مندرجات کا رخ کریں

مسودہ:سورہ احزاب آیت نمبر 52

ویکی شیعہ سے
سورہ احزاب آیت نمبر 52
آیت کی خصوصیات
سورہاحزاب
آیت نمبر52
پارہ22
شان نزولازواج پیغمبر اکرمؑ کی قدردانی یا پیغمبر اکرمؑ پر عرب قبائل کی طرف سے اپنے خاندان میں شادی کرنے کے دباؤ سے مقابلہ کرنا یا دور جاہلیت میں عورتوں سے متعلق غلط رسم و رواج کی ممانعت
محل نزولمدینہ
موضوعفقہی
مضمونپیغمبر اکرمؐ کی شادیاں
مربوط آیاتسورہ احزاب آیت نمبر 50


سورۂ احزاب آیت نمبر 52، میں پیغمبر اکرمؐ کے لئے نکاح کی ایک خاص حد معین کی گئی ہے۔ مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں مختلف آراء پیش کی ہیں: منجملہ ان میں نئے نکاح پر پابندی، یہ پابندی آیت میں مذکور صرف چھ گروہوں تک محدود سمجھنا، اہل کتاب خواتین سے نکاح کا حرام ہونا، اور آیت کا محارم، یعنی وہ عورتیں جن سے شادی کرنا تمام مسلمانوں پر حرام ہیں، سے متعلق ہونا۔ بعض علما اس حکم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں۔

اس آیت کے شأن نزول میں بھی کئی احتمالات دئے گئے ہیں، مثلا یہ کہ یہ آیت ازواج رسول خدا کی قدردانی کے لئے نازل ہوئی ہے۔ یا یہ کہ یہ آیت عرب قبائل کی طرف سے رسول اکرمؐ پر اپنے خاندان میں شادی کرنے کے دباؤ سے مقابلہ کرنے اور عورتوں کے تبادلہ کی رسم کے خاتمے کے لئے نازل ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بعض مفسرین اس آیت سے یہ حکم استنباط کرتے ہیں کہ جس عورت سے نکاح کا ارادہ ہے منگنی کے وقت مرد کے لئے اس کے چہرے اور جسم کو دیکھنا جائز اور حلال ہے۔

آیت کا تعارف اور اہمیت

مفسرین کے مطابق سورہ احزاب کی آیت نمبر 52 پیغمبر اکرمؐ کے لئے ازدواجی معاملات میں ایک مخصوص حکم بیان کرتی ہے اور آپؐ کو نئے نکاح سے منع کرتی ہے۔[1] اس آیت کے شأن نزول کے بارے میں کئی نظریات پیش کیے گئے ہیں:[2]

ایک نظریے کے مطابق اس آیت میں پیغمبر اکرمؐ کو آج کے بعد کسی اور عورت سے نکاح کرنا حرام ہے۔[3] دوسرے نظریے کے قائلین اس آیت کو اس سورہ کی پچھلی آیات سے مربوط قرار دیتے ہیں اور اس آیت کے حکم کو اس سورہ کی آیت نمبر 50 میں ذکر ہونے والے چھ گروہوں تک محدود قرار دیتے ہیں۔[4] بعض مفسرین کے مطابق اس آیت کا مضمون اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی حرمت اور ممانعت سے متعلق ہے۔[5] اسی طرح ایک اور تفسیر کے مطابق یہ آیت محرم عورتوں سے نکاح کی حرمت سے متعلق ہے اور اس حکم میں تمام مسلمان شامل ہیں۔[6] اگرچہ یہ تفسیر بعض روایات میں آئی ہے،[7] لیکن تفسیر نمونہ کے مصنفین نے اسے آیت کے ظاہر کے خلاف سمجھتے ہوئے اس تفسیر کو مسترد کیا ہے۔[8]

بعض مفسرین اس آیت کے نسخ کے قائل ہیں، اس بنا پر اس آیت میں ابتدائی طور پر ایک حکم کے ذریعے خاص محدودیت ایجاد کی گئی تھی جو اس سورہ کی آیت نمبر 50 کے نازل ہونے کے ذریعے منسوخ ہوگئی۔[9] شیعہ مفسر فاضل مقداد کے مطابق نسخ کا یہ نظریہ شیعہ علماء میں مشہور رائے ہے۔[10] البتہ بعض دیگر شیعہ[11] اور اہل سنت[12] مفسرین نے قطعی دلیل موجود نہ ہونے کی بنا پر اس نسخ کو قبول نہیں کیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ جملہ «وَ لَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُہُنَّ؛ اگرچہ ان عورتوں کا حسن تمہیں بھا جائے» اس بات کی دلیل ہے کہ منگنی کے وقت جس عورت کے ساتھ نکاح کا ارادہ رکھتا ہے اس کے چہرے اور جسم کو دیکھنا مرد کے لئے حلال ہے۔ [13]

