قاعدہ جب

ویکی شیعہ سے
(الاسلام یجب ما قبله سے رجوع مکرر)

قاعدہ جَبّ ایک فقہی قاعدہ ہے جس کے مطابق کافر کا اسلام قبول کرنے سے اس کی سابقہ ​​غلطیوں کی تلافی ہو جائے گی اور اسلام قبول کرنے سے پہلے جو عبادتیں اس نے ادا نہیں کیں، اسلام لانے کے بعد ان کی قضا بجا لانا ضروری نہیں ہے۔ یہ قاعدہ شرعی احکام کے بہت سے ابواب جیسے نماز، روزہ، زکات، حج اور حدود میں موثر ہے، لیکن دیت، تینوں طہارت (وضو، غُسل اور تیمم) اور قرض جیسے معاملات میں اس کا کوئی اثر نہیں ہے، اور کافر پر واجب ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد انہیں انجام دے۔

سید محمدکاظم یزدی وہ پہلے فقیہ سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اس کو فقہی قاعدہ کے طور پر بیان کیا۔ بعض فقہاء غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب اور تشویق دینے کو اس قاعدے کی حکمت قرار دیا ہے اور اس کی شرعی توجیہ کے لیے آیات، احادیث، سیرت نبوی اور بنائے عقلا سے استناد کیا ہے۔

اہمیت

قاعدہ جَبّ، ان کافروں کے بارے میں ہے جو مسلمان ہو جاتے ہیں۔[1] اس قاعدے کے مطابق کافروں کے ماضی کا ان کے مستقبل پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہے؛ کیونکہ اسلام ماضی کو مستقبل سے کاٹ دیتا ہے۔[2] سید محمدکاظم یزدی کے مطابق اس قاعدے میں صرف اصلی کافر شامل ہیں؛ یعنی وہ شخص جس نے پہلی بار اسلام قبول کیا ہے، نہ کہ وہ شخص جو مسلمان تھا، مرتد ہوا اور دوبارہ توبہ کر لی۔[3]

شیعہ مرجع تقلید سید ابو القاسم خوئی کی رائے کے مطابق، مشہور فقہاء کا خیال ہے کہ مسلمانوں کی طرح غیر مسلم بھی جس طرح سے اصول عقاید پر مکلف ہیں اسی طرح فروع دین (احکام شرعی) پر بھی مکلَّف ہیں؛[4] اس لیے اس نے اور فقہاء کے دوسرے ایک گروہ نے مشہور قول کو قبول نہیں کیا ہے۔[5]

نیز شیعہ فقہاء کے نزدیک قاعدہ جَبّ میں صرف وہی مذہبی فرائض شامل ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے اور اگر چوری جیسے کام جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پہلو ہوں تو حد کا نفاذ جو کہ حقوق اللہ سے متعلق ہے وہ ختم ہو جاتا ہے، لیکن جو حقوق العباد کا پہلو ہے وہ اس قاعدے کے تابع نہیں؛[6] پندرہویں صدی ہجری کے شیعہ فقیہ جعفر سبحانی نے وضاحت کی ہے کہ یہ ایک امتنانی قاعدہ ہے جسے سختیوں کو دور کرنے اور ضرر کو دفع کرنے کے لئے تشریع کیا گیا ہے۔[7] اور ان افراد سے حقوق العباد کا خاتمہ دوسروں کے حقوق کے ضائع ہونے کا باعث بنتا ہے جو کسی بھی طرح سے امتنان نہیں ہوگا۔[8]

اس قاعدہ کو فقہاء نے فقہ کے مختلف ابواب جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور حدود میں نقل کیا ہے۔[9] کہا گیا ہے کہ اس قاعدے کی حکمت غیر مسلموں کو مسلمان بننے کی ترغیب دینا ہے۔ [10] شیخ طوسی پہلے فقیہ ہیں جنہوں نے کتاب الخلاف میں حدیثِ جَبّ (الإسلامُ یجُبُّ ما قَبلَہُ) کے بارے میں استدلال کیا ہے اور کتاب العروۃ الوثقی کے مصنف سید محمد کاظم یزدی پہلے فقیہ ہیں جس نے اسے فقہی قاعدہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔[11]

