قرآن سر پر رکھنا

ویکی شیعہ سے
(عمل قرآن کی رسم سے رجوع مکرر)
قرآن سر پر رکھنا
شب قدر میں مستحب عمل
زمان‌شبہائے قدر
مکانمساجد،‌ اماموں، امام زادوں کے حرم اور دیگر مذہبی مقامات
جغرافیائی حدودپوری دنیا کے شیعہ نشین علاقے
ادعیہدرگاہ الہی میں قرآن اور چہاردہ معصومینؑ کو وسیلہ قرار دینا
اہم مذہبی تہواریں
سینہ‌زنی، زنجیرزنی، اعتکاف، شب بیداری، تشییع جنازہ،
متفرق رسومات


قرآن سر پر رکھنا ان مذہبی رسومات میں سے ہے جسے شیعیان ماہ رمضان کی شبہائے قدر میں انجام دیتے ہیں۔ اس عمل کو انجام دینے کا طریقہ سید ابن طاؤوس کی کتاب اقبال الاعمال میں امام جعفر صادقؑ سے منقول ایک حدیث کے ضمن میں بیان ہوا ہے۔ شیعیان اس رسم میں اللہ تعالیٰ سے قرآن، حضرت محمدؐ، حضرت فاطمہ زہراء(س) اور بارہ اماموں کی قسم دے کر اپنے گناہوں کی بخشش اور آتش جہنم سے نجات پانے والوں میں قرار پانے کی دعا کرتے ہیں۔

قرآن سر پر رکھنے کے رسومات

حرم امام رضاؑ مشہد میں قرآن سر پر رکھ کر دعا کرنے کا منظر

قرآن مجید کو سر پر رکھنا شبہائے قدر کے مشترک اعمال میں سے ہے۔ عمل قرآن کے پہلے مرحلے میں قرآن کو کھول کر یہ دعا پڑھتے ہیں: «اللّٰهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ بِكِتابِكَ الْمُنْزَلِ وَمَا فِيهِ وَفِيهِ اسْمُكَ الْأَكْبَرُ وَأَسْماؤُكَ الْحُسْنىٰ وَمَا يُخافُ وَيُرْجىٰ أَنْ تَجْعَلَنِى مِنْ عُتَقائِكَ مِنَ النّارِ.» [یادداشت 1] پھر قرآن کو سر پر رکھ کر یہ دعا پڑھتے ہیں: «اَللَّهُمَّ بِحَقِّ هَذَا اَلْقُرْآنِ وَ بِحَقِّ مَنْ أَرْسَلْتَهُ بِهِ وَ بِحَقِّ كُلِّ مُؤْمِنٍ مَدَحْتَهُ فِيهِ وَ بِحَقِّكَ عَلَيْهِمْ فَلاَ أَحَدَ أَعْرَفُ بِحَقِّكَ مِنْكَ.» اے معبود! اس قرآن کے واسطے اور اس کے واسطے جسے تو نے اس کے ساتھ بھیجا اوران مومنین کے واسطے جن کی تونے اس میں مدح کی ہے اور ان پر تیرے حق کا واسطہ پس کوئی نہیں جانتا تیرے حق کو تجھ سے بڑھ کر.

اس کے بعد بالترتیب دس دس مرتبہ یہ پڑھتے ہیں: بِكَ يَا اَللَّهُ، بِمُحَمَّدٍ، بِعَلِيٍّ، بِفَاطِمَةَ، بِالْحَسَنِ، بِالْحُسَيْنِ، بِعَلِيِّ بْنِ اَلْحُسَيْنِ، بِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، بِجَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، بِمُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ، بِعَلِيِّ بْنِ مُوسَى، بِمُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، بِعَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ، بِالْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ و بِالْحُجَّةِ.[1]

منابع حدیثی میں عمل قرآن کا بیان

کلینی نے کتاب کافی میں امام محمد باقرؑ سے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں آیا ہے کہ عمل قرآن یہ ہے کہ قرآن کو اپنے سامنے رکھ کر اس کی اللہ تعالیٰ کو قسم دینی ہے۔ اس حدیث کے مطابق اس عمل کو انجام دینے کا وقت ماہ رمضان کا دوسرا عشرہ(دوسرے دس دن) ہے۔[2] شیخ مفید نے اپنی کتاب المقنعہ میں ائمہ معصومینؑ کی طرف منسوب کیے بغیر اس عمل کو ماہ رمضان کی انیسویں شب، اکیسویں شب اور تئیسویں شب انجام دینے کی تاکید کی ہے۔[3] راوندی کی "سلوة الحزین" نامی کتاب،[4] اور سید ابن طاؤوس کی کتاب اقبال الاعمال[5] میں یہ دعا ماہ رمضان کی تین راتوں میں پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے البتہ مذکورہ کتب میں کسی خاص رات کا نام نہیں آیا ہے۔

