یحیی بن ابی القاسم اسدی
کوائف | |
---|---|
مکمل نام | یحیی بن ابی القاسم اسدی |
کنیت | ابو محمد، ابو بصیر |
لقب | اسدی |
محل زندگی | کوفہ |
وفات | 150 ہجری |
دینی معلومات | |
وجہ شہرت | اصحاب ائمہ |
یحیی بن ابی القاسم اسدی (متوفی 150 ھ)، مشہور بنام ابو بصیر کوفہ کے امامیہ رجال میں سے ہیں اور اصحاب امام محمد باقر ؑ اور امام جعفر صادقؑ میں سے تھے۔ ان کا تذکرہ اصحاب امام موسی کاظمؑ میں بھی ذکر کیا گیا ہے۔
کنیت اور نسب
یحیی بن ابو القاسم اسدی کی کنیت ابو محمد تھی شاید اسی مناسبت سے انہیں ابو بصیر کہا جاتا تھا کہ وہ بینائی سے محروم تھے۔ [1] ابو القاسم ان کے باپ کی کنیت تھی اور ان کا نام اسحاق ضبط ہوا ہے۔ [2] لیکن بعض منابع میں یحیی کے باپ کا نام قاسم آیا ہے۔[3]
اسدی کہلانے کا سبب عرب کے قبیلے بنی اسد کے ولائی کی بدولت ہے۔[4] شیخ طوسی نے رجال[5] میں انہیں اہل کوفہ میں کہا ہے۔ طوسی اور نجاشی[6] ان کے سن وفات کی تصریح کی ہے۔
اصحاب ائمہ
ابو بصیر اسدی نے ایک مدت امام محمد باقرؑ کی مصاحبت اختیار کی۔ انہوں نے امام صادق سے روایت نقل کی ہے؛ امامیہ کی حدیثی کتب میں اعتقادی اور فقہی روایات کی اکثر تعداد امام جعفر صادق سے ابو بصیر کے ذریعے منقول ہیں۔[7] طوسی نے انہیں امام موسی کاظمؑ کے اصحاب میں بھی شمار کیا ہے۔[8] ابو بصیر نے تقریبا دو سال ان امام کی امامت کے دور کو درک کیا ہے البتہ بہت کم تعداد میں امام موسی کاظم کا نام لئے بغیر روایات منقول ہیں۔
امام کاظمؑ سے وفاداری
منابع میں مختلف مطالب علی بن ابی حمزه بطائنی کے طریق سے نقل ہوئے ہیں کہ جو اس بات کے بیانگر ہیں کہ ابو بصیر (اسدی) نے عبد اللہ افطح کی زندگی میں امام صادقؑ کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد ہی حج کی ادائیگی کیلئے حجاز گئے تو وہاں امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقات کے دوران ان سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔[9]
روایت
ابو بصیر اسدی مذکورہ اماموں کے علاوہ ابو حمزہ ثمالی اور صالح (عمران) بن میثم شیعہ امامی راویوں سے روایت بھی نقل کرتا ہے۔[10] ابان بن عثمان احمر، عاصم بن حمید حناط، حسین بن ابی العلاء اور عبدالله بن حماد انصاری نے اس سے روایت نقل کی ہے۔[11]
اسی طرح علی بن ابی حمزه بطائنی، عبدالله بن وضاح اور شعیب عقرقوفی (بہن کا بیٹا) بھی ابو بصیر اسدی سے روایت نقل کرتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ یہ اس کے مخصوص شاگرد تھے۔[12]
مخالف گروہوں کے سامنے مؤقف
مختاریہ و زیدیہ
روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو بصیر (اسدی) مختاریہ اور زیدیہ جیسے فکری مخالفین سے مقابلے کیلئے ان کے سامنے ڈٹے رہے۔[13]
فطحیہ
