مندرجات کا رخ کریں

"گلگت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
«'''گلگت''' پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت میں صدیوں سے شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی۔ گلگت میں اکثریتی آبادی شیعوں کی ہے۔ اور صوبے کے دو حصوں میں سے ایک ہے۔ گلگت میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ شیعوں کے علاوہ اہل...» مواد پر مشتمل نیا صفحہ بنایا
 
Hakimi (تبادلۂ خیال | شراکتیں)
سطر 78: سطر 78:
* [https://www.islamtimes.org/ur/news/780645/28-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%DB%81-%D8%AF%D9%86-%D8%AC%D8%A8-%D8 28 فروری گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاہ دن، جب شاہراہ قراقرم پر 25 شیعہ مسافرین کو شہید کر دیئے گئے]، اسلام ٹائمز۔ درج مطلب: 1 مارچ 2012ء اخذ مطلب: 31 جنوری 2023ء۔
* [https://www.islamtimes.org/ur/news/780645/28-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%DB%81-%D8%AF%D9%86-%D8%AC%D8%A8-%D8 28 فروری گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاہ دن، جب شاہراہ قراقرم پر 25 شیعہ مسافرین کو شہید کر دیئے گئے]، اسلام ٹائمز۔ درج مطلب: 1 مارچ 2012ء اخذ مطلب: 31 جنوری 2023ء۔
*[https://www.islamtimes.org/ur/news/405118/%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%AD%DB%81-%D9%84%D9%88%D9%84%D9%88%D8%B3%D8%B1-%DA%A9%DB%92-2-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%85%DA%A9%D9%85%D9%84-%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D8%A8%D8%AA%DA%A9-%DA%AF%D8%B1%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%B1 سانحہ لولوسر کے 2 سال مکمل، قاتل ابتک گرفتار نہ ہو سکے]، اسلام ٹائمز۔ درج مطلب: 17 اگست 2012ء اخذ مطلب: 31 جنوری 2023ء۔
*[https://www.islamtimes.org/ur/news/405118/%D8%B3%D8%A7%D9%86%D8%AD%DB%81-%D9%84%D9%88%D9%84%D9%88%D8%B3%D8%B1-%DA%A9%DB%92-2-%D8%B3%D8%A7%D9%84-%D9%85%DA%A9%D9%85%D9%84-%D9%82%D8%A7%D8%AA%D9%84-%D8%A7%D8%A8%D8%AA%DA%A9-%DA%AF%D8%B1%D9%81%D8%AA%D8%A7%D8%B1 سانحہ لولوسر کے 2 سال مکمل، قاتل ابتک گرفتار نہ ہو سکے]، اسلام ٹائمز۔ درج مطلب: 17 اگست 2012ء اخذ مطلب: 31 جنوری 2023ء۔
{{پاکستان}}
[[زمرہ:پاکستان]]
[[زمرہ:پاکستان کے سیاحتی علاقے]]
[[زمرہ:پاکستان کے شیعہ شہر]]
[[زمرہ:غیر حائز اہمیت مقالات]]

نسخہ بمطابق 16:16، 1 فروری 2023ء

گلگت پاکستان کے صوبہ گلگت بلتستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت میں صدیوں سے شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہی۔ گلگت میں اکثریتی آبادی شیعوں کی ہے۔ اور صوبے کے دو حصوں میں سے ایک ہے۔ گلگت میں شینا زبان بولی جاتی ہے۔ شیعوں کے علاوہ اہل سنت اور اسماعیلیہ آبادی بھی گلگت میں بستی ہے۔ نگر، استور، ہنزہ اور چلاس کے اضلاع میں شمار ہوتے ہیں۔ یکم نومبر 1947ء کو گلگت ڈوگرا راج سے گلگت آزاد ہوکر پاکستان سے ملحق ہوا۔ گلگت میں شیعوں کے خلاف متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں جن میں سانحہ 1988ء اور سانحہ چلاس شامل ہیں۔

