محمد علی نقوی

یہ مقالہ 7 جون 2021 تاریخ کو منتخب مقالہ کے عنوان سے منتخب ہوا ہے۔ مزید وضاحت کے لئے کلک کریں۔
ویکی شیعہ سے
(سید محمد علی نقوی سے رجوع مکرر)
محمد علی نقوی
کوائف
ناممحمد علی
پورا نامسید محمد علی
لقب/کنیتنقوی
مذہبشیعہ امامیہ
شہرتڈاکٹر نقوی
نسبنقوی سادات
تاریخ پیدائش28 ستمبر سنہ 1952ء
جائے پیدائشلاہور
سکونتلاہور  پاکستان
شہادت7 مارچ 1995ء
آرامگاہلاہور
علمی معلومات
تعلیمایم بی بی ایس
مادر علمیکنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج
دیگر معلومات
تخصصمیڈیکل
پیشہطبابت
سماجی خدماتالمصطفی سکول سسٹم اور امداد فاونڈیشن


محمد علی نقوی (1995-1952ء) پاکستان کی ایک شیعہ مذہبی شخصیت تھے۔ ان کا تعلق نقوی سادات سے تھا۔ بچپنا آپ نے والدین کے ہمراہ مختلف ممالک میں گزارا۔ کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ سنہ1979ء کو آپ نے سرکاری ملازمت شروع کی۔ 1990ء میں ملازمت چھوڑنا پڑی اور پرائیویٹ کلینک پر کام شروع کیا۔ آپ کا شمار، طلبہ تنظیم امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اور بعض دیگر تنظیم کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ طالب علمی کے بعد آپ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ سے منسلک ہوئے۔ نظریہ ولایت فقیہ کے بڑے حامی اور عاشق تھے۔ آپ نے ہی ملت کی ضرورت کے پیش نظر المصطفی سکول سسٹم اور امداد فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا۔ سنہ 1995ء کو دفتر جاتے ہوئے لاہور میں سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کی فائرنگ سے شہید ہوئے۔

سوانح حیات

پاکستان کی شیعہ مذہبی اور سماجی شخصیت[1] سید محمد علی نقوی 28 ستمبر سنہ 1952ء کو لاہور کے نواحی علاقہ علی رضا آباد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[2] آپ سلسلہ سادات میں امام علی النقیؑ کی نسل سے شمار ہوتے ہیں۔ آپ کا نام سید صفدر حسین نجفی نے محمد علی رکھا۔[3] آپ کے والد سید امیر حسین نقوی ایک عالم دین تھے اور تبلیغ میں عمر گزاری۔[4] اسی وجہ سے محمد علی نقوی نے اپنی عمر کے ابتدائی 6سال نجف اور کربلا میں گزارے۔[5] والد کے ہمراہ افریقہ، کینیڈا، کینیا، تنزانیہ، یوگنڈا اور بعض دیگر ممالک میں گزارے۔[6] آپ نے ابتدائی تعلیم کینیا کے دارالخلافہ نیروبی میں حاصل کی بعد ازاں والدین کے ہمراہ تنزانیہ اور یوگنڈا کے دارالخلافہ کمپالہ گئے۔ کمپالہ میں سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کیا۔ سنہ 1969ء میں پری میڈیکل میں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔[7] جہاں آپ نے «ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن پاکستان» کی بنیاد رکھی۔[8]

سنہ 1972ء میں آپ نے ایشاء کے معروف میڈیکل کالج «کنگ ایڈورڈ» میں داخلہ لیا۔[9] اور وہیں سے سنہ1977ء میں ایم بی بی ایس کیا۔[10]

