قبیلہ مذحج

ویکی شیعہ سے
(طائفہ مذحج سے رجوع مکرر)
قبیلہ مذحج
عمومی معلومات
نامقبیلہ مذحج
وجہ تسمیہیمن میں ایک پہاڑی کا نام
نسبمالک بن أدد بن زید بن یشجب بن عریب بن زید بن کہلان بن سباء بن یشجب بن یعرب بن قحطان
قومیتقحطانی عرب
منشعب ازاولاد کہلان
سربراہمالک بن أدد
انشعاباتسَعد العشیرۃ، بنی‌ الحارث بن کَعب، قبیلہ مُراد، قبیلہ نَخَع، صُداء، رُہاء، جَنب و عَنس
مذہبشیعہ
اسلام لاناصدر اسلام
محل سکونتیمن، کوفہ، خوزستان، قم
خصوصیاتیمن کے بڑے قحطانی عرب قبیلہ
واقعاتحضرت امام علیؑ اور امام حسینؑ کی ہمراہی اور مدد
شخصیات
مشاہیریاسر بن عامر عنسی مذحجی، عمار بن یاسر، مالک اشتر نخعی، ابراہیم بن مالک اشتر نخعی، عمرو بن معدیکرب مذحجی، ہانی بن عروہ مرادی، اویس قرنی، کمیل بن زیاد نخعی اورشہدائے کربلا سے بعض شخصیات


قبیلہ مَذحِج یمن کے بڑے شیعہ قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے، جس نے صدر اسلام میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں میں اپنا کردار ادا کیا۔ اسلام کی آمد کے بعد مکہ اور مدینہ میں رہائش پذیر کفار مسلمان ہو گئے؛ لیکن یمن میں رہنے والے مذحجی قبیلہ یمن میں امام علیؑ کو دیے گئے ایک مشن میں مسلمان ہوگیا اور امام علیؑ کے پیروکاروں اور شیعوں میں قرار پائے۔

مذحجی قبیلہ نے مسلمانوں کی فتوحات میں بنیادی کردار ادا کیا اور کوفہ کی تاسیس کے بعد انہوں نے اس شہر کی طرف ہجرت کی اور اس کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسی قبیلے پر مشتمل تھا۔ امام علیؑ کی خلافت کے دوران یہ قبیلہ امامؑ کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور جنگ جمل و صفین میں امامؑ کے سپاہیوں میں شامل تھے۔

قبیلہ مذحج کے بعض افراد واقعہ کربلا میں منصب شہادت پر فائز ہوئے اور بعض دیگر افراد قیام مختار میں شامل تھے۔

یاسر بن عامر، عمار بن یاسر، مالک اشتر، ابراہیم بن مالک اشتر، ہانی بن عُروہ، اویس قرنی اور کمیل بن زیاد قبیلہ مذحج کی برجستہ شخصیات میں سے ہیں۔ نیز اسود عنسی جس دعوائے نبوت کیا، اسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔

تاریخی مآخذ کے مطابق مذحجی قبائل نے خوزستان اور قم جیسے علاقوں کی طرف ہجرت کی۔ اس قبیلے میں سے کچھ افراد آج بھی ایران اور عراق میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

تعارف

مذحج قبیلہ یمن کے بڑے قحطانی عرب قبیلوں میں سے ایک ہے جس سے مزید بہت سے قبیلے نکلے۔[1] اسی لیے انہیں قبائل کا باپ کہتے ہیں۔[2] اس قبیلہ کو قوم سبا[3] یا کہلان[4] کے مالک بن أُدد، جو کہ کہلان بن سبا کے نواسوں میں سے تھا،[5] اور قحطان کی نسل[6] سے مسوب کیا جاتا ہے؛ اس لیے انہیں خالص یمنی قبائل میں سے سمجھا جاتا ہے[7] اور بنی کہلان کے مشہور سات قبائل میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔[8]

قبیلہ مذحج کے لوگوں کو بہادر، دلیر،[9] جنگجو اور طاقتور[10] قوم سمجھاجاتا ہے۔[11] مذحجیوں کو شعر و شاعری سے بھی دلچسپی تھی اور ان میں ممتاز شعراء بھی تھے۔[12] بعض تاریخی منابع کے مطابق نبی مکرم اسلام(ص) کی ایک حدیث میں قبیلہ مذحج کو قوم سبا کے چھ مبارک قبیلوں[13] میں سے قرار دیا گیا ہے[14] اور قبیلہ مذحج کی اکثریت کو اہل بہشت قرار دیا گیا ہے۔[15]