ابو بصیر اسدی کی زندگی کے آخری سال شہادت امام صادقؑ اور عبد اللہ افطح کی دعوائے امامت سے مصادف تھے۔ فطحیہ کے مقابلے میں ان کے سخت مؤقف اور قیام نے امام کاظم کے پیروکاروں کے سامنے اسے ایک وجیہ شخص کی صورت میں پیش کیا اور انکی روایات میں ابو بصیر کو اصحاب امام صادق کے ان گروہوں میں سے شمار کیا گیا ہے کہ جنہوں نے ابتدا سے ہی عبدالله سے پشت کی اور امام موسی کاظم سے منسلک رہے۔[14] اسی طرح امام کاظم کے پیروکاروں کی ابو بصیر سے منقول روایات میں منقول ہے کہ انہوں نے امامت کے متعلق فطحیوں کے عقیدے کی بنیادوں کو اپنی تنقید کا نشانہ قرار دیا۔[15] اگرچہ ان روایات میں ابو بصیر اسدی کی تصریح نہیں ہوئی ہے کہ اس سے کون سے ابو بصیر مراد ہیں؟ لیکن فطحیوں کے نزدیک ابو بصیر اسدی کی حرمت و منزلت کی وجہ سے ان ہی ابو بصیر اسدی کو ترجیح حاصل ہے۔ شاید ابو بصیر کے ضد فطحی شخصیت ہونے کی وجہ سے فطحی رجال شناس ابن فضال نے ابو بصیر پر تنقید کرتے ہوئے اسے مخلّط کہا ہے۔ نک: کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۱۷۳، ص۴۷۶</ref>
واقفیہ کے نزدیک منزلت و مقام
امامیہ کے افتراق اور امام کاظمؑ کے پروکاروں کی واقفیہ اور قطعیہ (امام رضاؑ کی جانشینی قائلین) کی تقسیم کے زمانے میں ابو بصیر اسدی کی وفات کو کئی سال گزر چکے تھے؛ علی بن ابی حمزه بطائنی کہ جو پہلے ابو بصیر اسدی کے خاص شاگردوں میں تھا لیکن اب واقفیہ کے رہبروں سے تھا نیز اسکے واقفی المذہب بیٹے حسن نے اپنے آثار میں دیگر اصحاب آئمہ کی نسبت ابو بصیر اسدی کی روایات سے زیادہ استفادہ کیا ہے۔[16] اسی طرح واقفی منابع میں واقفیہ مذہب کے اعتقاد کے اثبات میں بعض روایات ابو بصیر اسدی سے منقول ہیں۔[17]
وثاقت
امامیہ کے رجال میں ان کا نام اصحاب اجماع میں آیا ہے اور سب ان کی وثاقت پر اعتماد کرتے ہیں۔[18] نجاشی انہیں وجیہ اور ثقہ کہا ہے۔[19] اسی طرح انہوں نے حدیث لوح کو روایت کیا ہے۔[20]
بعض اسناد سے ابو بصیر کی روایت میں عبدالرحمن بن سالم (اس حدیث کا راوی) کے ساتھ علی بن ابی حمزہ کے آنے کے قرینے سے احتمال قوی کی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث میں مقصود ابو بصیر اسدی ہی ہے۔[21]
واقفی ہونا
امامیہ کے بعض علم رجال کے ماہرین جیسے علامہ حلّی، کشی[22] میں موجود عبارات کے پیش نظر شخصیت ابو بصیر یحیی بن ابی القاسم اسدی اور یحیی بن قاسم حذّاء واقفی کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور اس بنا پر ان کے واقفی ہونے کا حکم لگاتے ہیں۔[23] لیکن ان کے سن وفات 150 ھ اور 183 ھ میں واقفیہ کے آغاز کی وجہ سے ان کا واقفیہ ہونا ممکن نہیں ہے۔
آثار
کتاب مناسک الحج بروایت علی بن ابی حمزه اور حسین بن علاء[24] اور کتاب یوم و لیلہ، بروایت علی بن ابی حمزه بطائنی[25] دو اثر اس کے نام سے یاد کئے گئے ہیں۔
شیخ صدوق نے علی بن ابی حمزه سے منقول فقہی روایات کا ایک مجموعہ من لا یحضرہ الفقیہ میں ذکر کیا ہے۔[26] اسی طرح علل کے موضوع پر ۲۰ کے قریب احادیث علل الشرائع میں مختلف مقامات پر آئی ہیں جو حسین بن یزید نوفلی نے علی بن ابی حمزه سے نقل کی ہیں۔[27]
ابن بابویہ نے ابو بصیر اور محمد بن مسلم کی اکٹھی روایت کو حدیث اربعمأه نامی کتاب سے مکمل روایت اپنی کتاب الخصال میں نقل کی ہے۔[28]
پہلے آئمہ طاہرین کے احوال کے متعلق ابو بصیر کی تحریری روایت امامیہ اور غیر امامیہ کے قدیمی منابع میں ذکر ہوئی ہے۔ یہ روایت محمد بن سنان کے طریق سے جبکہ بعض سندوں میں ابن مسکان کے واسطے سے منقول ہے[29]۔ خصیبی نے تصریح کی ہے اس سند میں ابو بصیر اسدی سے یہی یحیی بن ابی القاسم اسدی مراد ہے۔
