مندرجات کا رخ کریں

"صلوات" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی شیعہ سے
imported>Noorkhan
imported>Noorkhan
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
سطر 71: سطر 71:
===صلوات نماز میں===
===صلوات نماز میں===
صلوات [[نماز]] کے [[واجب]] اذکار میں سے ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہر روز اپنی [[یومیہ نمازوں]] کے [[تشہد]] میں صلوات پڑھیں اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] اور آپ(ص) کے [[آل محمد|خاندان]] پر اسی ذکر خاص کے ساتھ، درود بھیجیں۔ چنانچہ اگر [[پیغمبر اکرم(ص)]] پر صلوات کو ارادی طور پر ترک کیا جائے تو [[نماز]] باطل ہوگی۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص183۔</ref>
صلوات [[نماز]] کے [[واجب]] اذکار میں سے ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہر روز اپنی [[یومیہ نمازوں]] کے [[تشہد]] میں صلوات پڑھیں اور [[پیغمبر اکرم(ص)]] اور آپ(ص) کے [[آل محمد|خاندان]] پر اسی ذکر خاص کے ساتھ، درود بھیجیں۔ چنانچہ اگر [[پیغمبر اکرم(ص)]] پر صلوات کو ارادی طور پر ترک کیا جائے تو [[نماز]] باطل ہوگی۔<ref>صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص183۔</ref>
===احادیث میں===
مآخذ [[حدیث]] میں صلوات کے لئے بہت زیادہ [[ثواب]] اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ [[حدیث]] میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ [[حدیث]] و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین [[شیعہ]] ماخذِ [[حدیث]] ـ ''[[الکافی]]'' ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "<font color = blue>{{حدیث|'''جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں'''}}</font>"۔<ref>کلینی، الکافی، ج2، ص493۔</ref>
[[شیخ حر عاملی]]، اپنی کتاب ''[[وسائل الشیعہ]]'' میں اور [[محدث نوری]] ''[[مستدرک وسائل الشیعہ]]'' میں "صلوات کی کیفیت"،<ref>حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص196۔</ref> "صلوات بآواز بلند"،<ref>حر عاملی، وہی ماخذ، ص193۔</ref> وغیرہ جیسے عناوین کے تحت ابواب کھول رکھے ہیں۔ [[علامہ مجلسی]] اپنی کتاب ''[[بحار الانوار]]'' ـ جو جو عظیم ترین [[شیعہ]] ماخذ [[حدیث]] ہے ـ میں "نبی و آل نبی(ص) پر صلوات بھیجنے کی فضیلت" کے زیر عنوان ایک باب میں 67 [[حدیث|حدیثیں]] نقل کی ہیں۔<ref>مجلسی، بحار الانوار، ج 91، ص47- 73۔</ref>
[[اہل سنت]] کے ایک اہم مجموعۂ [[حدیث]] ''[[کنزالعمال]]'' کی پہلی جلد کے چھ ابواب میں 119 [[حدیث|حدیثیں]] اکٹھی کی گئی ہیں جن کا مضمون "صلوات، اس کی اہمیت اور فضیلت" ہے۔
'''صلوات کے بعض آثار، [[احادیث]] کے آئینے میں:'''
{{ستون آ|3}}
# '''گناہوں کا کفارہ''' <br/> [[امام رضا(ع)|حضرت رضا علیہ السلام]]: <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَا يُكَفِّرُ بِهِ ذُنُوبَهُ فَلْيُكْثِرْ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ فَإِنَّهَا تَهْدِمُ الذُّنُوبَ هَدْماً وَقَالَ عَلَيهِ السَّلامُ: الصَّلَاةُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّسْبِيحَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّكْبِيرَ|ترجمہ=اگر کوئی ایسا کام کرنے سے عاجز ہے جو اس کے گناہوں کا کفارہ ٹہرے، تو وہ بہت زیادہ صلوات بھیجے محمد و آل محمد پر، کیونکہ صلوات نابود کردیتی ہے گناہوں کو، جیسا کہ نابود کرنے کا حق ہے؛ نیز [[امام رضا(ع)]] نے فرمایا: محمد و آل محمد پر صلوات، خدائے عز وجل کی بارگاہ میں برابر ہے [[تسبیح]]، (= سبحان اللہ)، [[تہلیل]] (= لا الہ الا اللہ)، [[تکبیر]] (= اللہ اکبر)، کے برابر ہے'''}}</font>"۔<ref>صدوق، عیون أخبار الرضا، ج1، ص236، ح1۔