حیات محمد (کتاب)
| مشخصات | |
|---|---|
| مصنف | محمد حسین ہیکل |
| موضوع | اسلام |
| زبان | عربی |
| مصحح | تحقیق و تعلیق: گروہ تألیف و تحقیق مجمع جہانی اہلبیت |
| تعداد جلد | 1 جلد |
| صفحات | 895 |
| سائز | وزیری |
| ترجمہ | فارسی، انگریزی و... |
| طباعت اور اشاعت | |
| ناشر | مجمع جہانی اہلبیت اور دیگر انتشارات |
| مقام اشاعت | قم |
| سنہ اشاعت | 1428ھ |
| طبع | اول |
| اردو ترجمہ | |
| نام کتاب | زندگانی محمد (ص) |
| مترجم | ابو القاسم پایندہ |
| مشخصات نشر | تہران، حوزہ ہنری سازمان تبلیغات، سنہ 1375ہجری شمسی |
| ای بک | حیاۃ محمد(ص) |
کتاب حیات محمّد، محمد حسین ہیکل کی تصنیف ہے جو رسولِ اکرمؐ کی سیرت اور حیاتِ مبارکہ کی تاریخ کے موضوع پر عربی زبان میں لکھی گئی ہے۔
اس کتاب میں اہل سنت منابع اور قرآن سے استناد کرتے ہوئے مستشرقین کے نظریات کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ کتاب کا مقصد یورپی قارئین کے سامنے رسولِ اکرمؐ کی شخصیت کو متعارف کرانا ہے۔
کتاب حیات محمد سنہ 1932ء میں شائع ہوئی اور مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ اور بارہا زیور طبع سے آراستہ ہوئی ہے۔ اس کا فارسی ترجمہ زندگانی محمدؐ کے عنوان سے ابو القاسم پایندہ نے کیا۔ اس کتاب کی بعض اشاعتوں، جیسے مجمع جہانی اہل بیت کے محققہ نسخہ میں بعض غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کے ساتھ مزید تعلیقات کا اضافہ کیا گیا ہے۔
اس کتاب پر ہونے والے اعتراضات میں سیرت نبوی کے بعض واقعات کو حد سے زیادہ عقلانی بنانے کی کوشش، شیعہ مصادر سے استفادہ نہ کرنا اور بعض اہم واقعات جیسے واقعۂ غدیر کو پہلی طباعت سے حذف کرنا شامل ہے۔
اجمالی تعارف
کتاب حیات محمد سیرت نبوی کے موضوع پر عربی زبان میں اہل سنت کے تاریخی مصادر کی بنیاد پر تألیف ہوئی ہے۔[1] کہا گیا ہے کہ محمد حسین ہیکل نے اس کتاب کی تصنیف میں سیرت اور تاریخ کے مصادر کے علاوہ قرآن اور مستشرقین کے آثار سے بھی استفادہ کیا اور ان کے افکار و فرضیات کو مہارت اور دقت سے رد کیا۔[2]
اس کتاب کی نمایاں خصوصیت مصنف کا ادبی اور رواں قلم ہے جو کتاب کے مطالب کو سلیس اور آسان نیز اس کے متن کو زیادہ دلکش بناتا ہے۔[3]
مؤلف
محمد حسین ہیکل (1888ء–1956ء)[4][یادداشت 1]ایک مصری شاعر، ادیب، صحافی، وکیل[5] اور سیاستدان تھے جو وزارت اور پارلیمنٹ کی صدارت جیسے عہدے پر فائر رہے ہیں۔[6] وہ پہلے مصری تھے جنہوں نے فرانس سے قانون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔[7] اسی طرح وہ منطق و فلسفہ پر بھی مہارت رکھتے تھے۔[8] ان کے افکار زیادہ تر تین مصری مفکرین: محمد عبدہ، قاسم امین اور احمد لطفی السید سے متاثر تھے۔[9]
ایک زمانے میں انہیں اخوان المسلمین کی قیادت کی پیش کش ہوئی مگر مصروفیات کی بنا پر انہوں نے اس عہدے کو قبول نہیں کیا۔[10] تاریخ اسلام میں ان کی پہلی تاریخی تصنیف یہی کتاب ہے جس کے بعد انہوں نے دیگر تاریخی آثار بھی تحریر کی ہیں۔[11]
خصوصیات
بعض محققین کے مطابق اس کتاب کی خاص اہمیت اس میں ہے کہ یہ کتاب براہِ راست اصلی مصادر، خصوصاً قرآن سے رجوع کرنے اور قرآن کے عدم تحریف پر زور دیتی ہے۔ اسی طرح مستشرقین کے شبہات اور اعتراضات کا مدلل جواب دینا بھی اس کتاب کے دیگر امتیازات میں شمار ہوتا ہے۔[12]
شیخ الازہر محمد مصطفی المراغی نے اس کتاب کے مقدمے میں مصنف کے قلم کی توانائی، علمی و ثقافتی شخصیت، قدیم و جدید ثقافتوں سے آگاہی، سیرت نویسی کے نئے انداز اور اسلامی معاشروں میں اس کتاب کی وسیع پذیرائی پر زور دیا ہے۔[13]