شیخ طوسی نے "الامالی"نے ایک حدیث نقل کی ہے جس کے مطابق ایک شخص اپنی ایک مشکل کے حل کے سلسلے میں امام جعفر صادقؑ کے پاس آیا، امامؑ نے اسے ایک نماز کی تعلیم دی اور فرمایا اس نماز کو پڑھنے کے بعد قرآن کو اپنے سر پر رکھیں اور یہ دعا پڑھیں(اس حدیث میں ماہ رمضان یا شب ادر کا ذکر نہیں ہے): اَللَّهُمَّ بِهَذَا الْقُرْآنِ وَ بِحَقِّ مَنْ أَرْسَلْتَهُ بِهِ، وَ بِحَقِّ كُلِّ مُؤْمِنٍ مَدَحْتَهُ فِیهِ، وَ بِحَقِّكَ عَلَیهِمْ، فَلَا أَحَدَ أَعْرَفُ بِحَقِّكَ مِنْكَ بِكَ یا اللهُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)، ثُمَّ تَقُولُ" یا مُحَمَّدُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا عَلِی" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا فَاطِمَةُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا حَسَنُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا حُسَینُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا عَلِی بْنَ الْحُسَینِ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا جَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا مُوسَی بْنَ جَعْفَرٍ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا عَلِی بْنَ مُوسَی" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا مُحَمَّدَ بْنَ عَلِی" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا عَلِی بْنَ مُحَمَّدٍ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا حَسَنَ بْنَ عَلِی" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ)" یا حُجَّةُ" عَشْرَ مَرَّاتٍ(دس مرتبہ). اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجات طلب کریں۔[6]}}

سید ابن طاؤوس نے اپنی کتاب "اقبال الاعمال" میں عمل قرآن سے پہلے نماز کا ذکر کیے بغیر اسے شب قدر کے اعمال میں سے قرار دیا ہے اور اسے امام جعفر صادقؑ سے منسوب کیا ہے؛[7] لیکن اپنی ایک اور کتاب جمال الاسبوع میں نماز اور اس کے بعد والے دستور العمل کو جمعرات کے دن انجام دی جانے والی نماز حاجت روائی کے طور پر بیان کیا ہے۔[8]

شیخ عباس قمی نے مفاتیح الجنان میں ان دو اعمال کو شب قدر کے اعمال میں سے قرار دیے بغیر بدون ذکر ماخذ بیان کیا ہے۔[9]

قرآن سر پر رکھنے کا اصلی مقصد

عبد اللہ جوادی آملی کے مطابق قرآن کو سر پر رکھنے کا اصلی مقصد صرف بہشت میں جانا اور جہنم کی آگ سے بچنا نہیں، کیونکہ شب قدر اللہ تعالیٰ کی جانب سے قرار دیا ہوا ایسا الہی دسترخوان ہے جس کے صرف ٹکڑوں سے انسان بہشتی بن سکتا ہے اور آتش جنہم سے بچا جاسکتا ہے۔ شب قدر کا اصلی مقصد صرف یہ نہیں۔[10] حقیقی شب قدر یہ ہے کہ انسان اپنے ساتھ دیگر ہزار لوگوں کی بھی دستگیری کرے اور انہیں بہشت کی جانب لے جائے۔ دنیا میں اس کا کردار، گفتار اور طرز زندگی ایسا ہو کہ دوسرے اس سے سبق سیکھے اور ہزاروں لوگوں کو حقیقی زندگی دے اور عالم آخرت میں بھی ہزاروں لوگوں کو بہ سوئے بہشت بریں راہنمائی کرے۔[11]

حوالہ جات

  1. قمی، مفاتیح الجنان، نشر اسوه، بخش اعمال شب‌های قدر،‌ ص225.
  2. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج2، ص629، حدیث 9.
  3. مفید، المقنعه، 1413ھ، ص190.
  4. قطب راوندی، سلوة الحزین، ‌1407ھ، ص206.
  5. ابن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج1، ص186.
  6. طوسی، الامالی، 1414ھ، ص293.
  7. ابن طاووس، اقبال الاعمال، 1409ھ، ج1، ص187.
  8. ابن طاووس، جمال الاسبوع، 1330ھ، ص109-110.
  9. قمی، مفاتیح الجنان، نشر اسوه، اعمال مشترک شب‌های قدر، ص225.
  10. «هدف از قرآن به سر گرفتن فقط آمرزش گناهان نباشد»، وبگاه عترتنا.
  11. «هدف از قرآن به سر گرفتن فقط آمرزش گناهان نباشد»، وبگاه عترتنا.

نوٹ

  1. اے معبود! بے شک سوال کرتا ہوں تیری نازل کردہ کتاب کے واسطے سے اور جو کچھ اس میں ہے اس کے واسطے اور اس میں تیرا بزرگتر نام ہے اور تیرے دیگر اچھے اچھے نام بھی ہیں اور وہ جو خوف وامید دلاتاہے، سوالی ہوں کہ مجھے ان میں قرار دے جن کو تونے آگ سے آزاد کر دیا۔

مآخذ

  • ابن طاووس، علی بن موسی بن جعفر، اقبال الاعمال،‌ تہران، دار الکتب الاسلامیہ، 1409ھ۔
  • ابن طاووس، علی بن موسی بن جعفر، جمال الاسبوع بکمال العمل المشروع،‌ قم، دار الرضی، 1330ھ۔
  • طوسی، محمد بن الحسن، الامالی، قم، نشر‌ دار الثقافہ، 1414ھ۔
  • قطب راوندی، سعید بن ہبة اللہ، سلوة الحزین (الدعوات)، قم، انتشارات مدرسہ امام مہدی(ع)، ‌1407ھ۔
  • قمی، عباس، مفاتیح الجنان، قم،‌ نشر اسوہ، بی‌تا۔
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی،‌ تہران، دار الکتب الاسلامیہ، چاپ چہارم، ‌1407ھ۔
  • مفید، محمد بن محمد، المقنعہ، قم، کنگرہ جہانی ہزارہ شیخ مفید، 1413ھ۔
  • «ہدف از قرآن بہ سر گرفتن فقط آمرزش گناہان نباشد»، وبگاہ عترتنا، تاریخ درج مطلب: 25 خرداد 1391ہجری شمسی، تاریخ بازدید: 20 فروردین 1402ہجری شمسی۔