جائے سکونت اور ذیلی قبیلہ جات

تاریخی منابع کےمطابق مذحج کے مختلف قبائل یمن کے مختلف علاقوں میں آباد تھے؛ منجملہ وہ لوگ صنعا کے مشرقی حصے،[16] مارب کے نواحی علاقوں،[17] نجران،[18] حضرموت[19] اور تثلیث[20] جیسے علاقوں میں رہائش پذیر تھے۔ وہ لوگ سرزمین یمن کے ایک بڑے حصے پر حکومت بھی کیا کرتے تھے۔[21]

مذحج قبائل میں سے کچھ یہ ہیں:: سَعدالعشیرۃ،[22] بنی‌‌الحارث بن کَعب،[23] مُراد،[24] قبیلہ نَخَع،[25] صُداء،[26] رُہاء،[27] جَنب[28] اور عَنس۔[29] ان میں سے کچھ چھوٹے قبیلوں میں بھی بٹے ہوئے تھے۔[30]

شخصیات اور ان سے منسوب قیام گاہیں

قبیلہ مذحج کی کچھ برجستہ شخصیات یہ ہیں: یاسر بن عامر مذحجی،[31] عمار بن یاسر،[32] مالک اشتر نخعی،[33] ابراہیم بن مالک اشتر نخعی،[34] عمرو بن معدیکرب مذحجی،[35] ہانی بن عروہ مرادی،[36] اویس قرنی،[37] کمیل بن زیاد نخعی،[38] ابوموسی اشعری[39] شُرَیح بن ہانی حارثی،[40] عبدالرحمن بن ملجم مرادی،[41] اور سنان بن انس نخعی.[42]

قبیلہ مذحج کی تاریخ میں ام سنان بنت خیثمہ جیسی مشہور خواتین کا بھی تذکرہ ملتا ہے[43] جو بعض محققین کے مطابق مشہور ترین شیعہ خواتین میں سے تھیں اور ایسی بہادر خاتون تھیں جو امام علیؑ کے دور خلافت کے تمام واقعات میں حاضر رہیں۔ جنگ صفین میں بھی موجود تھیں اور امامؑ کی حمایت کرتی رہیں۔[44] اس خاتون کے مذحج قبیلے کو امام علیؑ کے ساتھ دینے اور اہل بیتؑ پیغمبر(ص) کی حفاظت کی طرف ترغیب دینے کے لیے کہے گئے اشعار کا تاریخی منابع میں نمایاں طور پر ذکر ملتا ہے۔[45]

کوفہ میں موجود مسجد جعفی ان مساجد میں سے ایک ہے جو مذحجیوں سے منسوب ہے۔[46] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مکہ میں کوہ ابو قبیس کا نام ایک مذحجی کی موجودگی پر اس نام سے موسوم کیا ہے۔[47]

قبول اسلام

جاہلیت کے دور میں مذحجی قبائل بت پرست تھے اور یغوت جیسے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔[48] البتہ ان میں عیسائیت کے اثر کا بھی ذکر ملتا ہے۔[49] تاریخی منابع میں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مکہ میں موجود مذحجی قبائل نے اسلام قبول کیا جن میں سب سے چند اہم شخصیات یاسر بن عمار، ان کی اہلیہ سمیہ بنت خباط اور ان کا بیٹا عمار یاسر بھی تھا، جن پر مکہ کے مشرکین نے ظلم و ستم روا رکھا لیکن انہوں نے حضرت محمد (ص) کی تعریف و تمجید کرنے کے سلسلے میں ذرہ بھر کوتاہی نہیں کی۔[50]

رسول خدا(ص) کی مدینہ کی جانب ہجرت کے بعد اس قبیلے کے مدینہ میں رہائش پذیرکچھ لوگوں بھی اسلام قبول کیا اور جنگ بدر میں شرکت کی۔[51] اسی وجہ سے وہ لوگ انصار سمجھے جاتے ہیں۔[52] مذحجی قبیلہ کے بعض گروہ جنگ سریہ کے بعد مسلمان ہوئے جو رسول خدا(ص) کے حکم سے لڑی گئی تھی۔ سریہ جنگوں کے سلسلے کی ایک کڑی حضرت امام علیؑ کی یمن میں لڑی گئی جنگ سریہ تھی جو 10ویں ہجری سال کے ماہ رمضان میں واقع ہوئی جس کی وجہ سے مذحجی قبائل نے اسلام قبول کیا۔[53] نیز، اس قبیلے کے بنی حارث قبیلہ خالد بن ولید کے ذریعے لڑی گئی جنگ سریہ سے مسلمان ہوا۔[54] بعض اوقات انہوں نے مدینہ میں پیغمبر اسلام (ص) کے پاس نمائندے بھی بھیجے[55] جو ان کے ہاں اسلام پھیلنے میں کارگر ثابت ہوا۔[56]