مفہوم شناسی

شیعہ فقہ میں قاعدہ جَبّ ایک اصل ہے جس کے مطابق اگر کسی کافر یا مشرک نے مسلمان ہونے سے پہلے کوئی کام کیا ہو، کوئی نامناسب بات کہی ہو، یا کوئی غلط عقیدہ رکھا ہو جو کہ اسلام میں سزا کے مستحق ٹھہرتا ہے تو مسلمان ہونے پر اسے معاف کر دیا جاتا ہے اور اس کی تلافی کرنا ضروری نہیں ہے۔[12] "جَب" عربی لغت میں کاٹنے، اور نظر انداز کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔[13]

ادلہ اور مستندات

اس قاعدے کے شرعی جواز کے لیے قرآنی آیات، احادیث، سیرت النبی اور بنائے عقلا کا حوالہ دیا گیا ہے۔

آیات

قاعدہ جب کو ثابت کرنے کے لیے فقہاء نے سورہ انفال کی آیت نمبر 38 سے استناد کیا ہے:«قُلْ لِلَّذِینَ کفَرُوا إِنْ ینْتَہُوا یغْفَرْ لَہُمْ مٰا قَدْ سَلَفَ وَ إِنْ یعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِینَ.»[14][یادداشت 1] مقدس اردبیلی نے کتاب مجمع الفائدۃ و البرہان میں کہا ہے کہ اس آیت میں صرف ان گناہوں کی معافی شامل ہے جو انسان نے کفر کی حالت میں کیے ہوں؛ اور مسلمان ہونے سے پہلے جن عبادات کو انجام نہیں دیا ہے ان کی قضا واجب نہ ہونا اس آیت سے نہیں سمجھا جا سکتا۔[15] سورہ نساء کی آیت نمبر 22 اور سورہ مائدہ کی آیت نمبر 95 اس قاعدے کی دوسری سندیں ہیں۔[16]

روایات اور سیرت النبی

حدیث «الإسلامُ یجُبُّ ما قَبلَہُ» اس قاعدے کے جواز کے لیے استعمال کی گئی احادیث میں سب سے مشہور حدیث ہے۔[17] حوزہ علمیہ قم کے استاد محمد رضا مبلغی کے مطابق، فقہاء اس حدیث کو ضعیف مانتے ہیں،[18] لیکن صاحب جواہر کا خیال ہے کہ اس حدیث پر عمل کرنے سے اس کی سند اور دلالت کی کمزوری کی تلافی ہو جاتی ہے۔ اور دوسری طرف اس کا مضمون بھی سورہ انفال کی آیت نمبر 38 سے موافق ہے۔[19] فقہی محقق زارعی سبزواری نے اس قاعدے کے جواز میں امام علیؑ کی ایک روایت سے استناد کیا ہے[20] جس میں کہا گیا ہے کہ "مسلمان ہونا ماضی کو تباہ کر دیتا ہے۔"[21] اس قاعدے کے شرعی جواز میں۔ چودہویں صدی کے ایک فقیہ علی مشکینی نے بھی اس قاعدے کے لئے بیان کی گئی دلائل کو بتاتے ہوئے صحیح مسلم میں رسول اللہؐ سے منقول ایک حدیث اور امام باقرؑ کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے۔[22]

نجف کے مرجع تقلید محمد حسین کاشف الغطاء کے مطابق، نئے مسلمانوں کو کفر کے زمانے میں انجام نہیں پانے والی نمازوں اور مالی واجبات کی ادائیگی کی ضرورت نہیں ہے۔[23] شیعہ مرجع تقلید محمد فاضل لنکرانی کا خیال ہے کہ رسول اللہؐ کا مقصد کافروں کے لیے اسلام قبول کرنے میں آسانی پیدا کرنا اور تشویق کرنا تھا، جیسا کہ مغیرۃ بن شعبہ و عمرو بن عاص، جن کے ماضی کو نظر انداز کر دیا گیا۔[24]