تعارف

گلگت دریائے سندھ کے کنارے واقع گلگت بلتستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ گلگت میں چار اضلاع گلگت، دیامر، غذر اور استور شامل ہیں۔ گلگت کے مشرق میں کارگل، جنوب مشرق میں بلتستان، مغرب میں صوبہ خیبرپختونخواہ کا علاقہ چترال، شمال میں چین اور شمال مغرب میں افغانستان واقع ہیں۔[1] گلگت کا پرانہ نام سارگین تھا۔ سار کے معنی جھیل اور گن سے مراد راستہ ہے۔[2] قدیم دور میں اسے گری گرت بھی کہا جاتا تھا۔[3] گری کا مطلب ہرن، اور گرت کا مطلب ناچنا ہے۔ یعنی ہرن ناچنے کی جگہ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دور میں یہاں پر ہرنوں کی رفت و آمد زیادہ تھی۔[4] سنہ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق گلگت کی آبادی 2 لاکھ 90 ہزار ہے[5] جس میں ضلع گلگت کے علاوہ نگر ہنزہ اور دیگر علاقے شامل نہیں ہیں۔[6] گلگت سطح سمندر سے 1463 میٹر اونچا ہے۔ دنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ، قراقرم اور ہندوکش کا سنگم بھی گلگت میں واقع ہے۔[7]

شیعیت کی آمد

دانشنامہ جہان اسلام کے مطابق گلگت میں پہلی شیعہ حکومت 958ھ میں ناصرالدین محمد غازی خان نے قائم کیا اور دسویں صدی کے آخر تک قائم رہی۔[8] جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ 105 ہجری میں گلگت میں شیعیت آگئی ہے۔[9] سنہ 725ء بمطابق سنہ 105ھ کو سید شاہ افضل نامی عالم دین تبلیغ کی غرض سے بدخشان سے گلگت آیا[10] اور اس وقت کا حاکم «راجہ سو ملک اول» ان کی تبلیغ کے نتیجے میں مسلمان ہوا۔[11] سید شاہ افضل کی قبر کشمیری بازار گلگت کے عقب میں دریا کی طرف موجود ہے۔[12] مصر میں فاطمیوں کی حکومت آنے کے بعد ان کی دربار کا مقرب، پیر ناصر خسرو علوی نے 444ھ میں بدخشان آکر اسماعیلیہ مذہب پھیلایا۔ بدخشان کے راجہ شاہ تاج مغل نے اسماعیلیہ مذہب کی ترویج کے لئے گلگت پر حملہ کیا اور کنجوت ہنزہ میں اسماعلیہ مذہب پہنچایا۔[13] سنہ 1525ء میں «شاہ بریا ولی» نے گلگت اور اس کے اطراف میں مکتب اہلبیت کی ترویج کی۔[14] «سید سلطان علی شاہ حسینی عارف جلالی» 1689ء میں کشمیر کے راستے سے گلگت آئے اور تعلیمات اہل بیت کی ترویج کی۔ آپ دنیور گلگت میں مدفون ہیں اور اب بھی لوگ زیارت پر آتے ہیں۔[15] 1802ء میں سید شاہ ولی تقوی بن سید شاہ زمان تقوی گلگت آئے اور کنجوت، نگر اور دیگر علاقوں میں مکتب اہل بیت کو پھیلایا۔ آپ غلمت نگر نمبر2 میں دفن ہیں۔[16] 1905 میں سید سلام شاہ المعروف پنجابی سید نے شیعہ مکتب کی ترویج کے لئے کام کیا۔[17]