اسود عنسی کا دعویٰ نبوت

اسود عنسی مذحج کے قبیلہ عنس سے تعلق رکھتا تھا[57] جس نے پیغمبر اکرم (ص) کی زندگی کے آخر میں اور 11ویں ہجری میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔[58] کچھ عرصے کے بعد اس نے صنعاء اور نجران کے علاقوں کو اپنے قبضے میں لے لیا۔[59] کہا جاتا ہے کہ مذحج کے عام لوگوں نے اسود کی پیروی کی[60] اور قبیلہ عنس اور بنی حارث بھی اس کے ساتھ ہوگئے۔[61]

دوسری طرف، قبیلہ مذحج کے کچھ قبائل[62] منجملہ قبیلہ نَخَع نے ان کے خلاف جنگ کی۔[63] بعض تاریخی منابع کے مطابق رسول خدا(ص) نے ان کو پسپا کرنے کے لیے مذحج کے قبیلہ مراد اور قبیلہ ہمدانسے مدد لی۔[64] آخر کاراسود عنسی فیروز دیلمی[65] یا قبیلہ مراد کے قیس بن مکشوح کے ہاتھوں قتل ہوا۔[66]

اسلامی فتوحات اور ہجرت میں شرکت

مورخین کے مطابق قبیلہ مذحج مسلمانوں کی فتوحات بشمول ایران اور شام جیسی سرزمینوں میں سرگرم قبائل میں سے تھا۔ قبیلہ نخ کے بعض لوگ جنگ نہاوند،[67] قادسیہ کی جنگوں میں رومیوں کے ساتھ[68] اور جنگ یرموک میں ساسانیوں[69] کے ساتھ لڑے۔ مالک اشتر نخ قبیلے کے عظیم شخصیات میں سے تھے جو جنگ یرموک میں موجود تھے اور ان کے سر پر زخم آئے تھے۔[70]

اسلامی فتوحات کے وسیع ہونے اور کوفہ اور بصرہ جیسے شہروں میں فوجی چھاونیوں کے قیام کے ساتھ ہی یمن سے مختلف قبائل نے ان شہروں کی طرف ہجرت کی۔[71] کہا جاتا ہے کہ کوفہ میں قبیلہ مذحج اور اسد میں موجود افراد کی تعداد شہر کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ تھا[72] اور یہاں تک کہ کوفہ میں قبیلہ مذحج آبادی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر تھا۔[73] اور عراق میں تو یہ تین سب سے زیادہ آبادی والے قبائل میں سے ایک تھا۔[74]

مذحجی قبیلہ کی ایک تعداد ایران کے مختلف شہروں کی طرف ہجرت کرگئے،[75] جن میں قم شہر بھی شامل ہے۔[76] ایران کے خوزستان میں آج بھی مذحجی قبائل کے لوگ ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں[77] ان میں سے جو قبیلہ نیس کے نام سے مشہور ہیں، وہ ابراہیم بن مالک اشتر کی طرف منسوب ہیں۔[78]

امام علیؑ کے ساتھ جنگوں میں شرکت

مذحجی قبیلہ ان یمنی قبائل میں سے تھا جو امام علیؑ کے خلافت پر فائز ہونے بعد آپؑ کے ساتھ دیا۔ کہتے ہیں کہ یمن میں امام علیؑ کے زیر نگرانی جنگ اور مذحجیوں کا اسلام قبول کرنا[79] اس بات کا سبب بنا کہ یمنی ہمدانی اور مذحجی قبائل امام علیؑ سے دلچپسی کے ساتھ روابط قائم کیے اور بعد میں ان کوفہ میں امامؑ کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہوگئے۔[80] دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یمن کے تمام قبائل میں شیعہ موجود تھے جو امام علیؑ سے محبت کرتے تھے۔[81]

قبیلہ معذحج نے امام علیؑ کے زہر سرپرستی لڑی جانے والی جنگوں میں بھرپور شرکت کی۔ امامؑ کی طرف سے ناکثین کے ساتھ جنگ کے لیے بلانے کے بعد مذحجیوں نے مالک اشتر کی قیادت میں جنگ جمل میں امامؑ کا ساتھ دیا۔بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، 1417ھ، ج2، ص235؛ طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص20-34.</ref> مذجحی قبیلہ جنگ صفین میں بھی شریک تھے اور امام علیؑ کے سات لشکروں میں سے ایک ان کا لشکر تھا جو زیاد بن نضر حارثی[82] اور مالک اشتر[83] کے ماتحت تھے۔ عمار بن یاسر[84] اور اویس قرنی[85] اس جنگ میں شہید ہونے والے مذحجی مشہور شخصیات میں سے تھے۔

