مندرجات کا رخ کریں

"ورع" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 1: سطر 1:
{{زیر تعمیر}}
{{زیر تعمیر}}
{{اخلاق-عمودی}}
{{اخلاق-عمودی}}
'''وَرَعْ''' یا '''پرہیزگاری''' اور '''تقوی''' انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو نفس کی مکمل حفاظت اور لغزش کے خوف پر جاکر ختم ہوتی ہے- ورع تقوی سے اونچا ایک مقام ہے کیونکہ انسان اس حالت میں شبہوں اور حتی حلال کاموں سے کہ جو ممکن ہے گناہ پر جاکر ختم ہوں ان سب سے دوری اختیار کرتا ہے-
'''وَرَعْ''' یا '''پرہیزگاری''' اور '''تقوی''' انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو نفس کی مکمل حفاظت اور لغزش کے خوف پر جاکر ختم ہوتی ہے- ورع، تقوی سے بالاتر ایک مقام ہے کیونکہ انسان اس حالت میں شبہات اور حتی ایسے حلال کاموں سے بھی سب سے دوری اختیار کرتا ہے جو ممکن ہے گناہ پر جاکر ختم ہوں-
علمائے شیعہ نے ورع کے لئے کچھ مراتب بیان کئے ہیں منجملہ: ورع توبہ اور توبہ کرنے والے، ورع صالحین، ورع متقین اور ورع سالکین-  
علمائے شیعہ نے ورع کے لئے کچھ مراتب بیان کئے ہیں منجملہ: [[توبہ]] کرنے والوں کی ورع، ورع صالحین، ورع متقین اور ورع سالکین-  
روایات میں ورع کے لئے کچھ علامتیں ذکر ہوئی ہیں جیسے ایمان کا مضبوط ہونا حرام محرمات سے انسان کی حفاظت اہل‌بیت علیہم السلام کی مدد اور یقین کے برترین مقام پر پہنچنا-
روایات میں ورع کے لئے کچھ علامتیں ذکر ہوئی ہیں جیسے ایمان کا مضبوط ہونا، حرام محرمات سے انسان کی حفاظت، اہل‌بیت علیہم السلام کی مدد اور یقین کے برترین مقام پر فائز ہونا-
==ورع کا مفہوم‌==
==ورع کا مفہوم‌==
ورع اپنے آپ کو محرمات سے بچانا اور گناہ سے دوری-<ref>ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ذیل واژہ ورع۔</ref> پرہیزگاری و پارسائی،<ref>دہخدا، لغت‌نامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ ورع۔</ref> اور محرمات کے ارتکاب کے ڈر سے شبہوں سے پرہیز <ref>انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ ورع۔</ref> معنی کئے ہیں روایات میں ورع محرمات کو انجام دینے سے پرہیز اور شبہوں سے دوری کرنا سمجھتے ہیں-<ref> برای نمونہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۰۸؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ھ، ص۱۲۵۔</ref> امام خمینی نے ورع کی تعریف میں فرمایا ہے: ورع نفس کی مکمل حفاظت اور لغزشوں سے ڈرنا یا حق النفس کے احترام کی خاطر اس پر سختی کرنا-<ref>امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ش، ص۲۰۶۔</ref>
ورع اپنے آپ کو محرمات سے بچانا اور گناہ سے دوری-<ref>ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ذیل واژہ ورع۔</ref> پرہیزگاری و پارسائی،<ref>دہخدا، لغت‌نامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ ورع۔</ref> اور محرمات کے ارتکاب کے ڈر سے شبہوں سے پرہیز <ref>انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ ورع۔</ref> معنی کئے ہیں روایات میں ورع محرمات کو انجام دینے سے پرہیز اور شبہوں سے دوری کرنا سمجھتے ہیں-<ref> برای نمونہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۰۸؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ھ، ص۱۲۵۔</ref> امام خمینی نے ورع کی تعریف میں فرمایا ہے: ورع نفس کی مکمل حفاظت اور لغزشوں سے ڈرنا یا حق النفس کے احترام کی خاطر اس پر سختی کرنا-<ref>امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ش، ص۲۰۶۔</ref>

