غصہ

ویکی شیعہ سے
(غضب سے رجوع مکرر)
اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

غصہ یا غضب اخلاقی پستیوں میں سے ایک ہے جس میں انتقام کا جذبہ پوشیدہ ہوتا ہے۔ تناؤ، دل کا خون جوش میں آنا، آنکھوں کا سرخ ہوجانا، گردن کی رگوں کا سوجن اور جارحیت غصے کی نشانیوں میں سے ہیں۔ غصے کو تمام برائیوں کی چابی قرار دی گئی ہے۔ سَخَط، غَیظ، حَنَق، حِدَّۃ جیسے الفاظ بھی غصے کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔

خدا کا حکم ثابت کرنے یا کسی شیطانی اور انحرافی کام کے مقابلے میں غصہ کرنے کو جائز سمجھا گیا ہے۔ غصہ کی مثالوں میں سے ایک اللہ کا غضب اور غصہ ہے علامہ طباطبایی کے مطابق سورہ طہ کی آیت نمبر 81 اس کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

غصہ ہونے کے عوامل میں حسد، بغض، لالچ، تکبر و غرور اور مقام، منصب اور مال کی محبت کو شمار کیے گیے ہیں۔ شیعہ فقہا کے نزدیک غصے کی حالت میں اسلامی عقود اور ایقاعات صحیح نہیں ہیں اور اگر کسی نے اس حالت میں کوئی کفرآمیز بات کی تو یہ اس کے مرتد ہونے کا سبب نہیں ہوگی۔ اسلامی روایات میں غصے کے نقصانات اور نتائج بیان کیے گئے ہیں، جن میں ایمان کی تباہی، انسان پر شیطان کا غلبہ، عیوب کا ظاہر ہونا اور عزت چلی جانا شامل ہیں۔

غصے پر قابو پانے کے لیے کچھ راہ حل بتائے گئے ہیں جن میں خدا کو یاد کرنا، حالت بدلنا اور کچھ دعائیں اور ذکر کرنا شامل ہیں۔

مفہوم شناسی اور اہمیت

غصہ اخلاقی برائیوں سے ایک ہے[1] جس میں انسان دوسرے لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچانے یا تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[2] غصے کی کچھ علامتیں متعارف کرائی گئی ہیں جن میں تناؤ اور دل کا خون جوش میں آنا[3]، آنکھوں کا سرخ ہو جانا، گردن کی رگوں کا سوجن[4] اور جارحیت[5] شامل ہیں۔ سَخَط، غَیظ، حَنَق، حِدَّۃ اور غضب جیسے الفاظ بھی عربی میں غصہ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں[6] کلینی اپنی کتاب کتاب الکافی میں امام صادق(ع) کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے ہر برائی کی چابی کو غصہ قرار دیا ہے۔[7] غصہ رضایت کے برعکس حالت کا نام ہے۔[8]

مثبت غصہ

یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں انسان خدا کے حکم کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے یا کسی انحرافی اور شیطانی کام کا مقابلہ کرتا ہے۔[9] کلی طور پر غصے کی ہر وہ حالت جو کسی منطقی اور معقول مبنی کے مطابق طاری ہوئی ہو اسے مثبت غصہ کہا جاتا ہے۔[10]

علامہ طباطبایی نے سورہ طہٰ کی آیت نمبر 81 کے ذیل میں غضب اور غصے کو اللہ سے مربوط جانا ہے اور اسے اللہ کے افعال کی صفات میں سے ایک صفت قرار دیا ہے۔[11] پیامبر اکرمؐ کے بارے میں کہا گیا ہے: يَغْضَبُ لِرَبِّہِ وَ لَا يَغْضَبُ لِنَفْسِه (اللہ کے لئے غصہ ہوتا ہے، اپنی ذات کے لئے نہیں)[12]

غصہ کے عوامل

در اسلامی روایات اور اخلاق کی کتابوں میں غصہ آنے کے کچھ عوامل بیان کئے گئے ہیں:

فقہی احکام

اسلامی عقود (نکاح، خرید و فروخت، مضاربہ وغیرہ) اور ایقاعات (طلاق، حلف، نذر وغیرہ) جن کی تاثیر نیت پر منحصر ہے؛[19] ان کے بارے میں فقہا کا کہنا ہے کہ اگر غصے کی حالت میں انجام دئے جائیں تو صحیح نہیں ہیں اور ان پر کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا ہے۔[20] غصے کی حالت میں کہی جانے والی کفر آمیز بات ارتداد کا سبب نہیں بنتی ہے۔[21] اور قاضی کا غصے کی حالت میں قضاوت اور فیصلہ کرنا مکروہ ہے۔[22]

نقصانات اور اثرات

اسلامی روایات میں ایمان کی تباہی،[23] انسان پر شیطان کا نفوذ،[24] عیوب کا ظاہر ہونا اور عزت کا چلی جانا[25] غصے سے متعلق اثرات اور نتائج میں سے ہیں۔

غصہ ظاہر ہونے پر سماجی اور نفسیاتی نقصانات مترتب ہوتی ہیں۔ پہنچاتی ہے۔[26] بعض اسلامی روایات نے غصے کو پاگل پن کے طور پر پیش کیا ہے[27] جس کے نتیجے میں انسان سے عقل کی طاقت چھین جاتی ہے۔[28] علامہ مجلسی امام صادق(ع) سے ایک روایت بیان کرتے ہوئے قصداً قتل اور پاکدامن خواتین پر تہمت لگانے کو غصے کے نقصانات میں سے شمار کیا ہے۔[29]

معاشرے میں تصادم اور جھگڑوں کی بنیادی وجہ غصہ سمجھا گیا ہے۔[30] ایران کی فرانزک میڈیسن آرگنائزیشن کے شائع کردہ اعدادوشمار کے مطابق شمسی سال 1402 کے نو مہینوں میں تنازعات اور جھگڑوں کے 473683 واقعات درج کیے گئے۔[31]

جو شخص کسی کام پر قادر ہوتے ہوئے بھی اپنا غصہ پی جائے تو اللہ تعالی اس کے دل کو سکون اور ایمان سے بھر دیتا ہے۔[32]

غصے پر قابو پانا

تفصیلی مضمون: کظم غیظ
غصے پر قابو پانے کا مطلب غصے کا اظہار کرنے سے پرہیز کرنا یا اسے دل میں رکھنا ہے۔[33] شیعہ مرجع تقلید مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ غصے کو قابو کرنا اس قدر ضروری ہے[34] کہ بعض اسلامی روایات کے مطابق غصہ پر قابو پانے والے کو شہادت اور انبیاءؑ کی صحبت کا ثواب ملتا ہے۔[35] مفسرین قرآن کریم کے مطابق سورہ آل عمران کی آیت نمبر 134 غصہ پر قابو پانے کی اہمیت اور مقام بیان کرتی ہے۔[36]