بناء عقلا

ناصر مکارم شیرازی کا کہنا ہے کہ بنائے عقلا جسے شارع نے منظور کیا ہے، قوانین ماضی کو شامل نہیں ہوتی ہیں (عقلا کے قائم کردہ قوانین میں ماضی کے مقدمات شامل نہیں ہوتے ہیں)۔[25]

فقہی آثار

اس قاعدہ کے لئے فقہ کے مختلف موضوعات میں بعض آثار اور نتائج بیان ہوئے ہیں:

موارد شمول قاعدہ

  1. شرک کے آثار: شیعہ مرجع تقلید سید محمد ہادی میلانی کے نقطہ نظر کے مطابق کافر کے مسلمان ہونے کے بعد شرک اور کفر کے اثرات جیسے نجاست اور اس سے منسوب گناہ کو ان سے اٹھایا جاتا ہے۔[26]
  1. عبادتوں کی قضا: نماز، روزہ اور حج ان عباتوں میں سے ہیں جو کافر کے مسلمان ہونے کے بعد ان کے ذمے سے اٹھائی جاتی ہیں اور ان کی قضا واجب نہیں ہے۔[27]
  2. مالی واجبات: مشہور شیعہ فقہا کی نظر کے مطابق مالی واجبات میں خمس اور زکات جیسے واجبات بھی معاف ہوجاتے ہیں اور مسلمان ہونے کے بعد پچھلی مالی عبادتوں کی قضا واجب نہیں ہے۔[28] البتہ سید محمد رضا گلپایگانی کا کہنا ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد مالی زکات ادا کرنا چاہئے۔[29]
  3. عقود و ایقاعات: کفر کی حالت میں جو عقود اور ایقاعات انجام دئے ہیں جیسے؛ گھر بیچا ہو، شادی اور طلاق (اگرچہ بعض شرائط کی رعایت بھی نہ کی گئی ہو) کو صحیح قرار دئے گئے ہیں،[30] لیکن اسلام میں حرام شادیاں جیسے، دو بہنوں کے ساتھ شادی یا ماں یا بہن سے شادی کی ہو تو اسلام لانے کے بعد وہ باطل ہیں۔[31]
  4. حدود: شیعہ مرجع تقلید جعفر سبحانی کہتے ہیں کہ بعض حدود الہی جو بعض جرائم کی وجہ سے واجب ہوتے ہیں جیسے چوری، شُرب خَمر اور زِنا جنہیں کفر کی حالت میں انجام دیا ہے تو وہ حد بھی اس شخص سے ساقط ہوتی ہے۔[32]
  5. ارث: شیخ صدوق کا کہنا ہے کہ اگر شخص ارث تقسیم کرنے سے پہلے مسلمان ہوئے تو ارث میں حصہ دار ہوگا۔[33]

موارد عدم شمول قاعدہ

  1. قصاص و دیہ: بعض کا نظریہ ہے کہ یہ قاعدہ قصاص کو شامل نہیں کرتی ہے اور اگر کوئی کافر قصاص کا حقدار ٹھہرا ہو تو مسلمان ہونے کے بعد اس سے قصاص ختم نہیں ہوتی ہے۔[34] اس کے مقابلے میں بعض کا کہنا ہے کہ اس قاعدے کے مطابق قصاص بھی اٹھائی جاتی ہے۔[35] حوزہ علمیہ نجف کے استاد سید حسن بجنوردی نے دیت کو اس شخص سے اٹھانا اللہ تعالی کے لطف و امتنان کے برخلاف سمجھا ہے ان کا کہنا ہے کہ نئے مسلمان کو دیت ادا کرنی چاہئے۔[36]
  2. طہارت ثلاثہ: مشہور فقہا کا کہنا ہے کہ اگر کافر کفر کی حالت میں ایسا کام انجام دے جس سے طہارت ثلاثہ (وضو، غسل، تیمم) اس پر واجب ہوتی ہیں تو مسلمان ہونے سے حدث اکبر یا حدث اصغر اس سے دور نہیں ہوتے ہیں اور عبادت بجا لانے کے لئے طہارت کرنا ضروری ہے۔[37]
  3. قرضے اور ضمانتیں: مقدس اردبیلی کے مطابق اسلام لانے سے اس شخص کے قرضے اور مالی ضمانتیں ختم نہیں ہوتی ہیں اور اس میں فقہا کا اجماع ہے۔[38]

