ردہ کی جنگیں

ویکی شیعہ سے
(رِدَّۃ کی جنگیں سے رجوع مکرر)
ردہ کی جنگیں
تاریخ11ھ اور 12ھ
مختصاتبعض عربوں کا مرتد ہوجانا (مختلف فیہ) ، بعض مسلمانوں کا زکات ادا نہ کرنا
نتیجہمسلمانوں کے لشکر کی کامیابی
فریق 1مسلمان
فریق 2مرتد (زکات نہ دینے والے) قبیلے اور مخالفین
سپہ سالار 1خالد بن ولید، عکرمہ بن ابی جہل اور خالد بن سعید بن عاص
سپہ سالار 2 مالک بن نُوَیرہ، مُسَیلمہ کذّاب، اَسود عَنَسی‏، طُلَيحۃ بن خُوَيلد اَسدی


رِدَّہ کی جنگیں وہ جنگیں ہیں جو ابوبکر بن ابی قحافہ کے حکم سے 11 اور 12 ہجری میں ان لوگوں کے خلاف لڑی گئیں جنہیں وہ مرتد کہتے تھے۔ یہ جنگیں جھوٹے نبی کے پیروکاروں اور ان افراد اور قبیلوں کے خلاف لڑی گئیں جنھوں نے ابوبکر کو زکات دینے سے انکار کیا تھا۔ زکات ادا نہ کرنے کے جرم میں ابوبکر کی طرف سے بھیجے گئے کمانڈر خالد بن ولید کے ذریعہ رسول اللہ کے صحابی مالک بن نُوَیرہ کا قتل ہونا بعض صحابہ جیسے ابو قتادہ انصاری اور عمر بن خطاب کے اعتراض کا سبب بنا۔ اسی طرح ردہ کی جنگوں سے عدالت صحابہ کے نظریہ کو مسترد کرنے کے لئے بھی استفادہ کیا جاتا ہے؛ کیونکہ ان جنگوں کے دونوں فریق صحابہ پیغمبر اکرمؐ تھے اور صحابہ کا ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ان جنگوں میں وقوع پذیر ہونے والے کچھ دوسرے حادثات کسی طرح ان کی عدالت کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔

ان جنگوں کا نام اور ان کی حیثیت

رِدَّہ کی جنگیں وہ جنگیں ہیں جو ابوبکر بن ابی قحافہ کے حکم سے لڑی گئیں۔ یہ جنگیں ان لوگوں کے خلاف لڑی گئیں جنھیں وہ مرتد کہتے تھے۔ [1] اور اسی وجہ سے انہیں "رِدَّۃ" کی جنگیں یا ارتداد کی جنگیں کہا گیا ہے۔ لغت میں دین سے پلٹ جانے[2] اور کفر کو "رِدَّۃ" کہتے ہیں۔[3] ۔ ردہ کی جنگیں سنہ 11 ہجری میں ابوبکر کے خلیفہ بنائے جانے کے بعد شروع ہوئیں۔[4] اور سنہ 12 ہجری تک جاری رہیں۔[5] یہ جنگیں اسلامی سرزمین کے مختلف حصوں مدینہ سے یمن تک اور بحرین و یمامہ میں ہوئیں۔[6] رسول جعفریان کے بقول پیغمبر کی وفات اور واقعہ سقیفہ کے بعد مسلمانوں کے درمیان سب سے بڑی پریشانی وہ حرکت تھی جسے ارتداد کا نام دیا گیا۔[7]

ان جنگوں کے اسباب اور جنگ کرنے والے فریق

مُسَیلمہ کذّاب اور طُلَیحۃ بن خُوَیلد اسدی جیسے لوگوں کی طرف سے پیغمبری کا جھوٹا دعوی اور ابوبکر کی بیعت کرنے سے انکار نیز کچھ مسلمان قبائل کی طرف سے حکومت کو زکات ادا نہ کرنا ان جنگوں کا سبب بنا۔[8] دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مورخ واقدی کے بقول ابوبکر کے خلیفہ بنائے جانے کے بعد کچھ قبیلے مرتد ہوگئے۔ انھیں قبیلوں میں سے ایک قبیلہ بنی اسد بھی تھا جس کے سردار طُلَیحۃ بن خُوَیلد اسدی نے دعوائے پیغمبری کیا۔ قبیلہ بنی حنیفہ بھی مسیلمہ کذاب کی پیغمبری کی حمایت میں اور قبیلہ کِندہ اپنے بزرگ اشعث بن قیس کے ساتھ مرتد ہوگئے۔[9]