شیعہ حکمران

گلگت میں سنہ 723ء سے 1848ء تک شیعہ حکمرانوں کی حکومت رہتی ہے۔ پہلا مسلمان اور شیعہ حاکم راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذر جمشید کیانی تھے جس نے گلگت اور اس کی ریاستوں پر 70 سال حکومت کی۔ آذر جمشید کیانی ایران کا ایک آوارہ وطن شاہزادہ تھا جو 642ء میں کشمیر سے ہوتا ہوا دنیور آیا۔جہاں شاہزادی نوربخت سے شادی ہوتی ہے۔ اور 643ء میں آذرجمشیدی نے رعایا کو بادشاہ کے ظلم سے نجات دینے کے لئے اسکو قتل کیا اور 643ء میں وہ خود تخت نشین ہوگیا۔ یوں گلگت میں بدھ ازم کا خاتمہ ہوگیا اور آتش پرستوں کا دور حکومت کا آغاز ہوا۔ اب بھی گلگت کے بعض علاقوں میں آتش پرستی کے بعض رسومات پائے جاتے ہیں۔ ص43 آذر جمشید نے 16 سال حکومت کی۔ پہاڑی علاقوں سے تنگ آکر گلگت سے روپوش ہوگیا اور اس کا کمسن شاہزادہ کرک تخت نشین ہوا اور 55 سال تک حکومت کی اور 80 سال کی عمر میں وفات پاگیا۔ گلگت کا پہلا مسلمان اور شیعہ بادشاہ راجہ سوملک اولی بن راجہ کرک بن آذرجمشید کیانی تھے جس نظ 70 سال حکومت کی۔راجہ سوملک (حکومت:حکومت:723-793ء) کا دور عدل و انصاف کا دور تھا ص44 ان کے دور میں پہلا مبلغ اسلام سیدشاہ افضل کی تبلیغ کے اثر سے بادشاہ مسلمان ہوگیا۔ ان کے بعد اس کا بیٹا شاہ ملک کیانی حاکم بنا جو 122 سال کی عمر میں 793 میں وفات پاگیا اور قلعہ فردوسیہ میں دفن ہوا۔ حکمرانی یہ سلسلہ جاری رہا اور دوسرا شیعہ بادشاہ راجہ شاہ ملک کیانی المعروف گلیت ملیکا بنا جس نے 793 تا 878 تک حکومت کی۔ ص47 انکے بعد راجہ دینگ ملک کیانی (حکومت:878-932ء)، راجہ خسروخان کیانی (حکومت:932-997ء)، راجہ حیدرخان کیانی (حکومت:997-1075ء) راجہ نورخان کیانی (حکومت:1075-1127ء) راجہ شاہ مرزہ خان اول کیانی (حکومت:1127-1205ء)، راجہ طرطرہ خان کیانی(حکومت:1205-1236ء)، راجہ طرہ خان اول بن راجہ طرطرہ خان کیانی (حکومت:1241-1275ء) راجہ سوملک دوم بن راجہ طرہ خان کیانی (حکومت:1275-1345ء)، راجہ چلس خان کیانی (حکومت:1345-1395ء)، راجہ شاہ فردوس علی خان کیانی طرہ خانی (حکومت:1395-1397ء)، راجہ خسروخان کیانی دوم (حکومت:1397-1422ء)، راجہ ملک شاہ (حکومت:1422-1449ء)، راجہ طرہ خان دوم کیانی (حکومت:1449-1479ء)، راجہ چلس خان دوم بن راجہ طرہ خان دوم (حکومت:1479-1497ء)، راجہ سو ملک سوم بن راجہ چلس خان دوم کیانی (حکومت:1497-1522ء)، راجہ شاریس خان دوم، (حکومت:1522-1561ء)، راجہ صاحب قرآن طرہ خان کیانی (حکومت:1561-1567ء)، راجہ سلطان مرزہ (حکومت:1567-1600ء)، راجہ علی شیرخان طرہ خان کیانی (حکومت:1600-1632ء)، راجہ خاقان مرزہ (حکومت:1632-1635ء)، ملکہ جوار خاتون طرہ خان کیانی (ددی جواری) (حکومت:1642-1667ء) نیز (1689-1705ء)، راجہ شاہ جی خان کیانی (حکومت:1670-1689ء ) ، راجہ شاہ غوری تھم خان طرہ خان کیانی (حکومت:1705-1800ء)، راجہ محمد خان کیانی (حکومت:1802-1824ء)، راجہ طاہر شاہ مغلوٹ کیانی (حکومت:1828-1836ء)، راجہ کریم خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1841-1844ء)، راجہ محمد خان ثانی کیانی(حکومت: 1844-1848ء) شہزادہ علیداد خان مغلوٹ کیانی (حکومت:1848-1879ء) شیعہ بادشاہ گزرے۔[18]

ڈوگروں کی حکمرانی

راجہ علیداد خان کے دور میں برطانوی مداخلتیں شروع ہوئیں اور ان کا بڑا بیٹا شہزادہ حسین علی کیانی کو گلگت کی راجگی ملی۔ مہاراجہ کشمیر کی نمایندہ حکومت اور تاج برطانیہ کی طرف سے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کی وجہ سے اب راجوں کی حکومت جاگیرداری تک محدود ہوگئی اور علاقے میں 1846ء سے ڈوگروں کی حکومت کے آثار نمودار ہوئے جو سنہ 1948ء تک رہے۔ گلگت کا علاقہ سکھوں نے 1841 میں فتح کیا اور ریاست جموں کشمیر کا حصہ بنادیا۔ مقامی حکمران «غور رحمان» جس کا تعلق یاسین سے تھا، نے دوبارہ گلگت کو اپنےقبضے میں لےلیا اور مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1862ء میں گلگت اور 1863ء کو یاسین پر قبضہ کیا۔[19] ڈوگرے[یادداشت 1] 88 سال تک گلگت پر قابض رہے۔[20] البتہ گلگت کے علاوہ دیگر ریاستوں پر مقامی راجاؤں کی حکومت رہی۔[21] سکردو، ہنزہ نگر، پونیال، اشکومن، گوپس اور یا سین، داریل تنگیر اور بلتستان میں سب کے سب مقامی راجے تھے۔[22] 1860ء میں جب ڈوگرہ کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے گلگت بلتستان کو کشمیر کا علاقہ قرار دیا۔ البتہ 1879ء میں پہلی برطانوی ایجنسی قائم کی گئی اور ڈوگروں اور انگریزوں میں اقتدار بدلتی رہی۔