مصنف نے کتاب کے مقدمے میں اس کتاب کی تألیف کا مقصد یوں بیان کیا ہے کہ وہ حضرت محمدؐ کی حقیقی شخصیت کو یورپی اقوام کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب انہوں نے اُن تحریف شدہ مطالب کے رد میں لکھی جو اسلام، قرآن اور رسول اکرمؐ کے بارے میں قاہرہ میں امریکی یونیورسٹی نے طلبہ کے لیے فراہم کیے تھے۔[14]
مضامین
کتاب حیات محمد ایک مقدمہ، تین حصے اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے۔ مصنف نے اس کتاب کے تین بنیادی حصوں- زندگی حضرت محمدؐ، ظہورِ اسلام اور تاریخِ اسلام- میں رسولِ اکرمؐ کی حیات مبارکہ کو اکتیس ابواب میں بیان کیا ہے۔[15]
ابواب کی فہرست
- پہلا باب: اسلام سے پہلے کے عرب علاقوں کی تاریخ اور اس وقت کے ادیان و مذاہب۔[16]
- دوسرا باب: مکہ، کعبہ اور قریش کی تاریخ، منجملہ حضرت ابراہیم کی داستان، حضرت اسماعیل کا نکاح، خانہ کعبہ کی تعمیر، مناسک حج، ابرہہ اور اصحاب فیل کا واقعہ اور عبد المطلب کی عبد اللہ کو قربان کرنے کی نذر۔[یادداشت 2][18]
- تیسرا باب: رسول اکرمؐ کی ولادت سے حضرت خدیجہ کے ساتھ شادی، اس حصے میں آپ کے والدین کی وفات، بنی سعد میں آپ کی پرورش، تجارتی سفر اور ازدواج شامل ہیں۔[19]
- چوتھا باب: شادی سے بعثت تک: خانہ کعبہ کی تعمیر، حکمِ حجر الاسود، بیٹوں کی وفات، غار حراء میں خلوت، اور بعثت کا آغاز۔[20]
- پانچواں فصل: اسلام کی دعوت کا آغاز: اولین مسلمان، دعوت ذوالعشیرہ، اعلانہ دعوت، مظالم اور ہجرت حبشہ۔[21]
- چھٹا باب: افسانۂ غرانیق اور مستشرقین کی طرف سے اس کے حوالہ دینے پر تنقید۔
- ساتواں اور آٹھواں باب: قریش کی سختیاں، میثاق نامہ کی مخالفت، شعب ابی طالب میں محاصرہ، وفاتِ ابوطالب و خدیجہ، طائف کی طرف ہجرت اور معراج۔[22]
- نواں، دسواں اور گیارہواں باب: بیعت عقبہ، ہجرت یثرب، قبلہ کی تبدیلی۔[23]
- بارہواں باب: سرایا و غزوات، اسلام اور جنگ، مستشرقین کے شبہات اور اعتراضات کا رد۔[24]
- تیرہواں سے سولہواں باب تک: غزوہ بدر و احد۔[25]
- سترہواں باب: ازواجِ رسولؐ اور اس سلسلے میں مستشرقین کے نظریات پر تنقید۔[26]
- اٹھارہواں سے تئیسواں باب تک: غزوہ خندق، غزوہ خیبر، جنگ موتہ، صلح حدیبیہ، عمرہ قضا اور مختلف بادشاہوں اور سلاطین کو لکھے گئے خطوط۔[27]
- تئیسواں سے ستائیسواں باب تک: فتح مکہ، غزوہ حنین، غزوہ طائف، آپؐ کے بیٹے ابراہیم کی وفات، غزوۂ تبوک۔[28]
- اٹھائیسواں سے تیسواں باب تک: عام الوفود، حجۃ الوداع، بیماری، رحلت اور تدفین۔
کتاب کا خاتمہ
کتاب کے آخر میں دو موضوعات کا جائزہ لیا گیا ہے:
- اسلامی تمدن قرآن کی روشنی میں
- اسلامی تمدن اور مستشرقین
مصنف نے اس حصے میں اسلام اور اسلامی تمدن کے بارے میں مستشرقین کے نظریات پر تنقید کی ہے، مثلا جبر کے بارے میں واشنگٹن اِروِنگ(Washington Irving) کے عقیدے کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے اسلام میں قضا و قدر کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔[29]
نقد و نظر
کتاب حیات محمد پر کچھ اعتراضات اور تنقیدیں ہوئی ہیں جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
- عقل پسندی کی انتہا: سیرت نبوی کے مختلف واقعات میں مصنف کا حد سے زیادہ عقل پر تکیہ بعض مسلّمات کو نظرانداز کرنے یا انکار کرنے کا سبب بنا ہے۔[30]
- شیعہ منابع اور مصادر سے غفلت: مصنف نے صرف اہل سنت مصادر اور منابع پر اکتفا کیا ہے اور اس سلسلے میں شیعہ منابع سے چشمپوشی کی ہے، نتیجتاً کتاب میں حضرت علیؑ کا کردار بہت کمرنگ دکھائی دیتا ہے۔ صرف حدیث انذار اور لیلۃ المبیت جیسے بعض واقعات میں حضرت علیؑ کا نام لیا گیا ہے اور یہاں تک کہ حدیث غدیر کا ذکر تک بھی نہیں آیا ہے۔[31]
