متوکل عباسی

ویکی شیعہ سے
(متوکل علی اللہ سے رجوع مکرر)
متوکل عباسی
کوائف
نامجعفر بن معتصم
لقبالمُتِوَکِّل علی الله، متوکل
تاریخ پیدائشسنہ207ھ
والدمعتصم عباسی
اولادمُنتَصر عباسی، مُعتَزّ عباسی، المؤید بالله
مذہباسلام، اہل حدیث
وفاتسنہ247ھ
مدفنماحوزہ
حکومت
سمتخلیفہ دہم
سلسلہبنی عباس
آغازسنہ232ھ
انجامسنہ247ھ
معاصرحضرت امام علی نقیؑ
مرکزسامرا
اہم اقداماتانہدام حرم امام حسینؑ، امام علی نقیؑ کو سامرا میں شہر بدر کرنا
آثار باقی ماندہجامع مسجد سامرا
قبل ازمنتصر عباسی
بعد ازواثق عباسی


بنی‌ عباس
خلفا

نام


ابو العباس سفاح
عبداللہ منصور
محمد مہدی
موسی ہادی
ہارون رشید
محمد امین
مأمون عباسی
معتصم عباسی
ہارون عباسی
متوکل عباسی
محمد منتصر (المنتصر باللہ)
احمد مستعین (المستعین باللہ)
محمد معتز (المعتز باللہ)
محمد مہتدی (المہتدی باللہ)
محمد معتمد (المعتمد علی اللہ)
احمد معتضد (المعتضد باللہ)
علی مکتفی (المکتفی باللہ)
جعفر مقتدر (المقتدر باللہ)
ابومنصور محمد قاہر (القاہر باللہ)
محمد راضی (الراضی باللہ)
ابراہیم متقی (المتقی للہ)
عبداللہ مستکفی (المستکفی باللہ)
فضل مطیع (المطیع للہ)
عبدالکریم طائع (الطائع باللہ)
احمد قادر (القادر باللہ)
عبداللہ قائم (القائم بأمر اللہ)
عبداللہ مقتدی (المقتدی بامر اللہ)
احمد مستظہر (المستظہر باللہ)
فضل مسترشد (المسترشد باللہ)
منصور راشد (الراشد باللہ)
محمد مقتفی (المقتفی لامر اللہ)
یوسف مستنجد (المستنجد باللہ)
حسن مستضی (المستضی بامر اللہ)
احمد ناصر (الناصر لدین اللہ)
محمد ظاہر (الظاہر بامر اللہ)
منصور مستنصر (المستنصر باللہ)
عبداللہ مستعصم (المستعصم باللہ)

مدت سلطنت


132-136
136-158
158-169
169-170
170-193
193-198
198-218
218-227
227-232
232-247
247-248
248-252
252-255
255-256
256-278
278-289
289-295
295-320
320-322
322-329
329-333
334-333
334-363
363-381
381-422
422-467
467-487
487-512
512-529
529-530
530-555
555-566
566-575
575-622
622-623
623-640
640-656

مشہور وزراء و امراء

ابومسلم خراسانی
ابوسلمہ خلال
یحیی بن خالد برمکی
فضل بن یحیی برمکی
جعفر بن یحیی برمکی
علی بن عیسی بن ماہان
فضل بن ربیع
فضل بن سہل
طاہر بن حسین
...

ہم عصر شخصیات

جعفر بن محمدصادق
موسی بن جعفرکاظم
علی بن موسی رضا
محمد بن علی جواد
علی بن محمد ہادی
حسن بن علی عسکری
م ح م د بن الحسن المہدی
...

اہم واقعات

محمد نفس زکیہ کا قیام
قتیل فخ کا قیام
..

مُتَوکِّل عَبّاسی (سنہ207-247ھ)، سلطنت عباسیہ کا دسواں خلیفہ تھا جس نے سنہ232ھ میں منصب خلافت سنبھالا۔ اس کا سارا دوران خلافت حضرت امام علی نقیؑ کے عصر میں گزرا۔ متوکل عباسی ناصبی تھا اور اہل بیتؑ پر سبّ و شتم اور ان کی توہین کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتا تھا۔

سنہ236ھ میں متوکل کے حکم سے روضہ امام حسینؑ کو مسمار کردیا گیا اور یہاں کی زمین پر ہل چلا کر کاشت کاری کی گئی۔ اس اقدام سے عام لوگوں میں غم و غصے کا ماحول پیدا ہوا۔ لوگوں کی امام علی نقیؑ کی طرف رغبت اور متوکل کے بعض کارندوں کو برا بھلا کہنے کی تہمت لگا کر متوکل نے امامؑ کو سامرا بلایا اور آپؑ اپنی زندگی کے آخر لمحات تک وہیں رہے۔ مؤرخین کے مطابق متوکل ظاہری طور پر امام ہادیؑ کا احترام کرتا تھا لیکن وہ مسلسل امامؑ کی توہین کرتا اور آپؑ کے خلاف سازشیں کرتا رہتا تھا۔

