جامع مسجد

ویکی شیعہ سے
کوفہ کی جامع مسجد

جامع مسجد اس مسجد کو کہا جاتا ہے جسے مسلمان شہر کے مرکز میں بناتے ہیں اور اجتماعی عبادتوں جیسے نماز جمعہ اور سیاسی اور سماجی اجتماعات کا مرکز بنتی ہے۔ روایات کی روشنی میں جامع مسجد دوسری مساجد سے زیادہ مقدس ہے اسی لئے اس میں نماز اور دوسری عبادتوں کو بجا لانے کا ثواب زیادہ ہے۔ اور بعض کاموں کو وہاں انجام دینے کی سزا بھی سخت ہے۔ بعض شیعہ فقہاء اعتکاف کو چار مسجدوں کے علاوہ صرف جامع مسجد میں جائز سمجھتے ہیں اور باقی مساجد میں جائز نہیں سمجھتے ہیں۔

وجہ تسمیہ

کسی چیز کے اجزاء کا ایک دوسرے سے ملنے اور اکھٹے ہونے کو جامع کہا جاتا ہے۔ عربی میں المسجد الجامع یا مسجد الجامع کہا جاتا ہے۔ اور مسجد جامع سے مراد وہ مسجد ہے جہاں لوگ بعض کاموں کے لیے جمع ہوتے ہیں خاص کر نماز جمعہ کے لیے،[1] یا کسی کام کیلیے مسلمان کسی خاص وقت میں وہاں پر جمع ہوتے ہیں۔ہ[2] اسی طرح مسجد جامع کے لئے دوسرے الفاظ جیسے جامع، مسجد جماعت،[3] مسجد اعظم، مسجد آدینہ[4] اور مسجد جمعہ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ البتہ مسجد جامع، عیدگاہ[5])، مسجد کبیر و مسجد اعظم کے علاوہ ایک مسجد ہوتی ہے۔

تاریخی آئینے میں

سب سے پہلی جامع مسجد، پیغمبر اکرمؐ نے مسجد نبوی بنایا اور مدینہ میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آنحضرتؐ نے دوسرے محلے اور قبیلوں میں بھی مساجد بنانے کی اجازت دی جو محلے یا قبیلے کے نام سے پہچانی جاتی تھیں لیکن پیغمبر اکرمؐ کی سیاسی، سماجی اور عبادتی مرکز وہی مسجد نبوی ہی تھی۔[6]

جامع مسجد کی اصطلاح، خلیفہ دوم کے دور میں استعمال ہوتی تھی، خلیفہ نے اپنے گورنروں کو حکم دیا تھا کہ وہ مرکز میں صرف ایک ہی نماز جماعت قائم کریں اور دیہاتوں میں نماز جمعہ قائم کرنے سے منع کریں تاکہ مسلمانوں کے اتحاد کو ٹھیس نہ پہنچے۔[7]اور یہ اصطلاح وہ[8]اور امام صادقؑ کے کلمات میں استعمال ہوئی ہے۔[9]حضرت علیؑ کے زمانے میں مسجد کوفہ کو جامع کہا جاتا تھا۔[10]

اولین مساجد جامع

جامع مسجد کے عنوان سے سب سے پہلے بصرہ اور کوفہ میں مسجدیں بنیں؛ عتبۃ بن غزوان نے 14ھ کو نئی اور گھاس سے جامع مسجد بصرہ کو بنا دیا۔[11] مسجد کوفہ بھی 15ھ یا 18ھ[12] کو بنائی گئی۔ اسی طرح ابتدائی صدی ہجری میں موصل کی جامع مسجد (20ھ)، تکریت،[13] دمشق، حمص (تقریبا 13ھ)، مصر(21ھ)،[14] شمالی افریقہ اور مراکش (55ھ)[15] میں جامع مساجد بنائی گئیں اور ایران میں بھی بعض مساجد بنائی گئیں انہی میں سے ایک دوسرے خلیفہ کے گورنر عثمان بن ابی العاص کے حکم سے جامع مسجد توج، کازرون کے قریب بنائی گئی۔[16]

ابتدائی صدیوں میں ہر شہر کی ایک جامع مسجد ہوا کرتی تھی تاکہ لوگوں کا اتحاد اور حکومت سے عوام کی وابستگی کا مظاہرہ کیا جاسکے۔ اور مساجد میں جگہ کی کمی کو مدنظر رکھ کر حکمران شہر کی اصلی مساجد کو توسیع دیتے تھے اور دوسری صدی ہجری کے درمیان تک مدینہ، مکہ، کوفہ، بغداد، بصرہ، فسطاط اور دمشق جیسے شہروں میں صرف ایک نماز جمعہ منعقد ہوتی تھی۔[17] دوسری صدی ہجری کے بعد سے بعض دوسرے شہر جیسے مرو،[18] بغداد،[19] مصر اور قاہرہ[20] میں بھی دو یا دو سے زیادہ جامع مساجد کی تعمیر ہوئی۔