واقعہ کربلا اور قیام مختار میں شرکت

مذحجی قبائل نے واقعہ کربلا میں امام حسینؑ کی حمایت کی۔ اس قبیلے کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہانی بن عروہ نے امام حسینؑ کے نمائندے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں پناہ دی اور ان کی حمایت کی نیز اسی راہ میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔[86] یہ اس بات کا سبب بنا کہ مذحجیوں میں وقتی طور پر ایک بغاوت نے بھی سر اٹھایا۔[87]

اس کے علاوہ کربلا کے بعض شہداء؛ جیسے حَجاج بن مسروق جُعفی،[88] یزید بن مَغفِل،[89] عمرو بن مُطاع جُعفی، عمیر بن عبد اللہ مذحجی،[90] مُجَمِّع بن عبد اللہ عائِذِی، [91] عائذ بن مجمع،[92] نافع‌ بن ہلال جَمَلی[93] قبیلہ مذحج کے افراد تھے۔

دوسری طرف عمرو بن حجاج زبیدی[94] اور شبت بن ربعی[95] جیسے مذحجی ایسے بھی تھے جو امام حسینؑ کے مقابلے میں آئے اور عبید اللہ بن زیاد کی سرکردگی میں شہدائے کربلا کے سروں کو اٹھانے والوں میں سے تھے۔[96]

قیام مختار میں مذحجی قبائل کے کچھ سردار ایک دوسرے کے مقابلے میں آگئے۔ کہا جاتا ہے کہ دیگر شیعہ قبائل کی طرح مذحجی قبائل نے بھی فوج در فوج مختار کے ساتھ دیا[97] ابراہیم بن مالک اشتر اور ان کے ساتھیوں نے مختار کی حمایت کی جبکہ شبث بن ربعی، زَحر بن قیس جعفی اور عمرو بن حجاج زبیدی جیسے لوگوں نے ان کے ساتھ دشمنی کی۔[98]

