آیت اذن جہاد
| آیت کی خصوصیات | |
|---|---|
| آیت کا نام | اذن جہاد |
| سورہ | سورہ حج |
| آیت نمبر | 39 |
| شان نزول | مہاجرین، اہل بیت |
| محل نزول | مدینہ |
| موضوع | فقہی |
| مضمون | مشرکین کے ساتھ جنگ کی اجازت |
| مرتبط موضوعات | جہاد |
| مربوط آیات | آیہ سیف |
آیت اذن جہاد (سورہ حج: آیت 39)، قرآن کریم کی پہلی آیت ہے جس میں مسلمانوں کو مشرکوں کے خلاف جہاد کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ آیت ان آیات کا ناسخ (منسوخ کرنے والی) شمار کی جاتی ہے جو مشرکوں کے ساتھ مدارا کرنے کا حکم دیتی تھیں۔
یہ آیت مدینہ ہجرت کرنے کے بعد اور مکہ کے مشرکوں کی جانب سے مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ڈھائے جانے کے بعد نازل ہوئی جبکہ رسول خدا(ص) اس سے پہلے مسلمانوں کو صبر کی تلقین دے تھے۔
شیعہ اور اہل سنت مفسرین نے اس آیت کی بنیاد پر جہاد کے وجوب کے لیے کچھ شرائط بیان کی ہیں، منجملہ یہ کہ یہ آیت دفاعی جہاد کے بارے میں ہے اور اس قسم کے جہاد کے لیے امام کی اجازت ضروری نہیں ہے۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آیت، جہاد کی حدود کو ظاہر کرتی ہے اور اسلام پر شدت پسندی کے الزام کو رد کرتی ہے کیونکہ اسلام میں جنگ صرف ظلم و ستم اور مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے بعد جائز قرار دی گئی ہے۔
شیعہ احادیث میں یہ آیت اہل بیت (علیہم السلام) اور امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) پر منطبق کی گئی ہے۔ نیز صحابہ کرام اور تابعین نے اپنے اعمال اوراقدامات کو جائز قرار دینے اور احتجاج کرنے کے لیے اس آیت کا سہارا لیا ہے، جیسا کہ عثمان بن عفان کے گھر کے محاصرے کے وقت، امام علی (علیہ السلام) نے جنگ صفین اور جمل میں اور ابراہیم امام نے ابومسلم خراسانی کے قیام کے دوران۔
مشرکوں کے ساتھ جہاد کی اجازت
سورہ حج کی آیت نمبر 39 کو آیت اذن جہاد کا نام دیا گیا ہے۔[1] نیز اس آیت کو آیت قتال[2] یا آیت اذن قتال[3] بھی کہا جاتا ہے۔ اس آیت میں مسلمانوں کو مشرکوں کے خلاف جہاد کی اجازت دی گئی ہے جو مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے۔ یہ آیت قرآن کی محکم آیات میں سے ہے[4] جو پہلی بار مسلمانوں کو مشرکوں کے خلاف پیغمبر اکرمؐ اور اپنی حفاظت کے لئے دفاعی جہاد کی اجازت دیتی ہے۔[5]
آیت اذنِ جہاد کو سورہ احزاب کی آیت نمبر 48 کا ناسخ مانا جاتا ہے جو مشرکوں کے ساتھ مدارا پر زور دیتی ہے۔[6] کہا جاتا ہے کہ قرآن میں ستر سے زائد آیات پیغمبر اکرمؐ اور مسلمانوں کو مشرکیں کے ساتھ مدارا کرنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں۔[7] اسی طرح اس آیت کو سورہ جاثیہ آیت نمبر 14 کا بھی ناسخ شمار کیا جاتا ہے۔[8]
آیت اور اس کا ترجمہ
أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّہُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّہَ عَلَى نَصْرِہِمْ لَقَدِيرٌ
ان لوگوں کو اجازت دی گئی ہے جن کے ساتھ جنگ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مظلوم تھے، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے
مفسرین نے آیت کے اس جملے "أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ" کی بنیاد پر کہا ہے کہ نبی اکرمؐ[9] اور مسلمانوں کو اس آیت کے نزول سے پہلے مشرکوں کے خلاف جہاد سے منع کیا گیا تھا[10]، اور اس آیت کے نزول کے بعد مشرکوں کے خلاف جہاد کو جائز قرار پایا۔[11] اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہاد کی اجازت اور مدینہ کی طرف ہجرت مسلمانوں کی فتح اور کامیابی کا سبب بنی۔[12]