فضیلت اور احکام

بعض کتابوں میں آیا ہے کہ محلے کی مسجد یا بازار کی مسجد میں نماز پڑھنے کی نسبت جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب اور فضیلت زیادہ ہے۔[21] اہل سنت کی ایک روایت جو خلیفہ دوم سے منقول ہے اس کے مطابق جامع مسجد میں نماز جماعت اور مستحب نماز پڑھنا مستحب حج اور عمرہ سے افضل ہے۔[22] دعا کے آداب میں بھی عرفات، کعبہ اور اہل ‌بیت کے حرموں کے بعد جامع مسجد کا رتبہ قرار دیا گیا ہے۔[23]

فقہی نکتہ نظر سے بھی جامع مسجد اور دوسری مساجد کے احکام میں کچھ فرق پایا جاتا ہے۔ مثلا جامع مسجد میں قسم کھانے میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔[24]اسی طرح وہ کام جس کے انجام دینے سے تعزیر کیا جاتا ہے عام مساجد کی نسبت جامع مسجد میں انجام دینے سے سزا زیادہ شدید ہوگی۔[25] جامع مسجد اور دوسری مساجد میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ بعض وہ فقہا جو مساجد اربعہ کے علاوہ دوسری جامع مساجد میں اعتکاف کو جائز سمجھتے ہیں وہ غیر جامع مسجد میں جائز نہیں سمجھتے تھے۔[26] محقق کرکی،[27]، مقدس اردبیلی،[28] محقق سبزواری، [29] صاحب جواہر[30] اور سید یزدی[31]ان فقہا میں سے ہیں۔[32]ان کا مستند بعض ایسی روایات ہیں جن میں اعتکاف کو مساجد اربعہ اور مساجد جامع میں جائز جانا ہے۔[33] آیت اللہ خامنہ‌ای اعتکاف کو غیر جامع مسجد میں بھی رجاءاْ جایز سمجھتے ہیں۔[34]

جامع مساجد کے نام

جامع مساجد، شہر، بانی، مشہور عالم، قبیلہ یا ۔۔۔ وغیرہ کے نام سے مشہور ہوتی تھیں۔ اکثر جامع مساجد اسی شہر کے نام سے پکاری جاتی ہیں۔ جیسے جامع مسجد بصرہ، کوفہ، اصفہان، ری، دمشق، فسطاط اور قیروان۔ لیکن جن شہروں میں کئی جامع مساجد ہوں تو ان کو الگ الگ نام دئے جاتے ہیں جیسے بغداد میں جامع مسجد منصور عباسی، جامع مسجد مدینہ کہا جاتا ہے اور جامع مسجد مہدی عباسی، جامع رصافہ سے مشہور ہے۔[35]ان میں سے بعض مساجد جیسے بغداد میں؛ جامع مسجد ابن طولون، جامع حاکم، جامع منصور اور جامع سلطان بانیوں کے نام سے مشہور ہیں جن میں سے اکثر بانی، امیر اور حکومتی عہدے دار ہوا کرتے تھے تھے۔[36] اسی طرح بعض جامع مساجد کو حکومتی یا خاندانی یا قبیلوں کے نام دئے گئے ہیں۔ جیسے؛ مسجد جامع اموی دمشق۔ بعض موقعوں پر جامع مسجد کو محلہ، بازار، پل یا مسجد کے نزدیک موجود بارگاہ کا نام بھی دیا گیا ہے۔[37]

آمدنی اور اخراجات

جامع مساجد بنانے کے اخراجات بہت ہوتے تھے جو عوام کے بس میں نہیں ہوتا تھا اسی لئے اکثر خلفاء، درباری افراد، بادشاہ اور حکومتی عہدے داروں کی تعاون سے بنائی جاتی تھیں۔[38]اسی طرح جامع مسجد کی حفاظت بھی ایک سخت کام تھا اسی لئے ہر سال اس کے اخراجات بیت المال سے دئے جاتے تھے۔ ابونعیم اصفہانی کا کہنا ہے کہ جامع یہودیہ اور جامع مسجد اصفہان کے اخراجات خلافت مہدی عباسی تک خراج کے دفتر میں درج ہوتے تھے جس میں متولی کا حق زحمت، مؤذن، فرش اور روشنائی کے اخراجات شامل ہوتے تھے۔[39]

