شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید)

ویکی شیعہ سے
(شرح ابن ابی الحدید سے رجوع مکرر)
شرح نہج البلاغہ
مشخصات
مصنفابن ابی الحدید معتزلی
موضوعشرح نہج البلاغہ
زبانعربی


شرح نہج‌ البلاغہ، ساتویں صدی ہجری کے اہل سنت عالم دین ابن ابی الحدید کی عربی زبان میں لکھی گئی کتاب ہے جس کا شمار نہج البلاغہ کی بہترین شروحات میں ہوتا ہے۔ شیعہ اور اہل سنت منابع سے مستند ہونا اور تاریخی، ادبی اور کلامی پہلوں پر مشتمل ہونا اس کتاب کی خصوصیات میں سے ہے۔

ابن ابی‌ الحدید نے اس کتاب کے مقدمے میں اپنے بعض نظریات کو درج کیا ہے۔ امام علیؑ کو دوسرے خلفاء سے افضل سمجھنے کے باوجود آپ کی خلافت پر پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کسی نص کی موجودگی کا انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ امام علیؑ کے خلاف جنگ کرنے والے خوارج، اصحاب جمل اور شامی لشکر کو جہنمی سمجھتے ہیں۔

اس کتاب میں کچھ ایسے مطالب بھی پائے جاتے ہیں جو شیعہ عقائد کے ساتھ سازگار نہیں؛ اسی بنا پر اس کے خلاف کچھ کتابیں بھی لکھی گئی ہیں۔ یہ کتاب 20 جزء پر مشتمل ہے اور 2، 4 یا 20 جلدوں میں نشر ہوئی ہے۔

مؤلف

عبد الحمید بن ہبۃ اللہ المعروف ابن ابی ‌الحدید (586-656ھ)،[1] مدائن میں یپدا ہوئے۔[2] ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں حاصل کی اور وہاں سے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے بغداد چلے گئے۔[3]

ابن ابی‌ الحدید فقہی اعتبار سے شافعی،[4] اور عقیدے کے حوالے سے معتزلی تھے۔[5] علم کلام، منطق، تاریخ اور شعر میں آپ کی بعض کتابیں ہیں۔[6] شرح نہج البلاغہ اور قصائد سبع علویات آپ کی تالیفات میں سے ہیں۔ آپ کی زیادہ شہرت، شرحِ نہج البلاغہ کی وجہ سے ہے۔[7] کہا جاتا ہے کہ شرح نہج البلاغہ کے مطالب آپ کے ادبیات، کلام، مبانی اخلاق، تاریخ صدر اسلام اور عربی اشعار پر تسلط کی حکایت کرتی ہیں۔[8]

اجمالی خاکہ

جیسا کہ ابن ابی الحدید نے کتاب شرح نہج البلاغہ کے آخر میں لکھا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے میں چار سال آٹھ مہینے لگے ہیں جسے حضرت علیؑ کی خلافت کی مدت کے برابر سمجھتے ہیں۔[9] ابن ابی الحدید نے اس کتاب کی تحریر کا آغاز پہلی رجب 644ھ کو کیا اور 649ھ صفر کے آخر میں اختتام کو پہنچایا۔[10]

ابن ابی‌ الحدید نے شرح نہج‌ البلاغہ کو عباسی حکومت کے شیعہ وزیر ابن علقمی (591-656ھ) کو تقدیم کیا جس کے مقابلے میں نفیس انعامات وصول کیا۔[11]

خصوصیات

شرح ابن ابی‌ الحدید کی بعض خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

