"صلوات" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Noorkhan |
imported>Noorkhan |
||
سطر 73: | سطر 73: | ||
===احادیث میں=== | ===احادیث میں=== | ||
مآخذ [[حدیث]] میں صلوات کے لئے بہت زیادہ [[ثواب]] اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ [[حدیث]] میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ [[حدیث]] و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین [[شیعہ]] ماخذِ [[حدیث]] ـ ''[[الکافی]]'' ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "<font color = blue>{{حدیث|'''جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں'''}}</font>"۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص493۔</ref> | مآخذ [[حدیث]] میں صلوات کے لئے بہت زیادہ [[ثواب]] اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ [[حدیث]] میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ [[حدیث]] و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین [[شیعہ]] ماخذِ [[حدیث]] ـ ''[[الکافی]]'' ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "<font color = blue>{{حدیث|'''جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں'''}}</font>"۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص493۔</ref> | ||
سطر 104: | سطر 104: | ||
# '''افضل ترین اعمال میں سے ایک''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''عَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ النَّبِيُ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ: رَأَيتُ البارحَة عَمِّي حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأخِي جَعْفَرَ بْنَ أبِي طالِبٍ وَبَينَ أَيدِيهِما طَبَقٌ مِنْ نَبِقٍ فَأكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ النَّبِقُ عِنَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ الْعِنَبُ لَهُمَا رُطَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَدَنَوْتُ مِنْهُمَا وَقُلْتُ:بِأَبِي أَنْتُمَا،اي الْأَعْمَالِ وَجَدْتُما أَفْضَلَ؟ قَالَا: فَدَينَاكَ بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ، وَجَدْنَا أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ الصَّلَاةَ عَلَيكَ، وَسَقْي الْمَاء، وَحُبَّ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عليه السَّلامُ'''}}</font>؛ <br/> <font color = #00000>{{عربی|ترجمہ: [[ابن عباس]] نقل کرتے ہیں کہ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے ([[نماز]] فجر کے بعد) اپنے [[صحابہ|اصحاب]] سے فرمایا: کل رات کو میں نے اپنے چچا [[حمزہ بن عبد المطلب]] اور بھائی [[جعفر بن ابی طالب]] کو خواب میں دیکھا؛ ان کے ہاں ایک سدر کے پھل کی ایک طشتری تھی؛ ایک مدت تک اس سے کھاتے رہے تو وہ پھل انگور میں بدل گیا۔ جب اس میں کچھ کھایا تو انگور رطب (تروتازہ کھجوروں) میں بدل گئے، رطب میں سے بھی جب کچھ کھا چکے تو میں ان کے قریب گیا اور کہا: میرے والد تم پر فدا ہو، تم نے کونسا عمل دوسرے اعمال سے افضل پایا؟ کہنے لگے: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ پر صلوات، دوسروں کو پانی پلانے کے عمل اور [[امیرالمؤمنین|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کی محبت کو دوسرے تمام اعمال سے افضل پایا}}</font>"۔<ref>قطب راوندی، الدعوات، ص90۔</ref><ref>القمي، محمدبن الحسن، العقد النضید، ص92۔</ref><ref>علامہ حلی، کشف الیقین، ص231۔</ref><ref>اربلی، کشف الغمّۃ، ج1، ص94۔</ref><ref>البحرانی، مدینۃ المعاجز، ج3، ص35۔</ref><ref>البحرانی، غایۃ المرام، ج6، ص54۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص284، ج39، ص274، ج71، ص369، ج91، ص70 ۔</ref><ref>نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331، ج7، ج250۔</ref><ref>بروجردی، جامع احادیث، ج8، 514، ج15، ص471۔</ref> | # '''افضل ترین اعمال میں سے ایک''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''عَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ النَّبِيُ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ: رَأَيتُ البارحَة عَمِّي حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأخِي جَعْفَرَ بْنَ أبِي طالِبٍ وَبَينَ أَيدِيهِما طَبَقٌ مِنْ نَبِقٍ فَأكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ النَّبِقُ عِنَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ الْعِنَبُ لَهُمَا رُطَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَدَنَوْتُ مِنْهُمَا وَقُلْتُ:بِأَبِي أَنْتُمَا،اي الْأَعْمَالِ وَجَدْتُما أَفْضَلَ؟ قَالَا: فَدَينَاكَ بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ، وَجَدْنَا أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ الصَّلَاةَ عَلَيكَ، وَسَقْي الْمَاء، وَحُبَّ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عليه السَّلامُ'''}}</font>؛ <br/> <font color = #00000>{{عربی|ترجمہ: [[ابن عباس]] نقل کرتے ہیں کہ [[رسول اللہ|پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے ([[نماز]] فجر کے بعد) اپنے [[صحابہ|اصحاب]] سے فرمایا: کل رات کو میں نے اپنے چچا [[حمزہ بن عبد المطلب]] اور بھائی [[جعفر بن ابی طالب]] کو خواب میں دیکھا؛ ان کے ہاں ایک سدر کے پھل کی ایک طشتری تھی؛ ایک مدت تک اس سے کھاتے رہے تو وہ پھل انگور میں بدل گیا۔ جب اس میں کچھ کھایا تو انگور رطب (تروتازہ کھجوروں) میں بدل گئے، رطب میں سے بھی جب کچھ کھا چکے تو میں ان کے قریب گیا اور کہا: میرے والد تم پر فدا ہو، تم نے کونسا عمل دوسرے اعمال سے افضل پایا؟ کہنے لگے: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ پر صلوات، دوسروں کو پانی پلانے کے عمل اور [[امیرالمؤمنین|علی بن ابی طالب علیہ السلام]] کی محبت کو دوسرے تمام اعمال سے افضل پایا}}</font>"۔<ref>قطب راوندی، الدعوات، ص90۔</ref><ref>القمي، محمدبن الحسن، العقد النضید، ص92۔</ref><ref>علامہ حلی، کشف الیقین، ص231۔</ref><ref>اربلی، کشف الغمّۃ، ج1، ص94۔</ref><ref>البحرانی، مدینۃ المعاجز، ج3، ص35۔</ref><ref>البحرانی، غایۃ المرام، ج6، ص54۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص284، ج39، ص274، ج71، ص369، ج91، ص70 ۔</ref><ref>نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331، ج7، ج250۔</ref><ref>بروجردی، جامع احادیث، ج8، 514، ج15، ص471۔</ref> | ||
# '''[[حضرت زہرا(س)]] پر صلوات، گناہوں کی بخشش اور جنت میں [[رسول اللہ(ص)]] سے ملحق ہونے کا سبب''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''عن مولاتِنا فاطِمَة الزهراءِ: قالتْ:قالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وَآلِه: يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة'''}}</font>؛ <br/> <font color = #00000>{{عربی|ترجمہ: اے [[فاطمہ(س)|فاطمہ]]! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں [[جنت]] کے جس حصے میں بھی ہونگا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا}}</font>"۔<ref>اربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص100۔</ref><ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔</ref><ref>واعظ کجوری، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔</ref><ref>رضوی قمی، اللمعۃ البیضاء، ص291۔</ref><ref>نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔</ref><ref>بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266۔</ref><ref>نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص370۔</ref><ref>ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1197۔</ref> | # '''[[حضرت زہرا(س)]] پر صلوات، گناہوں کی بخشش اور جنت میں [[رسول اللہ(ص)]] سے ملحق ہونے کا سبب''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''عن مولاتِنا فاطِمَة الزهراءِ: قالتْ:قالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وَآلِه: يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة'''}}</font>؛ <br/> <font color = #00000>{{عربی|ترجمہ: اے [[فاطمہ(س)|فاطمہ]]! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں [[جنت]] کے جس حصے میں بھی ہونگا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا}}</font>"۔<ref>اربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص100۔</ref><ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔</ref><ref>واعظ کجوری، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔</ref><ref>رضوی قمی، اللمعۃ البیضاء، ص291۔</ref><ref>نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔</ref><ref>بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266۔</ref><ref>نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص370۔</ref><ref>ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1197۔</ref> | ||
==حوالہ جات== | ==حوالہ جات== |
نسخہ بمطابق 02:42، 13 جون 2016ء
مقالہ زیر ترمیم ہے: یہ ٹیگ مورخہ {{{07}}} {{{جولائی}}} {{{2016}}} کو [[{{{صارف:Noorkhan}}}]] نے متنازعہ ترامیم سے بچنے کے لئے درج کیا ہے؛ ایک مہینے تک نہ ہٹائے جانے کی صورت میں، چاہیں تو! اسے ہٹا سکتے ہیں لہذا، صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے ترمیم سے پرہیز فرمائیں۔ |
دعا و مناجات |
![]() |
دعا و مناجات |
![]() |
قال اللہ تبارک وتعالی:"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً"؛
"یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے[؟–56]"۔
صَلَوات، [عربی میں: عربی زبان میں ایک خاص قسم کا ذکر ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر درود سے عبارت ہے اور مسلمان، نماز کے تشہد میں نیز رسول اللہ(ص) کا نام سن کر، پڑھتے ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت 56 (آیت صلوات) کے علاوہ، بہت سی احادیث بھی صلوات کے استحباب پر تاکید کرتی ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدے میں صلوات رسول خدا(ص) کا احترام بھی ہے اور اس پر اخروی ثواب بھی حاصل ہوتا اور مثبت دنیاوی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ صلوات بہت سے ممالک کے مسلمانوں کی عام تعلیمات میں اہم منزلت رکھتی ہے اور مسلمان مختلف مواقع پر، اور مختلف مناسبتوں سے، ـ بطور مثال جشنوں وغیرہ میں خوشی کے اظہار، اور اپنے کاموں کے آغاز پر، تبرک اور تَیَمُّن کی نیت سے صلوات پڑھتے ہیں۔
شیعیان اہل بیت کے ہاں رائج ترین صلوات "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔
لغوی اور اصطلاحی معانی
صلوات جمع "صلاۃ" ہے، جو مادہ "ص ل و" سے مشتق ہے اور اس کے معنی دعا، درود، تحیت اور رحمت کے ہیں۔ "صلوات"، جمعِ "صلاۃ" بمعنی "نماز" بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ نماز مختلف دعاؤں پر بھی مشتمل ہے، اسی لئے اس کو "صلاۃ" بھی کہا جاتا ہے، چنانچہ عربی میں "صلوات" کو جمع کی صورت میں بروئے کار لایا جاتا ہے اور اس کے معنی "نمازوں، دعاؤں اور درودوں کے ہیں۔[1] فارسی [اور اردو وغیرہ] میں لفظ {صلوات" سے مراد، صلاۃ کی جمع نہیں بلکہ اس لفظ سے، اصطلاحی معنی میں رسول اللہ(ص) پر درود خاص کے طور پر مراد لئے جاتے ہیں۔
دینی اصطلاح میں، صلوات، پیغمبر(ص) پر درود خاص نامی عبادی عمل کا نام ہے جس کو شیعیان اہل بیت(ع) عبارت "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" سے، بجا لاتے ہیں۔
خدا اور فرشتوں کی صلوات کے معنی
عرب ماہرین لسانیات کے بقول، اگر عربی لفظ "صلاۃ" سے درود اور تہنیت مراد لی جائے، تو اس کا مطلب ـ استعمال کرنے والے شخص کی نسبت، نیز اس شخص کی نسبت جس پر درود بھیجا جارہا ہے ـ معنوی لحاظ سے، مختلف ہوگا؛ بطور مثال:
- مؤمنین پر پیغمبر(ص) کی صلوات، ان کی خیر و برکت اور فلاح کی دعا ہے؛
- کسی پر فرشتوں کی صلوات، استغفار اور طلب رحمت کے معنوں میں ہے؛
- حضرت محمد(ص) پر مؤمنوں کی صلوات، آپ(ص) کی ثناء اور نیکی سے ذکر کرنے کے معنوں میں ہے؛[2]
- حضرت محمد(ص)، پر خدا کی صلوات، آپ(ص) پر اللہ کی طرف کی رحمت کے ہیں؛
- پیغمبر(ص) پر فرشتوں کی صلوات، آپ(ص) کے لئے رحمت کی طلب ہے۔[3]
صلوات کی عبارت اور صیغے
شیعیان اہل بیت کے ہاں صلوات کا مشہور ترین "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔ اسلامی مذاہب کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ" صلوات کی عبارت کا اصلی حصہ ہے؛ اختلاف ان عبارات میں ہے جو اس جملے کے بعد لائی جاتی ہیں۔ شیعہ اہل سنت کے برعکس، اس عبارت کے بعد "وَآلِ مُحمّد" کی عبارت لاتے ہیں اور اس سلسلے میں کثیر شیعہ اور سنی مآخذ سے استناد کرتے ہیں، جن کی رو سے صلوات کاملہ یہ ہے کہ اس میں مذکورہ عبارت بھی شامل ہو۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ(ص) نے صلوات کے بارے میں پوچھنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ}}"۔[4]
بعض روایات سے ثابت ہے کہ صلوات "وَآلِ مُحمّد" کے بغیر مکمل نہیں ہے۔[5] بعض روایات میں اہل بیت(ع) نے بھی صلوات کی کیفیت بیان کی ہے۔ ان روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ رسول اللہ(ص) پر درود و صلوات کے ساتھ آپ(ص) کی آل [خاندان] پر بھی صلوات بھیجنا لازم ہے۔ امام صادق(ع) نے صلوات کی کیفیت یوں بیان کی ہے:
- " صَلَواتُ اللهِ وَصَلَواتُ مَلائِكتِهِ وَأنْبِيائِهِ وَرُسُلِهِ وَجَمِيعِ خَلْقِهِ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَالسَّلامُ عَلَيهِ وَعَلَيهِمْ وَرَحَمةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ "۔[6] ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول خدا(ص) پر صلوات کے حسنات 100 ہیں اور آل رسول(ص) پر صلوات کے حسنات 1000۔[7] بعض شیعیان کے نزدیک ـ بالخصوص ایران، [اور "پاکستان"] میں "وَعَجِّل فَرَجَهُم"؛ "ترجمہ: اور ان کی فَرَج میں تعجیل فرما"؛ جو اہل بیت(ع) سے منقولہ روایات کے مطابق ہے۔[8]
"وَآلِ مُحمّد"
اہل سنت کے ہاں صلوات کی کیفیت
اہل سنت کے ماضی سے آج تک، چار قسم کی صلوات رائج رہی ہے اور ان کی نمازوں کی صلوات، ان کی مکتوبہ اور زبانی صلواتوں سے مختلف ہے۔[9]
وہ جو صلوات نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں، وہ "وَآلِ مُحمّد" پر مشتمل ہے: "اَللّهمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ و عَلی آلِ مُحَمّد کما۔۔۔" جس میں حرفِ جَرّ لفظ "آل" سے قبل بھی آیا ہے۔ اہل سنت کے ہاں نماز میں رائج صلوات رسول اللہ(ص) کے صحابی "کعب بن عجرۃ" سے منقولہ روایت ـ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم ـ میں نقل ہوئی ہے۔ حنابلہ اس روایت کو بعینہ نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں۔[10] لیکن اہل سنت کے دیگر مذاہب اور مذہب زیدیہ میں عبارت "آل ابراہیم" سے قبل "ابراہیم" کا نام بھی آتا ہے۔[11][12]۔[13]
جو صلوات وہ اپنی تقریر و تحریر میں استعمال کرتے ہیں ان میں "آل محمد" کا نام نہیں ہے اور وہ رسول اللہ(ص) کا نام لے کر کہتے ہیں: "صَلّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ"۔
ایک تیسری قسم کی صلوات بھی اہل سنت ـ بالخصوص احناف ـ میں مرسوم ہے جسے وہ سرسراہٹ یا بنبناہٹ کی صورت میں پڑھتے ہیں اور یہ وہ صلوات ہے جسے خطیب لوگوں سے پڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قسم کی صلوات میں "ازواج اور اصحاب" جیسے اصحاب بھی شامل ہیں اور عام طور پر اس طرح پڑھی جاتی ہے: "اللهم صلِ وسلم على سيدنا محمد وعلى آله وأزواجه وصحبه كما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد"۔ بعض علاقوں میں "آل محمد" کے بعد "اصحاب محمد" کو بڑھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: "اللّهم صل علی محمد وآل محمد واصحاب محمد"۔[14]
اہل سنت کی یہ عادت نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) کا نم سن کر صلوات پڑھیں، مگر اس وقت، جب وہ آیت صلوات سنیں یا ان سے "درود شریف" پڑھنے کی درخواست کی جائے۔[15] سانچہ:ماخذ درکار