محققین کے مطابق متوکل کے دور میں شیعوں نے بہت سی مشکلات برداشت کیں۔ بہت سے شیعہ مارے گئے یا قید ہوئے نیز متوکل کے حکم سے علویوں پر بہت زیادہ معاشی دباؤ تھا۔

سنہ 234 ھ میں متوکل کے حکم سے کلامی لحاظ سے مذہب اہل حدیث کو سرکاری مذہب کی حیثیت دی گئی اور ان کے عقائد؛ جیسے ظاہری آنکھوں کے ذریعے روئت خدا کا ممکن ہونا اور قرآن کا مخلوق نہ ہونا وغیرہ کو فروغ دیا گیا۔ مامون اور معتصم عباسی کے برعکس متوکل نے معتزلہ کی مخالفت کی اور اہل الذمہ پر سخت قوانین نافذ کئے۔

متوکل ترکوں کی مدد سے اقتدار میں آیا اور بعض محققین کے مطابق جب اس نے اقتدار سنبھالا تو اسلامی حکومت میں ترک اثر و رسوخ کا دور شروع ہوا۔ ابتدا میں متوکل کے ان کے ساتھ اچھے تعلقات رہے لیکن ان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر اسے خطرہ محسوس ہوا لہذا اس نے ان کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی۔ جیسے جیسے ترکوں اور متوکل کے درمیان دشمنی شدت اختیار کرتی گئی؛ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کیں یہاں تک کہ ترکوں کی مدد سے اس کے بیٹے مُنتَصر عباسی نے متوکل کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس کی موت کے ساتھ ہی عباسی حکومت زوال کا شکار ہوگئی۔

متوکل کو شاندار عمارتیں اور محلات بنانے کا بہت شوق تھا اور اس سلسلے میں بہت زیادہ رقم خرچ کرتا تھا۔ جامع مسجد سامرا اس کی بنائی ہوئی عمارتوں کی باقیات میں سے ایک ہے۔

اجمالی تعارف

جعفر بن معتصم المعروف متوکل عباسی؛ معتصم عباسی (دوران حکومت: 218ـ227ھ) کا بیٹا اور ہارون‌ رشید(دوران حکومت: 170ـ193ھ) کا پوتا اور سلطنت عباسیہ کا دسواں خلیفہ تھا۔[1] اس کی سنہ 207ھ میں پیدائش ہوئی۔[2] متوکل کو سنہ 227ھ میں سلسلہ خلافت عباسیہ کے خلیفہ اور اپنے بھائی واثق عباسی کی جانب سے امیرالحاج بنایا گیا۔[3] واثق کی موت کے بعد سنہ 232ھ کو جعفر بن معتصم 26 سال کی عمر میں حکومت عباسی کے دیگر سرکردگان اور ترک سرداروں کی مدد سے خلافت کے منصب پر فائز ہوا۔ احمد بن ابی‌دُؤاد نامی ایک درباری شخص کی تجویز پر جعفر بن معتصم کو المُتِوَکِّل عَلی الله کا لقب دیا گیا۔[4]

کہا جاتا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ خلیفہ کے چناؤ میں ترکوں کا ہاتھ رہا اور وہ لوگ اپنے مطلوبہ شخص کو خلافت کے منصب پر فائز کرنے میں کامیاب رہے۔[5] اسی وجہ سے بعض مصنفین متوکل کے خلافت پر براجمان ہونے کو ترکوں کے اثر و رسوخ کا سر آغاز سمجھتے ہیں؛[6] متوکل کی خلافت کا زمانہ سنہ334ھ تک جاری رہا۔[7]

تاریخ نے متوکل کو ایک خون آشام، ظالم، شرابی، گناہ و لہو و لعب کی محفلوں کا خوگر خلیفہ کے طور پر تعارف کرایا ہے۔[8] اس سلسلے میں حضرت امام علیؑ نے پیشنگوئی کی تھی کہ خلافت بنی عباس کا دسواں خلیفہ یعنی متوکل سب سے بڑا کافر ہوگا۔[9]

اہل بیتؑ سے دشمنی

متوکل عباسی اہل بیت پیغمبرؐ بالاخص امام علیؑ سے نہایت درجہ دشمنی کرتا تھا۔[10] ابوالفرج اصفہانی کے مطابق متوکل، علویوں کے ساتھ برا سلوک روا رکھنے میں پیش پیش رہتا تھا؛ یہاں تک کہ اس نے روضہ امام حسینؑ کو مسمار کردیا۔[11] جس شخص کے بارے میں وہ گمان کرتا تھا کہ محب علیؑ و آل علیؑ ہے اسے قتل کرتا اور اس کے مال ومنال کو ضبط کرتا تھا۔[12]

