ابان بن عثمان احمری
کوائف | |
---|---|
نام: | ابان بن عثمان احمر بجلی |
لقب: | احمر، ابو عبداللہ |
جائے پیدائش | کوفہ |
مقام سکونت | بصرہ، کوفہ |
وفات | دوسری صدی ہجری |
مقام وفات | مدینہ |
اصحاب | امام صادقؑ اور امام کاظمؑ کے صحابی |
مشائخ | ابوبصیر • زرارہ • ابوعبیدہ حذا • لیث مرادی و... |
شاگرد | فضالۃ بن ایوب ازدی • ابن ابی عمیر • بزنطی • حسن بن محبوب و... |
تالیفات | کتاب المبعث و المغازی و الوفاۃ و السقیفۃ و الردۃ |
ابان بن عثمان احمری بجلی (متوفی سنہ 2 ھ) امام جعفر صادق علیہ السلام و امام موسی کاظم علیہ السلام کے اصحاب اور اصحاب اجماع میں سے ہیں، انہوں نے امام صادق (ع) سے بلا واسطہ روایات نقل کی ہیں۔ ابان شعراء، انساب اور ایام عرب سے مربوط اخبار و روایات سے بھی آشنائی رکھتے تھے اور انہوں نے سیرہ پیغمبر (ص) پر ایک کتاب بھی تحریر کی ہے۔ بعض افراد کے اس دعوی کے باوجود کہ وہ فاسد المذہب تھے، شیعہ علمائے رجال نے ان کے ثقہ و قابل اعتبار ہونے کی تائید کی ہے۔
تعارف
ابان بن عثمان احمری بجلی کوفی الاصل تھے اور کوفہ و بصرہ میں زندگی بسر کرتے تھے۔ اہل بصرہ میں سے معمر بن مثنی اور محمد بن سلام نے ان سے شعراء، انساب اور ایام عرب کے سلسلہ میں اخبار اور مطالب نقل کئے ہیں۔[1] رجال کشی کی ایک روایت کے مطابق وہ اہل بصرہ، تجبیلہ قبیلہ کے غلام اور کوفہ میں رہائش پذیر تھے۔[2]
منابع رجال اور احادیث کی اسناد میں انہیں ابان بن احمر،[3] ابان احمر، ابان احمری،[4] ابان بن عثمان احمر،[5] و ابان بن عثمان[6] جیسے ناموں سے بھی یاد کیا گیا ہے۔[7] ان کی کنیت ابو عبد اللہ ذکر ہوئی ہے۔[8]
وثاقت
ابان امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔[9] البتہ شیخ طوسی نے ان کا ذکر صرف امام صادق (ع) کے اصحاب میں کیا ہے۔[10] ان کا شمار اصحاب اجماع اور موثق افراد میں کیا گیا ہے۔[11] آیت اللہ خوئی نے ان کے اصحاب اجماع میں ہونے علاوہ، کامل الزیارات اور شیخ صدوق کی سند میں ہونے کے سبب ان کی وثاقت کی ہے۔[12]
بعض منابع نے ابان بن عثمان کی نسبت ناووسیہ فرقہ کی طرف دی ہے۔[13] آیت اللہ خوئی کا ماننا ہے کہ یہ نسبت قادسیہ جو تصحیف کے سبب ناووسیہ ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے نجاشی اور شیخ طوسی کی شہادت پیش کی ہے جو ان کی روایت کے سلسلہ میں امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف سے نقل ہوئی ہے۔[14] رجال کی کتب میں ان کی نسبت فطحیہ و واقفیہ فرقوں کی طرف بھی دی گئی ہے۔ آیت اللہ خوئی اس نسبتوں کو بھی صحیح نہیں مانتے ہیں اور اس لئے کہ ان ماننا ہے کہ اصحاب اجماع ہونے کی وجہ سے یہ نسبتیں ان کے لئے سازگار نہیں ہیں۔ اور ان کے فطحی ہونے کی نسبت کو وہ سہوا علامہ حلی کی طرف سے مانتے ہیں جن کے زمانہ سے یہ نسبت رجال کی کتابوں میں درج ہوئی ہے۔[15]
روایت
ابان نے امام صادق[16] اور امام کاظم علیہما السلام[17] کے علاوہ ابو بصیر[18]، زرارہ بن اعین[19]، ابو عبیدہ حذا،[20] حارث بن مغیرہ،[21] شھاب بن عبد ربہ،[22] عمر بن یزید[23] اور لیث مرادی[24] جیسے راویوں سے روایات نقل کی ہیں۔ آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں 100 افراد سے زیادہ کا ذکر کیا ہے جن سے ابان سے روایات نقل کی ہیں۔[25]