فقہ میں بعض موارد مشکوک موارد کے طور پر معین ہوئے ہیں اور یہ واضح نہیں ہے کہ قاعدہ جب انہیں شامل کرتی ہے یا نہیں ۔ مثلاً یہودی والدین کا بچہ جس کے والدین نے یہودی شریعت میں رائج طریقے سے نکاح نہیں کیا ہو تو یہ بچہ مسلمان ہونے کے بعد ولد الزنا ہوگا یا نہیں، اور مسلمان ہونے کے بعد قاعدہ جب اسے شامل کرے گی یا نہیں؟ صاحب جواہر نے اس بارے میں کوئی حکم بیان نہیں کیا ہے۔[39]

حوالہ جات

  1. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1370شمسی، ج2، ص171.
  2. بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص50.
  3. طباطبایی یزدی، العروۃ الوثقی، 1409ھ، ج2، ص465.
  4. خویی، موسوعۃ الإمام الخویی، 1418ھ، ج23، ص128.
  5. خویی، موسوعۃ الإمام الخویی، 1418ھ، ج23، ص128؛ سیفی، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیہ، 1425ھ، ج3، ص77.
  6. مرعشی نجفی، القصاص علی ضوء القرآن و السنۃ، 1415ھ، ج1، ص302؛ فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، 1416ھ، ص266-267.
  7. سبحانی تبریزی، الإیضاحات السنیۃ، 1436ھ، ج3، ص74.
  8. سبحانی تبریزی، الإیضاحات السنیۃ، 1436ھ، ج3، ص74؛ مجدخوانی، فخلعی و دیگران، «مفہوم شناسی امتنان و سنجش با واژگان مشابہ»، ص601.
  9. لطفی، «بررسی قاعدہ جَبّ (الاسلامُ یجُبُّ ما قَبْلَہ)»، ص41-42.
  10. مؤسسۃ دائرۃالمعارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج13، ص49.
  11. مؤسسۃ دائرۃالمعارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج13، ص50.
  12. بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص50.
  13. ابن اثیر، النہایۃ، 1367شمسی، ج1، ص233و234.
  14. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج21، ص259؛ آقاضیاء عراقی، شرح تبصرۃ المتعلمین، 1414ھ، ج4، ص361؛ منتظری، کتاب الزکاۃ، 1409ھ، ج1، ص137.
  15. مقدس اردبیلی، مجمع الفائدۃ و البرہان، 1403ھ، ج 3، ص236.
  16. مصطفوی، مائۃ قاعدۃ فقہیۃ، 1421ھ، ص41.
  17. فقیہ، قواعد الفقیہ، 1407ھ، ص166؛ علامہ حلّی، نہایۃ الإحکام، 1419ھ، ج2، ص308؛ شیخ انصاری، کتاب الصوم، 1413ھ، ص195.
  18. مبلّغی، «بررسی قاعدۀ جَبّ با نگاہی تاریخی و تطبیقی»، ص114.
  19. نجفی، جواہر الکلام، 1404ھ، ج15، ص62.
  20. زارعی سبزواری، القواعد الفقہیۃ، 1430ھ، ج9، ص330.
  21. ابن حیون، شرح الأخبار، 1409ھ، ج2،ص317.
  22. مشکینی، مصطلحات الفقہ، 1392شمسی، ص191.
  23. کاشف الغطاء، تحریر المجلۃ، 1359ھ، ج1، ص93.
  24. فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، 1416ھ، ص261-262.
  25. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1370شمسی، ج2، ص188.
  26. میلانی، محاضرات فی فقہ الإمامیۃ، 1395ھ، ج1، ص80.
  27. نجفی، جواہر الکلام، ج17، ص301؛ سبحانی تبریزی، الإیضاحات السنیۃ، 1436ھ، ج3، ص76.
  28. سبزواری، کفایۃ الاحکام، 1381شمسی، ج1، ص170.
  29. گلپایگانی، الدر المنضود، 1412ھ، ج3، ص264.
  30. فاضل لنکرانی، القواعد الفقہیہ، 1416ھ، ص269؛ مؤسسۃ دائرۃ المعارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج13، ص61.
  31. غیور باغبانی، «بررسی تطبیقی دو قاعدہ جب و عفو عمومی از منظر فقہ و حقوق»، ص112.
  32. سبحانی تبریزی، الإیضاحات السنیۃ، 1436ھ، ج3، ص78.
  33. شیخ صدوق، المقنع، 1415ھ، ص507.
  34. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1370شمسی، ج2، ص184؛ سبحانی تبریزی، الإیضاحات السنیۃ، 1436ھ، ج3، ص82-83؛ مؤسسۃ دائرۃ المعارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی، 1423ھ، ج13، ص57.
  35. مدنی کاشانی، کتاب القصاص، 1410ھ، ص74.
  36. بجنوردی، القواعد الفقہیۃ، 1419ھ، ج1، ص54.
  37. مکارم شیرازی، القواعد الفقہیۃ، 1370شمسی، ج2، ص182.
  38. حسینی عاملی، مفتاح الکرامۃ، 1419ھ، ج9، ص597.
  39. نجفی، جواہرالکلام، ج13، ص325.