جامع مساجد کے اخراجات مالدار لوگ یا بیت المال سے دینے کی وجہ سے مساجد حکومت اور افراد سے وابستہ ہوتی تھیں اور سیاسی و اقتصادی حالات کے تغییر و تبدل کے ساتھ انہیں بھی دھچکہ آتا تھا۔ پھر آہستہ آہست مساجدِ جامع کے بانیوں نے بعض سرمایے اور ملیکت کو مساجد کے لیے وقف کیا تاکہ مساجد افراد یا حکومت سے وابستہ نہ رہے اور ہر سیاسی تبدیلی کے ساتھ انہیں نقصان نہ پہنچے۔[40]

مدیریت

جامع مساجد اکثر و بیشتر خلیفہ یا اس کے نمایندے کی نظارت میں ہوتی تھیں، اور ابتدائی خلیفے جامع مساجد میں خود ہی خطبہ دیتے تھے اور نماز جمعہ قائم کرتے تھے۔[41]بعد کے دَور میں خلیفہ جامع مساجد کی نظارت اور نماز جمعہ کا قیام دوسروں کے سپرد کرتے تھے اور خود صرف مخصوص ایام جیسے؛ عید فطر اور عید قربان میں حاضر ہوتے تھے۔[42]خلیفہ جامع مساجد کی مدیریت کسی دینی عالم، قاضی یا کسی وزیر کے حوالے کرتا تھا اور ایک دستور کے تحت دارالخلافہ میں کسی کو جامع مسجد کا امام اور خطیب منصوب کرتا تھا۔[43]

عباسی خلافت میں مختلف صوبوں کے خطیب اور امام جمعہ انتخاب کرنے کے اختیارات اسی صوبے کے گورنروں کے پاس ہوتی تھی۔[44]اسی طرح جامع مساجد کے موقوفات کے لیے بھی قاضیوں یا دینی عالموں کے نام الگ سے ایک حکم نامہ جاری ہوتا تھا۔[45]عباسی خلافت کے بعد، امام جمعہ اور جامع مسجد کے خطیب معین کرنے کے اختیارات سلطان یا اس کے نائب کے پاس ہوتے تھے۔[46]محمدعلی پاشا کی حکومت میں جامع مساجد پر نظارت دینی علما کے سپرد کی گئی۔[47]

عمارت اور سہولیات

جامع مسجد اموی دمشق

جامع مسجد اسلامی شہروں کی پہچان تھی اور عام طور پر دار الامارہ اور شہر کے مرکزی بازار کے ساتھ ہی بنائی جاتی تھی۔ بعض شہر جیسے؛ دمشق، فسطاط، اصفہان اور بلخ میں جامع مساجد بازار کے درمیان میں تھیں۔[48]بعض مولفین نے جامع مسجد کا بازار میں ہونے کو مسلمانوں کی زندگی میں جامع مسجد اور بازار کا باہمی دینی رابطہ کے لیے مثال قرار دیا ہے۔[49] جامع مساجد اسلامی معماری کی نشانی ہیں؛ جس میں گلدستۂ اذان، مینار، صحن، برآمدہ، منبر، محراب اور مقصورہ (پردہ یا لکڑی کی مختصر دیوار جو محراب اور منبر کو باقی مسجد سے جدا کرتی ہے) اسلامی معماری کے اجزا شمار ہوتی ہیں۔ مقصورہ اور مینار کی قِدمت پہلی صدی ہجری سے ہے۔[50]بعض جامع مساجد میں بعض دوسرے حصے بھی تھے جیسا کہ جامع ابن طولون میں کلینک تھی۔[51] یا جامع صنعاء، قیروان، دمشق[52] اور مرو میں لائبریری تھی۔[53]

کارکردگی

جامع مساجد کی کارکردگی میں سیاسی، اداری، اجتماعی اور تعلیمی سرگرمیاں قابل ذکر ہوتی تھیں جن کی وجہ سے باقی مسجدوں سے ممتاز ہوتی تھیں۔

سیاسی کارکردگی

جامع مسجد اصفہان کا صحن

جامع مساجد وہ جگہیں تھیں جہاں حکمران اور عوام جمع ہوتے تھے؛ خلیفہ یا سلطان کا سب سے پہلا رسمی خطاب بھی شہر کی جامع مسجد میں ہوتا تھا۔ امام حسن علیہ السلام نے بھی لوگوں کی طرف سے آپ کے ہاتھوں بیعت کے بعد مسجد کوفہ میں خطبہ دیا۔[54]حضرت علیؑ نے جنگ جمل کے بعد لوگوں کو تین دن تک نماز جماعت کے لیے بصرہ کی جامع مسجد میں جمع ہونے کا حکم دیا۔[55]