صلوات کی اہمیت اور فضیلت

بعض احادیث، حضرت محمد(ص) سے قبل کے انبیاء بھی صلوات پڑھتے رہے ہیں۔ ایک نقل کے مطابق "صلوات حضرت ابراہیم(ع) کے معنوی و روحانی رتبے کی رفعت میں مؤثر تھی۔[16] پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں: "جو مجھ پر صلوات بھیجے، فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں، کم یا زیادہ؛ جس قدر کہ وہ صلوات بھیجتا ہے"۔[17] بعض احادیث ـ منجملہ امام رضا(ع) سے منقولہ حدیث ـ کی رو سے، صلوات گناہوں کے محو ہوجانے میں مؤثر ہے۔[18]
صلوات قرآن میں
مفصل مضمون: آیت صلوات
قرآن کریم نہ صرف تصریح کرتا ہے کہ خداوند متعال اور اس کے فرشتے رسول اللہ(ص) پر صلوات بھیجتے ہیں، بلکہ مؤمنین کو بھی امر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ اور فرشتوں کی پیروی کریں:
"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً ﴿56﴾"؛
ترجمہ: یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے[؟–56]۔
صلوات نماز میں
صلوات نماز کے واجب اذکار میں سے ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہر روز اپنی یومیہ نمازوں کے تشہد میں صلوات پڑھیں اور پیغمبر اکرم(ص) اور آپ(ص) کے خاندان پر اسی ذکر خاص کے ساتھ، درود بھیجیں۔ چنانچہ اگر پیغمبر اکرم(ص) پر صلوات کو ارادی طور پر ترک کیا جائے تو نماز باطل ہوگی۔[19]
احادیث میں
مآخذ حدیث میں صلوات کے لئے بہت زیادہ ثواب اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ حدیث میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ حدیث و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین شیعہ ماخذِ حدیث ـ الکافی ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں"۔[20]
شیخ حر عاملی، اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اور محدث نوری مستدرک وسائل الشیعہ میں "صلوات کی کیفیت"،[21] "صلوات بآواز بلند"،[22] وغیرہ جیسے عناوین کے تحت ابواب کھول رکھے ہیں۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار ـ جو جو عظیم ترین شیعہ ماخذ حدیث ہے ـ میں "نبی و آل نبی(ص) پر صلوات بھیجنے کی فضیلت" کے زیر عنوان ایک باب میں 67 حدیثیں نقل کی ہیں۔[23]
اہل سنت کے ایک اہم مجموعۂ حدیث کنزالعمال کی پہلی جلد کے چھ ابواب میں 119 حدیثیں اکٹھی کی گئی ہیں جن کا مضمون "صلوات، اس کی اہمیت اور فضیلت" ہے۔
صلوات کے بعض آثار، احادیث کے آئینے میں:
- گناہوں کا کفارہ
حضرت رضا علیہ السلام:
"مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَا يُكَفِّرُ بِهِ ذُنُوبَهُ فَلْيُكْثِرْ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ فَإِنَّهَا تَهْدِمُ الذُّنُوبَ هَدْماً وَقَالَ عَلَيهِ السَّلامُ: الصَّلَاةُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّسْبِيحَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّكْبِيرَ (ترجمہ: اگر کوئی ایسا کام کرنے سے عاجز ہے جو اس کے گناہوں کا کفارہ ٹہرے، تو وہ بہت زیادہ صلوات بھیجے محمد و آل محمد پر، کیونکہ صلوات نابود کردیتی ہے گناہوں کو، جیسا کہ نابود کرنے کا حق ہے؛ نیز امام رضا(ع) نے فرمایا: محمد و آل محمد پر صلوات، خدائے عز وجل کی بارگاہ میں برابر ہے تسبیح، (= سبحان اللہ)، تہلیل (= لا الہ الا اللہ)، تکبیر (= اللہ اکبر)، کے برابر ہے)"۔[24][25]</ref>[26][27][28][29][30] - اعمال کے ترازو میں سب سے بھاری عمل
"قال أبو عبدِ الله أو أبو جعفر علیهما السلام: أثقَلُ ما یُوضَعُ فی المیزانِ یَومَ القِیامةِ، الصَّلاةُ علی مُحمَّدٍ وَ(علی) أهلِ بِیتِه؛
ترجمہ: سب سے بھاری عمل جو قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں رکھا جاتا ہے، محمد(ص) اور آپ(ص) کے خاندان معظم پر درود و صلوات ہے۔"[31][32][33][34][35][36][37] - آسمان کے دروازوں کا وا ہونا اور گناہوں کا مٹ جانا
"امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے امام علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا نہیں چاہوگے کہ میں تمہیں بشارت دوں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہمیشہ سے خیر کی بشارت دینے والے ہیں؛ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: جبرائیل نے اسی وقت مجھے ایک حیرت انگیز خبر دی۔ امام علی علیہ السلام نے عرض کیا: وہ خبر کیا تھی؟ فرمایا: انھوں نے مجھے خبر دی کہ: جب میری امت کا ایک مرد مجھ پر صلوات بھیجے اور اس صلوات کو میری آل سے متصل کردے، آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اور فرشتے 10 صلواتیں اس پر بھیجتے ہیں، اور اگر وہ شخص گنہگار ہے، تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح گر جاتے ہیں، اور خداوند متعال اس سے خطاب کرکے فرماتا ہے «لبَّیكَ يا عبدي وسَعْدَیكَ» اور فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے پر 70 صلواتیں بھیجیں اور میں اس پر 700 صلواتیں بھیجتا ہوں؛ لیکن اگر اس شخص نے مجھ پر صلوات بھیجی اور اس صلوات کو میری آل سے متصل نہیں کیا تو «لا لبَّیكَ ولا سَعْدَیكَ»، اے میرے فرشتو! اس کی دعا کو اوپر کی جانب مت لے کر جاؤ مگر یہ کہ میرے پیغمبر کی آل پر صلوات بھیجے، ایسا شخص رحمتِ حق سے محروم ہے جب تک کہ وہ میرے خاندان کو صلوات میں مجھ سے متصل نہیں کرتا۔"[38][39] - اللہ کی قربت و محبت
امام علی بن محمد الہادی علیہ السلام نے فرمایا:
"< إنّما اتَّخَذَ اللهُ إبرَاهِيمَ خليلاً لِكَثْرَةِ صَلاتِهِ علي محمّدٍ وأهلِ بيِتهِ صلواتُ اللهِ عَلَيهم؛
ترجمہ: بےشک خداوند متعال نے حضرت ابراہیم (عَلَی نَبِینا وآلهِ وعليه السلام) کو بطور دوست و خلیل منتخب کیا کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آپ(ص) کے اہل بیت معظم علیہم السلام، بہت زیادہ صلوات بھیجتے تھے"۔[40][41][42][43][44][45][46] - صلوات بآواز بلند، منافقت کو مٹا دیتی ہے
" قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وآله: إرفَعُوا أصواتَکُم بالصَّلاةِ عَلَيَّ، فَإنَّها تَذْهَبُ بِالنِّفاقِ؛
"رسول اللہ(ص) نے فرمایا: مجھ پر بلند آواز سے صلوات بھیجا کرو، کہ یقینا یہ نفاق کو مٹاتی اور دوچہرگی کو ہٹاتی ہے"۔[47][48][49][50][51][52][53] - صلوات لکھنے والے کے لئے ملائکہ کا استغفار
"قالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ علیهِ وَآلِه: مَنْ صَلّی عَلَيَّ في كِتابٍ، لَمْ تَزَل الملائِكَةُ تَستَغفِرُ لَه ما دامَ إسمِي في ذلكَ الكِتابِ؛
{{{1}}}"۔[54][55][56][57][58][59] مروی ہے کہ ایک شخص بصرہ میں کتابت حدیث میں مصروف عمل تھا؛ اور جہاں بھی رسول اللہ(ص) کا نام گرامی اتا وہ شخص جان کر، صلوات لکھنے سے اجتناب کرتا تھا؛ بہت قلیل سی مدت میں اس کی انگلیوں "آکلہ" (جذام یا خورہ) پڑ گیا اور انگلیاں ہاتھ سے مکمل طور پر جدا ہوگئیں۔[60] - صلوات کے بعد ہونے والی دعا کی استجابت
"قال الصّادقُ عليه السلام: إذا دعا أحَدُكُم فَلْیبْدَأ باِلصَّلاةِ علی النَّبي صَلی اللهُ عليه وآلهِ؛ فإنَّ الصَّلاةَ علی النَّبي صَلی اللهُ عليه وآله مَقْبُولَةٌ وَلَمْ يكُن اللهُ لِيقْبَلَ بَعضَ الدُّعاءِ وَيرُدَّ بَعضاً؛
ترجمہ: ہرگاہ تم میں سے کوئی دست بدعا ہوجائے، اور اپنی دعا کا آغاز [رسول اللہ"۔[61][62][63][64] - دوزخ کی آگ سے نجات
"قالَ مُولانا الصّادقُ عليه السلام لصباحِ بنِ سَیابِة: أ لا أعَلِّمُكَ شَيئاً یقِيَ اللهُ بهِ وَجْهَكَ مِن حَرِّ جَهَنَّمَ؟ قالَ، قلتُ: بَلی، قالَ: قُلْ بَعدَ الفَجْرِ:"أَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ" مائةَ مَرَّةٍ يقَي اللهُ به وَجْهَكَ مِنْ حَرِّ جَهَنَّمَ؛ ترجمہ: امام صادق علیہ السلام نے صباح بن سیابہ سے فرمایا: کیا تمہیں ایسی دعا نہ سکھاؤں کہ جس کے بدولت خداوند متعال تمہارا چہرہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے؟ میں [صباح] کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! امام(ع) نے فرمایا: فجر کے وقت ایک سو مرتبہ کہو: أَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ؛ ترجمہ: خداوند متعال اس ذکر کی برکت سے تمہیں جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائے گا"۔[65][66][67][68][69][70] - صلوات اخلاص کے ساتھ ہو تو دنیاوی اور اخروی حاجات برآوردہ ہوتی ہیں
/> "قال الصّادقُ عليه السلام: مَنْ صَلَّی عَلَی النَّبيِ وَآلِه مَرَّةً واحِدَةً بِنِيةٍ وَإخْلاصٍ مِنْ قَلبِهِ قَضَی اللهُ لَه مائَةَ حاجَةٍ؛ منها ثلاثونَ للدُّنیا وَسَبْعُونَ للآخِرَةِ؛
ترجمہ: جو شخص ایک بار [پاک اور پسندیدہ] نیت اور اخلاص کے ساتھ، رسول اللہ(ص) اور آپ(ص) کے خاندان معظم پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کی ایک سو حاجتوں کو برآوردہ کرتا ہے: 30 حاجتیں دنیاوی حوائج میں سے، اور 70 حاجتیں اخروی حوائج میں سے"۔[71][72][73] - اللہ اور ملائکہ کی صلوات کا باعث
"عَن الصَّادقِ علیهالسلام عن النَّبی صَلَّی الله علیه وآله: مَنْ صَلَّی عَلَی صَلَّی اللهُ علیهِ وَمَلائِکَتُهُ، وَمَنْ شَاءَ فَلْیقِلَّ وَمَنْ شَاءَ فَلْیكْثِرْ؛
ترجمہ: امام صادق(ع) نے رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہوئے فرمایا: جو مجھ پر صلوات بھیجے اللہ اور اس کے فرشتے اس پر درود و صلوات بھیجتے ہیں (پس) جو چاہے کم اور جو چاہے زیادہ، صلوات بھیجے"۔[74][75][76][77] - شیطانی صفات کے حامل انسانوں کے دور ہوجانے کا سبب
"قالَ النَّبيُّ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: إنَّ الشَّيطانَ اثنانِ: شَيطانُ الجِنِّ وَيَبَعَّدُ ب"لاحُولَ وَلاقُوَّة إلاّ بِاللهِ العَلِّيِ العَظِيمِ"، وَشِيطانُ الإنْسِ وَيبَعَّدُ بِالصَّلاة عَلی النَّبيِ وَآلِهِ؛
ترجمہ: رسول اللہ(ص) نے فرمایا: شیاطین دو قسم کے ہیں؛ جنّی شیاطین، جو ذکر "لاحُولَ وَلاقُوَّة إلاّ بِاللهِ العَلِي العَظِیمِ" کے ذریعے دور کئے جاتے ہیں اور انسی شیاطین، جن [کے شر اور نقصان] کو محمد و آل محمد(ص) کے ذریعے دور کیا جاتا ہے"۔[78][79][80] - روز جمعہ کا بہترین عمل
"عَن مُولانا الصّادقِ عليه السلام: ما مِنْ عَمَلٍ أفْضَلَ يومَ الجُمُعَة مِن الصَّلاة عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِهِ؛
ترجمہ: امام صادق(ع) نے فرمایا: جمعہ کے روز کوئی بھی عمل، محمد و آل محمد(ص) پر صلوات سے افضل، نہیں ہے"۔[81][82][83][84][85] - امام زمانہ(عج) کا دیدار
"عَن الصّادقِ عليه السلام: مَنْ قالَ بَعْدَ صَلاة الظُّهرِ وَصَلاة الفَجْرِ فی الجُمُعَة وَ غِيرِها "ألّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُم" لَمْ يمُتْ حَتّی يُدْرِكَ القائمَ المَهدِيِّ عليه السلام؛
