بچہ پیدا کرنا

ویکی شیعہ سے
(زیادہ بچوں کی پیدائش سے رجوع مکرر)

بچہ پیدا کرنے کو قرآن اور معصومینؑ کی احادیث میں ایک اچھا کام قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت زکریاؑ کا بڑھاپے میں اولاد کی دعا اور اللہ تعالی کی طرف سے دعا مستجاب ہونے کی بشارت اس موضوع کی اہمیت کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ نیز حدیث نبوی میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قیامت کے دن اپنی امت کی تعداد کی کثرت پر فخر کریں گے۔

بچے پیدا کرنے میں کمی یا خاندانی منصوبہ بندی کے ناقابل تلافی نتائج درج کیے گئے ہیں، جن میں معاشی ترقی اور مزدور قوت میں کمی اور ثقافتی اور سیاسی مسائل شامل ہیں۔ معاشی اور تعلیمی مشکلات اور ان کے ساتھ ساتھ لوگوں کے طرز زندگی میں تبدیلی کو بھی بچے پیدا کرنے میں سب بڑی رکاوٹ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ مذہبی ثقافت میں بچوں کے رزق کا ضامن اللہ تعالی ہے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر اس شعبے میں بچوں کی کثرت اگر ایک مسئلہ ہے تو ایک اولاد والے خاندانوں میں بچوں کی بہترین پرورش اور تربیت ہونی چاہیے تھی۔

اہمیت

قرآن میں اولاد کا ذکر ان کی خصوصیات اور نعمت،[1] زندگی کی زینت، [2] آنکھوں کی روشنی[3] اور الٰہی امداد کا سبب[4] جیسی تعبیر سے یاد کیا ہے۔ اولاد کے لیے ان صفات کو بیان کرنے کا مطلب قرآنی نقطہ نظر سے بچے پیدا کرنے کو اچھا سمجھا گیا ہے۔[5] اسی طرح حضرت ابراہیمؑ[6] اور حضرت زکریاؑ[7] کا بڑھاپے میں اولاد کی دعا کرنا اور اللہ تعالی کی طرف سے دعا کی استجابت کی بشارت دینا[8] قرآن کی نظر میں اس موضوع کی اہمیت پر دلالت کرتے ہیں۔[9]
معصومینؑ کی بہت سی روایات ملتی ہیں جو اولاد پیدا کرنے اور خاندانی آبادی بڑھانے کی تمجید کرتی ہیں۔[10]مصادرِ حدیث میں سے کتاب کافی میں حضرت محمدؑ سے مختلف روایات مروی ہیں جن میں بچہ پیدا کرنے والی عورت سے نکاح پر زور دیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ "قیامت کے دن میں اپنی امت کی تعداد کی کثرت پر فخر کروں گا۔"[11] ایک اور معتبر حدیث[12] میں بچے زیادہ پیدا کرنے کی واضح الفاظ میں تاکید کی گئی ہے۔[13]

بچے پیدا کرنے میں کمی کے آثار

بعض تحقیقات کے مطابق اولاد کی کمی کے منفی آثار میں سب سے اہم اثر "عمر رسیدہ آبادی" کو قرار دیا گیا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے ناقابل تلافی نتائج ہوں گے جن میں سے بعض درج ہیں:

  • معاشی مسائل: پیداوار اور معاشی نمو میں کمی، بیمہ کے بھاری اخراجات، ریٹائر ہونے والوں کے لیے امدادی منصوبوں پر عمل درآمد، جس کی وجہ سے ملک معاشی بحران کا شکار ہو جائے گا۔
  • مزدوروں کی کمی: افرادی قوت میں جب کمی آئے گی تو کارخانوں کی بندش کو روکنے اور بسا اوقات اہم عہدوں کے لیے بھی غیر ملکی افراد سے استفادہ کرنا ہوگا۔
  • سیاسی اور سلامتی خطرات: معاشرے کے آبادیاتی ڈھانچے میں تبدیلیاں اور ملک کی سلامتی اور اقتدار کے دفاع کے لیے نوجوانوں کی کمی۔[14]

بچے پیدا کرنے میں تشویش اور مشکلات

بچہ پیدا کرنے کے لئے بہت سے مسائل اور رکاوٹیں درج کی گئی ہیں جن کی وجہ سے لوگ بچے پیدا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔[15] جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

معاشی مشکلات

بچوں کی ضرورت کے مطابق مال اور ان کے اخراجات کا نہ ہونا، بچے پیدا کرنے کے بارے میں والدین کی مستقل پریشانیوں میں سے ایک رہا ہے؛[16] جبکہ اسلامی ثقافت میں بچوں کے رزق کے بارے میں اللہ تعالی نے ضمانت دی ہے۔[17] عصر جاہلیت میں جو لوگ غربت اور تنگدستی کے خوف سے اپنے بچوں کو قتل کرتے تھے، قرآن مجید میں ان لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اس طرح اولاد قتل کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھا گیا ہے اور کہا گیا ہے: "ہم ان کو اور آپ کو رزق فراہم کرتے ہیں۔"[18] اسی طرح کتاب کافی میں منقول ہے کہ امام کاظمؑ کے ایک صحابی ایک خط کے ذریعے بچوں کی تربیت میں دشواری اور مال کی کمی کی وجہ سے بچے پیدا کرنے سے اجتناب کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ امامؑ نے یوں جواب دیا ہے: "بچے پیدا کرنے کی کوشش کرو کیونکہ ان کو رزق اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔"[19]