  • شیعہ اور سنی مآخذ سے استفادہ: ابن ابی‌ الحدید نے شرح نہج البلاغہ کی تدوین میں شیعہ اور سنی کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔[12] مثال کے طور پر قاضی عبد الجبار معتزلی کے عثمان بن عفان کے دفاعیات میں سید مرتضی کی طرف سے قاضی عبدالجبار کو دیئے جانے والے جوابات کو ذکر کیا ہے۔[13] اور کہا گیا ہے کہ ابی الحدید چونکہ بغداد لائبریری کے انچارج تھے تو ان کے پاس بہت ساری سہولیات تھیں اور دس ہزار جلد کتابوں پر مشتمل ابن علقمی کی لائبریری بھی ان کے دسترس میں تھی۔اسی لئے بعض ایسی کتابوں سے استفادہ کیا ہے جو تیسری صدی ہجری کے مورخ محمد بن جریر طبری کے دسترس میں نہیں تھیں۔[14]
  • جامعیت: شرح ابن ابی‌ الحدید، ادب، کلام، فقہ، اخلاق، تاریخ صدر اسلام، انساب اور عرب کی عام ثقافت کے علوم پر مشتمل ایک انسائکلوپیڈیا سمجھی جاتی ہے۔[15] نہج البلاغہ کے مترجم مہدوی دامغانی کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس شرح میں مختلف معلومات ہیں لیکن ادبی، معاشرتی تاریخ اور کلامی پہلو دوسرے پہلووں پر برتری رکھتے ہیں۔[16] اس کتاب میں پیغمبر اکرمؐ کے دور سے سنہ 623ھ یعنی مغلوں کے ہاتھوں سقوط بغداد سے 13 سال پہلے تک کی تاریخ اسلام پر مشتمل ہے۔[17]تقریبا کتاب کا آدھا حصہ پہلی صدی ہجری کے پہلے آدھے حصے کے واقعات اور حالات پر مشتمل ہے[18] اسی طرح اس کتاب میں تقریبا آٹھ ہزار شعر بھی ذکر ہوئے ہیں۔[19] ابن ابی ‌الحدید نے ان لوگوں کا جواب بھی دیا ہے جنہوں نے نہج البلاغ کے سجع اور قافیوں پر اشکال کیا ہے۔[20] اور جن لوگوں نے کہا ہے کہ نہج البلاغہ یا اس کے بعض حصے امام علیؑ سے منسوب نہ ہونے کا کہا ہے اس بات کو رد کیا ہے۔[21] آپ نے امام علیؑ کے کلمات کو ایک بسیط جسم سے تشبیہ دی ہے جس کے مختلف حصے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔[22]
  • مشکل الفاظ کی وضاحت: ابن ابی‌ الحدید شروع میں نہج البلاغہ کا بعض متن «اصل» کے عنوان سے ذکر کرتا ہے پھر «شرح» کے عنوان سے بعض وضاحتیں دیتا ہے۔[23] اور الفاظ کی وضاحت کے ذیل میں مشکل الفاظ کی وضاحت کرتا ہے اور متن کی شرح دی ہے۔[24]
  • مولف کے دور کے حالات کی گزارش: ابن ابی ‌الحدید چونکہ مغولوں کے معاصر تھے،[25] جس کی وجہ سے مغلوں کے ظہور کا آغاز، فتح ما وراء النہر، خراسان، عراق، دیگر علاقوں اور ان کا بغداد پر حملے کا تذکرہ کیا ہے۔[26] اسی وجہ سے ابن ابی الحدید کی شرح نہج‌ البلاغہ تاریخ کے اہم مآخذ میں سے شمار ہوتی ہے۔[27]
  • سید رضی کے حالات زندگی: ابن ابی‌ الحدید نے کتاب کے مقدمے میں امام علیؐ اور سید رضی کا نسب، اور مختصر حالات زندگی بھی ذکر کیا ہے۔[28]

مقدمے میں مولف کے نظریات

ابن ابی‌ الحدید نے شرح نہج البلاغہ پر ایک مقدمہ لکھا ہے جس میں امامت، امام علی کے فضائل، آپ کے مقابلے میں قیام کرنے والے اور خوارج کا ذکر کیا ہے۔[29]