مختلف صوبوں کے گورنر بھی صوبے میں پہنچنے کے بعد پہلی تقریر اس شہر کی جامع مسجد میں کرتے تھے۔[56]اسی طرح حساس اوقات جیسے جنگ کے لیے لوگوں کو تیار کرنے کے لیے جامع مسجد میں جمع ہوتے تھے اور لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کرنے خطبہ دیا کرتے تھے۔[57]

عام طور پر حکومتیں جامع مسجد سے ہی اپنی بات عوام تک پہنچاتی تھیں۔ جدید حکمرانوں کے استوار نامے، نصب و عزل کے احکامات، فتح نامے، عہدنامے اور حکومتی دستورات کو جامع مساجد سے ہی لوگوں تک پہنچاتے تھے۔[58]اسی طرح قاضی القضات منصوب کرنے کے احکام،[59]اور دینی اور مذہبی سیاست کو اجرا کرنے کے احکام بھی جامع مسجد میں ہی اعلان کرتے تھے۔[60]بعض عمومی مراسم جیسے خلیفے کا اعلان، جیسے درہم و دینار خرچ کرنے، خلعت پہنانے کے رسومات بھی جامع مسجد میں ہی انجام پاتے تھے۔[61] سیاسی بحرانوں اور حکومتی نظام میں تبدیلی کا سب سے پہلا عکس العمل بھی جامع مساجد میں ہی ظاہر ہوتا تھا۔[62]حکومت سے اکثر عوامی مطالبات، اعتراضات، اعلامیے، اور بعض حکومت کے خلاف نقل و حرکت اور سیاسی و سماجی چپقلشیں بھی جامع مساجد سے ہی شروع ہوتی تھیں۔[63]

اداری کارکردگی

مسجد نبوی، پیغمبر اکرمؐ کی حکومت کی مرکز تھی جہاں پر آنحضرتؐ مسلمانوں کے اداری، مالی اور قضائی امور نمٹاتے تھے اور بعد میں دارالامارہ، دارالخلافہ اور دیوان‌ بنا دئے جس کی وجہ سے بہت سارے اداری کام ان مراکز کی طرف منتقل ہوگئے۔ لیکن فیصلے حسب سابق جامع مسجد میں ہی ہوتے تھے۔ امام علیؑ مسجد کوفہ میں فیصلے کرتے تھے۔[64]اور دیگر جامع مساجد مانند جامع مسجد طرقبہ،[65] عمر و عاص [66] اور بصرہ میں بھی فیصلے ہوا کرتے تھے۔[67]

اسی طرح جامع مساجد میں ایک مکان ہوتا تھا تھا جہاں پر یتیموں کے مال امانت پر رکھتے تھے اور مسجد کے اموال بھی وہاں رکھتے تھے۔ مسجد جامع عمرو و عاص میں ایک عرصے کے لیے بیت المال بھی رکھا گیا تھا۔[68]

سماجی اور اجتماعی کارکردگی

مسجد حاکم مصر

جامع مسجد، جشن، مذہبی مراسم اور عزاداری وغیرہ کرنے کی جگہ تھی اور بعض اوقات بعض وجوہات کی بنا پر نماز عید، استسقا اور مشہور علماء اور حکمرانوں کی نماز میت بھی جامع مسجد میں ہوتی تھی۔[69] مذہبی مراسم جیسے شب قدر کی راتوں میں لوگ ان مساجد میں جمع ہوتے تھے۔[70]

مستحق اور نادار، مصیبت میں مبتلا اور مسافر لوگوں کی مدد کرنا بھی جامع مسجد کی سماجی فعالیتوں میں سے ایک ہے۔[71]

تعلیمی کارکردگی

جامع مساجد اسلامی علوم کی سب سے قدمی درسگاہیں تھیں[72] درس و بحث کی رسمی محفلوں کو حلقہ یا مجلس کا نام دیا جاتا تھا۔[73] عام طور پر مشہور جامع مساجد میں جیسے؛ مسجد دمشق؛ ہر استاد کا درس کسی خاص جگہے میں ہوتا تھا جسے زاویہ کہا جاتا تھا۔[74] جامع اموی دمشق میں اہل سنت کی چاروں مذاہب کے علمی حلقے منعقد ہوتے تھے اور ہر مذہب کا مخصوص زاویہ ہوتا تھا اور قرآن کی تعلیم کے لیے بعض حلقے تشکیل پاتے تھے۔[75] ابن جوزی کے بقول، ابن طاہر نے نیشابور کی جامع مسجد میں 1000 سے زیادہ احادیث کو لکھوایا ہے۔[76] اور جامع مسجد اصفہان میں ابو القاسم طلحی نے تین ہزار سے زیادہ کلاسیں پڑھایا ہے۔[77]