حوالہ جات

  1. جواد علی، المفصل، 1391ھ، ج4، ص454؛ حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص699؛ ابن‌فضل اللہ عمری، مسالک الأبصار، 1424ھ، ج4، ص260۔
  2. جوہری، الصحاح، بیروت، ج1، ص340۔
  3. قزوینی، آثار البلاد، 1998ھ، ص41۔
  4. ابن‌ دیبع، نشر المحاسن الیمانیۃ، 1413ھ، ص155؛ مقری، نفح الطیب من غصن الأندلس الرطیب، 1419ھ، ج1، ص234۔
  5. ابن‌ حزم، جمہرۃ انساب العرب، 1403ھ، ص484-485؛ حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص699۔
  6. اسکندری، الأمکنۃ و المیاہ و الجبال و الآثار، 1425ھ، ج2، ص476؛ آل بسام، خزانۃ التواریخ النجدیۃ، 1419ھ، ج1، ص36۔
  7. جعیط، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ: الکوفۃ، 2005ء، ص349۔
  8. ابن‌ فضل اللہ عمری، مسالک الأبصار، 1424ھ، ج4، ص254۔
  9. ابن‌ دیبع، نشر المحاسن الیمانیۃ، 1413ھ، ص193۔
  10. جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، 1391ھ، ج2، ص552۔
  11. ابن‌ کلبی، نسب معد و الیمن الکبیر، 1425ھ، ج1، ص303۔
  12. ابو الفرج اصفہانی، الاغانی، 1415ھ، ج12، ص389؛ مقری، نفح الطیب من غصن الأندلس الرطیب، 1419ھ، ج4، ص257۔
  13. بکری، المسالک و الممالک، 1992ء، ج1، ص345۔
  14. ابن‌ شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، 1410ھ، ج2، ص551۔
  15. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص700۔
  16. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج1، ص246۔
  17. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص702۔
  18. عمارہ یمنی، تاریخ الیمن، 1425ھ، ص194؛ ماسینیون، خطط الکوفۃ و شرح خریطتہا، 2009ء، ص44۔
  19. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج1، ص275۔
  20. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج2، ص137؛ بکری، معجم ما استعجم من أسماء البلاد و المواضع، 1403ھ، ج1، ص305۔
  21. منتظرالقائم، نقش قبایل یمنی در حمایت از اہل بیت، ص71۔
  22. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص421۔
  23. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج1، ص208۔
  24. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص702۔
  25. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص739۔
  26. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص463۔
  27. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج1، ص373۔
  28. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج1، ص192۔
  29. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص613۔
  30. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص699، 702۔
  31. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج4، ص101؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1588۔
  32. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج11، ص563؛ ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج3، ص186؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1135۔
  33. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج56، ص373۔
  34. امین، أعیان الشیعۃ، 1403ھ، ج2، ص200۔
  35. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص58؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1201۔
  36. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج73، ص346؛ دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص233؛ قزوینی، المزار، بیروت، ص119۔
  37. ابن‌ کلبی، نسب معد و الیمن الکبیر، 1425ھ، ج1، ص334؛ ابونعیم، معرفۃ الصحابۃ، 1422ھ، ج1، ص289؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج9، ص408۔
  38. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص217؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج50، ص247، براقی، تاریخ الکوفۃ، 1407ھ، ص334۔
  39. براقی، تاریخ الکوفۃ، 1407ھ، ص398۔
  40. حجری یمانی، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، 1416ھ، ج2، ص700۔
  41. مقریزی، المقفی الکبیر، 1427ھ، ج4، ص44؛ ابن‌ اثیر، اللباب فی تہذیب الأنساب، 1414ھ، ج3، ص188۔
  42. ابن‌کلبی، نسب معد و الیمن الکبیر، 1425ھ، ج1، ص294؛ ابن‌ فضل اللہ عمری، مسالک الأبصار، 1424ھ، ج4، ص262۔
  43. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج70، ص247۔
  44. آیینہ‌ وند، ادبیات سیاسی تشیع، 1387ھ، ص51-52۔
  45. ملاحظہ کیجیے: ضبی، اخبار الوافدات، 1403ھ، ص24۔
  46. ماسینیون، خطط الکوفۃ و شرح خریطتہا، 2009ھ، ص56۔
  47. بکری، المسالک و الممالک، 1992م، ج1، ص401؛ یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ج1، ص80۔
  48. ابن‌ کلبی، الاصنام، 2000ء، ص10۔
  49. پیشوایی، تاریخ اسلام، 1382ش، ص70: جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1382شمسی، ص206۔