نسخہ بمطابق 14:48، 2 مارچ 2021ء



اخلاق
اخلاقی آیات
آیات افکآیہ اخوتآیہ اطعامآیہ نبأآیہ نجواآیہ مشیتآیہ برآیہ اصلاح ذات بینآیہ ایثار
اخلاقی احادیث
حدیث قرب نوافلحدیث مکارم اخلاقحدیث معراجحدیث جنود عقل و جہل
اخلاقی فضائل
تواضعقناعتسخاوتکظم غیظاخلاصخشیتحلمزہدشجاعتعفتانصافاصلاح ذات البینعیب‌پوشی
اخلاقی رذائل
تکبرحرصحسددروغغیبتسخن‌چینیتہمتبخلعاق والدینحدیث نفسعجبعیب‌جوییسمعہقطع رحماشاعہ فحشاءکفران نعمت
اخلاقی اصطلاحات
جہاد نفسنفس لوامہنفس امارہنفس مطمئنہمحاسبہمراقبہمشارطہگناہدرس اخلاقاستدراج
علمائے اخلاق
ملامہدی نراقیملا احمد نراقیمیرزا جواد ملکی تبریزیسید علی قاضیسید رضا بہاءالدینیسید عبدالحسین دستغیبعبدالکریم حق‌شناسعزیزاللہ خوشوقتمحمدتقی بہجتعلی‌اکبر مشکینیحسین مظاہریمحمدرضا مہدوی کنی
اخلاقی مآخذ
قرآننہج البلاغہمصباح الشریعۃمکارم الاخلاقالمحجۃ البیضاءرسالہ لقاءاللہ (کتاب)مجموعہ وَرّامجامع السعاداتمعراج السعادۃالمراقبات

وَرَعْ یا پرہیزگاری اور تقوی انسان کے اندر ایک ایسی حالت ہے جو نفس کی مکمل حفاظت اور لغزش کے خوف پر جاکر ختم ہوتی ہے- ورع، تقوی سے بالاتر ایک مقام ہے کیونکہ انسان اس حالت میں شبہات اور حتی ایسے حلال کاموں سے بھی سب سے دوری اختیار کرتا ہے جو ممکن ہے گناہ پر جاکر ختم ہوں- علمائے شیعہ نے ورع کے لئے کچھ مراتب بیان کئے ہیں منجملہ: توبہ کرنے والوں کی ورع، ورع صالحین، ورع متقین اور ورع سالکین- روایات میں ورع کے لئے کچھ علامتیں ذکر ہوئی ہیں جیسے ایمان کا مضبوط ہونا، حرام محرمات سے انسان کی حفاظت، اہل‌بیت علیہم السلام کی مدد اور یقین کے برترین مقام پر فائز ہونا-

ورع کا مفہوم‌

ورع اپنے آپ کو محرمات سے بچانا اور گناہ سے دوری-[1] پرہیزگاری و پارسائی،[2] اور محرمات کے ارتکاب کے ڈر سے شبہوں سے پرہیز [3] معنی کئے ہیں روایات میں ورع محرمات کو انجام دینے سے پرہیز اور شبہوں سے دوری کرنا سمجھتے ہیں-[4] امام خمینی نے ورع کی تعریف میں فرمایا ہے: ورع نفس کی مکمل حفاظت اور لغزشوں سے ڈرنا یا حق النفس کے احترام کی خاطر اس پر سختی کرنا-[5]

تقوی اور ورع کا فرق

لغت کی کتابوں میں ورع اور تقوی کے ایک ہی معنی ہیں-[6] لیکن روایات میں ورع کے لئے مراتب اور درجات بیان ہوئے ہیں-[7] تقوی واجبات کی ادائیگی اور حرام کاموں سے دوری ورع کا پہلا درجہ سمجھا گیا ہے اس طرح سے ورع کا درجہ تقوی کے درجے سے بڑا درجہ بتایا گیا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے نہ صرف گناہوں سے پرہیز کیا جائے بلکہ شبہناک اور حلال کاموں کہ جو ممکن ہے گناہ کا زمینہ فراہم کرنے میں مدد کریں ان سے دوری کی جائے-[8]

تقوی اور ورع کا فرق

لغت کی کتابوں میں ورع اور تقوی کے ایک ہی معنی ہیں-[9] لیکن روایات میں ورع کے لئے مراتب اور درجات بیان ہوئے ہیں-[10] تقوی واجبات کی ادائیگی اور حرام کاموں سے دوری ورع کا پہلا درجہ سمجہاگیا ہے اس طرح سے ورع کا درجہ تقوی کے درجے سے بڑا درجہ بتایا گیا ہے کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے نہ صرف گناہوں سے پرہیز کیا جائے بلکہ شبہناک اور حلال کاموں کہ جو ممکن ہے گناہ کا زمینہ فراہم کرنے میں مدد کریں ان سے دوری کی جائے-[11]

ورع کے مراتب

علامہ مجلسی نے ورع کے لئے چار درجے ذکر کئے ہیں :

  • ورع توبہ‌کنندگان: وہ چیز جو انسان کو گناہ اور فسق سے خارج کرتی ہے اور گواہی کے قبول ہونے کا سبب بنتی ہے-
  • ورع صالحان: اس درجہ میں انسان شبہات سے دوری کرتا ہے تاکہ اس کے لیے گناہ کا زمینہ ظاہر نہ ہو-
  • ورع متقین: انسان کے اندر ایک حالت ہے کہ وہ حلال اور مباح کام کہ جو ممکن ہے حرام پر جاکر ختم ہوں ان سے دوری کرتا ہے-
  • ورع سالکان و صدیقین: اس ڈر سے غیر خدا سے روگردانی کہ زندگی کا ایک لمحہ کسی ایسے کام میں صرف نہ ہوجائے جو تقرب خدا کا باعث نہ ہو اگر چہ یقین ہے کہ حرام پر جاکر ختم نہیں ہوگا-[12]