اسی طرح سے جامع مساجد میں اشعار لکھوانا بھی مرسوم تھا۔ دعبل خزاعی نے قصیدہ تائیہ کو جامع مسجد قم میں پڑھا۔[78] اور جامع عمرو عاص میں ادبی محفلوں کے لیے ایک خاص مکان بنایا گیا تھا جو قبۃ الشعراء یا قبۃ الشعر سے مشہور تھا۔[79]

اسی طرح جامع مساجد میں عام تعلیمات بھی دئے جاتے تھے جس میں تبلیغ اور دین کی ترویج کا پہلو زیادہ ہوتا تھا اور وعظ و نصیحت ہوتی تھی۔[80] لیکن اسلامی ممالک میں دینی مدرسوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے مساجد میں تعلیمی سرگرمیاں کم ہوتی گئیں۔[81]

امامیہ تعلیمی سرگرمیاں

فیاض کے بقول، حکومتیں، جامع مساجد کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتی تھیں جس کی وجہ سے شیعہ علما جامع مسجدوں میں کام کرنے سے محروم رہتے تھے۔ حضرت علیؑ کا مسجد کوفہ، امام سجادؑ، امام باقرؑ اور امام صادقؑ مسجد نبوی میں تدریس کیا کرتے تھے۔ شیعہ بھی بعض جامع مساجد میں بحث اور فتوا کے حلقے قائم کرتے تھے جن میں سے اکثر توریہ اور تقیہ پر مشتمل ہوتے تھے۔[82]لیکن آل بویہ کے دور میں ان کی حمایت سے بعض شیعہ علما نے بعض جامع مساجد میں تدریس کا سلسلہ رکھا۔ جیسا کہ ابن عقدہ، مسجد جامع رصافہ اور مسجد جامع براثا میں حدیث لکھوانے کی کلاس رکھتا تھا۔[83]