آٹھویں صدی ہجری کے مورخ ذہبی کے بقول متوکل پکا ناصبی تھا اور اس کے ناصبی ہونے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔[13] وہ دوسرے بعض ناصبیوں جیسے علی بن جَهم، عُمَر بن فَرَح اور ابن‌اُترُجہ ویرہ کے ساتھ رفت و آمد رکھتا تھا۔[14] یہ لوگ امام علیؑ پر بکثرت سب و شتم کرتے تھے۔[15] متوکل عباسی کا ایک نوکر تھا وہ امام علیؑ کی نقالی کرتا اور متوکل اس کا مذاق اڑاتا تھا۔[16]

پانچویں صدی ہجری کے مورخ خطیب بغدادی کے مطابق ایک دفعہ نصر بن علی نامی ایک شخص نے امام حسن مجتبیؑ اور امام حسینؑ کی فضیلت متوکل کے سامنے بیان کردی، اس نے نصر بن علی کے شیعہ ہونے کا گمان کرتے ہوئے اس پر ایک ہزار کوڑے مارنے کا حکم جاری کردیا۔[17] نصر بن علی پر کوڑے مارنے کا سلسلہ جاری رہا، جب اس نے اپنے سنی ہونے کا برملا اعلان کیا تب یہ سلسلہ رکا۔[18]

روضہ امام حسینؑ کی مسماری

متوکل عباسی نے سنہ 236ھ میں امام حسینؑ کے روضہ مبارک کو مسمار کرنے[19] اور روضہ امام حسینؑ کی اطراف میں موجود سارے آثار کو خراب کرنے کا حکم دیا؛ لیکن جب متوکل نے دیکھا کہ قبر امام حسینؑ کی طرف بڑھنے کے کوئی تیار نہیں تو اس نے یہودیوں کے ایک گروہ کو قبر امام حسین مسمار کرنے پر مامور کیا۔[20] قبر امام حسینؑ سمیت پورے حرم کو مسمار کرنے کے بعد اس نے وہاں پانی چھوڑا اور ہل چلا کر کھیت میں تبدیل کیا[21] اور یہاں موجود زائرین کو تکلیفیں دینا شروع کردیا.[22] کہا جاتا ہے کہ متوکل نے دو دفعہ امام حسینؑ کے روضہ مبارک کو مسمار کیا ہے؛ پہلی بار سنہ233ھ میں جبکہ دوسری بار سنہ236ھ میں، دوسری بار اس نے روضہ امام حسینؑ کو بری طرح مسمار کیا تھا۔[23]

قبر امام حسینؑ کو مسمار کرنے کے بعد مسلمانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی؛ یہاں تک کہ لوگوں نے بغداد میں متوکل کے خلاف مسجدوں کی دیواروں پر نعرے لکھے اور شعرا نے اس کی مذمت میں طنزیہ اشعار کہے۔[24]

امام علی نقیؑ کی سامرا جلاوطنی

متوکل عباسی نے سنہ 233ھ میں امام علی نقیؑ کو بالاجبار مدینہ سے سامرا بلا لایا۔[25] شیعہ فقیہ اور متکلم شیخ مفید نے امام علی نقیؑ کی جلاوطنی کی تاریخ سنہ 243ھ بیان کی ہے؛[26] لیکن معاصر شیعہ مورخ رسول جعفریان نے اسے نادرست قرار دی ہے۔[27] کہا جاتا ہے کہ متوکل کا امام علی نقیؑ کو سامرا بلانے کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ یہ کہ مدینہ کے حاکم عبد الله بن محمد[28] اور حرمین شریفین میں سرکاری امام جماعت بُرَیحَہ عباسی کی جانب سے امام ہادیؑ کی بہتان تراشی کی گئی[29] اور دوسری وجہ یہ کہ متوکل کو خبر ملی تھی کہ لوگ شیعوں کے دسویں امام کی طرف راغب ہورہے ہیں۔[30]

امام ہادیؑ نے ایک خط کے ذریعے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو رد کردیا؛[31] لیکن متوکل نے جواب میں امامؑ کو احترام آمیز جملے میں سامرا کی جانب سفر کرنے کی درخواست کی۔[32] متوکل کو بھیجے گئے خط کا متن کافی اور الارشاد میں آیا ہے۔[33] امام علی نقیؑ کو سامرا کی جانب لانے کے لیے متوکل عباسی نے یحیی بن هَرثَمہ کو مامور کیا۔[34]

یحیی بن ہرثمہ سے روایت ہے کہ متوکل کا یہ حکم سن کر اہل مدینہ بہت مشتعل ہو گئے، سب نوحہ کناں اور چیخ و پکار کے ساتھ راستہ چلنے لگے؛ جبکہ مدینہ نے اب تک ایسی حالت کبھی نہیں دیکھی تھی۔[35]