ترجمہ: جو بھی روز جمعہ اور ہفتے کے دوسرے دنوں کو، نماز صبح و نماز ظہر کے بعد کہے: "ألّلهُمَّ صَلِّ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَعَجِّلْ فَرَجَهُم وہ حضرت مہدی عَجَّل اللہَ تَعالی فَرَجَهُ الشَّرِیف کا دیدار کئے بغیر نہیں مرے گا"۔[86][87][88][89][90][91][92][93][94] - ہر صلوات عافیت کا ایک در انسان کے لئے کھول دیتی ہے
"قالَ النَّبيُّ الأعْظَمُ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: مَنْ صَلَّی عَلَيَ مَرَّة فَتَحَ اللهُ عَليهِ باباً مِن العافِية؛
ترجمہ: جو مجھ پر ایک بار صلوات بھیجے، حق تعالی [دین اور دنیا میں] سلامتی اور عافیت کا ایک دروازہ اس کے لئے کھول دیتا ہے"۔[95][96][97][98][99] - خانۂ خدا میں بہترین دعا
"قالَ عبدُ السّلامِ بنُ نُعيمٍ لِمُولانا الصّادقِ عليه السلام: إنّي دَخَلتُ البيتَ وَلَمْ یحضُرْني شَيءٌ مِن الدُّعاءِ إلاِّ الصَّلاةُ عَلی مُحمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ، فقالَ: أما إنَّهُ لَمْ يخرُجْ أحَدٌ بِأفضَلَ مِمّا خَرَجْتَ بِه؛
ترجمہ: عبدالسلام بن نعیم نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں خانۂ کعبہ میں داخل ہوا اور کوئی دعا یاد نہیں آئی سوا صلوات بر محمد و آل محمد کے، تو امام(ع) نے فرمایا: کسی نے بھی تم سے زیادہ افضل عمل انجام نہیں دیا ہے"۔[100][101][102][103][104][105] - اعمال کے پاکیزہ ہونے کا سبب
"عَن النَّبيِ صَلَّی اللهُ عليهِ وَآلِهِ: صَلاتُكُم عَلَی مُجَوِّزَة لِدُعاءِكُم، وَمَرْضاة لِرَبِّكُم، وَزَكاةٌ لِأعمالِكُم (لِأبدانِكُمْ)؛
{{عربی|ترجمہ: رسول اللہ(ص) [ہم پر] تمہاری صلوات، تمہارے پروردگار کی رضا و خوشنودی اور اور تمہارے اعمال [اور ابدان] کے تزکيے اور پاکیزگی کا سبب بنتی ہے"۔[106][107][108][109][110] - صلوات روشنی ہے قبر، صراط اور جنت میں
"قالَ النبيُ صَلَّی اللهُ عَليهِ وَآلِهِ: أكْثِرُوا الصَّلاة عَلَيَّ فَإنَّ الصَّلاة عَلَيَّ نُورٌ فِي القَبرِ، وَنورٌ عَلَی الصِّراطِ، وَنورٌ فِي الجَنَّة؛
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: مجھ پر بکثرت صلوات بھیجا کرو، کیونکہ مجھ پر بھیجی ہوئی صلوات روشنی ہے قبر میں، روشنی ہے صراط پر، اور روشنی ہے جنت میں"۔[111][112][113][114] - صلوات بھیجنے والا، روز قیامت رسول اللہ(ص) کا سب سے زیادہ قریبی
"قالَ رَسولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَليه وَآلِهِ: أَولَی النّاسِ بِي يَومَ القِيامَة أکْثَرُهُمْ عَلَيَّ صَلاةً (فِي دار الدُّنيا) ؛
رسول اللہ(ص) نے فرمایا: قیامت کے دن، تم میں سے، میرے قریب ترین لوگ، وہ لوگ ہیں جو دنیا میں مجھ پر بکثرت صلوات بھیجتے ہیں"۔[115][116][117][118] - اجتماعی صلوات کا ثواب گننا ملائکہ کے لئے ناممکن
"فِي لَيلَة المِعراجِ بَعدَ أنْ رَأی النَّبيَّ مَلَكاً يحاسِبُ عَدَدَ قَطَراتِ المَطَرِ، قالَ المَلَكُ لَه صَلَّی اللهُ عليهِ وَآلِه: يا رَسُولَ اللهِ، حَسابٌ لا أقْدِرُ عَليهِ بِما عِندي مِن الحِفظِ وَالتَّذَكُّرِ وَالأيدِي وَالأصابِعِ، فقالَ: أيُ حِسابٍ هُو؟ فَقالَ: قُومٌ مِنْ أُمَّتِكَ یَحْضُرُونَ مَجْمَعاً فَیذْكرُ اسْمُكَ عِندَهُم فَيصَلُّونَ عَلَیكَ، فأنا لا أقْدِرُ عَلی حَصْرِ ثَوابِهِم؛
ترجمہ: شب معراج رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے ایک فرشتے کو دیکھا جو بارش کے قطرے گن رہا تھا؛ اس فرشتے نے آپ(ص) کی خدمت میں عرض کیا: اے رسول خدا(ص) ایک ایسا حساب بھی ہے جس کو میں اپنی پوری قوت حافظہ، ہاتھوں اور انگلیوں کے باوجود، انجام نہیں دے سکتا۔ آپ(ص) نے فرمایا: وہ کونسا حساب ہے؟ فرشتے نے کہا: جب آپ کی امت کا ایک گروہ ایک مقام پر اکٹھا ہوجاتا ہے اور آپ کا نام مبارک سننے پر آپ پر صلوات بھیجتا ہے، میں ان کی صلوات کا ثواب گننے سے عاجز ہوں"۔[119][120][121] - قلب اور ذہن کی نورانیت
"عَن مَولانا الحَسنِ بنِ عَلی علیهما السلام: إنَّ قَلبَ الرَّجُلِ فِي حُقٍّ وَعَلی الحُقِّ طَبَقٌ، فَإنْ صَلَّی الرَّجُلُ عِندَ ذلكَ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ صَلاةً تامَّةً اِنْكَشَفَ ذلكَ الطَّبَقُ عَنْ ذلِكَ الحُقِّ فَأضاءَ القَلْبُ وَذَكَرَ الرَّجُلُ ما كَانَ نَسِي، وَإنْ هُوَ لَمْ يُصَلِّ عَلی مُحمَّدٍ وَآلِ مُحمَّدٍ أو نَقَصَ مِن الصَّلاة عَلَيهِم إنْطَبَقَ ذلكَ الطَّبَقُ عَلَی ذلكَ الحُقِّ فأظْلَمَ القَلْبُ وَنَسِی ما كَانَ ذَكَرَهُ؛
ترجمہ: امام حسن مجتبی علیہ السلام نے فرمایا: انسان کا قلب کا ٹھکانا ایک گڑھے اور ایک ظرف میں واقع ہوا ہے جس کے اوپر ایک پردہ اور ڈھکن ہے، جب بھی کوئی شخص محمد و آل محمد پر صلوات کاملہ بھیجتا ہے [یعنی رسول اللہ اور آل رسول علیہم السلام کو معاً تحفۂ صلوات پیش کرے] وہ پردہ ہٹ جاتا ہے اور اس کا دل روشن ہوجاتا ہے اور وہ جو کچھ بھول چکا ہے، اسے یاد آجاتا ہے۔ لیکن اگر وہ صلوات نہ بھیجے یا صلوات نافصہ بھیجے [اور آل رسول کو صلوات میں شامل نہ کرے] تو وہ ڈھکن اس کے دل پر برقرار رہتا ہے اور اس کا دل تاریک رہتا ہے، اور جو کچھ اسے یاد ہے، اسے بھی بھول جاتا ہے"۔[122][123][124][125][126][127][128][129][130][131][132][133][134] - افضل ترین اعمال میں سے ایک
"عَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ النَّبِيُ صَلَّی اللهُ عَلَيهِ وَآلِهِ: رَأَيتُ البارحَة عَمِّي حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأخِي جَعْفَرَ بْنَ أبِي طالِبٍ وَبَينَ أَيدِيهِما طَبَقٌ مِنْ نَبِقٍ فَأكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ النَّبِقُ عِنَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَتَحَوَّلَ الْعِنَبُ لَهُمَا رُطَباً، فَأَكَلَا سَاعَةً فَدَنَوْتُ مِنْهُمَا وَقُلْتُ:بِأَبِي أَنْتُمَا،اي الْأَعْمَالِ وَجَدْتُما أَفْضَلَ؟ قَالَا: فَدَينَاكَ بِالْآبَاءِ وَالْأُمَّهَاتِ، وَجَدْنَا أَفْضَلَ الْأَعْمَالِ الصَّلَاةَ عَلَيكَ، وَسَقْي الْمَاء، وَحُبَّ عَلِيِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ عليه السَّلامُ؛
ترجمہ: ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے (نماز فجر کے بعد) اپنے اصحاب سے فرمایا: کل رات کو میں نے اپنے چچا حمزہ بن عبد المطلب اور بھائی جعفر بن ابی طالب کو خواب میں دیکھا؛ ان کے ہاں ایک سدر کے پھل کی ایک طشتری تھی؛ ایک مدت تک اس سے کھاتے رہے تو وہ پھل انگور میں بدل گیا۔ جب اس میں کچھ کھایا تو انگور رطب (تروتازہ کھجوروں) میں بدل گئے، رطب میں سے بھی جب کچھ کھا چکے تو میں ان کے قریب گیا اور کہا: میرے والد تم پر فدا ہو، تم نے کونسا عمل دوسرے اعمال سے افضل پایا؟ کہنے لگے: ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہم نے آپ پر صلوات، دوسروں کو پانی پلانے کے عمل اور علی بن ابی طالب علیہ السلام کی محبت کو دوسرے تمام اعمال سے افضل پایا"۔[135][136][137][138][139][140][141][142][143] - حضرت زہرا(س) پر صلوات، گناہوں کی بخشش اور جنت میں رسول اللہ(ص) سے ملحق ہونے کا سبب
"عن مولاتِنا فاطِمَة الزهراءِ: قالتْ:قالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عليه وَآلِه: يا فاطِمَةُ، مَنْ صَلَّی عَلَیكِ غَفَرَ اللهُ لَهُ وَألْحَقَهُ بي حَيثُ كنْتُ مِن الجَنَّة؛
ترجمہ: اے فاطمہ! جو بھی آپ پر صلوات بھیجے، خداوند متعال اس کو بخش دے گا اور میں جنت کے جس حصے میں بھی ہونگا، اللہ اس کے مجھ سے ملحق کردے گا"۔[144][145][146][147][148][149][150][151]
حوالہ جات
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج1، 266۔
- ↑ فراہیدی، العین، ج7، ص153۔
- ↑ طریحی، مجمع البحرین، ج1، ص266۔
- ↑ السیوطی، الدر المنثور، ج5، ص216۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ص7، ص199۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص196۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص195۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص96۔
- ↑ حوزہ ویب سائٹ۔
- ↑ ابن قدامه، المغنی، ج1، ص223۔
- ↑ الحنفی المصری، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج1، ص573۔
- ↑ أبو البرکات، الشرح الکبیر، ج1، ص251۔
- ↑ أبو بکر الکاسانی، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، ج1 ص211۔
- ↑ کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
- ↑ کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص183۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص493۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص196۔
- ↑ حر عاملی، وہی ماخذ، ص193۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج 91، ص47- 73۔
- ↑ صدوق، عیون أخبار الرضا، ج1، ص236، ح1۔
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، ص132۔
- ↑ فتال النیسابوری، روضۃ الواعظین، ج2، ص322۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص156۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ج91، 74۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص463۔
- ↑ حمیری، قُرب الأسناد، ص14۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص197۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص49۔
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص426۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص62۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص367۔
- ↑ ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص56، باب 29، حدیث 30۔
- ↑ شیخ صدوق، الأمالی، ص580۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص34۔
- ↑ الحلی، المحتضَر، ص139۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص4، ج91، ص54۔
- ↑ حویزی، نور الثقلین، ج1، ص555۔
- ↑ قمی مشہدی، کنز الدقائق، ج2، ص635۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص493۔
- ↑ شیخ صدوق، ثواب الأعمال:159۔
- ↑ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ص312۔
- ↑ الحلي، المحتضر، ص76۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ ج7، ص192 و 200۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار91:59۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص464۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص61۔
- ↑ شہید ثانی، منیة المرید، 347۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص71۔
- ↑ قمی، شیخ عباس، منازل آلاخرة، ص203۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرک سفینة البحار، ج6، ص369۔
- ↑ ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔
- ↑ اردکانی یزدی، شرح و فضائل صلوات، ص97۔
- ↑ طوسی، الأمالی، ص172۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص96۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ج91، ص53۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص239۔