</ref>
# '''اعمال کے ترازو میں سب سے بھاری عمل''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''قال أبو عبدِ الله أو أبو جعفر علیهما السلام: أثقَلُ ما یُوضَعُ فی المیزانِ یَومَ القِیامةِ، الصَّلاةُ علی مُحمَّدٍ وَ(علی) أهلِ بِیتِه'''|ترجمہ=: سب سے بھاری عمل جو [[قیامت]] کے دن اعمال کے ترازو میں رکھا جاتا ہے، [[رسول اللہ|محمد(ص)]] اور آپ(ص) کے خاندان معظم پر درود و صلوات ہے}}۔</font>"<ref>حمیری، قُرب الأسناد، ص14۔</ref><ref>حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص197۔</ref><ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص49۔</ref><ref>مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص426۔</ref><ref>بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص62۔</ref><ref>نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص367۔</ref><ref>ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔</ref>
# '''آسمان کے دروازوں کا وا ہونا اور گناہوں کا مٹ جانا''' <br/> "<font color = blue>{{حدیث|'''[[امام صادق علیہ السلام]] فرماتے ہیں: ایک دن [[رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ]] نے [[امام علی علیہ السلام]] سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا نہیں چاہوگے کہ میں تمہیں بشارت دوں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہمیشہ سے خیر کی بشارت دینے والے ہیں؛ [[رسول اللہ(ص)]] نے فرمایا: [[جبرائیل]] نے اسی وقت مجھے ایک حیرت انگیز خبر دی۔ [[امام علی علیہ السلام]] نے عرض کیا: وہ خبر کیا تھی؟ فرمایا: انھوں نے مجھے خبر دی کہ: جب میری امت کا ایک مرد مجھ پر صلوات بھیجے اور اس صلوات کو میری آل سے متصل کردے، آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اور فرشتے 10 صلواتیں اس پر بھیجتے ہیں، اور اگر وہ شخص گنہگار ہے، تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح گر جاتے ہیں، اور خداوند متعال اس سے خطاب کرکے فرماتا ہے «لبَّیكَ يا عبدي وسَعْدَیكَ» اور فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے پر 70 صلواتیں بھیجیں اور میں اس پر 700 صلواتیں بھیجتا ہوں؛ لیکن اگر اس شخص نے مجھ پر صلوات بھیجی اور اس صلوات کو [[اہل بیت|میری آل]] سے متصل نہیں کیا تو «لا لبَّیكَ ولا سَعْدَیكَ»، اے میرے فرشتو! اس کی [[دعا]] کو اوپر کی جانب مت لے کر جاؤ مگر یہ کہ میرے پیغمبر کی آل پر صلوات بھیجے، ایسا شخص رحمتِ حق سے محروم ہے جب تک کہ وہ میرے خاندان کو صلوات میں مجھ سے متصل نہیں کرتا}}۔</font>"<ref>مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص56، باب 29، حدیث 30۔</ref><ref>شیخ صدوق، الأمالی، ص580۔</ref>
# '''اللہ کی قربت و محبت''' <br/> '''قالَ مُولانا عَلی بنُ مُحَمَّدٍ الهادِيُ عَلَيهِ السَّلامُ''': "<font color = blue>{{حدیث|''' إنّما اتَّخَذَ اللهُ إبرَاهِيمَ خليلاً لِكَثْرَةِ صَلاتِهِ علي محمّدٍ وأهلِ بيِتهِ صلواتُ اللهِ عَلَيهم'''}}</font>؛ <font color = #00000>{{عربی|ترجمہ: بےشک خداوند متعال نے [[حضرت ابراہیم(ع)|حضرت ابراہیم]] (عَلَی نَبِینا وآلهِ وعليه السلام) کو بطور دوست و خلیل منتخب کیا کیونکہ وہ [[رسول اللہ|محمد صلی اللہ علیہ و آلہ]] اور آپ(ص) کے [[اہل بیت]] معظم علیہم السلام، بہت زیادہ صلوات بھیجتے تھے}}۔</font>"۔<ref>شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص34۔</ref><ref>الحلی، المحتضَر، ص139۔</ref><ref>حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔</ref><ref>مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص4، ج91، ص54۔</ref><ref>حویزی، نور الثقلین، ج1، ص555۔</ref><ref>قمی مشہدی، کنز الدقائق، ج2، ص635۔</ref><ref>بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔</ref>
{{ستون خ}}