شأن نزول
آیت اذن جہاد کے شأن نزول کے بارے میں کہا گیا ہے کہ مشرکین مکہ پیغمبر اکرمؐ کے صحابہ پر ظلم و ستم کیا کرتے تھے۔ صحابہ نے اس بارے میں پیغمبر اکرمؐ کے پاس شکایت کی، رسول اکرمؐ نے انہیں صبر اور مدارا کی تلقین کی اور کہا کہ مجھے ابھی جہاد کا حکم نہیں ملا ہے۔ پھر مدینہ ہجرت کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔[13] امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث کے مطابق، اس آیت کے مخاطب وہ مہاجرین تھے جنہیں قریش نے مکہ سے نکال دیا تھا۔[14]
آیت اذن جہاد ہجرت مدینہ کے سات ماہ بعد نازل ہوئی۔[15] سورہ حج مدنی سوروں میں شمار ہوتی ہے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ سورہ حج کی صرف بعض آیات مکی ہیں[16]ان کے مقابلے میں بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سورہ حج مکے میں نازل ہوئی ہے اور صرف پانچ آیات بشمول آیت اذن جہاد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں۔[17]
جہاد واجب ہونے کی شرائط
بعض شیعہ اور اہل سنت فقہا نے اس آیت کی روشنی میں دفاعی جہاد کے واجب ہونے کی شرائط بیان کی ہیں۔ منجملہ شیعہ مرجع تقلید آیت اللہ منتظری اس آیت سے استناد کرتے ہوئے دفاعی جہاد کو امام کی اجازت سے مبرا اوربےنیاز سمجھتے ہیں۔[18] اسی طرح حنفی فقہاء میں سے سرخسی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو صرف اس صورت میں جنگ کی اجازت دی گئی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کے خلاف پہلے حملہ کریں۔[19] اہل سنت فقہاء میں سے امام شافعی اس بات کے معتقد ہیں کہ آیت اذن جہاد کے نزول کے ساتھ مسلمانوں کو ابتدائی جہاد کی اجازت دی گئی ہے۔[20]
نجف کے علماء میں سے حسن جواہری کے مطابق آیت اذن جہاد نہ صرف جہاد کی تشریع اور وجوب کو بیان کرتی ہے بلکہ اس کے حدود، شرائط اور لوازمات کو بھی بیان کرتی ہے۔[21] بعض شیعہ علما کے مطابق، اس آیت میں جہاد کی اجازت دو شرطوں سے مشروط ہے: اول یہ کہ لوگ ظلم کے شکار ہوئے ہوں، دوم یہ کہ آیت کے اس جملے «الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ...» کے مد نظر ، انہیں اپنے گھر سے ظلم و زیادتی کے ساتھ نکالا گیا ہو ۔[22]
جواہری کے مطابق، بعض لوگوں نے مذکورہ آیت سے غلط مفہوم لیتے ہوئے اسلام کو دین شمشیر معرفی کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے اسلام میں جنگ سے پہلے برہان، مناظرے اور نرم مزاجی سے لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن جب ان پر ظلم و ستم کیا جائے تب اس صورت میں جہاد کی اجازت دی گئی ہے۔[23]
اہل بیت پر آیت کی تطبیق
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ایک حدیث کے مطابق آیت اذن جہاد آل محمدؐ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[24] زید بن علی بھی اس بات کے معتقد ہیں کہ یہ آیت اہل بیت کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[25] اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ایک حدیث کے مطابق مذکورہ آیت کا یہ جملہ "أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ" امام علی علیہ السلام، جعفر بن ابی طالب اور حمزہ بن عبدالمطلب کے بارے میں ہے۔[26] بعض دیگر احادیث میں حضرت علیؑ، امام حسنؑ اور امام حسینؑ کو اس آیت کا مخاطب قرار دیا ہے۔[27]