- ↑ صدوق، ثواب الأعمال، ص155۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص159۔
- ↑ الحلی، حسن بن سلیمان، المحتضر، ص76۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج6، ص479۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج83، ص135، ج91، ص58 و 65۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج5، ص337۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص89۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوارج91، ص70۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص492۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔
- ↑ مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص452۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص465۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج92، ص136۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص342۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص464۔
- ↑ فتال النیسابوری، روضۃ الواعظین، ص392۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص381۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ج56، ص27، ج86، ص268، ج91، ص50۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج6، ص188۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرک سفینة البحار، ج2، ص89، ج4، ص445، ج6، ص367۔
- ↑ الطوسي، مصباح المتہجد، ص369۔
- ↑ سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص261۔
- ↑ کفعمی، حاشیۃ المصباح، ص65۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج83، ص77، ج86، ص363، ج87، ص65۔
- ↑ نوری الطبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص96، ج6، ص366۔
- ↑ الموسوي الإصفہاني، مکیال المکارم، ج1، ص344، ج2، ص11۔
- ↑ قمی، شیخ عباس، منازل الآخرۃ، ص205۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج5، ص134، ج5، ص377۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص366۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص153۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص63۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص333۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔
- ↑ ری شہری، میزان الحکمۃ، ج3، ص2022۔
- ↑ کلینی، الکافی، ج2، ص494۔
- ↑ صدوق، ثواب الأعمال، ص155۔
- ↑ الحلي، ابن فهد، عدۃ الداعی، ص150۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص193۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص57، ج 96، ص369۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص156۔
- ↑ سید ابن طاؤس، جمال الأسبوع، ص159۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص68۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص224 و 225 و 329۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص338 و466۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص216۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوارج79، ص64، ج91، ص70۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص332۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص469۔
- ↑ شعیری سبزواری، جامع الأخبار، ص154۔
- ↑ طبرسی، حسن بن فضل، مکارم الأخلاق، ص312۔
- ↑ مجلسی، بحارالأنوار، ج91، ص63۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص334۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص356۔
- ↑ قمی، شیخ عباس، منازل الآخِرَۃ، ص205۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص468۔
- ↑ شیخ صدوق، الإمامة و التبصرۃ، ص107۔
- ↑ نعمانی، الغیبۃ، ص67۔
- ↑ شیخ صدوق، کمال الدین، ج1، ص314۔
- ↑ شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص97۔
- ↑ شیخ صدوق، عیون أخبار الرضا، ج2، ص68۔
- ↑ طبری الشیعی، دلائل الإمامۃ، ص175۔
- ↑ الطبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری، ج2، ص192۔
- ↑ الطبرسي، احمد بن علي، الإحتجاج، ج1، ص397۔
- ↑ حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص199۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج36، ص419، ج58، ص37، ج 91، ص51۔
- ↑ حویزی، نور الثقلین، ج1، ص828۔
- ↑ حائری یزدی، إلزام الناصب، ج1، ص192۔
- ↑ بروجردی، جامع الأحادیث، ج15، ص490۔
- ↑ قطب راوندی، الدعوات، ص90۔
- ↑ القمي، محمدبن الحسن، العقد النضید، ص92۔
- ↑ علامہ حلی، کشف الیقین، ص231۔
- ↑ اربلی، کشف الغمّۃ، ج1، ص94۔
- ↑ البحرانی، مدینۃ المعاجز، ج3، ص35۔
- ↑ البحرانی، غایۃ المرام، ج6، ص54۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، ج22، ص284، ج39، ص274، ج71، ص369، ج91، ص70 ۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج5، ص331، ج7، ج250۔
- ↑ بروجردی، جامع احادیث، ج8، 514، ج15، ص471۔
- ↑ اربلی، کشف الغمۃ، ج2، ص100۔
- ↑ مجلسی، بحار الأنوار، ج43، ص55، ج97، ص194۔
- ↑ واعظ کجوری، الخصائص الفاطمیۃ، ج2، ص467۔
- ↑ رضوی قمی، اللمعۃ البیضاء، ص291۔
- ↑ نوری طبرسی، مستدرک الوسائل، ج10، ص211۔
- ↑ بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج12، ص266۔
- ↑ نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص370۔
- ↑ ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1197۔