نوٹ

  1. (اے رسول(ص)) کافروں سے کہہ دو کہ اگر وہ اب بھی (شرارت سے) باز آجائیں۔ تو جو کچھ گزر چکا وہ انہیں معاف کر دیا جائے گا۔ اور اگر وہ اپنی سابقہ روش کا اعادہ کریں گے تو پھر گزشتہ (نافرمان) قوموں کے ساتھ (خدا کی روش) بھی گزر چکی ہے (ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا)۔ (محمد حسین نجفی، ترجمہ قرآن

مآخذ

  • قرآن کریم.
  • ابن اثیر، النہایۃ فی غریب الحدیث و الأثر، تحقیق محمود محمد طناحی، قم، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، 1367ہجری شمسی۔
  • ابن حیون، نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار(ع)، قم، جامعہ مدرسین، 1409ھ۔
  • اردبیلی، احمد بن محمد (مقدس اردبیلی)، مجمع الفائدۃ و البرہان فی شرح إرشاد الأذہان، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
  • بجنوردی، سید حسن، القواعد الفقہیۃ، قم، نشر الہادی، 1419ھ۔
  • بحرالعلوم، محمد بن محمدتقی، بلغۃ الفقیہ، تہران، مکتبۃ الصادق(ع)، 1362ہجری شمسی۔
  • حسینی میلانی، سید محمدہادی، محاضرات فی فقہ الإمامیۃ: کتاب الزکاۃ، مشہد، مؤسسہ چاپ و نشر دانشگاہ فردوسی، 1395ھ۔
  • حسینی عاملی، سیدجواد بن محمد، مفتاح الکرامۃ فی شرح قواعد العلاّمہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1419ھ۔
  • خویی، سید ابوالقاسم، موسوعۃ الإمام الخویی، قم، مؤسسۃ إحیاء آثار الامام الخویی، 1418ھ۔
  • زارعی سبزواری، عباسعلی، القواعد الفقہیۃ فی فقہ الإمامیۃ، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1430ھ۔
  • سبحانی تبریزی، جعفر، الإیضاحات السنیۃ للقواعد الفقہیۃ، قم، مؤسسۃ الإمام الصادق(ع)، 1436ھ۔
  • سبزواری، محمدباقر، کفایۃ الاحکام، قم، مؤسسۃ النشر الاسلامی، 1381ہجری شمسی۔
  • سیفی، علی اکبر، مبانی الفقہ الفعال فی القواعد الفقہیۃ الأساسیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1425ھ۔
  • شیخ انصاری، مرتضی، کتاب الصوم، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1413ھ۔
  • شیخ صدوق، محمّد بن علی، المقنع، قم، مؤسسہ امام ہادی(ع)، 1415ھ۔
  • طباطبایی یزدی، سید محمدکاظم، العروۃ الوثقی، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی للمطبوعات، 1409ھ۔
  • عراقی، ضیاءالدین، شرح تبصرۃ المتعلمین (الطہارۃ إلی الإجارۃ)، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1414ھ۔