بعض شیعہ علماء نے ایک حدیث سے استناد کرتے ہوئے آیت اذن جہاد کے مخاطبیں جنہیں جہاد کی اجازت دی گئی ہے،[28] اور اس میں مذکور مظلومین سے مراد امام زمانہؑ اور ان کے اصحاب کو قرار دیا ہے۔[29] امام جعفر صادقؑ سے بھی منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: اہل سنت کا خیال ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرمؐ کی مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت نازل ہوئی جبکہ اس آیت کے اصل مخاطب امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف) ہیں جس وقت وہ امام حسینؑ کے خون کا انتقام لینے کیلئے قیام کریں گے۔[30]
آیت اذن جہاد کو اہل بیت کی رجعت کی مشروعیت کے لیے بھی دلیل مانا جاتا ہے، اس بنا پر کہا جاتا ہے کہ رجعت کو شیعہ اعتقادات میں اہم اور کلیدی مقام کا حاصل ہے[31] اور ایک حدیث کے مطابق رجعت اہل بیت کے لئے خدا کا وعدہ ہے۔ لھذا اہل بیتؑ ضرور رجعت کریں گے تاکہ خدا ان کی مدد اور نصرت کرے۔[32]
تاریخی اتفاقات میں آیت سے استدلال
تاریخی قرائن و شواہد کے مطابق بعض صحابہ اور تابعین نے اپنی حقانیت اور مقاصد کی تکمیل میں آیت اذن جہاد سے استناد کیا ہے ۔ مثلاً خلافت کے اخری ایام میں جب عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ ہوا تو صعصعۃ بن صوحان کو ان سے گفتگو کے لئے منتخب کیا گیا ، صعصہ نے عثمان کے سامنے اس آیت جہاد کی تلاوت کی تو عثمان نے صعصہ اور ان کے ساتھیوں کے حق میں نازل ہونے کا انکار کرتے ہوئے جواب دیا کہ یہ آیت میرے اور میرے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے،[33] جب ہمیں مکہ سے نکالا گیا تھا۔[34]
ایک اور نقل کے مطابق جنگ صفین[35] یا جنگ جمل کے دوران حضرت علیؑ نے تن با تن جنگ کے دوران اپنی شناخت چھپانے کے لئے عباس بن ربیعہ کے لباس میں میدان جنگ میں گئے اور اس آیت کی تلاوت کرتے ہوئے دشمن کو مقابلے کی دعوت دی۔[36]
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابراہیم امام (عبداللہ بن عباس کی نسل سے اور عباسی خلفاء سفاح اور منصور عباسی کے بھائی) نے جب ابومسلم خراسانی کے قیام کی حمایت کی تو اس آیت کو ان کے پرچم پر لکھا۔[37] البتہ دیگر منابع میں موجود روایات کے مطابق، ابراہیم پرچم باندھنے کے بعد ، اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے۔[38]
حوالہ جات
- ↑ خراسانی، «آیات نامدار»، ص368۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ھ، ج21، ص57؛ سبزواری، مہذب الاحکام، 1416ھ، ج15، ص119۔
- ↑ طباطبائی، تفسیر المیزان، 1412ھ، ج14، ص384۔
- ↑ ابنجوزی، نواسخ القرآن، دار الکتب العلمیۃ، ص225۔
- ↑ صنعانی، المصنف، منشورات المجلس العلمی، ج5، ص397؛ شیخ طوسی، التبیان، 1409ھ، ج7، ص321؛ حاکم نیشابوری، المستدرک، دار المعرفۃ، ج2، ص246؛ سید سابھ، فقہ السنۃ، 1397ھ، ج2، ص620؛ حسنی، تاریخ الفقہ الجعفری، دار النشر للجامعیین، ص56۔
- ↑ نجفی، جواہر الکلام، 1362ش، ج21، ص57؛ سبزواری، مہذب الاحکام، 1416ھ، ج15، ص119؛ قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 1405ھ، ج12، ص68۔
- ↑ شافعی بیضاوی، انوار التنزیل (تفسیر بیضاوی)، 1418ھ، ج4، ص73۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، 1409ھ، ج9، ص252؛ ابنجوزی، نواسخ القرآن، دار الکتب العلمیۃ، ص225۔
- ↑ شیخ طوسی، التبیان، 1409ھ، ج1، ص407۔
- ↑ سعدی، تیسیر الکریم، 1421ھ، ص539۔
- ↑ ابنجوزی، نواسخ القرآن، دار الکتب العلمیۃ، ص225۔
- ↑ العینی، عمدۃ القاری، دار احیاء التراث العربی، ج1، ص17۔