روات
انہوں نے 700 کے قریب روایات کی سند میں ابان بن عثمان کے نام کا ذکر کیا ہے۔[26] جس میں انہوں نے 130 روایات صرف عبد الرحمن بن ابی عبد اللہ سے نقل کی ہیں۔[27]
آیت اللہ خوئی نے اپنی کتاب معجم رجال الحدیث میں 50 سے زیادہ افراد کے اسماء کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ابان بن عثمان سے روایات نقل کی ہیں۔[28] جن میں فضالہ بن ایوب،[29] محمد بن ابی عمیر[30]، احمد بن محمد بن ابی نصر بزنطی، جعفر بن محمد بن حکیم،[31] عباس بن عامر،[32] نضر بن شبیب،[33] محمد بن زیاد ازدی اور حسن بن محبوب جیسے راوی شامل ہیں۔[34]
تالیفات
نجاشی اور شیخ طوسی نے ان کی ایک کتاب کا تذکرہ کیا ہے جس کے کئی حصے المبتداء، المبعث، المغازی، الوفاۃ، السقیفۃ والردۃ ہیں۔ ان میں ہر ایک حصہ کو ایک مستقل کتاب کا نام دیا ہے۔[35] شیخ طوسی نے اس کتاب کے سلسلہ میں اپنے مختلف طرق کا ذکر کیا ہے۔[36] علی بن ابراہیم قمی نے اپنی تفسیر میں[37] اور شیخ طبرسی نے اپنی کتاب اعلام الوری میں اس کتاب سے کافی استفادہ کیا ہے۔
رسول جعفریان نے ان کی کتاب کے بکھرے ہوئے مطالب کو مختلف کتابوں سے استخراج کرکے ایک کتاب کی شکل دی ہے جسے دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم المبعث و المغازی والوفاۃ والسیفۃ والردۃ کے نام سے سن 1375 شمسی میں طبع کرکے شائع کیا ہے۔[38] رسول جعفریان کے بقول یہ کتاب سیرہ کے محتوی اور مطالب پر مشتمل ہے۔[39]
ابان بن عثمان ایک اصل کے بھی مصنف ہیں جس کی طرف شیخ طوسی نے اشارہ کیا ہے۔[40]
ابہام اور غلظ فہمی کا ازالہ
ابان بن عثمان کے نام کا ابان بن عثمان بن عفان کے ساتھ شباہت رکھنا اس بات کا سبب بن گیا کہ بعض افراد خلیفہ سوم کے فرزند کو ابان بن عثمان کی جگہ امامی مذہب سمجھ بیٹھیں۔ منجملہ ان افراد کے عبد العزیز دوری[41] اور فواد بن سزگین ہیں جنہوں نے عصر اول کے سیرت نگاروں کے بیان ابان بن عثمان بن عفان کا تذکرہ کیا ہے اور تحریر کیا ہے کہ ان سے منقول روایات تاریخ یعقوبی میں نقل ہوئی ہیں۔[42] جبکہ وہ شخص جس سے تاریخ یعقوبی میں نقل ہوا ہے وہ ابان بن عثمان احمر ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یعقوبی نے تصریح کی ہے کہ انہوں نے امام صادق علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں۔[43]
واضح اور طبیعی امر ہے کہ خلیفہ سوم کے فرزند جو جنگ جمل میں عائشہ کے ہمراہ تھے، وہ عمر کی اس منزل میں نہیں ہوں گے کہ امام صادق علیہ السلام سے روایات نقل کر سکیں۔[44]
ابان کے سلسلہ میں کتاب
ابان بن عثمان کے حالات زندگی پر مشتمل ایک کتاب تالیف کی گئی ہے جس کے مولف سید محمد باقر شفتی بید آبادی ہیں۔[45]
حوالہ جات
- ↑ نجاشی، رجال، ص۱۳.
- ↑ کشی، رجال، ۳۵۲.
- ↑ کلینی، کافی، ج۲، ص۶۷۳؛ حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج۱۲، ص۱۳۸.
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۱۶۳.
- ↑ کشی، رجال، ص۹۳.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۲.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۵۷.
- ↑ طوسی، فہرست، ص۴۷؛ قہپایی، ج۱، ص۲۵.