حوالہ جات
- ↑ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۱۷۳، و ص۴۷۶؛ طوسی، رجال، ج۱، ص۱۴۰، و ص۳۳۳
- ↑ طوسی، رجال، ج۱، ص۱۴۰؛ مفید، الاختصاص، ج۱، ص۸۳
- ↑ مثلاً نک: نجاشی، رجال، ج۱، ص۴۴۱
- ↑ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۱۷۳؛ طوسی، رجال، ج۱، ص۳۳۳؛ مفید، الاختصاص، ج۱، ص۸۳
- ↑ طوسی، رجال، ج۱، ص۳۳۳
- ↑ طوسی، رجال، ج۱، ص۳۳۳، نجاشی، رجال، ج۱، ص۴۴۱
- ↑ ملاحظہ ہو: برقی، الرجال، ج۱، ص۱۱، ص۱۷؛ طوسی، رجال، ج۱، ص۱۴۰، ص۳۳۳،؛ نجاشی، ج۱، ص۴۴۱
- ↑ طوسی، رجال، ج۱، ص۳۶۴؛ قس: نجاشی، رجال، ج۱، ص۴۴۱
- ↑ ملاحظہ کریں: حمیری، قرب الاسناد، ص۱۴۶؛ کلینی، الکافی، ج۱، ص۲۸۵، و ج۲، ص۱۲۴؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ج۱، ص۱۶۷-۱۶۸؛ دلائل الامامہ، منسوب ابن رستم طبری، ج۱، ص۱۶۳، ص۱۹۳
- ↑ نک: برقی، المحاسن، ج۱، ص۳۰۹؛ کلینی، الکافی، ج۷، ص۱۸۵-۱۸۶؛ ابن بابویہ، امالی، ص ۲۶۸
- ↑ ملاحظہ ہو: ابن بابویہ، مشیخہ الفقیہ، ج۴، ص۱۲۱؛ طوسی، الفہرست، ج۱، ص۱۷۸، طوسی، امالی، ج۲، ص۹۵، ص۱۵۷
- ↑ ملاحظہ ہو: نجاشی، رجال ج۱، ص۲۱۵، ص۲۴۹؛ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۱۷۱
- ↑ ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ج۱، ص۲۹۱؛ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۲۴۰-۲۴۱، جم
- ↑ ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ج۱، ص۳۵۱-۳۵۲؛ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۲۸۲-۲۸۴،
- ↑ ملاحظہ ہو: ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامۃ و التبصره من الحیره، صص۴۹، ۷۴؛ مسعودی، اثبات الوصیہ، ج۱، ص۱۶۱
- ↑ ملاحظہ ہو: نجاشی، رجال، ج۱، ص۲۵۰، بحوالہ تفسیر علی بن ابی حمزه؛ ابن بابویہ، ثواب الاعمال، ص۱۳۰ کے بعد،؛ قس: نجاشی، رجال، ج۱، ص۳۷
- ↑ ملاحظہ ہو: علوی، نصره الواقفہ، صص ۲۱، ۲۳، ۳۳؛ کشی، معرفۃ الرجال، ج۱، ص۴۷۴-۴۷۶،
- ↑ نک: کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۲۳۸؛ طوسی، عده الاصول، ج۱، ص۳۸۴،
- ↑ نجاشی، رجال، ج۱، ص۴۴۱.
- ↑ ملاحظہ ہو: کلینی، الکافی، ج۱، ص۵۲۷-۵۲۸،؛ نعمانی، الغیبہ، ج۱، ص۴۲-۴۴؛ ابن بابویہ، کمال الدین، ج۱، صص۳۰۸-۳۱۱
- ↑ ملاحظہ ہو: طوسی، تہذیب، ج۱، ص۴۴۳، طوسی، الاستبصار، ج۱، ص۲۰۳
- ↑ کشی، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، ج۱، ص۴۷۴-۴۷۶
- ↑ علامہ حلی، رجال، ج۱، ص۲۶۴
- ↑ طوسی، الفہرست، ج۱، ص۱۷۸؛
- ↑ نجاشی، رجال، ج۱، ص۴۴۱
- ↑ نک: ابن بابویہ، «مشیخہ الفقیہ، ص۱۸
- ↑ ابن بابویہ، در علل الشرائع، ج۱، صص۱۵-۱۶، جم
- ↑ ابن بابویہ، در علل الشرائع، ج۲، صص۶۱۰-۶۳۷
- ↑ ملاحظہ ہو: ابن ابیالثلج، «تاریخ الائمه »، ج۱۵،؛ کلینی، الکافی، ج۱، ص۴۶۱، ص۴۶۳، ص۴۶۸؛ خصیبی، الہدایۃ الکبری، ص۳۹؛ ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، ج۱، ص۵۰؛ ابن خشاب، «تاریخ موالید الائمہ و وفیاتہم »، ج۱، ص۱۶۱، جم
مآخذ
- آقا بزرگ، الذریعہ.