7 مارچ سنہ 1995ء کی علی الصبح انہیں لاہور کے معروف یتیم خانہ چوک میں اپنے محافظ تقی حیدر سمیت شہید کر دیا گیا۔[11] آپ تمام تر صلاحیتوں کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزارتے رہے۔[12] محمد علی نقوی مختلف کھیل کھیلا کرتے تھے جن میں جوڈو، کراٹے، تیراکی، گھڑسواری اور نشانہ بازی شامل ہیں۔ آپ کو کتاب مطالعہ کرنے کا بہت شوق تھا۔ جس کا اندازہ ان ہزاروں کتابوں سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ کے گھر کی لائبریری میں اس وقت بھی موجود ہیں۔ اسی شوق کی وجہ سے امامیہ لائبریری کا نیٹ ورک وجود میں آیا۔[13]

ازدواجی زندگی

محمد علی نقوی کا نکاح مارچ سنہ1971ء میں ہوا۔[14] نکاح سے ایک روز قبل آپ کو تاکید کی جاتی ہے کہ نکاح کے دوران ہاسٹل ہی میں رہیں تاکہ لاہور شہر میں انہیں ڈھونڈنا مشکل نہ ہوجائے۔ لیکن تنظیمی کاموں کی ان کے پاس اہمیت کا یہ عالم تھا کہ بارات سے تھوڑی دیر پہلے آپ تنظیمی پوسٹر چھپوانے پریس میں مصروف تھے۔[15] آپ کی اہلیہ سیدہ کنیز بتول نقوی نے بھی آپ کے ہدف کے حصول میں ساتھ دیتے ہوئے امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن شبعہ طالبات کی بنیاد رکھی۔ جس کا پہلا مرکزی دفتر ڈاکٹر نقوی کا گھر منتخب ہوا۔[16] آپ کے چار بچے ہیں۔[حوالہ درکار] جن میں سے ایک بیٹی مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی ممبر ہیں۔[17]

پیشہ ورانہ زندگی

محمد علی نقوی کی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز جنوری سنہ 1978ء میں میو ہسپتال لاہور سے ہوا۔ آپ نے لاہور کے ایک ماہر ذہنی امراض کے ہمراہ چھ ماہ تک بطور ہاؤس سرجن اور فزیشن کام کیا۔ جولائی 1979ء میں آپ نے پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ باقاعدہ گورنمنٹ ملازمت حاصل کی اور پہلی بار "سروسز ہسپتال لاہور" کے میڈیکل یونٹ میں بطور رجسٹرار تعینات ہوئے۔ ہسپتال میں بیشتر اوقات رات میں ڈیوٹی کرتے تھے تاکہ دن میں تنظیمی امور کے لئے وقت مل سکے۔ لیکن ایرانی اسلامی انقلاب کی حمایت اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنے پر آپ کا تبادلہ کر کے لاہور سے باہر قصور پھر شیخوپورہ اور جہلم بھیج دیا گیا۔[حوالہ درکار]

سنہ 1986ء کو جب تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد سید عارف حسین الحسینی نے 14 مئی کو "یوم مردہ باد امریکہ" منانے کا اعلان کیا تو ڈاکٹر نقوی نے شاہراہ قائداعظم کی ایک بڑی عمارت پر چڑھ کر Down with U.S.A (مردہ باد امریکہ) کا طویل و عریض بینر آویزاں کیا۔ (اور اسی وجہ سے آپ کی شہادت کے بعد ایک نعرہ مشہور ہوا۔ «ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے»)[18]اس احتجاج کے دوران ملکی و غیر ملکی صحافیوں نے نے بینر سمیت آپ کی تصاویر بنائیں جو ملکی اخبارات میں بھی شائع ہوئیں اور اس پر حکومت پنجاب نے آپ کو ملازمت سے برطرف کر دیا۔ سنہ 1990ء میں آپ نے الزہراء کلینک کھولا اور غریب و نادار لوگوں کا مفت علاج شروع کیا۔[19] سنہ 1992ء میں آپ شیخ زید ہسپتال اور فیڈرل پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ لاہور میں رجسٹرار کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تا حیات یہاں فرائض انجام دیتے رہے۔