گلگت پاکستان کی خودمختاری کے بعد

سنہ 1948ء میں پاکستان کی آزادی کے ایک سال بعد کرنل حسن خان، راجہ بابر خان مغلوٹ کیانی اور احسان علی خان وزیر نے ڈوگرہ افواج کے خلاف تحریک چلاکر ایک بار پھر سے علاقے کو آزاد کرایا۔[23] پاکستان سے نظریاتی قربت کی بناء پر پاکستان سے الحاق کیا اور پورا علاقہ پاکستان کے زیرِ انتظام آگیا۔

سنہ 1999ء میں گلگت بلتستان کے آئینی مسئلے سے متعلق سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک جامع فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے مطابق یہاں کی عوام کو حقِ حکمرانی اور آزاد عدلیہ کے قیام کا آئینی حق حاصل ہے۔[24]

زبان اور ادب

گلگت میں شینا سب سے زیادہ علاقوں میں بولی جاتی ہے جو سنسکرت کی ایک شاخ کہلاتی ہے۔[25] یہ زبان ہندوستان میں کارگل، دراس اور لداخ میں بھی بولی جاتی ہے۔[26] گلگت کے ضلع غذر میں کھوار زبان، ہنزہ، نگر نیز غذر اور گلگت کے بعض علاقوں میں بروشسکی اسی طرح غذر اور ہنزہ کے بالائی علاقوں میں وخی زبان بولی جاتی ہے۔[27]

شیعہ شخصیات

  • کرنل حسن خان: آپ 28 فروری 1919ء کو گلگت میں پیدا ہوئے اور گلگت بلتستان کی آزادی میں بڑا کردار ادا کیا۔ کشمیر فورس میں آپ کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1944ء کو برما کے محاذ پر دوسری جنگ عظیم لڑی۔ آپ کی قیادت میں ڈوگروں سے آزادی ملی۔ آپ 19 نومبر 1983ء کو وفات پاگئے۔[28]
  • سید ابوالقاسم خوانساری: آپ ایران کے شہر خوانسار میں متولد ہوئے۔ آپ ریاضی میں ماہر تھے۔ آپ سید ابوالحسن اصفہانی کے کہنے پر تبلیغ کیلئے گلگت آئے اور سنہ 1380ھ میں وفات پاگئے اور گلگت میں مدفون ہیں۔[29]
  • سید ضیاالدین رضوی:آپ 1960ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ گلگت جامع مسجد کے امام جمعہ اور گلگت میں شیعوں کے مذہبی سربراہ رہ چکے ہیں۔ پاکستان کے سکول اور کالجز کے نصاب کی مختلف کتابوں میں شیعوں کے لئے غیر قابل قبول مواد کو حذف کرنے کی تحریک چلائی اور کئی بار اسی سلسلے میں جیل گئے۔ آپ 9 جنوری 2005ء کو اپنے گھر سے نماز ظہر پڑھانے کیلئے مسجد کی طرف جاتے ہوئے نامعلوم افراد کے حملے میں زخمی ہوئے اور 13 جنوری 2005ء کو شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔

شیعہ مراکز

  • مرکزی جامع مسجد

شیعہ علاقے

ضلع گلگت کے علاقوں میں شیعہ، سنی اور اسماعیلیہ بستے ہیں جبکہ شیعہ نشین علاقوں میں دنیور، جلال آباد، اوشکھنداس اور بگروٹ جیسے علاقے شامل ہیں اور ضلع نگر کی پوری آبادی شیعہ ہے۔ ضلع غذر، استور اور ہنزہ میں بھی کم و بیش شیعہ رہتے ہیں۔ضلع دیامر میں اہل سنت بستے ہیں۔

مذہبی رسومات

گلگت میں باقاعدہ طریقے سے محرم الحرام میں عاشورا کا جلوس سنہ 1951ء میں بلتستان کے بعض فوجیوں نے نکالا۔[30]