- ابن ابی الثلج، محمد بن احمد، «تاریخ الائمہ »، مجموعہ نفیسہ، قم، ۱۴۰۶ق.
- ابن بابویہ، علی بن حسین، الامامہ و التبصرة من الحیرة، قم، ۱۴۰۴ق.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، امالی، بیروت، ۱۴۰۰ق/۱۹۸۰م.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، ثواب الاعمال، نجف، ۱۳۹۲ق/۱۹۷۲ء.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، الخصال، علی اکبر غفاری، قم، ۱۳۶۲ش.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، علل الشرائع، نجف، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۶م.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، فقیہ من لا یحضره الفقیہ، حس موسوی خرسان، نجف، ۱۳۷۶ق.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، کمال الدین و تمام النعمہ، علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۹۰ق.
- ابن بابویہ، محمد بن علی، «مشیخہ الفقیہ »، ہمراه ج۴ فقیہ.
- ابن خشاب، عبداللہ بن نصر، «تاریخ موالید الائمہ و وفیاتہم »، مجموعہ نفیسہ، قم، ۱۴۰۶ق.
- ابن ندیم، الفہرست.
- ابوالفرج اصفہانی، مقاتل الطالبیین، نجف، ۱۳۸۵ق/۱۹۶۵ء.
- برقی، احمد بن محمد، الرجال، تہران، ۱۳۴۲ش.
- برقی، احمد بن محمد، المحاسن، تحقیق جلال الدین محدث، قم، ۱۳۷۱ق.
- حمیری، عبداللہ بن جعفر، قرب الاسناد، تہران، ۱۳۶۹ق.
- خصیبی، حسین بن حمدان، الہدایۃ الکبری، بیروت، ۱۴۰۶ق/۱۹۸۶ء.
- دلائل الامامہ، منسوب ابن رستم طبری، نجف، ۱۳۸۳ق/۱۹۶۲ء.
- طوسی، محمد بن حسن، الاستبصار، حسن موسوی خرسان، تہران، ۱۳۹۰ق.
- طوسی، محمد بن حسن، امالی، بغداد، ۱۳۸۴ق/۱۹۶۴م.
- طوسی، محمد بن حسن، تہذیب الاحکام، حسن موسوی خرسان، تہران، ۱۳۹۰ق.
- طوسی، محمد بن حسن، رجال، محمد صادق بحرالعلوم، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ء.
- طوسی، محمد بن حسن، عده الاصول، محمد مہدی نجف، قم، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء.
- طوسی، محمد بن حسن، الفہرست، محمد صادق بحرالعلوم، نجف، کتابخانہ مرتضویہ.
- علامہ حلی، حسن بن یوسف، رجال، نجف، ۱۳۸۱ق/۱۹۶۱ء.
- علوی، علی بن احمد، نصره الواقفہ، احمد پاکتچی، طبع نہیں ہوئی ۔
- فخار بن معد موسوی، ایمان ابی طالب، محمد بحرالعلوم، نجف، ۱۳۸۴ق/۱۹۶۵ء.
- کشی، محمد، معرفۃ الرجال، اختیار طوسی، حسن مصطفوی، مشہد، ۱۳۴۸ش.
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، علی اکبر غفاری، تہران، ۱۳۸۸ق.
- مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء.
- مسعودی، علین بن حسین، اثبات الوصیہ، نجف، ۱۳۷۴ق.
- مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، به کوشش علی اکبر غفاری، قم، جماعہ المدرسین.
- مفید، محمد بن محمد، المقنعه، تہران، ۱۲۷۶ق.
- نجاشی، احمد بن علی، رجال، موسی شبیری زنجانی، قم، ۱۴۰۷ق.
- نعمانی، محمد بن ابراہیم، الغیبہ نعمانی، بیروت، ۱۴۰۳ق/۱۹۸۳ء.
بیرونی روابط
- مآخذ مقالہ : دائرة المعارف بزرگ اسلامی