حوالہ جات

  1. فراہیدی، العین، ۱۴۰۹ق، ج۱، ص۲۳۹-۲۴۰
  2. مراجعہ کریں: راغب، مفردات، ۱۴۱۲ق، ص۲۰۲.
  3. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۷۶؛ بسوی، المعرفہ و التاریخ، ۱۴۰۱ق، ج۱، ص۱۴۹.
  4. ناصرخسرو، سفرنامہ، ۱۳۸۱ش، ص۱۲، ۱۸، ۲۰، ۲۵، ۹۰.
  5. مراجعہ کریں: ابن شبه نمیری، تاریخ المدینۃ المنورۃ، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۱۳۳-۱۴۳.
  6. مراجعہ کریں: ابن شبہ نمیری، تاریخ المدینۃ المنورۃ، ۱۳۶۸ش، ج۱، ص۵۷-۷۵.
  7. مقریزی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۴۶: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  8. بحشل، تاریخ واسط، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۹.
  9. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۷۶.
  10. ابن بابویہ، ۱۳۸۶، ج۲، ص۵۹۳.
  11. ابن قتیبہ، المعارف، ۱۹۹۲م، ص۵۶۴.
  12. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، دارالفکر، ج۷، ص۹۳.
  13. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵، ج۲، ص۳۹.
  14. ابن عبدالحکم، ۱۴۱۵ق، ص۱۶؛ مقریزی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، ۱۴۱۸ق، ج۲، ص۲۴۶: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  15. مونس، المساجد، ۱۴۰۱ق، ص۶۷-۶۸: نقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  16. دینوری، اخبارالطوال، ۱۳۶۸ش، ص۱۳۳.
  17. مراجعہ کریں:ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۳، ص۵-۶؛ مقری، نفح الطیب، ۱۳۸۸ق، ج۱، ص۳۷۴: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  18. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۵، ص۱۱۴.
  19. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۳، ص۵-۶؛ ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، چاپ ابو ملحم، ج۶، جزء۱۱، ص۳۳۲: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  20. ناصر خسرو، سفرنامہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۰.
  21. مراجعہ کریں: شہید اول، البیان، ۱۴۱۲ق، ص۱۳۶؛ محقق حلی، المعتبر فی شرح المختصر، ۱۴۰۷ق، ج۲، ص۳۰۵.
  22. بحشل، تاریخ واسط، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۹.
  23. جزائری، التحفۃ السنیۃ، نسخ خطی آستان قدس رضوی، ص۱۴۶: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  24. شیخ طوسی، المبسوط، ۱۳۸۷ق، ج۸، ص۲۰۳.
  25. ابو صلاح حلبی، الکافی فی الفقہ، ۱۴۰۳ق، ص۴۲۰.
  26. مراجعہ کریں: ساعدی، المساجد و احکامہا، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۱۴-۱۵.
  27. کرکی، جامع المقاصد، ۱۴۱۴ق، ج۳، ص۹۸
  28. اردبیلی، مجمع الفائدہ، ۱۴۰۳ق، ج۵، ص۳۶۵.
  29. سبزواری، کفایۃ الاحکام، ۱۴۲۳ق، ج۱، ص۲۷۱.
  30. نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۷، ص۱۷۰-۱۷۵.
  31. یزدی، العروۃ الوثقی، ج۲، ص۲۴۸.
  32. برای اطلاعات بیشتر: ساعدی، المساجد و احکامہا، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۱۴.
  33. کلینی، الکافی، ۱۴۰۷ق، ج۴، ص۱۷۶؛مراجعہ کریں. ساعدی، المساجد و احکامہا، ۱۴۳۰ق، ج۲، ص۱۴-۱۵.
  34. پایگاہ اطلاع رسانی دفتر مقام معظم رہبری
  35. معروف، التعلیم فی العراق بین القرن الخامس و السابع الہجریین، ۱۹۸۹م، ص۳۷۷: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  36. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۱، ص۲۵۲.
  37. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۱۸ق، ج۴، ص۳-۱۵.
  38. مقری، نفح الطیب، ج۱، ص۳۴۷، ج۲، ص۱۳۴: منقول از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  39. ابونعیم اصفہانی، ذکر تاریخ اصبہان، ۱۹۳۴م، ج۱، ص۱۷-۱۸.
  40. برای برخی از موقوفات مساجد جامع؛ شناوی، الازہر جامعا و جامعۃ، ۱۹۸۳-۱۹۸۴م، ج۱، ص۸۱-۸۴: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  41. ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، چاپ ابوملحم، ج۶، جزء۱۱، ص۱۹۶: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  42. قلقشندی، صبح الاعشی، قاہرہ، ج۴، ص۳۹.