سانحات

گلگت میں فرقہ واریت اور انتہاپسندی کے واقعات وقتا فوقتا رونما ہوتے رہے ہیں۔[31] اور گلگت کے سابقہ امام جمعہ سید ضیاء الدین رضوی سمیت مختلف افراد انہی فسادات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ان حادثات میں سے بعض درج ذیل ہیں۔

سانحہ 1988ء

17 مئی 1988ء کو گلگت شہر میں دہشتگردی کا ایک فرقہ وارانہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہاں کے شیعوں نے اہل سنت سے ایک دن پہلے عیدالفطر منایا تھا۔ سانحہ گلگت منظم دہشتگردی کا ایسا ظلم تھا، جس کے زخم ابھی تک نہیں بھر سکے۔17 سے 26 مئی 1988ء کو گلگت میں فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، یہ ایسا سانحہ تھا جو ابھی تک لوگوں کے ذہنوں میں نقش ہو کر رہ گیا ہے، جنرل ضیاء الحق کی ڈکٹیٹرشپ کی ناک تلے اس وقت کے وزیر امور کشمیر اور انتظامیہ کی سرپرستی میں ہزاروں مسلح دہشتگردوں نے گلگت کے کئی گائوں کو تاراج کیا، 60 سے زائد اہل تشیع شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ 12 سو سے زائد گھر، 40 مساجد اور امام بارگاہیں جلائی گئیں، داعش طرز کی قتل و غارت گری ہوئی، لاشوں کو جلایا گیا، معصوم بچوں کا پیٹ چاک کرکے لکڑی کے ڈنڈوں پر لہرایا گیا۔ ایک اندازے کے 60 سے 70 ہزار قبائلی اور افغانی مسلح دہشتگردوں کا لشکر گلگت بلتستان پر حملہ آور ہوا۔ عالم برج پہنچ کر لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا، ایک گروپ بلتستان کی جانب روانہ ہوا جبکہ دوسرا گلگت پر حملہ آور ہوا۔ 17 سے 26 مئی 1988ء تک کے خون آشام واقعات میں شت نالہ، بٹکور، جلال آباد، بونجی، سئی جگلوٹ، شیر قلعہ، ھوپر شکیوٹ، سکوار اور مناور کے شیعہ اکثریتی علاقے مکمل تاراج ہوئے۔ اس دوران سب سے زیادہ تباہی اور ظلم و ستم جلال آباد میں ہوا۔ شہیدوں کی اس سرزمین میں 50 سے زائد افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ 1230 گھر جلائے گئے۔ 24 مساجد اور 4 امام بارگاہ جلائے گئے اور 2000 سے زائد قرآن مجید کے نسخے نذر آتش کئے گئے۔ اس دلخراش سانحے کے تین اہم محرکات عیاں ہوئے۔[32]

سانحہ چلاس

3 اپریل سنہ 2012ء کو اس وقت پیش آیا جب راولپنڈی سے گلگت بلتستان جانے والی بسیں جب چلاس کے گونر فارم پہنچیں۔[33] ایک عینی شاہد کے مطابق گونر فارم میں سینکڑوں کی تعداد کے اجتماع نے بسوں کو روکا اور مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر ان کا شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد جب شیعہ ہونے کا یقین ہوا تو ان میں سے بعض کو فائر کیا بعض کو پتھراؤ کیا اور بعض بسوں کو آگ لگادی۔[34] جس کے نتیجے میں کئی لوگ شہید ہوئے۔ سرکاری اعلان کے مطابق اس سانحے میں 12 شیعہ شہید ہوئے۔[35] مسافروں کو قتل کرتے ہوئے شیعہ کافر کا نعرہ لگاتے ہوئے تشدد کرتے تھے۔[36] عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ شہدا کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔[37] اس واقعے کی ذمہ داری لشکر جھنگوی نے اپنے ذمہ لیا تھا۔[38]

سانحہ کوہستان

28 فروری 2012ء کو صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع کوہستان میں ہربن داس کے مقام پر راولپنڈی سے گلگت جانے والی بسوں کو شاہراہ قراقرم پر روک دیا گیا اور شناختی کارڈ دیکھنے پر جس کا شیعہ ہونا یقینی ہوگیا اس کو شہید کیا گیا۔ اس واقعے کو سانحہ کوہستان کہا جاتا ہے۔[39] اس واقعے میں 19 شیعہ مسافر شہید ہوئے۔[40] اس سانحے کے نتیجے میں کئی دنوں تک گلگت بلتستان میں احتجاج ہوا۔[41]

