مسجد صخرہ
ابتدائی معلومات | |
---|---|
استعمال | عبادتگاہ |
محل وقوع | شہر بیت المقدس میں موریا کی بلندی پر واقع ہے |
دیگر اسامی | صخرہ مقدس |
مشخصات | |
موجودہ حالت | فعال |
معماری | |
تعمیر نو | سنہ 216، 413 اور 467 ھ |
مسجد صَخْرہ یا صَخرۃ مقدس بیت المقدس میں "موریا" نامی بلندی پر واقع مسجد ہے۔ یہ مسجد اور اس کا گنبد جو قبۃ الصخرہ کے نام سے مشہور ہے ایک بہت بڑی چٹان پر بنایا گیا ہے جو یہودیت، مسیحیت اور اسلام میں مقدس شمار کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے مطابق حضرت محمدؐ نے شب معراج میں اسی چٹان سے آسمان کی طرف عروج کیا تھا، یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ زمین اسی چٹان سے پھیلی ہے، حضرت آدم کا بدن اسی مٹی سے بنایا گیا ہے اور حضرت ابراہیم اسی مقام پر اپنے بیٹے کی قربانی پیش کرنے پر مأمور ہوئے تھے۔
بعض لوگ اس مسجد کے گنبد کو جو کہ مذکورہ چٹان کے اوپر بنایا گیا ہے، مسجد الاقصی کا گنبد خیال کرتے ہیں۔
مسجد صخرہ پہلی صدی ہجری میں عبد الملک بن مروان کے دور میں بنائی گئی اور بعد میں مختلف ادوار میں اس کی مرمت اور تعمیر نو ہوتی رہی ہے۔
وجہ تسمیہ
مسجد صخرہ کو اس لئے یہ نام دیا گیا ہے کہ یہ مسجد شہر بیت المقدس میں موریا کی بلندی پر ایک چٹان پر بنائی گئی ہے اسی بنا پر اس کا دوسرا نام "قبۃ الصخرہ" بھی ہے۔[1] «قبہ» عربی میں گنبد کو کہا جاتا ہے۔[2]
کبھی کبھار قبۃ الصخرہ اور مسجد الاقصی میں خلط اور اشتباہ ہوتا ہے؛ قبۃ الصخرہ کا گنبد گولڈ کلر میں جبکہ مسجد الاقصی کا گنبد سرمئی کلر میں ہے۔[3]
محل وقوع اور تعمیر
مسجد الصخرہ یا قبۃ الصخرہ مسجد الاقصی کے علاقے میں بیت المقدس کے "موریا" نامی بلندی پر واقع ہے۔[4] قبۃ الصخرہ کے گنبد کا رنگ سونے (گولڈ کلر) کا ہے جو ایک آٹھ ضلعی عمارت کے اوپر بنایا گیا ہے اور اس عمارت کے ہر چاروں سمت ایک دورازہ کھلتا ہے۔[5]
مسجد صخرہ کے جنوب مغربی حصے میں سنگ مرر کے کے ایک ستون کے نزدیک "قدم محمد" نامی مقام ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت محمدؐ کا نقش پا ہے جو شب معراج کو آپ نے یہاں سے آسمانی کی طرف عروج فرمایا تھا۔[6] اسی طرح قبۃ الصخرہ کے نزدیک ایک مشہور مقام "قبۃ النبی" کے نام سے موجود ہے جہاں قدس شریف کے مکینوں کے مطابق حضرت خضر نے نماز پڑھی ہیں۔[7] تزئین کے اعتبار سے قبۃ الصخرہ غنی ترین اسلامی عمارتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔[8]
اہمیت
قبۃ الصخرہ کے اندر موجود چٹان جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ شب معراج کو اسی مقام سے آسمان کی طرف عروج فرمایا قبۃ الصخرہ، دمشق میں مسجد اموی، قاہرہ میں مسجد عمرو عاص اور تیونس میں مسجد قیروان پہلی صدی ہجری میں بنائے گئے اہم مذہبی مقامات ہیں۔[9] جو یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے یہاں مقدس اور محترم شمار کئے جاتے ہیں۔[10]
وہ چٹان جس "قبۃ الصخرہ" بنایا گیا ہے سنہ دو ہجری تک مسلمانوں کا قبلہ شمار ہوتا تھا۔[11] مسلمانوں کے مطابق حضرت محمدؐ نے شب معراج اسی چٹان سے آسمان کی طرف عروج فرمایا تھا۔[12] یہودی اس بات کے معتقد ہیں کہ زمین اسی چٹان سے پھیلی ہے اور حضرت آدم کا بدن اسی مٹی سے بنایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت ابراہیم کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل کی قربانی دینے کا امر ہوا تھا۔[13]