راہ حل

غصے پر قابو پانے کے لئے اسلامی روایات اور اخلاقی کتابوں میں بعض طریقے بیان ہوئے ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. طریحی، مجمع البحرین، 1375شمسی،‌ ج2، ص133۔
  2. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص43۔
  3. راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن‏، 1412ھ، ص608۔
  4. موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، 1382ھ، ج5، ص599۔
  5. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص43۔
  6. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص17-27۔
  7. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص302۔
  8. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص16۔
  9. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص233۔
  10. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص233۔
  11. طباطبایی، المیزان، 1390ھ، ج14، ص187۔
  12. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج16، ص227۔
  13. تميمى آمدى‏، غرر الحكم و درر الكلم، 1410ھ، ص68۔
  14. تميمى آمدى‏، غرر الحكم و درر الكلم، 1410ھ، ص125۔
  15. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ نضرۃ النعیم في مکارم أخلاق الرسول الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، 1426ھ، ج11، ص5077۔
  16. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ نضرۃ النعیم في مکارم أخلاق الرسول الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، 1426ھ، ج11، ص5077۔
  17. نراقی، معراج السعادۃ، 1378شمسی، ص239۔
  18. جمعی از نویسندگان، موسوعۃ نضرۃ النعیم في مکارم أخلاق الرسول الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، 1426ھ، ج11، ص5077۔
  19. موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، 1382ھ، ج5، ص599۔
  20. موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، 1382ھ، ج5، ص599۔
  21. موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، 1382ھ، ج5، ص599۔
  22. موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، 1382ھ، ج5، ص599۔
  23. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص302۔
  24. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج70، ص267۔
  25. تميمى آمدى‏، غرر الحكم و درر الكلم، 1410ھ، ص310۔
  26. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص88 و 112۔
  27. تميمى آمدى‏، غرر الحكم و درر الكلم، 1410ھ، ص114۔
  28. تميمى آمدى‏، غرر الحكم و درر الكلم، 1410ھ، ص73۔
  29. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج70، ص265۔
  30. کیومرثی، مہار خشم، 1391شمسی، ص43۔
  31. «سازمان پزشکی قانونی کشور ایران»
  32. مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، 1371شمسی، ج3، ص97۔
  33. راغب اصفہانی، مفردات ألفاظ القرآن‏، 1412ھ، ص712۔
  34. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ص391۔
  35. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ص391۔
  36. ملاحظہ کریں: طبرسی، مجمع‌البیان، 1372شمسی، ج2، ص837؛ بحرانی، البرہان فی تفسیر القرآن، 1415ھ، ج1، ص689؛ سیوطی، الدر المنثور فى التفسير بالماثور، ج2، ص72-73۔
  37. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص304۔
  38. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج92، ص339۔
  39. مکارم شیرازی، اخلاق در قرآن، 1385شمسی، ص394۔
  40. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج92، ص339۔
  41. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج92، ص338۔
  42. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج70، ص272۔
  43. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج70، ص272۔
  44. مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج70، ص273۔

مآخذ

  • «سازمان پزشکی قانونی کشور ایران»، تاریخ بازدید 24 اسفند 1402ہجری شمسی۔
  • بحرانی، سید ہاشم،‌ البرہان فی تفسیر القرآن، قم، موسسۃ البعثۃ (قسم الدراسات الإسلاميۃ)، چاپ اول، 1415ھ۔
  • تميمى آمدى، عبدالواحد بن محمد، غرر الحكم و درر الكلم، قم، دارالكتاب الإسلامی، ‏‏چاپ دوم، 1410ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، موسوعۃ نضرۃ النعیم في مکارم أخلاق الرسول الکریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، جدہ، دار الوسیلۃ، 1426ھ۔
  • راغب اصفہانى، حسين بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن‏، بیروت، دار الشاميۃ، 1412ھ۔
  • سيوطى، عبدالرحمن بن ابی‌بكر، الدر المنثور فى التفسير بالماثور، قم، كتابخانہ آيت‌اللہ مرعشى نجفى، چاپ اول، 1404ھ۔
  • طباطبائی، محمد‌حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات‏، چاپ دوم، 1390ھ۔
  • طبرسی، فضل بن حسن،‌ مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، انتشارات ناصر خسرو، چاپ سوم، 1372ہجری شمسی۔
  • طريحى، فخرالدين، مجمع البحرین، تہران، كتاب‌فروشى مرتضوى، چاپ سوم، 1375ہجری شمسی۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران، دار الكتب الإسلاميۃ، 1407ھ۔
  • کیومرثی، محمدرضا، مہار خشم، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دارالحدیث، 1391ہجری شمسی۔
  • مجلسی، محمدباقر بن محمدتقی، بحار الأنوار الجامعۃ لدرر أخبار الأئمۃ الأطہار(ع)، بیروت،‌دار احیاء التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، اخلاق در قرآن، قم، مدرسۃ الإمام علی بن أبی‌طالب(ع)، 1385ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، 1371ہجری شمسی۔
  • موسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل بیت(ع)، فرہنگ فقہ مطابق مذہب اہل‌بیت(ع)، قم، مؤسسہ دائرۃ المعارف فقہ اسلامی بر مذہب اہل‌بيت (ع)، 1382ھ۔
  • نراقی، احمد بن محمدمہدی، معراج السعادۃ، قم، ہجرت، 1378ہجری شمسی۔