سنۃ الوفود
شخصیتها | |
---|---|
پیغمبر اسلامؑ • حضرت علیؑ • حضرت فاطمہؑ • صحابہ | |
غزوات | |
غزوہ بدر • غزوہ احد • غزوہ خندق • غزوہ خیبر • غزوہ فتح مکہ • دیگر غزوات | |
شہر اور مقامات | |
مکہ • مدینہ • طائف • سقیفہ • خیبر • جنۃ البقیع | |
واقعات | |
بعثت • ہجرت حبشہ • ہجرت مدینہ • صلح حدیبیہ • حجۃ الوداع • واقعۂ غدیر | |
متعلقہ مفاہیم | |
اسلام • تشیع • حج • قریش • بنو ہاشم • بنو امیہ | |
سنۃ الوفود' یا عام الوفود، وفدوں کا سال ہجرت کے بعد نواں سال ہے. (١) اس سال کو سال وفود کہنے کی وجہ یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد، مختلف قبیلوں میں سے کئی گروہ حضرت پیغمبر(ص) کے پاس مدینہ میں آئے اور اسلام قبول کیا اور آپ(ص) نے بھی ان کی طرف محبت اور توجہ کی نگاہ کی.
لفظی معنی
سنہ یا عام کا معنی سال ہے (٢) اور وفد کا معنی وہ گروہ جو کہ کسی کام کے لئے کسی عالی مقام کے پاس جائے. (٣)
نامگذاری کی وجہ
سنہ ٩ ہجری قمری سے پہلے اور بعد مختلف قبیلوں کے گروہ نے حضرت پیغمبر(ص) کی خدمت میں آ کر اسلام کا اظہار کیا، لیکن ان میں سے اکثر سنہ ٩ ہجری قمری کو پیغمبر(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے، (٤) اسی لئے اس سال کو عام الوفود کا نام دیا گیا ہے.
وفد کا اسلام کی جانب رجحان
فتح مکہ کے بعد مختلف قبیلوں سے گروہ کے گروہ حضرت پیغمبر(ص) کی خدمت میں مدینہ میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا اور اعلان کیا کہ آپ(ص) کے پیرو ہیں. پیغمبر(ص) نے بھی پوری محبت اور توجہ سے انکا استقبال کیا. (٥) اسی لئے جزیرہ العرب میں سلوک قائم ہوا اور جنگ آرامش اور صلح میں تبدیل ہو گئی.
شیخ طبرسی لکھتے ہیں: "جب اہل طائف مسلمان ہوئے، تو دوسرے قبیلوں میں سے بھی گروہ کے گروہ مدینہ آئے اور اسلام میں داخل ہو گئے جیسے کے خداوند نے فرمایا ہے." (٦) اور شیخ طبرسی نے اپنے کلام کے آخر میں سورہ نصر کی طرف اشارہ کیا کہ جس میں خداوند نے فتح مکہ اور اس حادثے کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی. (٧) کہ مسلمانوں کی فتح قریب ہے(١) اور تم دیکھ رہے ہو کہ لوگ دستہ دستہ دین خدا کی جانب آ رہے ہیں(٢)
سنہ ٩ ہجری سے پہلے اور بعد میں بھی یہ گروہ پیغمبر(ص) کے پاس آتے رہے. یعقوبی نے اپنی تاریخ میں ٢٦ قبیلوں کا نام لکھا ہے جو مدینے میں آئے. (٨)
بعض وفد کی تفصیل
وفد اسد
دس مرد (بنی اسد بن خزیمہ) کے وفد سے ٩ ہجری قمری کے اوائل میں رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا جن میں سے بعض کا نام یہاں بیان ہوا ہے.