آئی ایس او سے وابستگی

محمد علی نقوی کی جوانی کی تصویر

محمد علی نقوی نے گورنمنٹ کالج لاہور میں دوران تعلیم اپنے دوستوں کے انسانی شعور کو بیدار کرنے کے لئے ینگ شیعہ اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن قائم کی اور اس کے روح رواں بھی بن گئے۔[20] کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں تعلیم کے دوران سنہ 1972ء کو آغا سید علی الموسوی اور دیگر مذہبی شخصیات اور افراد کی سرپرستی میں طلبہ تنظیم «امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن» کی بنیاد رکھی۔[21] اور اس تنظیم کی ذمہ داری اپنے ذمے لی اور کئی ایک ڈویژن میں اس کی تنظیم سازی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اور شہادت تک اس تنظیم سے وابستہ رہے۔[22] اور آپ آئی ایس او کی پہلی کابینہ میں آفس سیکرٹری منتخب ہوئے۔[23] سنہ 1976ء کو آپ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی صدر منتخب ہوئے۔[24] اور حلف برداری کے دوران آپ کا کہنا تھا «دوستو حلف صرف ایک سال کے لیے نہیں بلکہ حلف کا تعلق پوری زندگی سے ہوتا ہے۔»[25] یہ آپ کی تنظیم سے وفاداری کی واضح نشانی ہے۔ اسی دوران آپ نے امامیہ نیوز بلٹن کو شائع کرنے کی کوشش کی۔[26] تنظیم سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے اپنی زوجہ سے پہلی ملاقات کی تو یہ بات واضح کردی کہ ”یہ میری دوسری شادی ہے“ جب زوجہ کافی پریشان ہوئیں تو آپ نے کہا کہ میں پہلی شادی تنظیم سے کر چکا ہوں لہٰذا گھر کو زیادہ وقت نہ دینے کی شکایت مت کرنا۔[27] ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی دفتر کے دروازے ڈاکٹر نقوی پر بند کر دیئے گئے، تب بھی ڈاکٹر نے ایک شفیق باپ کی طرح بند دروازے کے پیچھے رہ کر ہمیشہ گھر کی سلامتی اور حفاظت کیلئے جدوجہد کی۔[28] جوانوں کی تربیت کے حوالے سے ابتدائی تنظیمی ایام میں آپ مختلف علما کرام کو مختلف مذہبی پروگرام کے لئے اپنی موٹر سائیکل پر بٹھا کر شہر کے کونے کونے لے جایا کرتے تھے۔[29]

تحریک جعفریہ سے وابستگی

ڈاکٹر محمد علی نقوی جوانوں کی تربیت میں مصروف

طالب علمی دور سے فارغ ہوگئے تو ملت جعفریہ کی سیاسی جہدوجہد کے لئے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے ساتھ منسلک ہوگئے۔[30] اور اس تنظیم میں مختلف عہدوں پر فائز رہے اور سیکرٹری اطلاعات کا قلمدان انہی عہدوں میں سے ایک تھا۔[31]

21 اپریل سنہ 1979ء کو جب تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا قیام عمل میں آیا اور مفتی جعفر حسین کو سربراہ چنا گیا۔[32] تو محمد علی نقوی نے "ایک ہی قائد ایک ہی رہبر مفتی جعفر مفتی جعفر" کا نعرہ لگا کر قیادت کی حمایت کا اعلان کردیا۔[33] ضیاء الحق کی طرف سے زکات و عشر آرڈیننس کے اعلان کے بعد 5 جولائی سنہ 1980ء کو اسلام آباد میں مفتی جعفر حسین کی طرف سے سیکرٹریٹ کا گھراؤ کرنے کا اعلان ہوا[34] تو 90 جوان کفن پوش سٹیج پر پہنچے جن کی سربراہی محمد علی نقوی کر رہے تھے۔[35] عارف حسینی کی قیادت کے تعارف کے لئے نشر و اشاعت کا سلسلہ شروع کیا اس کے لئے ماہنامہ راہ عمل اور ہفت روزہ رضاکار شائع کیا۔[36]

