانے کی نسبت انہیں فوقیت دی ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے برصغیر میں اسلام کی ترویج اور نشر و اشاعت میں صوفیائے کرام کا بہت زیادہ کردار رہا ہے جس کی وجہ سے تشیع کی بنیادی اصل اہل بیت سے عشق و محبت اور اسی طرح صوفیت نے بھی اپنے اثرات ان پر چھوڑے۔ [46] ۔

بہرحال پاکستان میں عاشورائے محرم کی جانب سے حکومتی چھٹی ہوتی ہے۔اس روز سارے پاکستان میں اس مناسبت سے شیعہ حضرات عزاداری شہید اسلام حضرت امام حسین ؑ کے جلوس نکالتے ہیں۔ عزاداری سید الشہداء کے ایام کے اختتام یعنی دسویں محرم کے روز عام طور پر عزاداری کے دستے جلوس کی صورت میں سڑکوں پر نکلتے ہیں ۔ جن میں اکثر و بیشتر شبیہ ذو الجناح، عَلم اور تعزیے شامل ہوتے ہیں ۔شبیہ ذو الجناح سے مراد حضرت امام حسین ؑ کی سواری کی شبیہہ بنانا ہے اور علم کو حضرت امام حسین ؑ کی جانب سے حضرت عباس ؑ کو سردارئ لشکر کے عنوان سے دئے جانے والے علم کی مناسبت سے نکالا جاتا ہے۔نیز تعزیہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی ضریح مبارک کی شبیہ کا ماڈل بنایا جاتا ہے ۔تعزیہ داری کے بارے میں معروف ہے کہ امیر تیمور کے توسط سے شروع ہوئی[47]۔

نوٹ

  1. کشمیر کے حکمران "ہری سنگ" نے پاک و ہند کی علیحدگی کے دو مہینے بعد 26 اکتوبر 1947ء کو ہندوستان سے قرارداد کر کے کشمیر کو ہندوستان سے الحاق کیا۔ اس قرارداد میں ہندوستان سے نظامی مدد طلب کیا جس کے نتیجے میں بھارت کی فوج کشمیر میں داخل ہوگئی اور پاک و ہند کی پہلی جنگ کشمیر کے موضوع پر چھڑ گئی۔