جو لوگ زکات دینے سے انکار کررہے تھے ان کی وجوہات الگ الگ تھیں: کچھ لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور زکات دینا ان کے لئے سخت تھا اور اس کی ادائیگی ان کی نظر میں مناسب نہیں تھی۔[10] کچھ اور لوگ یوں تو زکات ادا کرنے والے تھے لیکن ابوبکر کو زکات دینے کے منکر تھے۔[11] کیونکہ انھیں ابوبکر کی خلافت منظور نہیں تھی اور یہ لوگ اہل بیت علیہم السلام کی حکومت کے خواہاں تھے۔[12] رسول جعفریان کے بقول مالک بن نُوَیرہ اور ان کا قبیلہ اس گروہ میں آتے تھے۔[13] اسی طرح بیان ہوا ہے کہ حارث بن معاویہ نے ابوبکر کے نمائندے کو اپنے قبیلہ سے باہر نکال دیا تھا، کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ خلافت در حقیقت اہل بیت علیہم السلام کا حق ہے۔[14] خالد بن ولید، عکرمہ بن ابی جہل اور خالد بن سعید بن عاص ان سرداران لشکر میں سے تھے جنھیں ابوبکر نے اہل ردہ سے جنگ لڑنے کے لئے بھیجا۔[15] خالد بن ولید نے صحابی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ مالک بن نویرہ کو زکات نہ دینے کے جرم میں قتل کردیا۔ [16]

دوسروں کا رد عمل

ردہ کی جنگوں کے بارے میں بڑا مختلف قسم کا رد عمل بیان ہوا ہے۔ مورخین کے نقل کے مطابق کچھ صحابہ نے اس کام کو فرمان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے دستور کے خلاف جانا اور اس بات پر اعتراض کیا کہ ایسے لوگوں سے جنگ کی جائے جو توحید اور پیغمبر اسلام کی نبوت کا عقیدہ رکھتے ہوں۔[17] اسی وجہ سے ابوبکر کو یہ تجویز دی گئی کہ ان لوگوں کو چھوڑ دیں یہاں تک کہ ان کے دلوں میں ایمان راسخ ہوجانے اور پھر اس کے بعد ان سے زکات لی جائے[18] لیکن ابوبکر کے خیال میں جو لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن زکات نہیں دیتے اور جو لوگ سرے سے نماز کے منکر ہیں، ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، اور وہ دونوں کو مرتد اور جنگ کا مستحق سمجھتے تھے۔[19]

جرمنی کے ایک اسلام شناس میڈلونگ کے بقول ابوبکر نے زکات کے بارے میں کسی قسم کی مصالحت سے صاف انکار کردیا اور زکات ادا کرنے کو اسلام سے قبائل کی وفاداری کا معیار قرار دیا۔ ان کی نظر میں جو زکات نہیں دیتے وہ مرتد ہو جاتے ہیں اور ان سے اسی طرح سے جنگ کرنا چاہئے جیسے ان لوگوں سے کی جاتی ہے جو دین سے مرتد ہوجاتے ہیں یا بالکل دین کو مانتے ہی نہیں ہیں۔[20]

خالد بن ولید کے ہاتھوں مالک بن نُوَیرہ اور ان کے قبیلہ کا قتل بھی ابوقَتادہ انصاری اور دیگر کچھ صحابہ کے اعتراض کا سبب بنا[21] عمر بن خطاب نے خالد بن ولید کو مالک بن نویرہ کے قتل کی وجہ سے قصاص کا مستحق قرار دیا اور مالک کی بیوی کے ساتھ مباشرت کی وجہ سے سنگسار کئے جانے کا حقدار سمجھا۔ اس کے باوجود ابوبکر، خالد کی حمایت کرتے تھے۔[22]