  • خلفاء ثلاثہ پر امام علیؑ کی برتری: ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ خلفا کی افضلیت کے بارے میں معتزلہ کے ہاں تین نظریات ہیں: بعض اس سلسلے میں امام علیؑ کو افضل سمجھتے ہیں جبکہ بعض ابوبکر کو افضل سمجھتے ہیں اور بعض اس مسئلے میں سکوت اختیار کرتے ہوئے اور اپنا نظریہ بیان کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔[30] بغداد کے معتزلیوں کی پیروی کرتے ہوئے ابن ابی‌ الحدید امام علیؑ کو باقی خلفاء ثلاثہ سے افضل سمجھتے ہیں؛ کیونکہ ان کے نیک اعمال اور نیک صفات دوسروں سے زیادہ ہیں۔[31]اس کے باوجود ابن ابی الحدید کا کہنا تھا کہ امام علیؑ کی خلافت پر پیغمبر اکرمؐ کی طرف سے کوئی صریح نص یا حکم موجود نہیں ہے۔[32]
  • اصحاب جمل کا دوزخی ہونا: ابن ابی الحدید اس بات کا معتقد ہے کہ جنگ جمل کو برپا کرنے والے عائشہ، طلحہ اور زبیر کے علاوہ سب جہنمی ہیں۔ اور ان تینوں نے توبہ کیا تھا۔[33] اسی طرح جنگ صفین میں شام کا لشکر اور خوارج بھی جہنمی ہیں؛ کیونکہ انہوں نے بغاوت کرنے پر اصرار کیا ہے۔[34]
  • امام علی کی نظر، سب سے محکم اور آپ کی تدبیر سب سے زیادہ مناسب: ابن ابی الحدید کی نظر میں امام علیؐ نے عمر بن خطاب کو روم اور ایران کے ساتھ جنگ پر جاتے ہوئے مشورہ دیا[35] اور عثمان کو بھی بعض ایسے نکات بیان کئے جس میں ان کی بہتری تھی، اور اگر ان نکات پر عمل کرتے تو وہ واقعات اور حالات پیش نہ آتے۔[36]
  • امام علیؐ کی دیانت: ابن ابی الحدید کا عقیدہ ہے کہ امام علی اپنے دین پر بہت مقید تھے اور اس کے خلاف کام نہیں کرتے تھے، جبکہ دوسرے خلفاء اپنی مصلحت کے مطابق عمل کرتے تھے؛ خواہ شریعت کے مطابق ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح ان کا کہا ہے کہ جو شخص مصلحت اندیشی کے قید و بند سے آزاد ہو کر اپنی اجتہاد پر عمل کرتا ہے وہ دنیوی امور کو بہتر طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔[37]

کتابیں

شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید پر مختلف کتابیں نقد، خلاصہ یا ترجمہ کے عنوان سے لکھی گئی ہیں۔ رضا استادی کے مطابق اس سلسلے میں کم و بیش 20 کتابیں لکھی گئی ہیں۔[38]

نقد پر مشتمل کتابیں

شیعہ علما میں سے بعض نے ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ پر نقد میں بعض کتابیں لکھی ہیں؛ کیونکہ اس کتاب میں بعض ایسے مطالب پائی جاتی ہیں جو امامت اور تاریخی کچھ مسائل کے بارے میں شیعہ عقیدہ سے سازگار نہیں ہیں۔[39] ان کتابوں میں: شیخ یوسف بحرانی (متوفی 1186ھ) کی کتاب «سلاسل الحدید لتقیید ابن ابی‌ الحدید»،[40] احمد بن طاووس حلی (متوفی 673ھ/1274ء) کی کتاب «الروح فی النقض ما ابرمہ ابن ابی ‌الحدید»، علی بن حسن بلادی بحرانی (متوفی 1340ھ/1922ء) کی کتاب، «الرّد علی ابن ابی‌ الحدید»، شیخ یوسف کوفی کی کتاب «سلاسل الحدید فی الرد علی ابن ابی الحدید»، اور «النقد السدید لشرح الخطبۃ الشقشقیہ لابن ابی‌ الحدید».[41]

ترجمے

شرح نہج ‌البلاغہ کا فارسی میں ترجمہ ہوا ہے؛ ملا شمس‌ الدین بن محمد بن مراد (متوفی 1013ھ) اور نصر اللہ بن فتح ‌اللہ دزفولی نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے۔[42] محمود مہدوی‌ دامغانی‌ کی کتاب «جلوہ‌ تاریخ‌ در شرح‌ نہج‌ البلاغہ‌ ابن‌ ابی‌ الحدید» اس شرح کا ترجمہ اور ترجمہ اور اس پر حاشیہ آٹھ جلدوں میں جبکہ غلام رضا لایق کا ترجمہ اور بیس جلدوں میں نشر ہو چکا ہے۔ اسی طرح حسین طیبیان کی کتاب «امام علی علیہ‌ السلام از دیدگاہ ابن‌ ابی ‌الحدید معتزلی» بھی اسی شرح نہج البلاغہ سے ماخوذ ہے۔[43]