صحیح تربیت کی پریشانی

بعض لوگ بچوں کی تعداد کو ان کی صحیح تعلیم و تربیت میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے وہ زیادہ بچے پیدا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔[20] ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآنی آیات کی روشنی میں لوگوں کی تعلیم اور رہنمائی کا معاملہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر پرورش اور تربیت کا مسئلہ واقعی اس موضوع کے اہم مسائل میں سے ایک ہے تو ایک بچہ والے خاندانوں کو بچوں کی بہتر پرورش و تربیت کرنی چاہیے تھی۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر بچوں کی تربیت کا محور اہل بیتؑ کی محبت اور ولایت پر ہو تو تربیت کے معاملے میں بہت سی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔[21]

طرز زندگی میں تبدیلی

زیادہ اولاد کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے ایک فلاح و بہبود اور خود غرضی کے سبب ہونے والی خاندانوں کی طرز زندگی میں تبدیلی ہے؛[22] یعنی بعض والدین اپنی خود غرضی اور ان میں فدا کاری کے جذبے کے فقدان کی وجہ سے بچے کی تنہائی اور ان کی فلاح و بہبود پر توجہ دینے کے بجائے اپنی سہولت کا خیال رکھتے ہیں؛ کیونکہ وہ بچے کی پیدائش کو اپنی راحت اور سکون میں خلل کا باعث سمجھتے ہیں؛[23] جب کہ اسلامی طرز زندگی میں خوشحالی اور آسودگی کو زندگی کا بنیادی مقصد نہیں سمجھا جاتا ہے اور خوشحالی اور مشکلات اگر اللہ کی بندگی کے راہ میں ہو تو اسے اچھا سمجھا جاتا ہے۔[24]

مونوگراف

  • رسالۂ نکاحیہ؛ آبادی میں کمی، مسلمانوں پر ایک کاری ضربت، بقلم سید محمد حسین تہرانی: یہ کتاب مصنف کے ماہ رمضان 2013 ہجری میں تہران کی قائم مسجد میں دیے گئے لیکچرز کا نتیجہ ہے، جسے مصنف نے 1373 میں تصحیح کر کے مکمل کیا ہے، اور ملک میں جب آبادی کنٹرول کرنے کی پالیسی کا نفاذ کے عروج کے دوران، ایک انتقادی کتاب کے عنوان سے شائع کیا۔[25]

حوالہ جات

  1. سورہ نحل، آیہ 72.
  2. سورہ کہف، آیہ 46.
  3. سورہ فرقان، آیہ 74.
  4. سورہ اسراء، آیہ 6 و سورہ شعراء، آیہ 133.
  5. حیدری و غبیشاوی، «فرزندآوری در آئینہ آیات قرآن»، آیین رحمت.
  6. سورہ صافات، آیہ 100.
  7. سورہ آل عمران، آیہ 38؛ سورہ مریم، آیات 5 و 6.
  8. سورہ ہود، آیات 71-73؛ سورہ مریم، آیات 7 و 8.
  9. حیدری و غبیشاوی، «فرزندآوری در آئینہ آیات قرآن»، آیین رحمت.
  10. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص44.
  11. کلینی، الکافی، 1407ق، ج5، ص333 و 334، حدیث 1، 2، 3 و 4.
  12. حیدری و غبیشاوی، «فرزندآوری در آئینہ روایات اسلامی»، آیین رحمت.
  13. کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص2، حدیث 3.
  14. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص35-39؛ غبیشاوی، «فرزندآوری در میزان عقلانیت اجتماعی و اخلاق»، آیین رحمت.
  15. حیدری و دیگران، «فرزندآوری: عوامل سوق دہندہ و بازدارندہ»، ص243.
  16. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص96.
  17. حیدری و غبیشاوی، «فرزندآوری در آئینہ روایات اسلامی»، آیین رحمت.
  18. سورہ اسراء، آیہ 31.
  19. کلینی، الکافی، 1407ق، ج6، ص3، حدیث 7.
  20. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص109.
  21. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص109-111.
  22. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص117-119.
  23. «خودخواہی و عدم ایثار والدین عامل اصلی کاہش فرزند»، وبگاہ بلاغ.
  24. موسوی، مثبت سہ، 1400ش، ص118.
  25. پایگاہ اینترنتی مکتب وحی

مآخذ

بیرونی روابط