«ضِرار بن أزوَر» «طُلَیحة بن خُوَیلِد» «حَضرَمی بن عامر» ان افراد نے عجیب منت آمیز بات کی جس کی وجہ سے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: (وہ سمجھتے ہیں کہ) انہوں نے اسلام لا کر تم پر احسان کیا ہے ان سے کہہ دو: اپنے اسلام لانے کو مجھ پر احسان نہ سمجھو بلکہ یہ اللہ کی طرف سے تم پر احسان ہے کہ تم لوگوں کو ایمان کی طرف ہدایت فرمائی ہے، اگر سچ بولنے والے ہو تو. (٩) کچھ اہل طائف کے ساتھ ان کی (بنی الزنیہ) بھی تھیں. (١٠)
وفد فزارہ
جب رسول خدا(ص) جنگ تبوک سے واپس لوٹے بنی فزارہ کے دس مرد جن میں سے ایک خارجہ بن حصن ہے رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے اسلام کا اعلان کیا اور اپنی سرزمین کی قحطی اور خشک سالی کے بارے میں بتایا. رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور ان کے لئے دعا فرمائی اور چھ دن ایسی بارش آئی کہ آسمان نظر نہ آتا تھا. اس کے بعد دوبارہ رسول خدا(ص) رونق افروز منبر ہوئے اور دعا فرمائی تو بادل ہٹے اور بارش رک گئی. (١١)
وفد ہلال بن عامر
بنی ہلال کے چند افراد رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے، جن میں سے ایک عبدعوف بن اصرم تھا جس کو رسول خدا(ص) نے عبداللہ نام سے پکارا اور ایک زیاد بن عبداللہ بن مالک جو کہ اپنی خالہ حارث کی بیوی ام المومنین میمونہ کے گھر آیا، اور رسول خدا(ص) اسے اپنے ہمراہ مسجد لے گئے اور ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد اسے اپنے پاس بٹھایا اور اپنا دست مبارک اس کے سر اور ناک تک پھیرا، اسی وجہ سے جب تک وہ زندہ رہا اس کے چہرے پر نور کا اثر باقی رہا. (١٢)
وفد بن کنانہ
بنی لیث بن بکر بن عبد مناہ بن کنانہ کے گروہ سے ایک مرد جس کا نام واثلہ بن اسقع لیثی کنانی تھا سنہ ٩ہجری قمری کو جب رسول خدا(ص) جنگ تبوک کی تیاری فرما رہے تھے تو آپ کے پاس مدینے میں آیا اور صبح کی نماز آپکی اقتدا میں ہی ادا کی. رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: تم کون ہو اور کیوں آئے ہو اور کیا چاہئے؟ واثلہ نے اپنی نسبت بتائی اور کہا کہ آیا ہوں تا کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤں. رسول خدا(ص) نے فرمایا پس جو میں پسند کرتا ہوں اور جس میں کراہت کرتا ہوں اس کی بیعت کرو. واثلہ نے بیعت کی اور اپنے شہر واپس لوٹ گیا اور اپنے اسلام قبول کرنے کی خبر اپنے خاندان والوں کو سنائی.
اس کے والد نے کہا: خدا کی قسم اس کے بعد کبھی تم سے ایک بات بھی نہیں کروں گا. لیکن اس کی بہن نے جب سنا تو اس نے بھی اسلام قبول کر لیا اس کے بعد واثلہ دوبارہ مدینہ لوٹ گیا. جب وہاں پہنچا تو رسول خدا(ص) تبوک کے سفر پر روانہ ہو چکے تھے. واثلہ نے کہا:جو کوئی مجھے اپنی سواری پر بٹھا کر رسول خدا(ص) تک پہنچا دے گا میرے حصے کا مال غنیمت اس کا ہو گا کعب بن عجرہ بلوی نے اسے سوار کیا اور رسول خدا(ص) کے ساتھ ملحق کر دیا.... اور جب غنیمت حاصل کی اسے کعب بن عجرہ کے پاس لایا تو اس نے قبول نہ کی اور کہا کہ یہ مال خدا تمہیں نصیب کرے میں خدا کی خاطر تمہیں سوار کر کے لایا ہوں. (١٣)
وفد تجیب
تجیب شہر سے تیرہ مرد واجب صدقات اور اپنے اموال لے کر رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے. رسول خدا(ص) ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ان کا احترام کیا اور انکو خوش آمدید کہا اور بلال کو حکم دیا کہ اچھے طریقے سے ان کی خاطر داری کرے اور انکو بہترین تحفے دے. اس کے بعد رسول خدا(ص) نے فرمایا: کیا آپ میں سے کوئی باقی رہ گیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں ہمارا سب سے بوڑھا غلام جس کو ہم اپنے سامان و اموال کے پاس بٹھا کر آئے ہیں. آپ(ص) نے فرمایا اسے میرے پاس لے آؤ. غلام رسول خدا(ص) کے پاس آیا اور کہا میں اسی جماعت میں سے ہوں جن کی حاجات آپ نے برآوردہ کی ہیں، کیا آپ میری حاجت بھی پوری کر سکتے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: تمہاری حاجت کیا ہے؟ اس نے کہا خداوند سے دعا کرو کہ وہ مجھ پر اپنی رحمت نازل کرے اور میرے گناہوں کو معاف کر دے اور مجھے بے نیاز کر دے. رسول خدا(ص) نے اس کے حق میں یہی دعا فرمائی اور اپنے اصحاب سے فرمایا کہ اسے بھی وہی کچھ دیں جو دوسروں کو دیا ہے. اس کے بعد وہ لوٹ گئے.