  50. ابن‌ اثیر، الکامل، 1385ھ، ج2، ص67؛ شرح نہج البلاغۃ لابن‌أبی الحدید، ج13، ص: 255؛ ابن‌عبدالبر، الاستیعاب، 1412ھ، ج4، ص1588-1589۔
  51. ابن‌ کلبی، نسب معد و الیمن الکبیر، 1425ھ، ج1، ص314؛ ابن‌حزم، جمہرۃ انساب العرب، 1403ھ، ص410۔
  52. مطرزی، المغرب فی ترتیب المعرب، 1979ء، ج1، ص303۔
  53. ابن‌سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‌2، ص128-129۔
  54. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص126-130۔
  55. طبری، تاریخ الام و الملوک، 1387ھ، ج3، ص132-133؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج1، ص245-246؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، ج27، ص147۔
  56. رازی، تاریخ مدینۃ صنعاء، 1409ھ، ص191، 513؛ طبری صنعانی، تاریخ صنعاء، صنعاء، ص17؛ عاملی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، ج27، ص152۔
  57. ابن‌ قتیبہ، المعارف، 1992ء، ص105۔
  58. مسعودی، التنبيہ ‏و الإشراف، قاہرہ، ص240۔
  59. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص229۔
  60. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص327۔
  61. منتظرالقائم، «نقش قبیله نخع در تاریخ اسلام در قرن نخست هجری»، ص219. طبری کے نقل کے مطابق۔
  62. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج3، ص229: بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص110۔
  63. ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ھ، ج49، ص483۔
  64. منتظرالقائم، «نقش قبیله نخع در تاریخ اسلام در قرن نخست هجری»، ص219. طبری کے نقل کے مطابق۔
  65. ابن‌ قانع بغدادی، معجم الصحابة، 1424ھ، ج12، ص4258؛ ابن‌عبد البر، الاستیعاب، 1412ھ، ج3، ص1264۔
  66. ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج6، ص58؛ ابن‌عساکر، تاریخ مدینة دمشق، 1415ھ، ج49، ص481۔
  67. اعتماد السلطنہ، مرآۃ البلدان، 1367شمسی، ج4، ص1869۔
  68. دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص120؛ ابن‌ حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج1، ص197۔
  69. با مطرف، الجامع، بغداد، ج4، ص562؛ ابن‌ عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج2، ص148۔
  70. دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص120؛ ابن‌حجر، الاصابۃ، 1415ھ، ج6، ص212۔
  71. بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص272۔
  72. صفری فروشانی، «مردم‌شناسی کوفہ»، ص29-30۔
  73. جعیط، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ: الکوفۃ، 2005ء، ص377۔
  74. طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص34۔
  75. مذحجیان اہواز، آل مذحج فی الاہواز۔
  76. ناصر الشریعہ، تاریخ قم، 1383شمسی، ص43۔
  77. مذحجیان اهواز، آل مذحج فی الاهواز۔
  78. مذحجیان اهواز، آل مذحج فی الاهواز۔
  79. واقدی، المغازی، 1409ھ، ج3، ص1079؛ ابن‌ سعد، الطبقات الکبری، 1410ھ، ج‌2، ص128-129؛ مقریزی، امتاع الاسماع، 1420ھ، ج2، ص95-96؛ صالحی، سبل الہدی، 1414ھ، ج6، ص238۔
  80. جعفریان، سیرہ رسول خدا(ص)، 1383شمسی، ص666–667۔
  81. محرمی، تاریخ تشیع، 1378شمسی، ص192۔
  82. منقری، وقعۃ صفین، 1403ھ، ص117؛ نمازی شاہرودی، مستدرکات علم رجال الحدیث، 1414ھ، ج3، ص455۔
  83. منقری، وقعۃ صفین، 1403ھ، ص206۔
  84. طبری، تاریخ الأمم، 1387ھ، ج11، ص511؛ ابن‌عبدالبر، استیعاب، 1992ء، ج3، ص1138۔
  85. منقری، وقعۃ صفین، 1403ھ، ص324۔
  86. ابن‌عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ھ، ج73، ص346؛ ابن‌اعثم کوفی، الفتوح، 1411ھ، ج5، ص61۔
  87. خوارزمی، مقتل الحسین، 1381شمسی، 1423ھ، ج1، ص296؛ قمی، منتہی الامال، 1379شمسی، ج3، ص727۔
  88. بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص199۔
  89. طبسی، با کاروان حسینی، تہران، ج1، ص343-344۔
  90. واعظ کاشفی، روضۃ الشہداء، نوید اسلام، ج1، ص368۔
  91. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ج1، ص145؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ھ، ج3، ص199.
  92. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ج1، ص145۔
  93. سماوی، ابصار العین، 1419ھ، ص147-150۔
  94. دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص255؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، 1417ھ، ج3، ص181؛ طبری، تاریخ، ج5، ص412
  95. دینوری، الاخبار الطوال، 1368شمسی، ص254، ج3، ص178؛ بلاذری، انساب‌ الاشراف، ج3، ص178، 187؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص422۔
  96. بلاذری، انساب‌ الاشراف، 1417ھ؛ طبری، تاریخ الامم و الملوک، 1387ھ، ج5، ص456۔
  97. جمعی از نویسندگان، پیامدہای عاشورا، 1387شمسی، ص171۔
  98. طبری، تاریخ الأمم و الملوک، 1387ھ، ج6، ص18-33۔