==حوالہ جات==
==حوالہ جات==
{{حوالہ جات|3}}
{{حوالہ جات|3}}

نسخہ بمطابق 03:07، 9 جون 2016ء


دعا و مناجات


صَلَوات، [عربی میں: عربی زبان میں ایک خاص قسم کا ذکر ہے جو پیغمبر اسلام(ص) پر درود سے عبارت ہے اور مسلمان، نماز کے تشہد میں نیز رسول اللہ(ص) کا نام سن کر، پڑھتے ہیں۔ سورہ احزاب کی آیت 56 (آیت صلوات) کے علاوہ، بہت سی احادیث بھی صلوات کے استحباب پر تاکید کرتی ہیں۔

مسلمانوں کے عقیدے میں صلوات رسول خدا(ص) کا احترام بھی ہے اور اس پر اخروی ثواب بھی حاصل ہوتا اور مثبت دنیاوی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ صلوات بہت سے ممالک کے مسلمانوں کی عام تعلیمات میں اہم منزلت رکھتی ہے اور مسلمان مختلف مواقع پر، اور مختلف مناسبتوں سے، ـ بطور مثال جشنوں وغیرہ میں خوشی کے اظہار، اور اپنے کاموں کے آغاز پر، تبرک اور تَیَمُّن کی نیت سے صلوات پڑھتے ہیں۔

شیعیان اہل بیت کے ہاں رائج ترین صلوات "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔

لغوی اور اصطلاحی معانی

صلوات جمع "صلاۃ" ہے، جو مادہ "ص ل و" سے مشتق ہے اور اس کے معنی دعا، درود، تحیت اور رحمت کے ہیں۔ "صلوات"، جمعِ "صلاۃ" بمعنی "نماز" بھی ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ نماز مختلف دعاؤں پر بھی مشتمل ہے، اسی لئے اس کو "صلاۃ" بھی کہا جاتا ہے، چنانچہ عربی میں "صلوات" کو جمع کی صورت میں بروئے کار لایا جاتا ہے اور اس کے معنی "نمازوں، دعاؤں اور درودوں کے ہیں۔[1] فارسی [اور اردو وغیرہ] میں لفظ "صلوات" سے مراد، صلاۃ کی جمع نہیں بلکہ اس لفظ سے، اصطلاحی معنی میں رسول اللہ(ص) پر درود خاص کے طور پر مراد لئے جاتے ہیں۔

دینی اصطلاح میں، صلوات، پیغمبر(ص) پر درود خاص نامی عبادی عمل کا نام ہے جس کو شیعیان اہل بیت(ع) عبارت "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" سے، بجا لاتے ہیں۔

خدا اور فرشتوں کی صلوات کے معنی

آیت صلوات

قال اللہ تبارک وتعالی:
"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً
یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے۔[؟–56]

عرب ماہرین لسانیات کے بقول، اگر عربی لفظ "صلاۃ" سے درود اور تہنیت مراد لی جائے، تو اس کا مطلب ـ استعمال کرنے والے شخص کی نسبت، نیز اس شخص کی نسبت جس پر درود بھیجا جارہا ہے ـ معنوی لحاظ سے، مختلف ہوگا؛ بطور مثال:

صلوات کی عبارات اور صیغے

شیعیان اہل بیت کے ہاں صلوات کا مشہور ترین "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ وَ آلِ مُحمّد" ہے۔ اسلامی مذاہب کے ہاں اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ "اَللّهُمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ" صلوات کی عبارت کا اصلی حصہ ہے؛ اختلاف ان عبارات میں ہے جو اس جملے کے بعد لائی جاتی ہیں۔ شیعہ اہل سنت کے برعکس، اس عبارت کے بعد "وَآلِ مُحمّد" کی عبارت لاتے ہیں اور اس سلسلے میں کثیر شیعہ اور سنی مآخذ سے استناد کرتے ہیں، جن کی رو سے صلوات کاملہ یہ ہے کہ اس میں مؤخرالذکر عبارت بھی شامل ہو۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ(ص) نے صلوات کے بارے میں پوچھنے والے شخص کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: "کہو: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ[4]