- مؤخر اشاعتوں میں بعض مطالب کو حذف کرنا: بعض اہم مطالب جو پہلی طباعت میں تھے، بعد میں حذف کر دیے گئے ہیں۔[32] شیعہ خطیب اور واعظ سلطان الواعظین شیرازی نے اپنی کتاب شبہای پیشاور میں واقعۂ غدیر اور حجۃ الوداع وغیرہ کے حذف کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔[33]
- تاریخ نویسی کے اسلوب میں انحراف: بعض اعتقادی، تاریخی، حدیثی، سیاسی اور سماجی مباحث میں مصنف کے فہم و ادراک کو بعض ناقدین نے حق اور تاریخ نویسی کے صحیح اسلوب سے انحراف قرار دیا ہے۔[34]

ترجمہ اور اشاعت
کتاب حیاۃ محمد پہلی بار سنہ 1932ء میں[35] تدوین ہوئی اور الازہر کے سربراہ محمد مصطفی المراغی کے مقدمے کے ساتھ مصر میں شائع ہوئی۔[36]
مؤخر طباعتوں میں تبدیلیاں
- دوسری طباعت: کتاب کے مضامین میں لائی گئی بعض تبدیلیاں جن کی طرف مصنف نے کتاب کے مقدمے میں اشارہ کیا ہے۔
- تیسری طباعت: صرف جزوی اور ادبی اصلاحات تک محدود رہی۔[37]
ترجمے اور عالمی اشاعت
یہ کتاب مختلف ناشرین کے ذریعہ فارسی، انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ اور شائع ہوئی۔[38] سنہ 1428ھ تک اس کی بارہ سے زائد بار تجدید اشاعت ہو چکی تھی۔[39]
فارسی ترجمہ زندگانی محمدؐ کے عنوان سے ابوالقاسم پایندہ نے کیا اور بارہا شایع ہوا۔[40]
اس کتاب کا ایک محققہ نسخہ مجمع جہانی اہلبیت نے تعلیقات اور تصحیح کے ساتھ شائع کیا تاکہ غیرشیعی مصنفین سے علمی تعامل ہو سکے۔ اس میں مثبت نکات کی قدردانی کے ساتھ ساتھ واقعۂ غدیر خم جیسے اہم واقعات کی نسبت مصنف کی غلفت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔[41]
حوالہ جات
- ↑ «معرفی کتاب "حیاۃ محمد(ص)" بہ قلم محمد حسین ہیکل»، خبرگزاری ابناء۔
- ↑ ثقفی، «مقایسہ کتاب حیات محمد(ص) اثر حسین ہیکل با کتاب «فروغ ابدیت» اثر آیتاللہالعظمی سبحانی»، 1397ش، ص275۔
- ↑ «معرفی کتاب "حیاۃ محمد(ص)" بہ قلم محمد حسین ہیکل»، خبرگزاری ابناء۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصری، 1993م، ص100 و 132۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص109، 113 و 117۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص126–127 و 131۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص109 و 113۔
- ↑ ہیکل، مقدمۂ حیاۃ محمد، 2014م، ص16۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص133۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص131۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص132۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ھ، ص9 و 33–35۔
- ↑ ہیکل، مقدمۂ حیاۃ محمد، 2014م، ص16، 17 و 45۔
- ↑ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ نگاہ کنید بہ: ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ق؛ «حیات محمد، روایت ہیکل از زندگی پیامبر گرامی اسلام»، باشگاہ خبرنگاران جوان۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص83–98۔
- ↑ ابن ہشام، السیرہ، ج1، ص153–155۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص99–118۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص119–132۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص133–144۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص145–166۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص167–200۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص201–240۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص241–252۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص253–304۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص305–314۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص315–380۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص381–434۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص481–536؛ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ھ، ص36۔