مآخذ

  • آیینہ‌ وند، صادق، ادبیات سیاسی تشیع، تہران، نشر علم، 1387ھ۔
  • ابن‌ أبی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ اللہ، شرح نہج البلاغۃ لابن‌أبی الحدید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1404ھ۔
  • ابن‌ اثیر، علی بن ابی الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ۔
  • ابن‌ اثیر، علی بن محمد، اللباب فی تہذیب الأنساب، بیروت، دار صادر، چاپ سوم، 1414ھ۔
  • ابن‌ اعثم، أحمد بن اعثم الکوفی، کتاب الفتوح، تحقیق علی شیری، بیروت، دارالأضواء، 1411ھ۔
  • ابن‌ حزم، جمہرۃ أنساب العرب، تحقیق لجنۃ من العلماء، بیروت، ‌دار الکتب العلمیۃ، 1403ھ۔
  • ابن‌ دیبع، عبدالرحمن بن علی، نشر المحاسن الیمانیۃ فی خصائص الیمن و نسب القحطانیۃ، دمشق، دارالفکر المعاصر، 1413ھ۔
  • ابن‌ شبہ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، قم، دارالفکر، 1410ھ۔
  • ابن‌ عبد البر، یوسف بن عبد اللہ بن محمد، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، تحقیق علی محمد البجاوی، بیروت، دارالجیل، 1412ھ۔
  • ابن‌ عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق و ذکر فضلہا و تسمیۃ من حلہا من الأماثل أو اجتاز بنواحیہا من واردیہا و أہلہا، بیروت، دارالفکر، 1415ھ۔
  • ابن‌ فضل اللہ عمری، احمد بن یحیی، مسالک الأبصار فی ممالک الأمصار، ابوظبی، المجمع الثقافی، 1424ھ۔
  • ابن‌ قانع بغدادی، عبدالباقی، معجم الصحابۃ، بیروت، دارالفکر، 1424ھ۔
  • ابن‌ قتیبۃ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق ثروت عکاشۃ، قاہرۃ، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، چاپ دوم، 1992ء۔
  • ابن‌ کلبی، ہشام بن محمد، الاصنام، قاہرہ، دارالکتب المصریہ، 2000ء۔
  • ابن‌ کلبی، ہشام بن محمد، نسب معد و الیمن الکبیر، بیروت، عالم الکتب، 1425ھ۔
  • ابن‌ حجر عسقلانی، احمد بن علی، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1415ھ۔
  • ابن‌ سعد، محمد، الطبقات الکبری، تحقیق محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1410ھ۔
  • ابو الفرج اصفہانی، علی بن حسین، الأغانی، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، 1415ھ۔
  • ابو نعیم، احمد بن عبداللہ، معرفۃ الصحابۃ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، 1422ھ۔
  • اسکندری، نصر بن عبد الرحمن، الأمکنۃ و المیاہ و الجبال و الآثار و نحوہا المذکورۃ فی الأخبار و الآثار، ریاض، مرکز الملک فیصل للبحوث و الدراسات الاسلامیہ، 1425ھ۔
  • اعتماد السلطنہ، محمد حسن بن علی، مرآۃ البلدان، تہران، دانشگاہ تہران، 1367ہجری شمسی۔
  • امین، سید محسن، أعیان الشیعۃ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1403ھ۔
  • آل بسام، عبد اللہ بن عبد الرحمان، خزانۃ التواریخ النجدیۃ، بی‌جا، 1419ھ۔
  • بامطرف، محمد عبد القادر، الجامع(جامع شمل أعلام المہاجرین المنتسبین إلی الیمن و قبائلہم)، بغداد، دارالرشید للنشر، بی‌تا۔
  • براقی، حسین، تاریخ الکوفہ، بیروت، دارالاضواء، 1407ھ۔
  • بکری، عبداللہ بن عبد العزیز، المسالک و الممالک، البکری، بیروت، دارالغرب الاسلامی، 1992ء۔
  • بکری، عبداللہ بن عبدالعزیز، معجم ما استعجم من أسماء البلاد و المواضع، بیروت، عالم الکتب، چاپ سوم، 1403ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، انساب الاشراف، تحقیق سہیل زکار و ریاض زرکلی، بیروت، دارالفکر، 1417ھ۔
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح البلدان، بیروت، ‌دار و مکتبۃ الہلال، 1988ء۔
  • پیشوایی، مہدی، تاریخ اسلام (از جاہلیت تا رحلت پیامبر اسلام(ص)، قم، نشر معارف، 1382ہجری شمسی۔
  • جعفریان، رسول، سیرہ رسول خدا(ص)، قم، دلیل ما، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
  • جعیط، ہشام، نشأۃ المدینۃ العربیۃ الإسلامیۃ: الکوفۃ، بیروت، دارالطلیعہ للطباعۃ و النشر، چاپ سوم، 2005ء۔