متوکل کی جانب سے حضرت امام ہادیؑ کا سامرا میں ظاہرا احترام برتا جاتا تھا لیکن اندرون خانہ آپؑ کے خلاف سازشیں بھی کرتا تھا[36] تاکہ لوگوں کی نظر میں امامؑ کی عظمت کو کم کیا جائے۔[37] متوکل مسلسل امام علی نقیؑ کو حقارت کا نشانہ بناتا تھا۔[38] سید بن طاووس کی کتاب مُهَجُ‌الدعوات میں منقول ایک روایت کے مطابق امام علی نقیؑ نے اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے تحقیر آمیز سلوک سے مجبور ہوکر ایک دن "دعائے مظلوم بر ظالم" پڑھ لی، اس کے ٹھیک تین دن بعد متوکل مارا گیا۔[39]

شیعوں کے ساتھ برتاؤ

متوکل شیعوں کے ساتھ کھل کر دشمنی کرتا تھا اور جو شخص شیعوں کو برا کہتا اسے انعام سے نوازتا تھا۔[40] اس کی شیعہ دشمنی کی وجہ سے جو خلفا شیعوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرتے تھے انہیں برا بھلا کہتا تھا۔[41] فدک جو کہ مأمون عباسی کے دور میں علویوں کو واپس دیا گیا تھا؛ متوکل نے دوبارہ ان سے لے لیا۔[42]

متوکل نے بہت سے شیعوں کو جیل کے سلاخوں میں بند کردیا اور بہت سوں کو قتل کیا۔[43] متوکل کے حکم سے زید بن علی کے پوتے یحیی بن عمر کو گرفتار کیا گیا اور اسے مارا پیٹا۔[44] نیز متوکل کے دور خلافت میں حسن بن زید بن محمد المعروف "داعی کبیر" طبرستان اور دیلم کی طرف بھاگ گیا۔[45] متوکل ہی کے حکم سے آل‌ابی‌ طالب کو مصر سے جلا وطن کردیا گیا۔[46] ابو الفرج اصفہانی کے نقل کے مطابق دوران خلافت متوکل آل‌ابی‌ طالب مختلف جگہوں کی طرف تتر بتر ہوگئی اور چھپ کر زندگی کرنے پر مجبور ہوگئی۔[47] ان میں سے ایک احمد بن عیسی بن زید ہیں جو اسی دوران وفات پاگئے۔[48]

متوکل عباسی کے دور خلافت میں شیعوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی جبکہ اس کے پیشرو خلفا یعنی مأمون، مُعتَصِم اور واثق عباسی کے دور خلافت میں کسی حد تک آزادی تھی۔[49] متوکل عباسی کی شیعہ دشمنی کے باوجود بعض شیعہ حضرات حکومتی مشینری میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے؛ اس سلسلے میں ابن‌سِکّیت کا نام لیا جاسکتا ہے جنہوں نے دربار خلافت میں اپنا مقام حاصل کرتے ہوئے[50] متوکل کے بیٹوں کی تربیت کا بیڑا اٹھا رکھا تھا۔[51]

عملی اقدامات

مسجد جامع سامرا (المعروف مسجد مَلوِیّه) کی ایک پرانی تصویر جس میں دور سے حرم عسکریین بھی دکھائی دے رہا ہے

ساتویں صدی ہجری کے جغرافیہ دان یاقوت حموی کے مطابق متوکل کو محلات اور عالیشان عمارتیں بنانے کا اس حد تک شوق تھا کہ اس کی طرح کسی خلیفہ نے ان جیسی عمارتیں تعمیر نہیں کیں۔[52] کتاب "مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء" کے مصنف کے مطابق متوکل نے سامرا میں اپنے لیے 30 محلات بنوائے تھے، یہ ان کے محلات کے علاوہ ہیں جو اس نے اپنے کارندوں اور اطرافیوں کے لیے بنوائے تھے۔[53] متوکل نے ان محلات کی تعمیر میں تقریبا 300میلین درہم خرچ کیا۔[54]

اس نے سامرا میں ایک جامع مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔[55] چھٹی صدی ہجری کے مؤرخ ابن جوزی کے مطابق اس مسجد کی تعمیر کے لیے 380,000 دینار سے زیادہ خرچ ہوئے۔ اس کی تعمیر کا آغاز سنہ234ھ کو ہوا جبکہ سنہ 237ھ میں یہ مسجد مکمل ہوئی۔[56] یہ مسجد "جامع مسجد متوکل" کے نام سے بھی جانی جاتی ہے، اس کی سرپل سیڑھیوں کی وجہ سے اسے «جامع مَلوِیّه» بھی کہتے ہیں۔[57] آج اس مسجد کی باقیات کو شہر سے ایک کلومیٹر دور سے بھی دیکھا جا سکتا ہے[58]