جب عارف حسین الحسینی نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے پلیٹ فارم سے ملکی سطح پر سیاسی میدان میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تو لاہور میں ایک اجلاس کے دوران آپ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر آپ ڈٹے رہے اور فرمایا کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ امام خمینی کے کہنے پر کہہ رہا ہوں۔ اجلاس سے باہر نکل کر سب سے پہلے ڈاکٹر محمد علی نقوی کو بلوایا اور آپ سے پوچھا کہ اجلاس میں میری بات نہیں مانی گئی تم مجھے بتاؤ تم میرے ساتھ ہو یا نہیں؟ ڈاکٹر نقوی نے بے ساختہ کہا کہ آغا "آپ کو چھوڑنا اسلام کو چھوڑنا ہے میں آپ کے ساتھ ہوں"۔ الیکشن والی بحث نے بعد میں بہت شدت اختیار کی۔[37] تحریک جعفریہ کے پلیٹ فارم سے اختلاف پر امامیہ آرگنائزیشن سے آپ نے علیحدگی اختیار کی[38] سنہ 1988ء کو تحریک جعفریہ نے سیاست میں آنے کا اعلان کیا تو محمد علی نقوی تحریک کے امیدوار تھے جو بعد میں کسی کے حق میں دستبردار ہوگئے۔[39]

سماجی خدمات

آپ نے مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنے، قوم کی بچیوں کی شادی کے اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کے لئے امداد فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارہ بنایا اس ادارے کے توسط بہت سارے جوانوں کو روزگار اور کاروبار فراہم کیا۔[40]

سنہ 1989ء میں نقوی نے دیگر افراد سے ملکر ایک ادارہ قائم کیا جو آج کل جعفریہ ویلفیئر فنڈ کے نام سے کام کر رہا ہے۔[41]

نقوی نے قوم کے بچوں کے لئے بہترین تعلیم کے حصول کے لئے المصطفے سکول سیسٹم قائم کیا اور کئی ایک شعبے ملک کے مختلف علاقوں میں قائم کیا۔اس قت آپ کے دونوں بڑے بیٹے محمد سلمان اور محمد دانش لاہور کے ایک بہت اچھے ادارے میں تعلیم حاصل کرتے تھے، مگر جب ڈاکٹر نے اسلامک ایجوکیشنل کونسل قائم کرکے "المصطفے ماڈل ہائی ٰ اسکول”شروع کیا تو اپنے دونوں بیٹوں کو فرزندان کا پُرانا اسکول چھڑواکر "المصطفے ماڈل ہائی ٰ اسکول” میں داخل کروادیا۔[42]

المصطفیٰ اسکول سسٹم کے تحت بننے والے سکولز اب بھی پاکستان بھر میں مختلف ناموں سے یہ کام کر رہے ہیں ان میں گلگت بلتستان میں Career Guidance School And College، اٹک میں جناح پیلک سکول، میانوالی میں انڈس ماڈل سکول اینڈ کالج اور جھنگ کے علاقہ بھوانہ میں المصطفیٰ سکول قابل ذکر ہیں۔[43]

آپ نے بلتستان کی ایک شخصیت سے مل کر بلتستانی طالب علموں کی فلاح و بہبود کے لئے ایک ادارہ بھی قائم کیا جس کا نام BEST رکھا تھا۔[44] شہید نقوی تعلیم کے بارے میں بہت حساس تھے جس کے بارے میں آپ کی شہادت کے بعد جنازے پر حافظ ریاض حسین نجفی صاحب نے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جس مدرسہ میں بھی گیا تو اس کے ابتدائی کاغذات شہید کے ہاتھوں کے بنے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب کا یہ مشہور جملہ تھا۔[45] نقوی کی ایک بڑی آرزو پاکستان بھر میں ایک ایسے تعلیمی پراجیکٹ کا قیام تھا جس میں ملت کے بچے بچیاں وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق ابتدائی سطح یعنی پرائمری سے لیکر اعلی سطح یونیورسٹی بہترین تعلیم حاصل کرسکیں۔[46]