سانحہ لولوسر

16 اگست 2012ء کو راولپنڈی سے استور اور گلگت جانے والی تین بسوں کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقہ ناران میں روک دیا۔ مسافروں کے شناختی کارڈ چیک کر کے شیعہ ہونے کا یقین ہونے کے بعد 25 مسافروں کو قطار میں کھڑا کرکے فائرنگ کر کے انہیں شہید کردیا گیا۔ چونکہ لولو ٹاپ کے قریب یہ حادثہ پیش آیا تھا اس لئے اسے سانحہ لولوسر کہا گیا ہے۔ حملہ آور کمانڈوز کی وردیوں میں ملبوس تھے اور انہوں نے کلاشنکوف سے فائرنگ کی۔ شہید ہونے والوں میں ایک پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔[42]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. سبوخ سید، شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون، آئی بی سی اردو۔
  2. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،۲۰۱۴ ء، ص۲۲۰
  3. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،۲۰۱۴ ء، ص۲۲۰
  4. بلقیس بانو،شمیم بلتستانی شخصیت اور فن،۲۰۱۴ ء، ص۲۲۰
  5. Gilgit Baltistan
  6. Gilgit Baltistan
  7. سبوخ سید، شمالی علاقہ جات کا گیٹ وے گلگت، کی تباہی کا ذمہ دار کون، آئی بی سی اردو۔
  8. دانشنامہ جہان اسلام، بنیاد دائرۃ المعارف اسلامی، ج 1 ص 4406۔
  9. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  10. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  11. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  12. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص35۔
  13. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  14. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص135۔
  15. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  16. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص34۔
  17. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص136۔
  18. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص39-119۔
  19. کشمیر ڈوگرہ راج ۱۳، مکالمہ ویب سائٹ۔
  20. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  21. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  22. جاوید احمد، گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے، ہم سب ویب سائٹ
  23. انجم، شیعیت گلگت میں، ص43-119
  24. ڈاکٹر جابر حسین، گلگت بلتستان کا احساس محرومی، ایک روزن ویب سائٹ۔
  25. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  26. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  27. غلام الدین، کیا گلگت بلتستان کی مقامی زبانیں معدوم ہو رہی ہیں؟، انڈپنڈنٹ اردو
  28. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص 119-125
  29. آقابزرگ طهرانی، طبقات، نقبا، قسم۱، ص۶۴، قسم۲، ص۶۴۵؛ موسوی اصفهانی، ج۲، ص۲۶؛ موسوی خوانساری، مقدمۀ روضاتی، ص۱۹۱.
  30. انجم، غلام حسین، شیعیت گلگت میں، ص172۔
  31. رابعہ رحمن، خطہ گلگت بلتستان، نوائے وقت۔
  32. لیاقت تمنائی، سانحہ 1988ء گلگت، ناقابل فراموش سانحہ کے 31 سال ابلاغ سائٹ۔
  33. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز.
  34. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  35. سانحہ چلاس، بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر اتارکر شہید کیئےجانےوالوں کی آج 9ویں برسی منائی جارہی ہے، شیعیت نیوز ایجنسی۔
  36. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز،
  37. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  38. سانحہ چیلاس پاکستان از زبان یک شاہد عینی، اسلام ٹائمز۔
  39. 28 فروری 2012 سانحہ کوہستان، پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن، شیعیت نیوز
  40. سانحہ چلاس، ظلم کی داستان، اسلام ٹائمز۔
  41. https://www.islamtimes.org/ur/news/780645/28-%D9%81%D8%B1%D9%88%D8%B1%DB%8C-%DA%AF%D9%84%DA%AF%D8%AA-%D8%A8%D9%84%D8%AA%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%DA%A9%D8%A7-%D8%B3%DB%8C%D8%A7%DB%81-%D8%AF%D9%86-%D8%AC%D8%A8-%D8 28 فروری گلگت بلتستان کی تاریخ کا سیاہ دن، جب شاہراہ قراقرم پر 25 شیعہ مسافرین کو شہید کر دیئے گئے]، اسلام ٹائمز۔
  42. سانحہ لولوسر کے 2 سال مکمل، قاتل ابتک گرفتار نہ ہو سکے، اسلام ٹائمز۔

مآخذ


خطا در حوالہ: "یادداشت" نام کے حوالے کے لیے ٹیگ <ref> ہیں، لیکن مماثل ٹیگ <references group="یادداشت"/> نہیں ملا یا پھر بند- ٹیگ </ref> ناموجود ہے