نتائج

کہتے ہیں کہ ردہ کی جنگیں ابوبکر کے لئے دو طرح کے نتائج لائی تھیں ایک سیاسی نتیجہ اور ایک فوجی نتیجہ۔ سیاسی نتیجہ یہ تھا کہ ان کی حکومت کا بحران کم ہوگیا تھا اور فوجی نتیجہ یہ تھا کہ ایک ایسی جنگ کا تجربہ ہوگیا تھا جس کی وسعت کے برابر اس وقت تک حجاز میں کوئی جنگ وقوع پذیر نہیں ہوئی تھی۔[23]

کلامی نتائج

اسی طرح کلامی مباحث میں عدالت صحابہ کے نظریہ کو باطل کرنے کے لئے ردہ کی جنگوں کے واقعات سے استفادہ کیا جاتا ہے کیونکہ ردہ کی جنگوں کے دونوں فریق صحابہ تھے۔ بعض صحابہ کا مرتد ہوجانا، مالک بن نویرہ کا قتل اور خالد بن ولید کا ان کی زوجہ کے ساتھ ہمبستری کرنا بھی عدالت صحابہ سے سازگار نہیں ہے۔[24]

مونوگراف

تاریخ نگاری کے منابع میں ردہ کی جنگوں کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح اس موضوع پر مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں؛ مثلا:

  • کتاب "الرِّدہ"، تالیف: ابومِخنَف (وفات ۱۵۷ھ)
  • کتاب المَبعث و المَغازی و الوَفاۃ و السَّقیفۃ و الرِّدۃ؛ تالیف: اَبان بن عثمان اَحمری
  • کتاب الرِّدۃ؛ سیف بن عمر اسدی (وفات بعد از ۱۷۰ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ عبداللہ بن وَہب فَہری قُرَشی (وفات ۱۹۷ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ ہشام بن محمد کلبی (وفات ۲۰۴ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ اسحاق بن بشر بخاری (وفات ۲۰۶ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ محمد بن عمر واقِدی (وفات ۲۰۷ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ ابوالحسن علی بن محمد مدائنی (وفات ۲۱۵ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ اسماعیل بن عیسی عطار (وفات ۲۳۲ھ)
  • کتاب الرِّدۃ؛ وَثیمۃ بن موسی فارسی (وفات ۲۳۷ھ)[25]

مزید مطالعہ کے لئے

فارسی کتاب "جنگ‌ہای ارتداد و بحران جانشینی پیامبر(ص)" مؤلفہ علی غلامی دہقی۔ اس کتاب میں شیعہ سنی منابع کا جائزہ لیکر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مدینہ میں خلافت ابوبکر کے خلاف شورش کرنے والوں میں سے کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے لیکن ان میں سے بہت سے لوگوں کے سیاسی اور معاشی مقاصد تھے اس کے باوجود وہ اسلام اور اس کے احکام کو قبول رکھتے تھے ابوبکر نے ان سب گروہوں کو ارتداد کے جرم میں کچل ڈالا۔ مؤسسہ آموزشی و پژوہشی امام خمینی نے یہ کتاب شائع کی ہے۔