بعض روایات سے ثابت ہے کہ صلوات "وَآلِ مُحمّد" کے بغیر مکمل نہیں ہے۔[5] بعض روایات میں اہل بیت(ع) نے بھی صلوات کی کیفیت بیان کی ہے۔ ان روایات میں تاکید ہوئی ہے کہ رسول اللہ(ص) پر درود و صلوات کے ساتھ آپ(ص) کی آل [خاندان] پر بھی صلوات بھیجنا لازم ہے۔ امام صادق(ع) نے صلوات کی کیفیت یوں بیان کی ہے:

" صَلَواتُ اللهِ وَصَلَواتُ مَلائِكتِهِ وَأنْبِيائِهِ وَرُسُلِهِ وَجَمِيعِ خَلْقِهِ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَالسَّلامُ عَلَيهِ وَعَلَيهِمْ وَرَحَمةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ [6] ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول خدا(ص) پر صلوات کے حسنات 100 ہیں اور آل رسول(ص) پر صلوات کے حسنات 1000۔[7] بعض شیعیان کے نزدیک ـ بالخصوص ایران، [اور "پاکستان"] میں "وَعَجِّل فَرَجَهُم؛ (ترجمہ: اور ان کی فَرَج میں تعجیل فرما") کی عبارت صلوات میں بڑھائی جاتی ہے؛ جو اہل بیت(ع) سے منقولہ روایات کے مطابق ہے۔[8]

اہل سنت کے ہاں صلوات کی کیفیت

اہل سنت کے ماضی سے آج تک، چار قسم کی صلوات رائج رہی ہے اور ان کی نمازوں کی صلوات، ان کی مکتوبہ اور زبانی صلواتوں سے مختلف ہے۔[9]

وہ جو صلوات نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں، وہ "وَآلِ مُحمّد" پر مشتمل ہے: "اَللّهمَّ صَلِّ عَلی مُحمّدٍ و عَلی آلِ مُحَمّد کما۔۔۔" جس میں حرفِ جَرّ لفظ "آل" سے قبل بھی آیا ہے۔ اہل سنت کے ہاں نماز میں رائج صلوات رسول اللہ(ص) کے صحابی "کعب بن عجرۃ" سے منقولہ روایت ـ اور صحیح بخاری اور صحیح مسلم ـ میں نقل ہوئی ہے۔ حنابلہ اس روایت کو بعینہ نماز کے تشہد میں پڑھتے ہیں۔[10] لیکن اہل سنت کے دیگر مذاہب اور مذہب زیدیہ میں عبارت "آل ابراہیم" سے قبل "ابراہیم" کا نام بھی آتا ہے۔[11][12]۔[13]

جو صلوات وہ اپنی تقریر و تحریر میں استعمال کرتے ہیں ان میں "آل محمد" کا نام نہیں ہے اور وہ رسول اللہ(ص) کا نام لے کر کہتے ہیں: "صَلّی اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ

ایک تیسری قسم کی صلوات بھی اہل سنت ـ بالخصوص احناف ـ میں مرسوم ہے جسے وہ سرسراہٹ یا بنبناہٹ کی صورت میں پڑھتے ہیں اور یہ وہ صلوات ہے جسے خطیب لوگوں سے پڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس قسم کی صلوات میں "ازواج اور اصحاب" جیسے اصحاب بھی شامل ہیں اور عام طور پر اس طرح پڑھی جاتی ہے: "اللهم صلِ وسلم على سيدنا محمد وعلى آله وأزواجه وصحبه كما صليت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد"۔ بعض علاقوں میں "آل محمد" کے بعد "اصحاب محمد" کو بڑھا دیتے ہیں اور کہتے ہیں: "اللّهم صل علی محمد وآل محمد واصحاب محمد[14]

اہل سنت کی یہ عادت نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) کا نم سن کر صلوات پڑھیں، مگر اس وقت، جب وہ آیت صلوات سنیں یا ان سے "درود شریف" پڑھنے کی درخواست کی جائے۔[15] [حوالہ درکار]


صلوات کی اہمیت اور فضیلت

بعض احادیث، حضرت محمد(ص) سے قبل کے انبیاء بھی صلوات پڑھتے رہے ہیں۔ ایک نقل کے مطابق "صلوات حضرت ابراہیم(ع) کے معنوی و روحانی رتبے کی رفعت میں مؤثر تھی۔[16] پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں: "جو مجھ پر صلوات بھیجے، فرشتے اس پر صلوات بھیجتے ہیں، کم یا زیادہ؛ جس قدر کہ وہ صلوات بھیجتا ہے[17] بعض احادیث ـ منجملہ امام رضا(ع) سے منقولہ حدیث ـ کی رو سے، صلوات گناہوں کے محو ہوجانے میں مؤثر ہے۔[18]