سنہ دس ہجری قمری کو جب رسول خدا(ص) نے اسی جماعت کو منی میں دیکھا تو اس غلام کے بارے میں دریافت کیا. جواب ملا: خدا کی دی ہوئی روزی پر اس سے زیادہ راضی اور قانع کسی کو نہیں دیکھا. آپ(ص) نے فرمایا کہ امید ہے کہ ہم سب اسی طرح خدا کی عطا کردہ چیزوں پر راضی ہوں. (١٤)
باقی وفود کے بارے میں تفصیلات جاننے کے لئے تاریخی کتب کو ملاحظہ فرمائیے.
سنہ ٩ ہجری کے دوسرے اہم واقعات
- اس سال چھ سریہ وقوع پذیر ہوئے:
- عُیَینۃ بن حِصن فزاری کا سریہ
- ضحاک بن سُفیان کِلابی کا سریہ
- وہ سریہ جس میں تمامہ کو گرفتار کیا گیا
- عَلقَمۃ بن مُجَزّز مُدلِجی کا سریہ
- علی بن ابی طالب(ع) کا سریہ
- عُکّاشۃ بن مِحص کا سریہ.[(١٥)
- جنگ تبوک
- کچھ لوگوں کی جنگ میں شرکت نہ کرنے کے لئے بہانہ جوئی کرنا اور انکے بارے میں قرآنی آیات کا نزول (١٦)
- وَ مِنْهُم مَّن يَقُولُ ائْذَن لىِّ وَ لَا تَفْتِنىِّ أَلَا فىِ الْفِتْنَةِ سَقَطُواْ وَ إِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيطَةُ بِالْكَفِرِين
ترجمہ:اور ان میں سے وہ جو کہتا ہے: مجھے جنگ پر نہ جانے کی رضایت دے اور مجھے فتنے میں نہ ڈال انکو خبر دے دو کہ وہ خود فتنے میں ہیں اور بے شک جہنم کافروں پر احاطہ کیا ہوئے ہے. (١٧)
- منافقین کا جنگ میں شرکت سے انکار اور انکے بارے میں قرآنی آیات کا نزول
- ...وَ قَالُواْ لَا تَنفِرُواْ فىِ الحَْرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ أَشَدُّ حَرًّا لَّوْ كاَنُواْ يَفْقَهُون
ترجمہ:اور کہا: اس گرمی میں باہر نہ جائیں. کہو: اگر سمجھیں تو جہنم کی آگ اس سے زیادہ گرم اور جلانے والی ہے. (١٨)
- حضرت پیغمبر(ص) کے ہاتھوں علی ابن ابی طالب کو جانشین مقرر کرنا اور انکی منزلت پر حدیث بیان کرنا (١٩)
- اصحاب عقبہ کا واقعہ (٢٠)
- مسجد ضرار کی تعمیر اور اس کے بارے میں آیات کا نزول. (٢١)