خلاصے

شرح نہج البلاغہ کے خلاصے مندرجہ ذیل ہیں:

  • فخر الدین عبد اللہ المؤید باللہ کی کتاب «العقد النضید المستخرج من شرح ابن ابی‌ الحدید»[44]
  • سلطان محمود طبسی نے بھی اس کتاب کا خلاصہ کیا ہے اور شیخ محمد قنبر علی کاظمی نے اپنی کتاب «التقاط الدرر المنتخب» کو شرح نہج البلاغہ سے استخراج کیا ہے۔[45]

اسی طرح احمد ربیعی کی کتاب «العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌ الحدید فی شرح نہج‌ البلاغہ» ان منابع اور مآخذ کے بارے میں لکھی گئی ہے جنہیں ابن ابی الحدید نے استفادہ کیا ہے۔[46] اس کتاب میں ابن ابی الحدید کی طرف سے استفادہ شدہ 222 کتابوں کا ذکر ہوا ہے۔[47]

طباعت

شرح ابن ابی‌ الحدید بیس جلدوں میں تالیف ہوئی ہے۔[48] رضا استادی کا کہنا ہے کہ یہ کتاب دو جلد، چار جلد اور بیس جلدوں کی شکل میں اب تک چھپ چکی ہے۔[49] اسی طرح تہران(سنہ1271، 1302-1304ھ)، قاہرہ (1329ھ) اور بیروت (1378ھ) میں چھپ چکی ہے۔[50]

اس کتاب کا ایک نسخہ مشہد میں امام رضاؑ کے حرم کی لائبریری میں موجود ہے[51]جس کے بارے میں یہ احتمال دیا جاتا ہے کہ شاید اس دور میں لکھی گئی ہے جب مولف خود بقید حیات تھے۔[52]

یہ کتاب محمد ابو الفضل کی تصحیح کے ساتھ ابن ابی الحدید کی تقسیم بندی کے مطابق 6460 صفحات پر مشتمل بیس جلدوں میں چھپ چکی ہے۔[53] اسی طرح عبد الکریم نمری کی تصحیح کے ساتھ 11 جلدوں میں انتشارات دار الکتب العلمیہ بیروت سے چھپ چکی ہے۔[54]

حوالہ جات

  1. ابن فوطی، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، 1374ش، ج1، ص214.
  2. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ق، ج13، ص199.
  3. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص7.
  4. ابن خلکان، وفیات الاعیان، 1994م، ج7، ص342.
  5. فکرت، «ابن ابی‌ الحدید»، ص642-641.
  6. ملاحظہ کریں: ابن خلکان، وفیات الاعیان، 1994م، ج7، ص342.
  7. فکرت، «ابن ابی‌ الحدید»، ص642-641.
  8. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌ البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 7
  9. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج20، ص349.
  10. ابن ابی‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج20، ص349.
  11. ہندوشاہ، تجارب السلف در تواریخ خلفا و وزای ایشان، 1357ش، ص349.
  12. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 15.
  13. سبحانی‌ نیا، «شرح نہج ‌البلاغہ ابن ابی ‌الحدید»، ص59.
  14. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 15.
  15. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 17۔
  16. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌ البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 14.
  17. حسینی، مصادر نہج‌ البلاغہ، 1409ق، ج1، ص233.
  18. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌ البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص 14.
  19. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌ البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص18
  20. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج1، ص126-130.
  21. ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج10، ص128و129.
  22. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج10، ص128و129.
  23. ملاحظہ کریں: ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص57-58.
  24. حسینی، مصادر نہج البلاغہ، 1409ق، ج1، ص234.
  25. حسینی، مصادر نہج‌ البلاغہ، 1409ق، ج1، ص233.
  26. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج8، ص219-243.
  27. فکرت، «ابن ابی‌ الحدید»، ص641.
  28. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص11-42.
  29. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج1، ص6-11.
  30. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص7-8.
  31. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص9.
  32. ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج2، ص59.
  33. ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص9.
  34. ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص9.
  35. ابن ابی ‌الحدید، شرح نہج‌البلاغہ، 1404ق، ج1، ص28.
  36. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج‌ البلاغہ، 1404ق، ج1، ص28.
  37. ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج ‌البلاغہ، 1404ق، ج1، ص28.
  38. استادی، کتاب نامہ نہج البلاغہ، 1359ش، ص37-39.
  39. مثال کے طور پر مشاہدہ کریں: ابن ابی‌ الحدید، شرح نہج ‌البلاغہ، ج2، ص59.
  40. آقا بزرگ تہرانی، الذریعہ، 1408ق، ج12، ص210.
  41. حسینی، مصادر نہج ‌البلاغہ، 1409ق، ج1، ص237-238؛ استادی، کتاب نامہ نہج البلاغہ، 1359ش، ص37-39.
  42. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، 1409ق، ج1، ص238.
  43. «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن ‌ابی‌ الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»
  44. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، 1409ق، ج1، ص238.
  45. حسینی، مصادر نہج‌البلاغہ، 1409ق، ج1، ص238.
  46. ربیعی، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی‌ الحدید فی شرح نہج‌ البلاغہ، مقدمہ، 1407ق، ص 5-6.
  47. سبحانی‌ نیا،«شرح نہج‌ البلاغہ ابن ابی ‌الحدید»، ص59.
  48. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، 1407ق، ج13، ص199.
  49. استادی، کتاب نامہ نہج‌ البلاغہ، 1359ش، ص37.
  50. فکرت، «ابن ابی ‌الحدید»، ص642.
  51. آستان قدس، فہرست، ج5، ص112-113: بہ نقل از فکرت، «ابن ابی‌ الحدید»، ص642.
  52. فکرت، «ابن ابی‌ الحدید»، ص642.
  53. مہدوی دامغانی، جلوہ تاریخ در شرح نہج‌ البلاغہ، 1379ش، مقدمہ مترجم، ص ہفدہ.
  54. «شرح نہج البلاغۃ 1-11 مع الفہارس »