اہل حدیث کی جانب داری

متوکل عباسی نے سنہ 234ھ میں حکم دیا کہ اہل حدیث کلامی مذہب کو فروغ دیا جائے[59] اس طرح باقاعدہ طور پر اسے سرکاری مذہب قرار دیا گیا.[60] متوکل نے سابقہ خلفا کے برعکس،[61] مُعتَزِلہ کے ساتھ مقابلہ کیا اور متکلمین کو رؤیت خدا کے ممکن ہونے کے بارے میں گفتگو کرنے کی سفارش کی۔[62] متوکل نے قرآن کے مخلوق ہونے کے نظریے کو فروغ دینے کی ممانعت کی،[63] اور جن لوگوں کو واثق عباسی نے قرآن کے مخلوق ہونے پرعقیدہ نہ رکھنے کی وجہ سے قید کیا تھا انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا[64] ان میں سے ایک احمد بن حنبل ہیں۔[65]

اہل ذمہ پر دباؤ

متوکل عباسی نے سنہ235ھ میں اہل ذمہ کے حوالے سے کچھ سخت قانون مقرر کیے۔[66] اس قانون کا کچھ حصہ یہ تھا: کفار کے لیے مسلمانوں سے مخصوص لباس پہننے کی ممانعت کی گئی، کسانوں کے ساتھ مخصوص لباس پہننے کو ضروری قرار دیا، عمامہ پر ایک الگ تھلگ کپڑا ڈالنا ضروری قرار دیا، گھڑ سواری اور خچر سواری کی ممانعت کی گئی، سرکاری امور میں اہل ذمہ سے کام لینے کی ممانعت کی گئی، ان سے ٹیکس وصول کرنے کا قانون جاری کیا گیا، جدید تعمیر کیے گئے چرچ کو مسمار کرنے کا حکم دیا گیا اور ان کی قبروں کو زمین سے ہموار کرنے کی تاکید کی گئی۔[67] کتاب "تاریخ التمدن الاسلامی" کے مصنف جرجی زیدان نے متوکل کے اس طرز عمل کو حمص کے عیسائیوں نے حمص میں متوکل کے حاکم کے خلاف بغاوت میں مسلمانوں کے ساتھ شامل ہونے کا نتیجہ قرار دیا ہے۔[68] اہل ذمہ کے ساتھ اس طرح کی بے سابقہ سختیوں کے باوجود بعض عیسائی جیسے حُنَین بن اسحاق (طبیب و ماہر نجوم) حکومتی مشینری میں خدمات انجام دیتا تھا۔[69]

ترکوں کے ساتھ محاذ آرائی

ترکوں کی مدد سے برسراقتدار آنے والے متوکل نے ابتدا میں ان کو مطمئن کرنے کے لیے ان کے مفاد میں کچھ کام کیے اور انہیں سیاسی امور انجام دینے کا اختیار دیا گیا؛ لیکن کچھ عرصے بعد اس نے یہ طریقہ ترک کر دیا اور ترکوں کی طاقت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔[70] متوکل عباسی نے اپنے تینوں بیٹوں محمد، ابو عبد اللہ اور ابراہیم کو اپنا ولی عہد بنا دیا۔ محمد جس کا لقب منتصر تھا، عباسی خلیفہ کا ولی عہد بن گیا، ابو عبداللہ عباسی جس کا لقب معتز تھا، منتصر کا ولی عہد بن گیا اور ابراہیم جس کا لقب الموید باللہ تھا، معتز کا ولی عہد بنا۔[71]افریقہ اور مغرب کی حکومت منتصر، خراسان اور رے کی حکموت معتز کو جبکہ شام اور فلسطین کی حکومت کو موید کے سپرد کی۔[72] تاریخ الدولۃ العباسیہ کے مصنف محمد سہیل طقوش نے متوکل کے اس اقدام کو معتصم اور واثق عباسی کے دور حکومت کے ترکوں کی طاقت اور اثر و رسوخ کو کمزور کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔ جنہوں نے عباسیوں کے زیر تسلط زمینوں پر قبضۃ جما رکھا تھا۔[73] طقوش کا خیال ہے کہ ترکوں کو جب معلوم ہوا کہ متوکل ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے، انہوں نے اس کے خلاف بہت سی سازشیں کیں، اسی وجہ سے متوکل نے ان کی سازشوں سے بچنے کے لیے اپنے دارالحکومت کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا۔[74] متوکل سنہ 244ھ کو دمشق کی طرف ہجرت کی اور دمشق کو دار الحکومت بنا لیا؛ لیکن یہاں کے آب و ہوا مناسب نہ ہونے کی وجہ سے دو مہینے کے بعد سامرا واپس آیا۔[75] طقوش کے مطابق خلیفہ کی سامرا واپسی کے بعد ترکوں اور خلیفہ کے درمیان دشمنی شدت اختیار کر گئی تھی اور ہر ایک اپنے حریف کو ختم کرنے پر تک گئے تھے۔[76]