- ↑ واحدی نیشابوری، اسباب نزول الآیات، 1388ھ، ص208؛ ابنحنبل، مسند احمد، دار صادر، ج1، ص216؛ ترمذی، سنن الترمذی، 1403، ج5، ص7۔
- ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج19، ص183۔
- ↑ ابنشہرآشوب، مناقب، 1376ھ، ج1، ص161۔
- ↑ سمعانی، تفسیر سمعانی، 1418ھ، ج3، ص416۔
- ↑ فیروزآبادی، تنویر المقباس، دار الکتب العلمیۃ، ص276۔
- ↑ منتظری، دراسات فی ولایۃ الفقیۃ، 1408ھ، ج1، ص121۔
- ↑ سرخسی، المبسوط، 1406ھ، ج10، ص2۔
- ↑ شافعی، الام، 1403ھ، ص169۔
- ↑ جواہری، بحوث فی الفقہ المعاصر، 1429ھ، ج6، ص232۔
- ↑ فیض کاشانی، الوافی، 1411ھ، ج15، ص70؛ مجلسی، روضۃ المتقین، بنیاد فرہنگ اسلامی، ج3، ص164۔
- ↑ جواہری، بحوث فی الفقہ المعاصر، 1429ھ، ج6، ص239۔
- ↑ قمی، تفسیر کنزالدقائھ، 1411ھ، ج9، ص102۔
- ↑ حسکانی، شواہد التنزیل، 1411ھ، ج1، 520۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1387ھ، ج2، ص84۔
- ↑ ابنقولویہ، کامل الزیارات، 1417ھ، ص135۔
- ↑ نعمانی، الغیبۃ، 1422ھ، ص248؛ نوری، خاتمۃ المستدرک، 1415ھ، ج1، ص125۔
- ↑ کورانی، معجم احادیث الامام المہدی، 1411ھ، ج5، ص264۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، 1387ھ، ج2، ص84۔
- ↑ گلپایگانی، ارشادالسائل، 1403ھ، ص203۔
- ↑ قطیفی، رسائل آل طوھ، 1422ھ، ج1، ص126۔
- ↑ ابنابیشیبہ، المصنف، 1409ھ، ج8، ص585 و 681۔
- ↑ متقی ہندی، کنز العمال، 1409ھ، ج2، ص 470 و 471؛ ابنعساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج24، ص88۔
- ↑ عیاشی، تفسیر العیاشی، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، ج2، ص79- 82۔
- ↑ ابنشہرآشوب، مناقب، 1376ھ، ج2، ص359۔
- ↑ ابنشہرآشوب، مناقب، 1376ھ، ج3، ص86. نوری، مستدرک الوسائل، 1408ھ، ج3، ص328۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، موسسۃ الاعلمی، ج6، ص25؛ ابناثیر، الکامل فی التاریخ، 1386ھ، ج5، ص358۔
مآخذ
- ابنابیشیبۃ، عبداللہ، المصنف فی الاحادیث و الآثار، تحقیق سعید اللحام، بیروت، دار الفکر، 1409ھ۔
- ابناثیر، علی، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1386ھ۔
- ابنجوزی، عبدالرحمن، نواسخ القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بیتا.
- ابنحنبل، احمد، مسند احمد، بیروت، دار صادر، بیتا.
- ابنشہرآشوب، محمد، مناقب آلابیطالب، تحقیق لجنۃ من اساتذۃ النجف الاشرف، النجف الاشرف، الحیدریۃ، 1376ھ۔
- ابنعربی، محمد، احکام القرآن، بیروت، دار الفکر، بیتا.
- ابنعساکر، علی، تاریخ مدینۃ دمشق، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
- ابنقولویہ، محمد، کامل الزیارات، تحقیق نشر الفقاہۃ، قم، النّشر الاسلامی، 1417ھ۔
- العینی، محمود، عمدۃ القاری، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا.
- بیہقی، احمد بن حسین، معرفۃ السّنن و الآثار، تحقیق حسن کسروی، بیروت، دار الکتب العلمیّۃ، بیتا.
- ترمذی، محمد، سنن الترمذی، تحقیق عبدالرحمن محمد عثمان، بیروت، دارالفکر، چاپ دوم، 1403ھ۔
- جواہری، حسن، بحوث فی الفقہ المعاصر، بیروت، دار الذخائر، 1429ھ۔
- حاکم نیشابوری، ابوعبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق یوسف عبدالرحمن، بیروت، دار المعرفۃ، بیتا.
- حسکانی، عبیداللہ بن احمد، شواہد التنزیل لقواعد التفضیل، تحقیق محمدباقر محمودی، تہران، مؤسسۃ الطبع و النشر التابعۃ لوزارۃ الارشاد، 1411ھ۔
- حسنی، ہاشم معروف، تاریخ الفقہ الجعفری، تحقیق محمدجواد مغنیہ، بیجا، دار النشر للجامعیین، بیتا.