علما سے رابطہ

محمد علی نقوی کی وصیت کا متن
بسم رب الشہداء

موت کی جانب سفر تیزی سے ہورہا ہے۔ کئی ایک ایسے مواقع دیکھنے کو نصیب ہوئے ہیں جو انسان کو عبرت کا کام دیتے ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ سبق حاصل نہیں کرسکا جو دوسروں کو کہتا رہا۔ بالاخر وہ وقت آن پہنچا۔ کاش! موت سے نہ بھاگے ہوتے، کاش لشکر خمینی میں شمولیت اختیار کی ہوتی تو شاید ان پاک و پاکیزہ نوجوانوں کے صدقے ہم بھی بخشش کا کوئی سامان لے جاتے۔ بہرحال یہ سب باتیں اب رہ گئیں اور ہم ایک لمبے سفر پر روانہ ہوگئے ہیں۔ التماس دعا میں وصیت کرتا ہوں۔

مجھے اپنے آبائی قبرستان علی رضا آباد میں دفن کیا جائے۔ تشییع جنازہ میں دیر نہ کی جائے۔ میرے جسد کا پوسٹ مارٹم نہ کروایا جائے اور اس موقع پر کسی قسم کا تنظیمی اجتماع نہ کیا جائے۔ میری ظاہری ملکیت میں اگر کوئی شخص یا تنظیم دعویدار ہو تو پہلے ضرور اس کا حق دیا جائے۔ آخری گزارش! خوش بختی ہے ان لوگوں کی جو باصلاحیت اور باشعور لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کے لئے جو اپنے سے کمتر کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔ اپنی اہلیہ محترمہ کا شکرگزار اور بچوں سے پر امید۔ تمام دوستوں سے ان کی توقعات پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے شرمسار ہوں۔

مآخذ، سفیر انقلاب، صفحہ 271۔

نقوی امام خمینی اور شہید عارف حسین الحسینی کے عاشق تھے[47] اور ان کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔[48] اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عارف حسین حسینی نے لاہور مینار پاکستان پر قرآن و سنت کانفرنس انعقاد کرنے کا عزم ظاہر کیا اور اس پر مخالفتیں ہوئی تو محمد علی نقوی کا کہنا تھا کہ اس شخص کی بات ہم پر تین طرح سے حجت ہے: 1: عارف حسینی ہمارے قائد ہیں۔ 2: ان کی ہر بات کے پیچھے ہمیشہ کوئی طاقت کارفرما ہوتی ہے۔ 3: یہ امام خمینی کے نمائندہ ہیں۔ لہٰذا ان کی کسی بات کے آگے چون و چرا کرنا گناہ کے مترادف ہے۔[49] شہید قائد کا ڈاکٹر کے ساتھ فرط محبت کا یہ عالم تھا کہ عارف حسینی انہیں ڈاکٹر بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔[50]

اس کے علاوہ دیگر علماء سے بھی زیادہ مربوط رہتے تھے ان میں سے مرتضٰی حسین صدر الافاضل، مفتی جعفر حسین اور آغا سید علی موسوی اور سید صفدر حسین نجفی وہ علماء ہیں جن سے آپ کا گہرا رابطہ رہا ہے۔[51]

نظریہ ولایت فقیہ کی حمایت

محمد علی نقوی، نظریہ ولایت فقیہ کے بڑے عاشق تھے۔ امام خمینی کے توسط سے ایران میں 1979ء کو آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد آپ نے پاکستان میں ولایت فقیہ کا نظریہ اور امام خمینی کو متعارف کرانے میں بڑا کردار ادا کیا[52] اور طلباء اور ملت جعفریہ دونوں کو گمراہ کن نظریات سے نکال کر نظریہ ولایت سے مربوط کردیا۔[53] انہی کاوشوں کے نتیجے میں پاسبان اسلام کا قیام عمل میں آیا۔[54] انہی وجوہات کی بنا پر آپ کو سفیر انقلاب کا لقب دیا گیا۔[55] ولی فقیہ کے فتوے کے مطابق آپ نے ایران اور عراق جنگ کے دوران ایرانی زخمیوں کے مداوا کے لئے ایران کے شہر شلمچہ اور اہواز میں طبی خدمات سرانجام دیں۔[56]