وفات

متوکل عباسی سنہ 247ھ کو 14 سال 10 مہینے برسر اقتدار رہنے کے بعد 40 سال کی عمر میں اپنے بیٹے منتصر عباسی کے ہاتھوں مارا گیا[77] اور شہر ماحوزہ [یادداشت 1] میں موجود اپنے قلعے میں دفن ہوا۔[78] متوکل نے اگرچہ اپنے بیٹے منتصر کو اپنا خلیفہ بنایا تھا لیکن اس کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے؛ اکثر اوقات اس کا مذاق اڑاتا تھا، اس کی توہین کرتا تھا اور اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتا تھا۔[79] چوتھی صدی ہجری کے مورخ طبری کے مطابق متوکل نے منتصر اور متعدد ترک کمانڈروں کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔[80] نیز آٹھویں صدی ہجری کے مورخ ابن خلدون نے نقل کیا ہے کہ متوکل کی طرف سے علی بن ابی طالب کی توہین کے دوران اس کے بیٹے نے اس عمل سے منع کیا، متوکل نے اسے خلافت کے عہدے سے ہٹا دیا اور اسے قتل کرنے کی دھمکی دی۔[81] اپنے والد کے رویے سے ناراض منتصر نے ترک کمانڈروں کی مدد سے متوکل کو نشے کی حالت میں قتل کر دیا۔[82]

بعض تاریخی نقل کے مطابق متوکل نے جب حضرت زہرا(س) کی توہین کی تو اس کے بیٹے نے اسے قتل کردیا۔[83] ہے۔ کتاب "الشیعہ و الحاکمون" کے مصنف محمد جواد مغنیہ نے لکھا ہے کہ ایک دن منتصر نے سنا کہ اس کے والد حضرت فاطمہ زہرا (س) پر سب وشتم کر رہا ہے، وہ ایک فقیہ کے پاس گیا اور اپنے والد کے اس عمل کے بارے میں استفسار کیا، فقیہ نے جواب دیا جو ایسا کرے گا وہ مہدور الدم ہے۔ لیکن فقیہ نے یہ کہہ کر منتصر کو اپنے باپ کے قتل سے روکا کہ جو شخص اپنے باپ کو قتل کرے گا اس کی زندگی کوتاہ ہوگی۔[84] اس کے باوجود منتصر نے اپنے باپ کو قتل کردیا اور اس کے سات مہینے بعد خود بھی مارا گیا۔[85] متوکل کی موت کے ساتھ، ترکوں کو حکومت میں مزید طاقت اور اثر و رسوخ حاصل ہوا[86]اور بنی عباس کی خلافت کا دور زوال کا شکار ہونے لگا؛ یہاں تک کہ متوکل کے بعد صرف ایک صدی میں بنی عباس کے گیارہ خلفاء، سب کے سب ترکوں کے ذریعے اقتدار میں آئے اور پھر مارے گئے یا معزول کر دیے گئے۔[87]