  43. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۴، ص۳۸۳، ج۱۵، ص۳۵۱.
  44. مراجعہ کریں: قلقشندی، صبح الاعشی، قاہرہ، ج۱۰، ص۱۵، ۱۹-۲۰
  45. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۱۰۸؛ قلقشندی، صبح الاعشی، قاہرہ، ج۱۱، ص۲۶۲-۲۶۴.
  46. قلقشندی، صبح الاعشی، قاہرہ، ج۱۱، ص۲۲۶.
  47. شناوی، الازہر جامعا و جامعۃ، ۱۹۸۳-۱۹۸۴م، ج۱، ص۱۱۵-۱۱۶: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  48. مقدسی، ص۱۹۸-۱۹۹، ۳۹۲، ۴۰۸؛ ناصرخسرو، سفرنامہ، ۱۳۸۱ش، ص۹۰.
  49. بادکوبہ ہزاوہ، دانشنامہ جہان اسلام، مدخل جامع، ج۱، ص۴۳۵۴.
  50. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۴۶۸.
  51. مقریزی، المواعظ و الاعتبار، ۱۴۱۸ق، ج۴، ص۴۰.
  52. عواد، ص۲۳۰-۲۳۱، ۲۳۴
  53. حموی، معجم البلدان، ۱۹۹۵م، ج۵، ص۱۱۴.
  54. یعقوبی، تاریخ الیعقوبی، دارصادر، ج۲، ص۲۱۴.
  55. نوری، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۴۴۹.
  56. مبرد، الکامل، ۱۳۷۶ق، ج۱، ص۳۸۰: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  57. مراجعہ کریں: ابن کثیر، البدایہ و النہایہ، ۱۴۰۷ق، چاپ ابوملحم، ج۶، جزء۱۲، ص۲۰۹: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  58. شناوی، الازہر جامعا و جامعۃ، ۱۹۸۳-۱۹۸۴م، ج۱، ص۱۱۵.
  59. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۲۰۱.
  60. طہ ابوسدیرہ، الحرکۃ العلمیۃ فی جامع عمرو بن العاص فی عصر الولادۃ، ۱۴۱۰ق، ص۱۷۰.
  61. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۲۷۵.
  62. مراجعہ کریں: ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۳۱-۳۲.
  63. برای نمونہ: ر. ک. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۴، ص۱۹، ج۱۵، ص۲۰۸.
  64. ابن ادریس حلی، السرائر، ۱۴۱۰ق، ج۲، ص۱۵۷.
  65. مونس، المساجد، ۱۴۰۱ق، ص۱۹۹: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  66. طہ ابوسدیرہ، الحرکۃ العلمیۃ فی جامع عمرو بن العاص فی عصر الولادۃ، ۱۴۱۰ق، ص۱۹۰-۱۹۲: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  67. ماوردی، الاحکام السلطانیہ و الولایات الدینیہ، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۲: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  68. طہ ابوسدیرہ، الحرکۃ العلمیۃ فی جامع عمرو بن العاص فی عصر الولادۃ، ۱۴۱۰ق، ص۲۸-۳۰: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  69. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۲۰۱؛ مراجعہ کریں: ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۶، ص۱۳۴، ۱۷۰، ج۱۷، ص۹۶، ۱۵۵، ج۱۸، ص۱۵۷.
  70. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۵، ص۴۴.
  71. مونس، المساجد، ۱۴۰۱ق، ص۳۸-۳۹.
  72. ابیض، تنظیم التعلیم فی المسجد الجامع بدمشق قبل نشوء المدارس، ۱۴۰۶ق، ص۱۹۸-۲۱۰: بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  73. منیر الدین، دور المجالس الاسلامیہ، مؤسسات و ممارسات، ص۲۸۹-۳۰۱.
  74. مقریزی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، ج۲، ص۲۵۵-۲۵۶؛ بنقل از دانشنامہ جہان اسلام، ج۱، ص۴۳۵۴.
  75. ابن جبیر، رحلۃ ابن جبیر، دار و مکتبۃ الہلال، ص۲۱۴-۲۲۰.
  76. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۷، ص۳۳۷.
  77. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ق، ج۱۸، ص۱۰.
  78. ابن بابویہ ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۹۶.
  79. خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، دارالعرب الاسلامی، ج۹، ص۱۵۷.
  80. ابن جوزی، المنتظم، ۱۴۱۲ھ، ج۱۷، ص۱۳۰-۱۳۲.
  81. بادکوبہ ہزاوه، دانشنامہ جہان اسلام، مدخل جامع، ج۱، ص۴۳۵۴.
  82. فیاض، تاریخ التربیہ عند الامامیہ و اسلافہم من الشیعہ بین عہدی الصادق و الطوسی، ۱۹۸۳م، ص۷۶.
  83. خطیب بغدادی، دارالعرب الاسلامی، ج۶، ص۱۴۷-۱۵۹.

