حضرت ابراہیم کے لئے آگ ٹھنڈی ہونا

ویکی شیعہ سے
حضرت ابراہیم گلزار میں، محمود فرشچیان کی پینٹنگ

حضرت ابراہیم کے لئے آگ ٹھنڈی ہونے سے مراد اس آگ سے حضرت ابراہیمؑ کی معجزانہ نجات ہے جو بابِل کے بادشاہ نمرود اور مشرکوں کے بتوں کو توڑنے پر ان کی طرف سے ابراہیم کے لئے تیار کی گئی تھی۔[1] قرآن میں سورہ انبیاء آیت نمبر 51 تا 70، سورہ صافات کی آیت نمبر85 تا 98 اور سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 24 میں حضرت ابراہیم کی زندگی کے اس حصے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔[2]سورہ انبیاء آیت نمبر 69 کے مطابق اللہ تعالی نے آگ کو حضرت ابراہیمؑ کے لیے ٹھنڈا اور باعث سلامتی ہونے کا حکم کیا۔[3] مفسرین قرآن کا کہنا ہے کہ آگ کو ٹھنڈی ہونے کا حکم تکوینی خطاب تھا۔[4] مفسرین نے آگ ٹھنڈی ہونے اور اس پر اللہ کے ارادے کے بارے میں چند نظریات پیش کئے ہیں[5] جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  • آگ کی ماہیت ختم ہوکر گلزار میں تبدیل ہوگئی۔[6]
  • اللہ نے آگ اور ابراہیم کے درمیان کوئی حائل اور رکاوٹ ایجاد کی تاکہ آگ انہیں جلا نہ سکے۔[7]
  • آگ سے صرف اس کی حرارت چھین لی گئی؛ کیونکہ آگ کی ماہیت میں حرارت شامل نہیں ہے۔[8]
  • اللہ تعالی نے ابراہیم کے جسم میں ایسی خصوصیات قرار دیں جس کی وجہ سے آگ ان پر اثر نہ کرسکی؛ جیسے جہنم کے فرشتے جہنم میں رہ کر نہیں جلتے ہیں۔[9]
  • یہ ایک الہی معجزہ تھا ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔[10]

بعض تفاسیر میں واقعہ کچھ یوں بیان ہوا ہے: جب حضرت ابراہیم تقریبا 16 سال کی عمر میں تھے[11] سب لوگ سالانہ جشن منانے شہر سے باہر چلے گئے تو آپ نے کلہاڑی سے ان کے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا۔ پھر کلہاڑی کو بڑے بت کے کاندھے پر رکھ دیا۔[12] جس شخص کو حضرت ابراہیم کی بتوں سے دشمنی کا پتہ تھا اس نے حضرت ابراہیم کا نام بتا دیا۔ حضرت ابراہیم کے لئے جرگہ بٹھایا جس میں حضرت ابراہیم نے بت پرستوں کے عقیدہ کا مزاق اڑاتے ہوئے بت شکنی کی نسبت بڑے بت کی طرف دی؛ لیکن ان لوگوں نے نہیں مانا۔ اور آخر کار انہیں سزا کے طور پر آگ میں جلانے کا حکم سنایا گیا۔

مشرکوں نے لوگوں کو اس کام کی انجام دہی کے سلسلے میں ترغیب دلائی اور ابراہیم کو جلانے میں کی جانے والی مدد کو خداؤوں کی مدد قرار دیا؛[13] اس طرح سے کہ بعض نے حاجت روایی کے لئے لکڑی نذر کیا اور بعض لوگ جو مرنے کے قریب تھے انہوں نے اپنا مال سے ابراہیم کو جلانے کے لئے لکڑی خریدنے کی وصیت کی۔ [14] آگ اس قدر زیادہ تھی کہ ابراہیم کو آگ میں پھینکنے کی کسی کو طاقت نہیں ہوئی۔ ابلیس نے تجویز دی کہ منجنیق کے ذریعے آگ کی طرف پھینکا جائے۔ ابراہیم کو منجنیق میں رکھ کر آگ کی جانب پھینکا گیا۔[15]