حوالہ جات

  1. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۱۵۲۔
  2. فراہیدی، کتاب العین، ۱۴۱۰ق، ج۸، ص۷۔
  3. راغب اصفہانی، مفردات الفاظ القرآن، ۱۴۱۲ق، ص۳۴۹۔
  4. طبری، تاریخ الامم والملوک، ۱۳۸۷ق، ج۳، ص۲۴۲۔
  5. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۴۲۔
  6. واقدی، الردۃ، ۱۴۱۰ق، ص۴۹۔
  7. جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۲۸۔
  8. پاکتچی، «پژوہشی در کتاب‌شناسی جنگ‌ہای ردہ»، ص۲۶۱-۲۶۲۔
  9. واقدی، الردہ، ۱۴۱۰ق، ص۴۹-۵۰۔
  10. جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۲۸۔
  11. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۱۱۔
  12. جعفریان، تاریخ خلفا، ۱۳۸۰ش، ج۲، ص۳۲۔
  13. واقدی، الردہ، ۱۴۱۰ق، ص۱۰۶-۱۰۷۔
  14. ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، ۱۴۱۱ق، ج۱، ص۴۸۔
  15. مسکویہ رازی، تجارب الأمم، ۱۳۷۹ش، ج۱، ص۲۸۰۔
  16. واقدی، الردہ، ۱۴۱۰ق، ص۱۰۷۔
  17. مقدسی، البدء و التاریخ، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، ج۵، ص۱۵۳۔
  18. ابن‌کثیر دمشقی، البدایۃ و النہایۃ، ۱۴۰۷ق، ج۶، ص۳۱۱۔
  19. واقدی، الردہ، ۱۴۱۰ق، ص۵۱۔
  20. مادلونگ، جانشینی حضرت محمد(ص)، ۱۳۷۷ش، ص۷۲۔
  21. ابن‌عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۳۵-۱۳۶۔
  22. ابن‌عماد حنبلی، شذرات الذہب، ۱۴۰۶ق، ج۱، ص۱۳۶۔
  23. غلامی دہقی، جنگ‌ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر(ص)، ص۳۶۔
  24. نیکزاد، «عدالت صحابہ در ترازوی تحقیق»، ص۴۲۔
  25. پاکتچی، «پژوہشی در کتاب‌شناسی جنگ‌ہای ردہ»، ص۲۶۷-۲۷۰۔

مآخذ

  • ابن‌اعثم کوفی، احمد بن اعثم، الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت،‌ دارالاضواء، ۱۴۱۱ھ۔
  • ابن‌سعد، محمد بن سعد، الطبقات الکبری، بیروت،‌ دار الکتب العلمیۃ، چاپ دوم، ۱۴۱۸ھ۔
  • ابن‌کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمر، البدایۃ و النہایۃ، بیروت،‌ دارالفکر، ۱۴۰۷ھ۔
  • ابن‌عماد حنبلی، عبدالحی بن احمد، شذرات الذہب فی اخبار من ذہب، تحقیق الارناؤوط، دمشق، دار ابن کثیر، ۱۴۰۶ھ/۱۹۸۶ھ۔
  • پاکتچی، احمد، «پژوہشی در جنگ‌ہای ردہ»، مقالات و بررسی‌ہا، ش۶۶، ۱۳۷۸ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، تاریخ خلفا، قم، دلیل، ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، بیروت،‌ دارالقلم، چاپ اول، ۱۴۱۲ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد ابوالفضل ابراہیم، بیروت،‌ دارالتراث، چاپ دوم، ۱۳۸۷ھ۔
  • غلامی دہقی، علی، جنگ‌ہای ارتداد و بحران جانشینی پس از پیامبر (ص)، مجلہ معرفت، شمارہ ۴۰، فروردین ۱۳۸۰ہجری شمسی۔
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، کتاب العین، تحقیق مہدی مخزومی، ابراہیم سامرائی، قم، ہجرت، چاپ دوم، ۱۴۱۰ھ۔
  • میڈلونگ، ویلفرڈ، جانشینی حضرت محمد (ص)، ترجمہ احمد نمایی، جواد قاسمی، محمدجواد مہدوی، حیدررضا ضابط، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۷۷ہجری شمسی۔
  • مسکویہ رازی، ابوعلی، تجارب الامم، تحقیق ابوالقاسم امامی، تہران، سروش، چاپ دوم، ۱۳۷۹ہجری شمسی۔
  • مقدسی، مطہر بن طاہر، البدء و التاریخ، بور سعید، مکتبۃ الثقافۃ الدینیۃ، بےتا۔
  • نیکزاد، عباس، «عدالت صحابہ در ترازوی تحقیق»، رواق اندیشہ، شمارہ ۲۸، فروردین ۱۳۸۳ہجری شمسی۔
  • واقدی، محمد بن عمر، الردۃ، تحقیق یحیی الجبوری، بیروت، دار الغرب الاسلامی، چاپ اول، ۱۹۹۰ء/۱۴۱۰ھ۔