حوالہ جات

  1. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص178.
  2. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص178.
  3. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج9، ص123.
  4. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج7، ص33-34.
  5. خضری، تاریخ خلافت عباسی، 1384ہجری شمسی، ص 107.
  6. طقوہجری شمسی، تاریخ الدولة العباسیة، 1430ھ، ص154-156.
  7. موحد ابطحی، نقش شیعیان در ساختار حکومت عباسیان، 1392ہجری شمسی، ص27.
  8. جعفریان، از پیدایش اسلام تا ایران اسلامی، ص312.
  9. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج41، ص322؛ حسینی طهرانی، امام شناسی، 1430ھ، ج12، ص170.
  10. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج7، ص55-56.
  11. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص478.
  12. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص478.
  13. ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج18، ص552.
  14. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج7، ص56.
  15. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، 1408ھ، ج3، ص349.
  16. ابن‌اثیر، الکامل، 1385ھ، ج7، ص55-56.
  17. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج13، ص289.
  18. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، 1417ھ، ج13، ص289.
  19. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص237.
  20. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص479.
  21. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص237.
  22. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص479.
  23. مدرس، شهر حسین(ع)، 1380ہجری شمسی، ص206-207.
  24. سیوطی، تاریخ الخلفاء، 1425ھ، ص253.
  25. یعقوبی، تاریخ یعقوبی، بیروت، ج2، ص484؛ نوبختی، فرق الشیعه، 1404ھ، ص92؛ اشعری قمی، المقالات و الفرھ، 1360ہجری شمسی، ص100.
  26. شیخ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص310.
  27. جعفریان، رسول، حيات فكرى و سياسى ائمه، 1381ہجری شمسی، ص503
  28. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص309.
  29. مسعودی، اثبات الوصیه، 1426ھ، ص233.
  30. سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1426ھ، ج2، ص493.
  31. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص309.
  32. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص309.
  33. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج1، ص501؛ مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص309.
  34. مسعودی، اثبات الوصیه، 1426ھ، ص233.
  35. سبط ابن جوزی، تذکرة الخواص، 1426ھ، ج2، ص492.
  36. مفید، الارشاد، 1413ھ، ج2، ص311.
  37. طبرسی، اعلام الوری، 1417ھ، ج2، ص126.
  38. جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1381ہجری شمسی، ص510.
  39. ابن طاووس، مهج الدعوات، 1411ھ، ص265-271.
  40. سجادی، «بنی‌عباس»، ص674.
  41. سجادی، «بنی‌عباس»، ص674.
  42. بلاذری، فتوح البلدان، 1988ء، ص42-43.
  43. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص478.
  44. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص506.
  45. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص490.
  46. کندی، کتاب الولاة، 1424ھ، ص149.
  47. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص490.
  48. ابوالفرج اصفهانی، مقاتل الطالبین، دار المعرفه، ص492.
  49. پرسنده، بررسی سیاست‌های مذهبی متوکل عباسی، در مجله تاریخ اسلام در آینه پژوهش، بهار 1388، ص 60.
  50. موحد ابطحی، نقش شیعیان در ساختار حکومت عباسیان، 1392ہجری شمسی، ص144.
  51. ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج18، ص552.
  52. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ص 367.
  53. محلاتی، مآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، 1384ہجری شمسی، ص67-111.
  54. یاقوت حموی، معجم البلدان، 1995ء، ص 368.
  55. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص252.
  56. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص252.
  57. ارجح، «جامع کبیر»، ص353.
  58. ارجح، «جامع کبیر»، ص353.
  59. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص206.
  60. خضری، تاریخ خلافت عباسی، 1384ہجری شمسی، ص109.
  61. سجادی، «بنی‌عباس»، ص674.
  62. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص207.
  63. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1407ھ، ج10، ص316.
  64. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص251.
  65. ابن‌خلکان، وفیات الاعیان، 1900م، ج1، ص64.
  66. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1407ھ، ج10، ص313-314.
  67. ابن‌کثیر، البدایة و النهایة، 1407ھ، ج10، ص313-314.
  68. زیدان، تاریخ التمدن الاسلامی، دار مکتبة الحیاة، ج4، ص412.
  69. قفطی، تاریخ الحکماء، 1371ہجری شمسی، ص234-235.
  70. خضری، تاریخ خلافت عباسی، 1384ہجری شمسی، ص107.
  71. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص487.
  72. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج9، ص176.
  73. طقوش، تاریخ الدولة العباسیة، 1430ھ، ص163.
  74. طقوش، تاریخ الدولة العباسیة، 1430ھ، ص163.
  75. طبری، تاریخ الطبری، 1387ھ، ج9،‌ ص210.
  76. طقوہجری شمسی، تاریخ الدولة العباسیة، 1430ھ، ص163.
  77. ابن‌جوزی، المنتظم، 1412ھ، ج11، ص356-357.
  78. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص492.
  79. ابن‌جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۱۱، ص۳۵۶.
  80. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۲۲۵.
  81. ابن‌خلدون، تاریخ ابن‌خلدون، ۱۴۰۸ھ، ج۳، ص۳۴۹.
  82. طبری، تاریخ الطبری، ۱۳۸۷ھ، ج۹، ص۲۲۵.
  83. مغنیه، الشیعه و الحاکمون، ۱۴۲۱ھ، ص۱۷۱.
  84. مغنیه، الشیعه و الحاکمون، ۱۴۲۱ھ، ص۱۷۱.
  85. مغنیه، الشیعه و الحاکمون، ۱۴۲۱ھ، ص۱۷۱.
  86. خضری، تاریخ خلافت عباسی، ۱۳۸۴ہجری شمسی، ص۱۱۲.
  87. خضری، تاریخ خلافت عباسی، ۱۳۸۴ہجری شمسی، ص۱۱۲.

نوٹ

  1. یہ شہر متوکل کے حکم سے سامرا سے 3 فرسخ دور بنایا گیا تھا(یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دار صادر، ج2، ص492.) اس کے مارے جانے کے بعد کھنڈر بن گیا۔(ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج18، ص15.)و با کشته شدن او رو به خرابی نهاد و ویران گردید.(ذهبی، تاریخ الاسلام، 1413ھ، ج18، ص15.)