مآخذ

  • ابن ابی‌ الحدید، عبد الحمید، شرح نہج ‌البلاغۃ، تصحیح محمد ابو الفضل ابراہیم، قم، آیۃ ‌اللہ مرعشی نجفی، 1404ھ۔
  • ابن خلکان، شمس‌ الدین احمد بن محمد، وفیات الاعیان و انباء الزمان، تحقیق احسان عباس، بیروت، دار صادر، 1994ء۔
  • ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دار الفکر، 1407ھ۔/1986ء۔
  • ابن فوطی، عبد الرازق بن احمد، مجمع الآداب فی معجم الالقاب، تحقیق محمد الکاظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1435ق/1374 شمسی ہجری۔
  • استادی، رضا، کتاب نامہ نہج البلاغہ، تہران، بنیاد نہج البلاغہ، 1359 شمسی ہجری۔
  • آقا بزرگ تہرانی، محمد محسن، الذریعہ الی تصانیف الشیعہ، قم و تہران، اسماعیلیان و کتابخانہ اسلامیہ، 1408ھ۔
  • «امام علی علیہ‌السلام از دیدگاہ ابن‌ ابی ‌الحدید معتزلی/ نگارندہ حسین طیبیان.»، سازمان اسناد و کتابخانہ ایران، مشاہدہ 30 دی 1398 شمسی ہجری۔
  • حسینی، عبد الزہراء، مصادر نہج ‌البلاغۃ و اسانیدہ، بیروت، دار الزہراء، 1409ق/1988ء۔
  • ربیعی، احمد، العُذَیق النضید بمصادر ابن ابی الحدید فی شرح نہج البلاغہ، بغداد، عبد المجید حسین الربیعی، 1407ھ۔
  • سبحانی ‌نیا، محمد تقی، «شرح نہج‌ البلاغہ ابن ابی ‌الحدید»، دو فصل نامہ حدیث اندیشہ، شمارہ 6، پاییز و زمستان 1387 شمسی ہجری۔
  • فکرت، محمدآصف، ابن ابی‌ الحدید، در دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، ج2، تہران، مرکز دائرۃ المعارف بزرگ اسلامی، 1374 شمسی ہجری۔
  • مہدوی دامغانی، محمود، جلوہ تاریخ در شرح نہج البلاغہ، تہران، نشر نی، 1379 شمسی ہجری۔
  • ہندوشاہ بن سنجر، تجارب السلف، بہ کوشش عباس اقبال آشتیانی، تہران، 1357 شمسی ہجری۔