  • جواد علی، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، بیروت، دارالعلم للملایین، 1391ھ۔
  • جمعی از نویسندگان، پیامدہای عاشورا، قم، زمزم ہدایت، چاپ چہارم، 1387ہجری شمسی۔
  • جوہری، اسماعیل بن حماد، الصحاح، بیروت، دارالعلم للملایین، بی‌تا۔
  • حجری یمانی، محمد بن احمد، مجموع البلدان الیمن و قبائلہا، صنعا، دارالحکمہ الیمانیہ، چاپ دوم، 1416ھ۔
  • خوارزمی، موفق بن احمد، مقتل الحسین، ناشر انوار الہدي، 1421ھ، 1381ہجری شمسی۔
  • دینوری، احمد بن داود، الأخبار الطوال، تحقیق عبدالمنعم عامر، قم، منشورات الرضی، 1368ہجری شمسی۔
  • رازی، احمد بن عبد اللہ، تاریخ مدینۃ صنعاء للرازی و کتاب الاختصاص للعرشانی، بیروت، دارالفکر، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • سماوی، محمد بن طاہر، إبصار العین فی أنصار الحسین علیہ‌السلام، قم، دانشگاہ شہید محلاتی، 1419ھ۔
  • صالحی شامی، محمد بن یوسف، سبل الہدی و الرشاد فی سیرۃ خیر العباد، تحقیق عادل احمد عبدالموجود و علی محمد معوض، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1414ھ۔
  • صفری فروشانی، نعمت اللہ، «مردم‌شناسی کوفہ»، نشریہ مشکوۃ، شمارہ 53، زمستان 57۔
  • ضبی، عباس بن بکار، اخبار الوافدات من النساء علی معاویۃ بن أبی سفیان، بیروت، موسسۃ الرسالہ، 1403ھ۔
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ الأمم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دارالتراث، 1387ھ۔
  • طبری صنعانی، اسحق بن یحیی، تاریخ صنعاء، صنعا، مکتبۃ السنحانی، بی‌تا۔
  • طبسی، نجم‌الدین، با کاروان حسینی، تہران، پژوہشکدہ تحقیقات اسلامی سپاہ‌، بی‌تا۔
  • عاملی، جعفر مرتضی، الصحیح من سیرۃ النبی الأعظم، قم، دارالحدیث، بی‌تا۔
  • عمارہ یمنی، عمارہ بن علی، تاریخ الیمن - المختصر المنقول من کتاب العبر - اخبار القرامطہ بالیمن، صنعا، مکتبۃ الارشاد، 1425ھ۔
  • قزوینی، زکریا بن محمد، آثار البلاد و اخبار العباد، بیروت، دارصادر، 1998ء۔
  • قزوینی، مہدی، المزار، بیروت، دارالرافدین، 1426ھ۔
  • قمی، شیخ عباس، منتہی الامال، قم، نشر دلیل، 1379ہجری شمسی۔
  • ماسینیون، لویی، خطط الکوفۃ وشرح خریطتہا، بیروت بیت الورھ، 2009م.
  • مسعودی، علی بن الحسین، التنبيہ ‏و الإشراف، قاہرہ، دارالصاوی، بی‌تا۔
  • مرتضی زبیدی، محمد بن محمد، تاج العروس - بیروت، دارالفکر، بی‌تا۔
  • محرمی، غلامحسین، تاریخ تشیع از آغاز تا پایان عصر غیبت صغری، موسسہ آموزشی پژوہشی امام خمینی، 1378ہجری شمسی۔
  • مطرزی، ناصر بن عبدالسید، المغرب فی ترتیب المعرب، حلب، مکتبہ اسامہ بن زید، 1979ء۔
  • مقری، احمد بن محمد، نفح الطیب من غصن الأندلس الرطیب، بیروت، دارالفکر، 1419ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، إمتاع الأسماع بما للنبی من الأحوال و الأموال و الحفدۃ و المتاع، تحقیق محمد عبد الحمید النمیسی، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1420ھ۔
  • مقریزی، احمد بن علی، المقفی الکبیر، بیروت، دارالغرب الإسلامی، چاپ دوم، 1427ھ۔
  • منتظرالقائم، اصغر، «نقش قبیلہ نخع در تاریخ اسلام در قرن نخست ہجری»، مؤسسہ شیعہ‌ شناسی، فصل‌ نامہ علمی پژوہشی شیعہ‌ شناسی، سال ششم، شمارہ22۔
  • منقری، نصر بن مزاحم، وقعۃ صفین، قم، مکتبۃ آیت‌اللہ مرعشی، 1403ھ۔
  • ناصر الشریعہ، محمدحسین، تاریخ قم یا حریم مطہر بانوی عالیقدر اہل بیت عصمت و طہارت حضرت فاطمہ معصومہ(ع)، تہران، رہنمون، 1383ہجری شمسی۔
  • نمازی شاہرودی، علی، مستدرکات علم رجال الحدیث، تہران، فرزند مولف، 1414ھ۔
  • واعظ کاشفی، ملا حسین، روضۃ الشہداء، تہران، نوید اسلام، بی‌تا۔
  • واقدی، محمد بن عمر، کتاب المغازی، تحقیق مارسدن جونس، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، چاپ سوم، 1409ھ۔
  • یاقوت حموی، یاقوت بن عبد اللہ، معجم البلدان، بیروت، ‌دار صادر، چاپ دوم، 1995ء۔