مآخذ

  • ابن‌طاووس، علی بن موسی، مهج الدعوات و منهج العبادات، قم، دار الذخائر، 1411ھ.
  • ابوالفرج اصفهانی، علی بن الحسین، مقاتل‌الطالبین، بیروت، دارالمعرفه، بی‌تا.
  • ابن‌اثیر، علی بن ابی‌الکرم، الکامل فی التاریخ، بیروت، دار صادر، 1385ھ.
  • ابن‌جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1412ھ.
  • ابن‌خلدون، عبدالرحمن بن محمد، تاریخ ابن‌خلدون، بیروت، دار الفکر، 1408ھ.
  • ابن‌کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایة و النهایة، بیروت، دارالفکر، 1407ھ.
  • ارجح، اکرم، «جامع کبیر»، در دانشنامه جهان اسلام، ج9، تهران، بنیاد دایرةالمعارف اسلامی، 1384ہجری شمسی.
  • اشعری قمی، سعد بن عبدالله، المقالات و الفرھ، تهران، مرکز انتشارات علمی و فرهنگی، 1360ہجری شمسی.
  • بلاذری، احمد بن یحیی، فتوح‌البلدان، بیروت، دار و مکتبة الهلال، 1988ء.
  • پرسنده، محمداعظم، «بررسی سیاست‌های مذهبی متوکل عباسی»، در مجله تاریخ اسلام در آینه پژوهہجری شمسی، شماره 21، بهار 1388ہجری شمسی.
  • جعفریان، رسول، از پیدایش اسلام تا ایران اسلامی، قم، بی‌نا، بی‌تا.
  • جعفریان، رسول، حيات فكرى و سياسى امامان شیعه، قم، انصاریان، 1381ہجری شمسی.
  • حسینی طهرانی، محمدحسین، امام‌شناسی، مشهد، انتشارات علامه طباطبایی، 1430ھ.
  • خضری، سید احمدرضا، تاریخ خلافت عباسی: از آغاز تا پایان آل‌بویه، تهران، انتشارات سمت، چاپ پنجم، بهار 1384.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1417ھ.
  • ذهبی، محمد بن احمد، تاریخ الاسلام و وفیات المشاهیر و الاعلام، بیروت، دار الکتب العربی، 1413ھ.
  • زیدان، جرجی، تاریخ التمدن الاسلامی، بیروت، دار مکتبة الحیاة، بی‌تا.
  • سبط بن جوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرة الخواص من الامة فی ذکر خصائص الائمة، قم، مجمع جهانی اهل‌بیت(ع)، 1426ھ.
  • سجادی، صادھ، «بنی‌عباس»، در دایرة المعارف بزرگ اسلامی، ج12، تهران، مرکز دایرة المعارف بزرگ اسلامی، 1383ہجری شمسی.
  • سیوطی، عبدالرحمن بن ابی‌بکر، تاریخ الخلفاء، بی‌جا، مکتبة نزار مصطفی الباز، 1425ھ.
  • شیخ مفید، محمد بن محمد، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، قم، کنگره شیخ مفید، 1413ھ.
  • طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری باعلام الهدی، قم، موسسه آل‌البیت(ع)، 1417ھ.
  • طبری، محمد بن جریر، تاریخ‌الطبری، بیروت، دارالتراث، 1387ھ.
  • طقوہجری شمسی، محمدسهیل، تاریخ الدولة العباسیة، بیروت، دار النفائس، 1430ھ.
  • قفطی، علی بن یوسف، تاریخ‌الحکماء، تهران، دانشگاه تهران، 1371ہجری شمسی.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تهران، دار الکتب الاسلامیة، 1407ھ.
  • کندی، محمد بن یوسف، کتاب الولاة و کتاب القضاة، بیروت، دار الکتب العلمیة، 1424ھ.
  • مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار الجامعة لدرر اخبار الائمة الاطهار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ.
  • محلاتی، ذبیح‌الله، مَآثر الکبراء فی تاریخ سامراء، قم، المکتبة الحیدریة، 1384ہجری شمسی.
  • مدرس، محمدباقر، شهر حسین علیه‌السلام، قم، دارالعلم، 1380ہجری شمسی.
  • مسعودی، علی بن الحسین، اثبات الوصیة للامام علی بن ابی‌طالب(ع)، قم، انصاریان، 1426ھ.
  • مغنیه، محمدجواد، الشیعه و الحاکمون، بیروت، دارالجواد، 1421ھ.
  • موحد ابطحی، رضیه‌سادات، نقش شیعیان در ساختار حکومت عباسیان، قم، انتشارات شیعه‌شناسی، 1392ہجری شمسی.
  • نوبختی، حسن بن موسی، فِرَق‌الشیعه، بیروت، دار الاضواء، 1404ھ.
  • یاقوت حموی، ابن‌عبد‌الله، معجم‌البلدان، بیروت، دارُصادر، 1995ء.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ‌الیعقوبی، بیروت، دار صادر، بی‌تا.