سنہ 1976ء میں عراقی علماء پر امام خمینی کی حمایت میں حکومتی تشدد ہوا تو ڈاکٹر نقوی نے ایک پوسٹر شائع کروایا جس کا عنوان تھا "وہاں خون کی ہولی کھیلی گئی اور ہم یہاں خاموش رہے۔"[حوالہ درکار]

سنہ 1988ء کو حج کے دوران مکہ مکرمہ میں امام خمینی کا برائت از مشرکین کا پیغام پہنچانے والا کوئی نہ تھا تو اس وقت پاکستان کے بعض حاجیوں کے ساتھ مل کر ڈاکٹر نقوی نے برائت از مشرکین کا نعرہ بلند کیا اور اسی سبب سعودی عرب کے جیل میں بھی گئے۔[57]

شہادت

محمد علی نقوی شہادت کیلئے بےتاب رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ: «میں نہیں چاہتا کہ ضعیفی میں کھانس کھانس کر مروں، خدا میری موت کو میری متحرک زندگی سے متصل کر دے۔»[58] ایک اور جگہ کہتے ہیں: «کئی برس بیت گئے اور ابھی تک شہادت نصیب نہیں ہوئی؛ لگتا ہے کہ میرا کوئی عمل خدا کو پسند نہیں آیا»۔[59] محمد علی نقوی نے اپنی شہادت سے ایک روز قبل اپنے قریبی ساتھیوں کو آگاہ کیا تھا کہ باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دہشت گرد، ملت جعفریہ کی کسی بڑی شخصیت کو نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں لہذا آپ سب احتیاط کریں مگر نقوی خود ہی ان کا نشانہ بن گئے۔[60] 7 مارچ 1995ء کی صبح تقریباً پونے آٹھ بجے، محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔ آپ کے محافظ تقی حیدر آپ کے ہمراہ تھے۔ محمد علی نقوی اپنی ذاتی جیپ کو خود چلا رہے تھے۔ یتیم خانہ چوک ان دنوں لاہور کا مصروف ترین چوک تھا، ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔ گھر سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر آپ کی گاڑی جیسے ہی چوک پر ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی، بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ بعض عینی شاہدین کے مطابق دہشت گردوں کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے، جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند اطراف میں بھی فائرنگ کر رہے تھے، تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب سے خوف زدہ رہ جائیں۔ کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے۔ ایک دہشتگرد گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔[61] اس طرح سے 7 مارچ 1995 ء کو محمد علی نقوی اور ان کے محافظ تقی حیدر، سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور جام شہادت نوش کر گئے۔[62] لاہور میں اپنے آبائی قبرستان میں دفن ہوئے۔[حوالہ درکار] ملت تشیع پاکستان کیلئے عارف حسین الحسینی کی شہادت کے بعد یہ سب سے بڑا نقصان اور صدمہ تھا۔[63]

مونوگراف

محمد علی نقوی کے بارے میں دو کتابیں لکھی گئی ہیں:

  • سفیر انقلاب جسے تسلیم رضا خان نے لکھا ہے جس میں آپ کی سوانح حیات لکھی گئی ہے۔[64]
  • ڈاکٹر محمد نقوی شہید آئیڈیالوجی، وژن اور حکمت عملی کے تناظر میں۔ جسے سید راشد عباس نقوی نے تدوین کیا ہے جس میں شہید کے بارے میں لکھے گئے مقالات جمع کیے گئے ہیں۔[65]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی برسی، عرفان ویب سائٹ۔
  2. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص26۔
  3. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص26۔
  4. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  5. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص27۔
  6. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  7. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص27۔
  8. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص27۔
  9. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص27۔
  10. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  11. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  12. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی (رح) ؛ مکتب خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ امام خمینی ویب سائٹ۔
  13. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  14. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  15. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  16. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  17. پنجاب صوبائی اسمبلی ممبران کا پروفائلپنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ۔
  18. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  19. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار ، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  20. مسیحائے ملت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒبزبان فرزندِ شہید، مجلس وحدت مسلمین کی آفیشل ویب سائٹ۔
  21. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار ، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  22. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار ، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  23. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  24. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  25. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  26. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  27. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  28. شہید ڈاکٹر نقوی کے کئے ہوئے کام آج بھی دشمن کیلئے موت کا پیغام ثابت ہورہے ہیں: علامہ امین شہیدی، بین الاقوامی قرآنی نیوز ایجنسی۔
  29. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  30. پاکستانی ملت جعفریہ کے محسن ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید/ویڈیوجے ٹی وی۔
  31. سید ساجد علی نقوی، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی قومی و ملی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، جعفریہ پریس۔
  32. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص84۔
  33. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص84۔
  34. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص88۔
  35. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص88۔
  36. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص 96۔
  37. افکار شہید قائد(رح)کے منابع، حوزہ نیوز ایجنسی۔
  38. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص99۔
  39. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص126۔
  40. ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالاررسا نیوز ایجنسی۔
  41. امداد علی گھلو ڈاکٹرشہید محمد علی نقوی کی زندگی کے پوشیدہ پہلو، جعفریہ پریس۔
  42. شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی، ایک زندہ انسان، ایک بیدار تحریک، ہفت روزہ رضاکار۔
  43. مسیحائے ملت شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ؒبزبان فرزندِ شہید، مجلس وحدت مسلمین کی آفیشل ویب سائٹ۔
  44. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ایک زندہ انسان،ایک بیدار تحریک، اصغریہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ویب سائٹ۔
  45. شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی، ایک زندہ انسان، ایک بیدار تحریک، ہفت روزہ رضاکار۔
  46. شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی، ایک زندہ انسان، ایک بیدار تحریک، ہفت روزہ رضاکار۔
  47. سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، اسلامی دعوت ویب سائٹ۔
  48. راجہ ناصر عباس جعفری، شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی حضرت امام خمینی و عارف حسینی کے سچے عاشق، سحر ٹی وی۔
  49. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص 19
  50. تسلیم رضا خان، سفیر انقلاب، ص116۔
  51. ارشاد حسین ناصر،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، عشقِ خمینی کا سالار ، جامعہ روحانیت بلتستان۔
  52. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  53. پاکستانی ملت جعفریہ کے محسن ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید/ویڈیو، جے ٹی وی۔
  54. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  55. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  56. شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی، رواق الحجاج ویب سائٹ۔
  57. مجاهدت‌های شهید نقوی از پاکستان تا ایران و عربستان/ سالگرد شهید چمرانِ پاکستان، فارس نیوز ایجنسی۔
  58. ایک عاشق کی مناجات، ولایت میڈیا۔
  59. ایک عاشق کی مناجات، ولایت میڈیا۔
  60. حسن مرتضی، تذکرہ شہدائے ملت جعفریہ کراچی، ص284۔
  61. ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، زندگی کے چند پہلو، اسلام ٹائمز۔
  62. سفیر انقلاب شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی26ویں برسی، تقریب خبررساں ایجنسی۔
  63. ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید، زندگی کے چند پہلو، اسلام ٹائمز۔
  64. سفیرِ انقلاب ،فرزند امام ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید۔۔زندگی کے چند پہلو ، مجلس وحدت مسلمین کی آفیشل ویب سائٹ۔
  65. سفیرِ انقلاب ،فرزند امام ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید۔۔زندگی کے چند پہلو ، مجلس وحدت مسلمین کی آفیشل ویب سائٹ۔

مآخذ