- خراسانی، علی، «آیات نامدار»، در دائرۃ المعارف قرآن کریم، قم، بوستان کتاب، 1382ہجری شمسی۔
- سبزواری، عبدالعلی، مہذب الاحکام فی بیان الحلال و الحرام، بیجا، مکتب آیۃاللہ العظمی السید السبزواری، 1416ھ۔
- سرخسی، شمسالدین، المبسوط، بیروت، دار المعرفۃ، 1406ھ۔
- سعدی، عبدالرحمن بن ناصر، تیسیر الکریم الرحمن فی کلام المنان، تحقیق ابنعثیمین، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1421ھ۔
- سمعانی، منصور، تفسیر سمعانی، تحقیق یاسر بن ابراہیم و غنیم بن عباس، الریاض، دار الوطن، 1418ھ۔
- سید سابھ، فقہ السنۃ، بیروت، دار الکتاب العربی، چاپ سوم، 1397ھ۔
- شافعی بیضاوی، عبداللہ بن محمد، انوار التنزیل و اسرار التاویل (تفسیر بیضاوی)، بیروت، دار الفکر، 1418ھ۔
- شافعی، محمد بن ادریس، الام، بیروت، دار الفکر، 1403ھ۔
- شیخ طوسی، محمد، التبیان فی تفسیر القرآن، تحقیق احمد حبیب قصیر عاملی، بیجا، مکتب الاعلام الاسلامی، 1409ھ۔
- شیخ طوسی، محمد، تہذیب الأحکام فی شرح المقنعۃ للشیخ المفید، تحقیق حسن موسوی، طہران، دارالکتب الاسلامیۃ، چاپ چہارم، 1365ہجری شمسی۔
- صنعانی، عبدالرزاھ، المصنف، تحقیق حبیب الرّحمن الاعظمی، بیجا، المجلس العلمی، بیتا.
- طباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1412ھ۔
- طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک (تاریخ طبری)، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، بیتا.
- عیاشی، محمد، تفسیر العیاشی، تحقیق سید ہاشم رسولی، طہران، المکتبۃ العلمیۃ الاسلامیۃ، بیتا.
- فیروزآبادی، محمد بن یعقوب، تنویر المقباس من تفسیر ابنعباس، بیروت، دار الکتب العلمیۃ، بیتا.
- فیض کاشانی، محمدمحسن، الوافی، تحقیق ضیاءالدین حسینی، اصفہان، مکتبۃ الامام امیر المؤمنین، 1411ھ۔
- قرطبی، محمد، الجامع لاحکام القرآن، تحقیق احمد عبدالعلیم، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1405ھ۔
- قطیفی، احمد بن شیخ، رسائل آل طوھ، تحقیق شرکۃ دار المصطفی، دمشق، شرکۃ دار المصطفی لاحیاء التراث، 1422ھ۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر قمی، تحقیق طیب موسوی جزایری، قم، دار الکتاب، چاپ چہارم، 1387ھ۔
- قمی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائق و بحر الغرائب، تحقیق حسین درگاہی، تہران، مؤسسۃ الطبع و النشر وزارۃ الثقافۃ، 1411ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، اصول الکافی، تعلیق علیاکبر غفاری، بیجا، دارالکتب الاسلامیۃ، 1367ہجری شمسی۔
- کورانی، علی، معجم احادیث الامام المہدی، قم، مؤسسۃ المعارف الاسلامیۃ، 1411ھ۔
- گلپایگانی، محمدرضا، ارشاد السائل، بیروت، دار الصفوۃ، 1403ھ۔
- متقی ہندی، علاءالدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، تصحیح بکری حیانی صخوۃ السفا، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1409ھ۔
- مجلسی، محمدتقی، روضۃ المتقین فی شرح من لا یحضرہ الفقیہ، تحقیق حسین موسوی و علیپناہ اشتہاردی، بیجا، بنیاد فرہنگ اسلامی، بیتا.
- نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الإسلام، تحقیق محمود قوچانی، طہران، دار الکتب الاسلامیۃ، چاپ دوم، 1366ہجری شمسی۔
- نعمانی، محمد بن ابیزینب، الغیبۃ، تحقیق فارس حسون، قم، انوار الہدی، 1422ھ۔
- نوری، حسین، خاتمۃ المستدرک، تحقیق موسسۃ آل البیت، قم، مؤسسۃ آل البیت، 1415ھ۔
- نوری، حسین، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، تحقیق مؤسسۃ آل البیت، بیروت، مؤسسۃ آل البیت، چاپ دوم، 1408ھ۔
- واحدی نیشابوری، علی بن احمد، اسباب نزول الآیات، قاہرہ، مؤسسۃ الحلبی و شرکاہ، 1388ھ۔