روایات کے مطابق جب ابراہیم آگ کی جانب پرواز کر رہے تھے تو اس درمیان ابراہیم اور بعض فرشتوں کے درمیان کچھ گفتگو ہوئی۔[16] ان روایات کے مطابق فرشتوں نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ وہ انہیں ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت دے۔ اللہ نے انہیں اجازت دی لیکن ابراہیم نے مدد لینے سے انکار کیا۔ پھر جبرئیل آئے اور ان کو اللہ سے مدد مانگنے کا کہا۔ ابراہیم نے جواب میں اللہ تعالی خود میری حالت سے واقف ہے کہہ کر ان کی بات کو بھی ٹھکرایا۔[17] بعض روایات میں حضرت ابراہیم کی زبانی بعض دعائیں نقل ہوئی ہیں؛ جیسے «یا اللَّهُ یا وَاحِدُ یا أَحَدُ یا صَمَدُ یا مَنْ لَمْ یلِدْ وَ لَمْ یولَدْ وَ لَمْ یکنْ لَهُ کفُواً أَحَد؛‌ اے اللہ، اے یکتا، اے بےنیاز، اے وہ جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہےاور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔»؛ اسی طرح «اللَّهُمَّ إِنِّی أَسْأَلُک بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ لَمَّا آمَنْتَنِی فَجَعَلَهَا بَرْداً وَ سَلاماً؛ اے اللہ تم سے مانگتا ہوں کہ محمدؐ و آل محمدؐ کا واسطہ مجھے اس آگ سے نجات دے، اور اللہ تعالی نے بھی آگ کو ٹھنڈی اور سلامتی کا باعث بنا دیا۔»[18]

فخر رازی اپنی کتاب تفسیر کبیر میں حضرت ابراہیم کو جلانے والے واقعے کے بارے میں کچھ سوالات کے جوابات دیے ہیں۔ ان میں سے ایک سوال یہ ہے: کیا یہ بات صحیح ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے آگ کو ٹھنڈی ہونے کا حکم دینے کے بعد سلامتی کا باعث بننے کا نہ کہتے تو ابراہیم سردی میں مبتلا ہوجاتے؟ جواب میں یوں کہتے ہیں کہ آگ ٹھنڈی ہونا اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ سے یہ بعید ہے کہ پہلے ایسی ٹھنڈ کا حکم دے جو انسان کو ہلاک کرنے والی ہو اور پھر دوبارہ اسے سازگار بنادے۔[19]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج13، ص433-446۔
  2. مکارم شیرازی، ترجمہ قرآن، 1372شمسی، ص326و327و399و449۔
  3. مکارم شیرازی، ترجمہ قرآن، 1372شمسی، ص327۔
  4. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج14، ص303؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج13، ص446۔
  5. سجادی‌زادہ، میرزایی، «نقد و بررسی تفسیر آیہ سرد شدن آتش بر ابراہیم(ع)»، ص158۔
  6. طیب، اطیب البیان، 1369شمسی، ج9، ص208۔
  7. طوسی، التبیان،‌ دار إحیاء التراث العربی، ج7، ص263۔
  8. عراقی، القرآن و العقل، 1362شمسی، ج3، ص327؛ طوسی، التبیان،‌ دار إحیاء التراث العربی، ج7، ص263۔
  9. فخررازی، التفسیر الکبیر، 1420ھ، ج22، ص159۔
  10. فضل‌اللہ، من وحی القرآن، 1419ھ، ج15، ص241۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج13، ص436۔
  12. مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج7، ص84و83؛ تفسیر نمونہ، ج13، ص437و436۔
  13. مکارم شیرازی، ترجمہ قرآن، 1372شمسی، ص327۔
  14. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج13، ص444؛ طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372شمسی، ج7، ص87۔
  15. طبرسی، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، 1372شمسی، ج7، ص85-87؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج13، ص436و446۔
  16. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج12، ص24؛ طبرسی، الإحتجاج، 1403ھ، ج1، ص48۔
  17. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج68، ص155۔
  18. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج12، ص24؛ طبرسی، الإحتجاج، 1403ھ، ج1، ص48۔
  19. فخررازی، تفسیر کبیر، 1420ھ، ج22، ص159و160۔

مآخذ

  • سجادی‌زادہ، سید علی، میرزایی، مصطفی، «نقد و بررسی تفسیر آیہ سرد شدن آتش بر ابراہیم(ع)»، دوفصلنامہ آموزہہای قرآنی، شمارہ 25، 1396ہجری شمسی۔
  • طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسة الأعلمی للمطبوعات، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ایران، ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج علی أہل اللجاج، مشہد، نشر مرتضی، 1403ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ اول.
  • طیب، عبد الحسین، اطیب البیان فی تفسیر القرآن، تہران، اسلام، چاپ دوم، 1369ہجری شمسی۔
  • عراقی، سید نورالدین، القرآن و العقل، قم، بنیاد فرہنگ اسلامی حاج محمدحسین کوشانپور، 1362ہجری شمسی۔
  • فخررازی، محمد بن عمر، التفسیر الکبیر، لبنان،‌ دار إحیاء التراث العربی، چاپ سوم، 1420ھ۔
  • فضل‌اللہ،محمدحسین، من وحی القرآن، لبنان،‌ دار الملاک، چاپ اول، 1419ھ۔
  • مجلسی، محمدتقی، بحارالانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، ترجمہ قرآن، قم، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، چاپ دوم، 1373ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دارالکتب الإسلامیة، چاپ دہم، 1371ہجری شمسی۔