حوالہ جات

  1. سایت ریاست جمهوری پاکستان
  2. سایت world fact book
  3. دانشنامہ جہان اسلام، ج۵، ص ۴۴۸
  4. صفوی، ج۲، ص ۳۰۲
  5. فصل اول کتاب ما و پاکستان منتشر شده در سایت پژوهش سرای تاریخ افغانستانسانچہ:پیوند مرده
  6. اسعدی، ص۱۷۷
  7. فصل اول کتاب ما و پاکستان منتشر شده در سایت پژوهش سرای تاریخ افغانستان
  8. اسعدی، ص۱۳۷
  9. روحانی، ۲۷۸-۲۷۹
  10. عالمی، ص۵۷
  11. عبدالباقی، واقع المدارس الدینیة الاهلیة فی باکستان، ص ۴۰
  12. دیوبندی اور بریلوی کے بارے میں ملاحظہ کریں: شبه قاره هند، دیوبندیه و بریلویه و رابطه آن ها با وهابیت
  13. خلیفہ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط ص139 سن 36 ہجری کے واقعات کا آخر۔
  14. بلاذری ،فتوح البلدان ، ج3 صص،531،530 فتوح السند کے ذیل میں دیکھیں۔ ذہبی ،تاریخ الاسلام بشار ج2 ص331۔عاملی،اعیان الشیعہ، ج4 صص374/375
  15. تاريخ ابن خلدون - ابن خلدون - ج 3 - صص 198 ، 199۔
  16. ذہبی - تاريخ الإسلام - ج 9 ص 352 - - أبو الفرج الأصفہانی ، مقاتل الطالبيين ص 207 - 208
  17. ابن عنبۃ ،عمدة الطالب - ص 106
  18. طبری ،تاريخ الطبری - ج 6 - ص 291
  19. ابن عنبہ، عمدۃ الطالب ص366۔
  20. مقدسی بشاری ،أحسن التقاسيم في معرفة الأقاليم ج 1صص:474، 475۔
  21. مسعودی ،مروج الذہب ج 1ص 179 تحت عنوان منصورہ۔
  22. مختصر تاریخ کشمیر ص112۔واقعات کشمیرص77۔دانشنامہ شیعیان کشمیر ج1 صص41،42 نقل از کحل الجواہر،سید محسن حسینی کشمیری ص104۔
  23. مختصر تاریخ کشمیر ص112۔تاریخ حسن ج3 صص 11،18۔دانشنامہ شیعیان کشمیر ج1 صص56،49 نقل از کحل الجواہر،سید محسن حسینی کشمیری ص104۔
  24. سید محسن حسینی کشمیری ،کحل الجواہر،ص103۔
  25. ویکیپیڈیا اردو؛ محمد علی جناح۔
  26. http://www.pakistan.gov.pk/Quaid/about.html#schooling
  27. Muhammad Ali Jinah
  28. سید وصی خان، تشکیل پاکستان میں شیعیان علی کا کردار ص443 تا 485
  29. سید وصی خان ، تشکیل پاکستان میں شیعوں کا کردار،صص469،470
  30. ایضاً 471۔
  31. وصی خان، تشکیل پاکستان میں شیعان علی کا کردار صص267 تا 286۔
  32. راجہ صاحب محمود آباد کا خانوادہ۔
  33. رجوع کریں : محمد وصی خان ، تشکیل پاکستان میں شعیان علی کردار۔ مذکورہ کتاب میں ان افراد کے حالات زندگی مستندات کے ہمراہ موجود ہیں ۔
  34. [اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور۔
  35. کتاب حقائق عالم۔
  36. آمارهای موجود از شیعیان پاکستان۔
  37. آمارهای موجود...۔
  38. بریلوی مکتبہ فکر۔
  39. عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گستره جہان، ص276۔
  40. رجوع کریں: بررسی اجمالی فرقہ ذکریہ
  41. سائیٹ
  42. سيد حسين علي نقوی ، تاريخ پيدايش و پيشرفت مدارس علميہ شيعہ در پاکستان ص43۔
  43. ایضا صص60،62،65۔
  44. ایضا صص62،65۔
  45. ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاهرہ في ملوك مصر و القاہرہ ج 4، ص 126.
  46. رجوع کریں :سیدمنظرعباس رضوی ، نقش شاعران و صوفیان در گسترش تشیع در اوده ،
  47. مجتبی کرمی، نگاہی به تاریخ حیدرآباد دکن، دفتر مطالعات سیاسی و بین المللی، تہران، 1373، ص 85۔با حوالہ:سائیٹ

مآخذ

  • خلیفہ بن خیاط عصفری، تاریخ خلیفہ بن خیاط، دار الفكر للطباعۃ والنشر والتوزيع - بيروت - لبنان۔(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)۔
  • بلاذری، فتوح البلدان، مكتبۃ النہضۃ المصريۃ - قاہرۃ(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)۔
  • ذہبی، تاریخ الاسلام بشار، دار الغرب الإسلامي ۔
  • عاملی، اعیان الشیعہ، دار التعارف للمطبوعات - بيروت - لبنان۔(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • ابن خلدون، تاريخ ابن خلدون، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان-(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • أبو الفرج الأصفہانی، مقاتل الطالبيين، (سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • ابن عنبۃ، عمدۃ الطالب - منشورات المطبعة الحيدريہ - النجف الأشرف (سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • طبری، تاريخ الطبری، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان۔
  • ابن سعد، الطبقات الکبری، ۔(سافٹ وئر مکتبہ اہل البیت)
  • مقدسی بشاری، أحسن التقاسيم في معرفۃ الأقاليم، دار صادر، بيروت؛ مكتبة مدبولي القاهرة، الطبعة الثالثہ، 1411/1991 (سافٹ وئر مکتبہ الشاملہ)۔
  • مسعودی، مروج الذہب ج 1ص 71 تحت عنوان منصورہ، دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع۔ بیروت۔
  • سید محسن حسینی کشمیری، کحل الجواہر، ۔
  • ویکیپیڈیا اردو؛ محمد علی جناح۔
  • عرب احمدی، شیعیان خوجہ اثناعشری در گستره جہان،۔
  • سيد حسين علي نقوی، تاريخ پيدايش و پيشرفت مدارس علميہ شيعہ در پاکستان ۔
  • ابن تغری بردی، جمال الدين ابي المحاسن يوسف، النجوم الزّاہرہ في ملوك مصر و القاہرہ .