امام خمینی بہی کبائر سے دوری کو ورع عامہ محرمات کے واقع ہونے کے ڈر سے شبہات سے دوری کو ورع خاصہ مباحات سے پرہیز گناہ سے دوری کی دلیل کو ورع زہد اہل زہد مقامات کے حصول کے لئے دنیا کو ترک کردینا ورع اہل سلوک باب‌اللہ و شہود جمال‌اللہ کے حصول کے لئے مقامات کے ترک کرنے کو ورع مجذوبین اور مقصد پر توجہ سے اجتناب کو ورع اولیاء سمجھتے ہیں-[13]

ورع کے آثار

روایات میں ورع کے متعدد آثار بیان کئے گئے ہیں- دین کی حفاظت [14] ایمان کا مضبوط ہونا [15] اہلبیت علیہم السلام کی ہمراہی اور ان کی مدد[16] محرمات اور گناہوں سے انسان کی حفاظت [17] عبادت کی اعلی ترین قسم کا حاصل ہونا [18] یقین کے برترین درجہ کا حصول [19] منجملہ آثار ورع کے لیے بیان ہوئے ہیں-

متعقلہ صفحات

تقوی

حوالہ جات

  1. ابن منظور، لسان العرب، ۱۴۱۴ھ، ذیل واژہ ورع۔
  2. دہخدا، لغت‌نامہ، ۱۳۷۷ش، ذیل واژہ ورع۔
  3. انوری، فرہنگ بزرگ سخن، ۱۳۸۱ش، ذیل واژہ ورع۔
  4. برای نمونہ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۵، ص۱۰۸؛ تمیمی آمدی، غرر الحکم، ۱۴۱۰ھ، ص۱۲۵۔
  5. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ش، ص۲۰۶۔
  6. طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ھ، ذیل واژہ وقا؛ راغب اصفہانی، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ذیل واژہ وقایہ۔
  7. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰۔
  8. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، ۱۳۸۲ھ، ج۳، ص۵۵۔
  9. طریحی، مجمع البحرین، ۱۴۱۶ھ، ذیل واژہ وقا؛ راغب اصفہانی، المفردات، ۱۴۱۲ھ، ذیل واژہ وقایہ۔
  10. مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰۔
  11. ملاحویش آل غازی، بیان المعانی، ۱۳۸۲ھ، ج۳، ص۵۵۔
  12. مجلسی، مراۃ العقول، ۱۴۰۴ھ، ج۸، ص۵۲-۵۳؛ مجلسی، بحارالانوار، ۱۴۰۳ھ، ج۶۷، ص۱۰۰
  13. امام خمینی، چہل حدیث، ۱۳۷۸ش، ص۴۷۴۔
  14. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۶۔
  15. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۳۲۰۔
  16. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۸۔
  17. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۴، ص۲۸۵۔
  18. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۷۷۔
  19. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ھ، ج۲، ص۶۲۔

مآخذ

  • ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت،‌ دار الفکر للطباعۃ و النشر و التوزیع-‌دار صادر‌، ۱۴۱۴ھ۔
  • امام خمینی، سید روح‌اللہ، چہل حدیث، تہران، مرکز تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۸ش۔
  • انوری، حسن، فرہنگ بزرگ سخن، تہران، انتشارات سخن، ۱۳۸۱ش۔
  • تمیمی آمدی، عبدالواحد، غرر الحکم و درر الکلم، تصحیح سید مہدی رجائی، قم،‌ دار الکتاب اسلامی، ۱۴۱۰ھ۔
  • دہخدا، علی‌اکبر، لغت‌نامہ، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، ۱۳۷۷ش۔
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات ألفاظ القرآن‌، تصحیح صفوان عدنان داودی‌، لبنان - سوریہ،‌ دار العلم- الدار الشامیۃ‌، ۱۴۱۲ھ۔
  • طریحی، فخرالدین، مجمع‌البحرین، تہران، کتابفروشی مرتضوی‌، ۱۴۱۶ھ۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۷ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، بیروت،‌ دار إحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ھ۔
  • مجلسی، محمدباقر، مرآۃ العقول فی شرح أخبار آل الرسول، تہران،‌ دار الکتب الإسلامیۃ، ۱۴۰۴ھ۔
  • ملاحویش آل غازی، عبدالقادر، بیان المعانی، دمشق، مطبعۃ الترقی، ۱۳۸۲ھ۔