شانِ نزول

سورہ احزاب کی آیت نمبر 52 جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی،[14] کے اسباب نزول کے بارے میں مختلف نظریات بیان کئے گئے ہیں:

  • ازواجِ رسولؐ کی قدردانی: ابن عباس کے مطابق جب پیغمبر اکرمؐ نے سورہ احزاب آیت نمبر 28 کے تحت اپنی ازواج کو اپنی خواہشات کی پیروی کرنے یا خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے میں مخیر قرار دیا اور انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے کا راستہ اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس انتخاب کی قدردانی میں یہ آیت نازل فرمائی۔[15]
  • عرب قبائل کے دباؤ کا ازالہ: بعض عرب قبائل چاہتے تھے کہ رسول خداؐ ان کی کسی عورت سے نکاح کریں تاکہ پیغمبر اکرمؐ کے ساتھ رشتہ داری کا شرف ان کے لئے حاصل ہو۔ چونکہ نبی مکرم اسلامؐ کے تمام نکاح مصلحت پر مبنی تھے، اس لیے اس آیت کے ذریعے اس رویئے پر پابندی لگا دی گئی۔[16]
  • زمانۂ جاہلیت کی غلط رسم و رواج کی ممانعت: بعض روایات میں آیا ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتوں کا تبادلہ (مبادلۂ نساء) ایک رائج رسم تھی۔ یہ آیت اس غلط عمل کی ممانعت میں نازل ہوئی۔ روایت ہے کہ عُیَینۃ بن حَصین نے پیغمبر اکرمؐ سے اپنی زوجہ کو حضرت عائشہ کے ساتھ تبادلہ کرنے کی خواہش کی۔ رسول خداؐ نے اس آیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس عمل کو حرام قرار دیا۔[17]

حوالہ جات

  1. برای نمونہ نگاہ کنید بہ طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص21؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص575۔
  2. قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج14، ص219۔
  3. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص397؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص390۔
  4. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص397؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص575؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص336۔
  5. نگاہ کنید: قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج14، ص219؛ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث، ج8، ص356؛ طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص575۔
  6. طبرسی، مجمع البیان، 1372ش، ج8، ص575؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص336۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص387-389۔
  8. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص393۔
  9. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص396؛ قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج14، ص219۔
  10. فاضل مقداد، کنز العرفان، 1425ھ، ج2، ص244۔
  11. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص393۔
  12. طبری، جامع البیان، 1412ھ، ج22، ص22۔
  13. قرطبی، تفسیر القرطبی، 1384ھ، ج14، ص221؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص394۔
  14. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج16، ص273۔
  15. ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص396؛ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص391-392۔
  16. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1374ش، ج17، ص391-392۔
  17. شیخ صدوق، معانی الاخبار، 1399ھ، ص275؛ ابن‌کثیر، تفسیر القرآن العظیم، 1419ھ، ج6، ص398۔

مآخذ

  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، بیروت، دار الکتب العلمیہ، 1419ھ۔
  • سیوطی، جلال‌الدین، الدر المنثور، بیروت، دارالفکر، 1414ھ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، معانی الاخبار، بیروت، دار المعرفہ للطباعۃ و النشر، 1399ھ۔
  • طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، دفتر انتشارات اسلامى وابستہ بہ جامعہ مدرسين حوزہ علميہ قم، 1417ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، تہران، انتشارات ناصر خسرو، 1372ہجری شمسی۔
  • طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفہ، 1412ھ۔
  • طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، دار احیاء التراث العربی، بی‌تا۔
  • فاضل مقداد، مقداد بن عبداللہ، کنز العرفان فی فقہ القرآن، قم، انتشارات مرتضوی، 1425ھ۔
  • قرطبی، شمس‌الدین محمد بن احمد، تفسیر القرطبی، قاہرہ، دار الکتب المصریہ، 1384ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، دار الکتب الاسلامیہ، 1374ہجری شمسی۔