- ↑ قہپایی، مجمع الرجال، ج۱، ص۲۵؛ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۵۷.
- ↑ طوسی، رجال، ص۱۶۴.
- ↑ ابن داوود، رجال، ص۱۲.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۱.
- ↑ نجاشی، رجال، ص۱۳؛ قہپایی، مجمع الرجال، ج۱، ص۲۵؛ حلی، رجال العلامة الحلی،، ص۲۲؛ ابن داود، رجال، ص۱۳.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۱.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۱.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۰۷
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۵۷
- ↑ صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج۴، ص۱۶۳؛ کشی، ص۲۰۹.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۰۴
- ↑ کشی، رجال، ص۱۳۶.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۷۷.
- ↑ کشی، رجال، ص۹۴.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۸۵.
- ↑ کشی، رجال، ص۴۰.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۲-۱۶۴
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۲.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۳.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۴.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۰۷.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۳۶.
- ↑ کشی، رجال، ص۹۳،۲۰۹.
- ↑ کشی، رجال، ص۹۴، ۱۰۴، ۱۷۷، ۲۰۹.
- ↑ کشی، رجال، ص۱۸۵.
- ↑ خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۱، ص۱۶۱.
- ↑ نجاشی، ص۱۳؛ طوسی، فہرست، ص۴۹.
- ↑ طوسی، فہرست، ص۴۹-۴۷.
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ج۱، ص۳۲۸
- ↑ انتشار کتاب ابان بن عثمان بہ کوشش رسوی جعفریان
- ↑ ابان بن عثمان، المبعث و المغازی، شناسنامہ کتاب
- ↑ طوسی، فہرست، ص۴۹.
- ↑ دوری، علم التاریخ عند العرب، ص۲۴.
- ↑ ابان بن عثمان، المبعث و المغازی، مقدمہ جعفریان، ص۸، بہ نقل از تاریخ التراث العربی قسم التدوین التاریخی، ص۷۰.
- ↑ یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، ج۲، ص۶.
- ↑ ابان بن عثمان، المبعث و المغازی، مقدمہ جعفریان، ص۸
- ↑ کنسرسیوم محتوای ملی
مآخذ
- ابان بن عثمان، المبعث و المغازی و الوفاۃ و السقیفۃ و الردۃ، بہ کوشش و مقدمہ: رسول جعفریان، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، قم، ۱۳۷۵ش/۱۴۱۷ھ۔
- حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، مصحح: مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، مؤسسۃ آل البیت علیہم السلام، قم، ۱۴۰۹ھ۔
- حلی، حسن بن علی بن داود، رجال ابن داوود، دانشگاہ تہران، تہران، ۱۳۴۲ش.
- خوئی، سید ابو القاسم، معجم رجال الحدیث، مرکز نشر آثار شیعہ، قم، ۱۴۱۰ق/۱۳۶۹ش.
- دوری، عبد العزیز، بحث فی تشأۃ علم التاریخ عند العرب، مکتبہ العبیکان، ریاض، ۱۴۲۰-۲۰۰۰م.
- صدوق، محمد بن علی، من لا یحضرہ الفقیہ، مصحح: غفاری، علی اکبر، دفتر انتشارات اسلامی، قم، ۱۴۱۳ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، رجال الطوسی، جامعہ مدرسین، قم، ۱۴۱۵ھ۔
- طوسی، محمد بن حسن، فہرست کتب الشیعۃ و أصولہم و أسماء المصنّفین و أصحاب الأصول، مصحح: طباطبائی، عبد العزیز، مکتبۃ المحقق الطباطبائی، قم، ۱۴۲۰ھ۔
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال العلامۃ الحلی، مصحح: بحر العلوم، محمد صادق، دار الذخائر، نجف، ۱۴۱۱ھ۔
- قہپائی، عنایہ اللہ، مجمع الرجال، تصحیح و تعلیق: سید ضیاء الدین اصفہانی، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان، قم.
- کشی، محمد بن عمر، رجال الکشی- إختیار معرفۃ الرجال، محقق و مصحح: طوسی، محمد بن حسن/مصطفوی، حسن، مؤسسہ نشر دانشگاہ مشہد، مشہد، ۱۴۰۹ھ۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، مصحح: غفاری علی اکبر و آخوندی، محمد، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، ۱۴۰۷ھ۔
- نجاشی، احمد بن علی، رجال النجاشی، مؤسسۃ النشر الاسلامی التابعہ لجامعۃ المدرسین، قم، ۱۳۶۵ش.