- ↑ سلطان الواعظین، شبہای پیشاور، 1387ش، ص26–28۔
- ↑ «معرفی کتاب "حیاۃ محمد(ص)" بہ قلم محمد حسین ہیکل»، خبرگزاری ابناء۔
- ↑ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ طلعت عطيۃ، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، 1993م، ص131؛ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص4 و 20۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 2014م، ص81۔
- ↑ ہعنوان نمونہ: «حیاۃ محمد»، مؤسسہ ہنداوی؛ «کتاب حیاۃ محمد»، فروشگاہ اینترنتی گیسوم؛ «حیاۃ محمد»، کتابخانہ مدرسہ فقاہت؛ ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ھ۔
- ↑ ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ھ، ص9۔
- ↑ کتاب زندگانی محمد، فروشگاہ اینترنتی گیسوم؛ پایندہ، زندگانی محمد، 1375ش؛ «زندگانی محمد (ص)»، حدیث نت۔
- ↑ «معرفی کتاب "حیاۃ محمد(ص)" بہ قلم محمد حسین ہیکل»، خبرگزاری ابناء؛ ہیکل، حیاۃ محمد، 1428ھ، ص9–10۔
نوٹ
- ↑ محمد حسنین ہیکل (1923 – 2016ء) کے ساتھ اشتباہ نہ ہو۔
- ↑ منابع کے مطابق عبد المطلب نے نذر کی تھی کہ اگر خدا نے انہیں دس بیٹے عطا کیا تو وہ ان میں سے ایک کو خدا کی راہ میں قربان کر دے گا۔ اس سلسلے میں بارہا قرعہ اندازی کے نتیجے میں عبد اللہ کا نام آیا اور آخر کار سو اونٹوں کی قربانی کے ذریعے عبد اللہ کو نجات ملی۔[17]
مآخذ
- ثقفی، سیدمحمد، «مقایسہ کتاب حیات محمد(ص) اثر حسین ہیکل با کتاب «فروغ ابدیت» اثر آیتاللہالعظمی سبحانی»، مجموعہ مقالات ہمایش بررسی اندیشہہای علمی آیتاللہالعظمی جعفر سبحانی (مدظلہالعالی)، دورہ اول، 1397ہجری شمسی۔
- پایندہ، ابوالقاسم، زندگانی محمد، تہران، حوزہ ہنری سازمان تبلیغات، 1375ہجری شمسی۔
- «زندگانی محمد (ص)»، پایگاہ اطلاعرسانی حدیث شیعہ (حدیث نت)، تاریخ اخذ: 3 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- سلطان الواعظین، سیدمحمد موسوی شیرازی، شبہای پیشاور، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1387ہجری شمسی۔
- «حیاۃ محمد»، کتابخانہ مدرسہ فقاہت، تاریخ اخذ: 3 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «حیات محمد، روایت ہیکل از زندگی پیامبر گرامی اسلام»، باشگاہ خبرنگاران جوان، تاریخ درج مطلب: 24 شہریور 1391ش، تاریخ اخذ: 5 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- ہیکل، محمدحسین، حیاۃ محمد، آمریکا، موسسہ ہنداوی، 2014م.
- ہیکل، محمدحسین، حیاۃ محمد، قم، مجمع جہانی اہلبیت(ع)، 1428ھ۔
- «کتاب حیاۃ محمد»، فروشگاہ اینترنتی گیسوم، تاریخ اخذ: 8 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «کتاب زندگانی محمد»، فروشگاہ اینترنتی گیسوم، تاریخ اخذ: 14 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- طلعت عطيۃ، نجاح، محمد حسين ہيكل و الدعوۃ الى الادب القومى المصرى، پایاننامہ کارشناسی ارشد، بيروت، انتشارات الجامعۃ الأمریکیہ، 1993م.
- «معرفی کتاب "حیاۃ محمد(ص)" بہ قلم محمد حسین ہیکل»، خبرگزاری اہلبیت (ابناء)، تاریخ درج مطلب: 24 بہمن 1391ش، تاریخ اخذ: 3 بہمن 1403ہجری شمسی۔
- «The life of Muhammad, amazon, Accessed: 2025/02/21.
- «The life of Muhammad», Internet archive, Accessed: 2025/02/21.