  • علامہ حلّی، حسن بن یوسف، نہایۃ الأحکام فی معرفۃ الأحکام، قم، مؤسسہ آل البیت(ع)، 1419ھ۔
  • غیور باغبانی، سید علی، «بررسی تطبیقی دو قاعدہ جب و عفو عمومی از منظر فقہ و حقوق»، مطالعات اسلامی: فقہ و اصول، شمارہ 100، 1394ہجری شمسی۔
  • فاضل لنکرانی، محمد، القواعد الفقہیہ، قم، چاپخانہ مہر، 1416ھ۔
  • فقیہ، محمدتقی، قواعد الفقیہ، بیروت، دارالأضواء، 1407ھ۔
  • کاشف الغطاء، محمدحسین، تحریر المجلۃ، نجف، المکتبۃ المرتضویۃ، 1359ہجری شمسی۔
  • گلپایگانی، سید محمّدرضا، الدر المنضود فی أحکام الحدود، قم، دار القرآن الکریم، 1412ھ۔
  • لطفی، اسداللہ، «بررسی قاعدہ جَبّ (الاسلامُ یجُبُّ ما قَبْلَہ)»، مجلہ دانشکدہ حقوق و علوم سیاسی، دورہ40، شمارہ 1050، تیر 1377ہجری شمسی۔
  • مؤسسۃ دائرۃ معارف الفقہ الإسلامی، موسوعۃ الفقہ الاسلامی طبقاً لمذہب أہل البیت(ع)، قم، مؤسسۃ دائرۃ معارف الفقہ الإسلامی، 1423ھ۔
  • مبلّغی، محمدرضا، «بررسی قاعدۀ جَبّ با نگاہی تاریخی و تطبیقی»، جستارہای فقہی و اصولی، سال سوم، شمارہ پیاپی ہشتم، پاییز 1396ہجری شمسی۔
  • مجدخوانی، بہروز، و بہروز فخلعی و دیگران، «مفہوم شناسی امتنان و سنجش با واژگان مشابہ»، پژوہش ہای فقہی، دورہ 15، شمارہ چہارم، 1398ہجری شمسی۔
  • مدنی کاشانی، رضا، کتاب القصاص للفقہاء و الخواص، قم، مؤسسۃ النشر الإسلامی، 1410ھ۔
  • مرعشی نجفی، شہاب الدین، القصاص علی ضوء القرآن و السنۃ، قم، کتابخانہ عمومی حضرت آیت اللہ العظمی مرعشی نجفی، 1415ھ۔
  • مشکینی اردبیلی، علی، مصطلحات الفقہ، قم، مؤسسہ علمی فرہنگی دار الحدیث، 1392ہجری شمسی۔
  • مصطفوی، سید محمدکاظم، مائۃ قاعدۃ فقہیۃ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1421ھ۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، ترجمہ قرآن، قم، دفتر مطالعات تاریخ و معارف اسلامی، 1373ہجری شمسی۔
  • مکارم شیرازی، ناصر، القواعد الفقہیۃ، قم، مدرسہ امام امیر المؤمنین(ع)، 1370ہجری شمسی۔
  • منتظری، حسینعلی، کتاب الزکاۃ، قم، المرکز العالمی للدراسات الاسلامیۃ، 1409ھ۔
  • نجفی، محمدحسن (صاحب جواہر)، جواہر الکلام فی شرح شرائع الإسلام، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1404ھ۔
  • نیشابوری، مسلم، صحیح مسلم، بیروت، دار الفکر، بی تا.