مآخذ

  • ابن ادریس حلی، محمد بن منصور، السرائر الحاوی لتحریر الفتاوی، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۱۰ق.
  • ابن جبیر، محمد بن احمد، رحلۃ ابن جبیر، بیروت، دار و مکتبۃ الہلال، بی‌تا.
  • ابن جوزی، عبدالرحمن بن علی، المنتظم فی تاریخ الامم و الملوک، تحقیق: محمد عبدالقادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۲ق/۱۹۹۲م.
  • ابن شبہ نمیری، عمر بن شبہ، تاریخ المدینۃ المنورۃ، قم، دارالفکر، ۱۳۶۸ش.
  • ابن عبدالحکم، فتوح مصر و المغرب، بیجا، مکتبۃ الثقافۃ الدینیہ، ۱۴۱۵ق.
  • ابن قتیبہ، عبداللہ بن مسلم، المعارف، تحقیق: ثروت عکاشہ، القاہرہ، الہیئۃ المصریہ العامہ للکتاب، ۱۹۹۲م.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۶م.
  • ابن کثیر، اسماعیل بن عمر، البدایہ و النہایہ، بیروت، چاپ احمد ابوملحم و دیگران، ۱۴۰۷ق/۱۹۸۷م.
  • ابوصلاح حلبی، تقی‌الدین بن نجم‌الدین، الکافی فی الفقہ، تصحیح: رضا استادی، اصفہان، کتابخانہ عمومی امام امیرالمؤمنین علیہ‎السلام، ۱۴۰۳ق.
  • ابونعیم اصفہانی، احمد بن عبداللہ، ذکر اخبار اصبہان، لیدن، ۱۹۳۴م.
  • ابیض، ملکہ، تنظیم التعلیم فی المسجد الجامع بدمشق قبل نشوء المدارس، التراث الشعبی، ش۲۲، جمادی‌الاولی ۱۴۰۶ق.
  • بحشل، اسلم بن سہل، تاریخ واسط، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۶ق.
  • بسوی، یعقوب بن سفیان، المرعفہ و التاریخ، تحقیق: اکرم ضیاء عمری، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۹۸۱م/۱۴۰۱ق.
  • جزائری، عبداللہ، التحفۃ السنیۃ فی شرح نخبۃ المحسنیۃ، نخسہ خطی آستان قدس رضوی، ش۲۲۶۶.
  • حموی، یاقوت بن عبداللہ، معجم البلدان، بیروت، دارصادر، ۱۹۹۵م.
  • خطیب بغدادی، احمد بن علی، تاریخ بغداد، تحقیق: بشار عواد، دارالعرب الاسلامی.
  • دینوری، احمد بن داود، الاخبارالطوال، تحقیق: عبدالمنعم عامر، قم، منشورات الرضی، ۱۳۶۸ش.
  • راغب اصفہانی، حسین بن محمد، مفردات الفاظ القرآن، تصحیح: صفوان عدنان داودی، بیروت، دارالقلم، دمشق، الدارالشامیہ، ۱۴۱۲ق.
  • ساعدی، محمد، المساجد و احکامہا فی الشریعۃ الاسلامیۃ، طہران، المجمع العالمی للتقریب بین المذاہب الاسلامیہ، ۱۴۳۰ق/۲۰۰۹م/۱۳۸۸ش.
  • سبزواری، محمدباقر، کفایۃ الاحکام، قم، دفتر انتشارات اسلامی، ۱۴۲۳ق.
  • شناوی، عبدالعزیز محمد، الازہر جامعا و جامعۃ، قاہرہ، ۱۹۸۳-۱۹۸۴م.
  • شہید اول، محمد بن مکی، البیان، تصحیح: محمد حسون، قم، ۱۴۱۲ق.
  • شیخ طوسی، محمد بن حسن، المبسوط فی فقہ الامامیہ، تصحیح: سید محمدتقی کشفی، تہران، المکتبۃ المرتضویہ لاحیاء الآثار الجعفریہ، ۱۳۸۷ق.
  • طہ ابوسدیرہ، الحرکۃ العلمیۃ فی جامع عمرو بن العاص فی عصر الولادۃ ۲۱-۲۵۴ق، قاہرہ، ۱۴۱۰ق/۱۹۹۰م.
  • فراہیدی، خلیل بن احمد، العین، قم، نشر ہجرت، ۱۴۰۹ق.
  • فیاض، عبداللہ، تاریخ التربیہ عند الامامیہ و اسلافہم من الشیعہ بین عہدی الصادق و الطوسی، بیروت، ۱۹۸۳م.
  • قلقشندی، احمد بن علی، صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء، قاہرہ، وزارۃ الثقافۃ و الارشاد القومی المؤسسۃ المصریۃ العامہ، بی‌تا.
  • کرکی، علی بن حسین، جامع المقاصد فی شرح القواعد، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۱۴ق.
  • کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، تصحیح: علی‌اکبر غفاری و محمد آخوندی، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، ۱۴۰۷ق.
  • ماوردی، علی بن محمد، بغداد، الاحکام السلطانیہ و الولایات الدینیہ، ۱۴۰۹ق/۱۹۸۹م.
  • مبرد، محمد بن یزید، الکامل، قاہرہ، چاپ: محمد ابوالفضل ابراہیم و سید شحاتہ، ۱۹۵۶م/۱۳۷۶ق.
  • محقق حلی، جعفر بن حسن، المعتبر فی شرح المختصر، تصحیح: سید مہدی شمس الدین و دیگران، قم، مؤسسۃ سیدالشہداء، ۱۴۰۷ق.
  • معروف، بشار عواد، مؤسسات التعلیم فی العراق بین القرن الخامس و السابع الہجریین، دارالتربیۃ العربیہ الاسلامیہ: المؤسسات و الممارسات، ج۲، مؤسسۃ آل البیت، عمان۱۹۸۹م.
  • مقری، احمد بن محمد، نفح الطیب، بیروت، چاپ: احسان عباس، ۱۳۸۸ق/۱۹۶۸م.
  • مقریزی، احمد بن علی، السلوک لمعرفۃ دول الملوک، بیروت، چاپ: محمد عبدالقادر عطا، ۱۴۱۸ق/۱۹۹۷م.
  • مقریزی، احمد بن علی، المواعظ و الاعتبار بذکر الخط و الآثار، بیروت، دارالکتب العلمیہ، ۱۴۱۸ق.
  • منیرالدین، احمد، دور المجالس الاسلامیہ، مؤسسات و ممارسات.
  • مونس، حسین، المساجد، کویت، ۱۴۰۱ق/۱۹۸۱م.
  • ناصرخسرو، سفرنامہ، تہران، انتشارات زوار، ۱۳۸۱ش.
  • نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق.
  • یزدی، سید محمد کاظم، العروۃ الوثقی فیما تعم بہ البلوی، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، ۱۴۰۹ق.
  • نوری، حسین بن محمدتقی، مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، قم، مؤسسۃ آل البیت، ۱۴۰۸ق.
  • یعقوبی، احمد بن ابی‌یعقوب، تاریخ الیعقوبی، بیروت، دارصادر، بی‌تا.

بیرونی روابط