تاریخی اعتبار سے
سنہ 66 ہجری میں عبدالملک بن مروان کے دور خلافت میں بیت المقدس کے موریا نامی بلندی پر مسجد صخرہ کی تعمیر شروع اور سنہ 72 ہجری میں مکمل ہوئی۔[14] جب عبداللہ بن زبیر مکہ میں برسر اقتدار آئے اور حاجیوں کو اپنی بیعت پر مجبور کیا تو عبد الملک مروان نے لوگوں کو حج پر جانے سے مانع کیا اور "قبۃ الصخرہ" کے طواف کو کعبہ کے طواف اور حج کی جگہ قرار دینے کی کوشش کی۔[15]
سنہ 216 ھ میں عباسی خلیفہ مامون عباسی کے دور میں قبۃ الصخرہ کی مرمت ہوئی۔ اس مرمت کے بعد مأمون کا نام عبدالملک مروان کے نام کی جگہ تحریر کیا گیا، لیکن مسجد کی عمارت بغیر کسی تغییر کے باقی اسی طرح باقی رہی۔[16]
سنہ 407 ھ میں قدس شریف میں شدید زلزلہ آیا اور قبۃ الصخرہ ویران ہو گیا، سنہ 413 ھ یعنی خلافت فاطمیہ کے دور میں مسجد صخرہ دوبارہ تعمیر کی گئی۔ سنہ 460 ھ میں ایک اور زلزلے میں مسجد دوبارہ ویران ہو گئی جسے سنہ 467 ھ میں عباسی خلیفہ القائم بامراللہ کے دور میں دوبارہ تعمیر کی گئی۔[17]
متعلقہ صفحات
حوالہ جات
- ↑ حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۷ و ۱۸۔
- ↑ موسوی پناہ، حرم در واژہ ہا، ۱۳۹۱ش، ص۴۳۔
- ↑ «قبۃ الصخرہ را با مسجدالاقصی اشتباہ نگیرید»، در سایت خبرگزاری صدا و سیما۔
- ↑ موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۔
- ↑ موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۔
- ↑ حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۷ و ۱۸۔
- ↑ نجاتی، حضرت خضر(ع) و مکانہای منسوب بہ ایشان، ۱۳۹۵ش، ص۲۴۴۔
- ↑ حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۷ و ۱۸۔
- ↑ سعادتی، «نقش اماکن و آثار مذہبی در تمدن اسلامی»، ص۱۵۰۔
- ↑ بینش، نگاہی نو بہ جنگہای صلیبی، ۱۳۸۶ش، ص۲۵۔
- ↑ میر ابو القاسمی، باستان شناسی، ۱۳۹۲ش، ص۱۱۴۔
- ↑ موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۔
- ↑ حمیدی، تاریخ اورشلیم، ۱۳۸۱ش، ص۱۷ و ۱۸۔
- ↑ موسی غوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۳۔
- ↑ الدمیری، حیاۃ الحیوان الکبری، ۱۴۲۴ق، ج۱، ۱۰۰؛ حسینی طہرانی، امام شناسی، ۱۴۱۸ق، ج۱۸، ص۳۲۳ و ۳۲۵۔
- ↑ موسیغوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۶۔
- ↑ موسیغوشہ، تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی، ۱۳۹۰ش، ص۲۶۔
مآخذ
- بینش، عبد الحسین، نگاہی نو بہ جنگہای صلیبی، قم، زمزم ہدایت، ۱۳۸۶ش۔
- حمیدی، جعفر، تاریخ اورشلیم، امیر كبیر، تہران، دوم، ۱۳۸۱ش۔
- حسینی طہرانی، سید محمد حسین، امام شناسی، ج۱۸، مشہد، انتشارات علامہ طباطبایی، ۱۴۱۸ق۔
- الدمیری، کمال الدین محمد، حیاۃ الحیوان الکبری، با حاشیہ و مقدمہ احمد حسن بسج، بیروت، دار الکتب العلمیہ، ۲۰۰۲ء/۱۴۲۴ق۔
- سعادتی، قادر، «نقش اماکن و آثار مذہبی در تمدن اسلامی»، در مجموعہ مقالات کنگرہ جہانی جریانہای افراطی و تکفیری از دیدگاہ علمای اسلام، ج۱، قم، دار الإعلام لمدرسۃ اہل البیت، ۱۳۹۳ش۔
- نجاتی، محمد سعید و محمد مہدی فقیہ بحر العلوم، حضرت خضر (ع) و مکانہای منسوب بہ ایشان (بہ ضمیمہ کتاب شناسی)، تہران، مشعر، ۱۳۹۵ش۔
- موسوی پناہ، ابراہیم، حرم در واژہہا، مشہد، آستان قدس رضوی، ۱۳۹۱ش۔
- میر ابو القاسمی، محمد تقی، باستان شناسی قرآن، رشت، کتاب مبین، ۱۳۹۲ش۔