صلوات قرآن میں

مفصل مضمون: آیت صلوات

قرآن کریم نہ صرف تصریح کرتا ہے کہ خداوند متعال اور اس کے فرشتے رسول اللہ(ص) پر صلوات بھیجتے ہیں، بلکہ مؤمنین کو بھی امر کرتا ہے کہ اس سلسلے میں اللہ اور فرشتوں کی پیروی کریں:

"إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيماً ﴿56﴾
ترجمہ: یقینا اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں پیغمبر پر، اے ایمان لانے والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور سلام کہو جس طرح کہ سلام کہنے کا حق ہے[؟–56]۔

صلوات نماز میں

صلوات نماز کے واجب اذکار میں سے ہے اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہر روز اپنی یومیہ نمازوں کے تشہد میں صلوات پڑھیں اور پیغمبر اکرم(ص) اور آپ(ص) کے خاندان پر اسی ذکر خاص کے ساتھ، درود بھیجیں۔ چنانچہ اگر پیغمبر اکرم(ص) پر صلوات کو ارادی طور پر ترک کیا جائے تو نماز باطل ہوگی۔[19]

احادیث میں

مآخذ حدیث میں صلوات کے لئے بہت زیادہ ثواب اور مثبت معنوی و مادی اثرات بیان ہوئے ہیں۔ بعض اہم مآخذ حدیث میں صلوات اور اس کی کیفیت و اہمیت بیان کرنے کے لئے الگ ابواب قرار دیئے گئے ہیں۔ بعض دیگر مآخذ حدیث و روایت نے اپنے زیر بحث موضوعات کے تناسب سے، صلوات کی اہمیت بیان کی ہے۔ معتبر ترین شیعہ ماخذِ حدیث ـ الکافی ـ میں، صلوات کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ "جو شخصی محمد و آل محمد پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے اس پر سو مرتبہ صلوات بھیجتے ہیں، اور جو شخص محمد و آل محمد پر سو مرتبہ صلوات بھیجے، خدا اور اس کے فرشتے ہزار مرتبہ اس پر صلوات بھیجتے ہیں[20]

شیخ حر عاملی، اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں اور محدث نوری مستدرک وسائل الشیعہ میں "صلوات کی کیفیت"،[21] "صلوات بآواز بلند"،[22] وغیرہ جیسے عناوین کے تحت ابواب کھول رکھے ہیں۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار ـ جو جو عظیم ترین شیعہ ماخذ حدیث ہے ـ میں "نبی و آل نبی(ص) پر صلوات بھیجنے کی فضیلت" کے زیر عنوان ایک باب میں 67 حدیثیں نقل کی ہیں۔[23]

اہل سنت کے ایک اہم مجموعۂ حدیث کنزالعمال کی پہلی جلد کے چھ ابواب میں 119 حدیثیں اکٹھی کی گئی ہیں جن کا مضمون "صلوات، اس کی اہمیت اور فضیلت" ہے۔

صلوات کے بعض آثار، احادیث کے آئینے میں:

  1. گناہوں کا کفارہ
    حضرت رضا علیہ السلام:
    "مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى مَا يُكَفِّرُ بِهِ ذُنُوبَهُ فَلْيُكْثِرْ مِنَ الصَّلَاةِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ فَإِنَّهَا تَهْدِمُ الذُّنُوبَ هَدْماً وَقَالَ عَلَيهِ السَّلامُ: الصَّلَاةُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ التَّسْبِيحَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّكْبِيرَ (ترجمہ: اگر کوئی ایسا کام کرنے سے عاجز ہے جو اس کے گناہوں کا کفارہ ٹہرے، تو وہ بہت زیادہ صلوات بھیجے محمد و آل محمد پر، کیونکہ صلوات نابود کردیتی ہے گناہوں کو، جیسا کہ نابود کرنے کا حق ہے؛ نیز امام رضا(ع) نے فرمایا: محمد و آل محمد پر صلوات، خدائے عز وجل کی بارگاہ میں برابر ہے تسبیح، (= سبحان اللہ)، تہلیل (= لا الہ الا اللہ)، تکبیر (= اللہ اکبر)، کے برابر ہے)[24]
  2. اعمال کے ترازو میں سب سے بھاری عمل
    "قال أبو عبدِ الله أو أبو جعفر علیهما السلام: أثقَلُ ما یُوضَعُ فی المیزانِ یَومَ القِیامةِ، الصَّلاةُ علی مُحمَّدٍ وَ(علی) أهلِ بِیتِه (ترجمہ: : سب سے بھاری عمل جو قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں رکھا جاتا ہے، محمد(ص) اور آپ(ص) کے خاندان معظم پر درود و صلوات ہے"[25][26][27][28][29][30][31]
  3. آسمان کے دروازوں کا وا ہونا اور گناہوں کا مٹ جانا
    "امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے امام علی علیہ السلام سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا نہیں چاہوگے کہ میں تمہیں بشارت دوں؟ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ہمیشہ سے خیر کی بشارت دینے والے ہیں؛ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: جبرائیل نے اسی وقت مجھے ایک حیرت انگیز خبر دی۔ امام علی علیہ السلام نے عرض کیا: وہ خبر کیا تھی؟ فرمایا: انھوں نے مجھے خبر دی کہ: جب میری امت کا ایک مرد مجھ پر صلوات بھیجے اور اس صلوات کو میری آل سے متصل کردے، آسمان کے دروازے اس کے لئے کھل جاتے ہیں، اور فرشتے 10 صلواتیں اس پر بھیجتے ہیں، اور اگر وہ شخص گنہگار ہے، تو اس کے گناہ درخت کے پتوں کی طرح گر جاتے ہیں، اور خداوند متعال اس سے خطاب کرکے فرماتا ہے «لبَّیكَ يا عبدي وسَعْدَیكَ» اور فرشتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے پر 70 صلواتیں بھیجیں اور میں اس پر 700 صلواتیں بھیجتا ہوں؛ لیکن اگر اس شخص نے مجھ پر صلوات بھیجی اور اس صلوات کو میری آل سے متصل نہیں کیا تو «لا لبَّیكَ ولا سَعْدَیكَ»، اے میرے فرشتو! اس کی دعا کو اوپر کی جانب مت لے کر جاؤ مگر یہ کہ میرے پیغمبر کی آل پر صلوات بھیجے، ایسا شخص رحمتِ حق سے محروم ہے جب تک کہ وہ میرے خاندان کو صلوات میں مجھ سے متصل نہیں کرتا۔"[32][33]
  4. اللہ کی قربت و محبت
    قالَ مُولانا عَلی بنُ مُحَمَّدٍ الهادِيُ عَلَيهِ السَّلامُ: " إنّما اتَّخَذَ اللهُ إبرَاهِيمَ خليلاً لِكَثْرَةِ صَلاتِهِ علي محمّدٍ وأهلِ بيِتهِ صلواتُ اللهِ عَلَيهم؛ ترجمہ: بےشک خداوند متعال نے حضرت ابراہیم (عَلَی نَبِینا وآلهِ وعليه السلام) کو بطور دوست و خلیل منتخب کیا کیونکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آپ(ص) کے اہل بیت معظم علیہم السلام، بہت زیادہ صلوات بھیجتے تھے۔[34][35][36][37][38][39][40]

حوالہ جات

  1. طریحی، مجمع البحرین، ج۱، ۲۶۶۔
  2. فراہیدی، العین، ج۷، ص۱۵۳۔
  3. طریحی، مجمع البحرین، ج۱، ص۲۶۶۔
  4. السیوطی، الدر المنثور، ج ۵، ص۲۱۶۔
  5. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ص۷، ص۱۹۹۔
  6. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج۷، ص۱۹۶۔
  7. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج۷، ص۱۹۵۔
  8. النوری الطبرسی، مستدرک الوسائل، ج۵، ص۹۶۔
  9. کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
  10. ابن قدامه، المغنی، ج1، ص223۔
  11. الحنفی المصری، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج1، ص573۔
  12. أبو البرکات، الشرح الکبیر، ج1، ص251‌۔
  13. أبو بکر الکاسانی، و بدائع الصنائع، ج1 ص211‌۔
  14. کیفیت صلوات در فرہنگ اہل سنت۔
  15. وہی ماخذ۔
  16. عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
  17. عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
  18. عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص194۔
  19. صدوق، من لا یحضرہ الفقیہ، ج2، ص183۔
  20. کلینی، الکافی، ج2، ص493۔
  21. حر عاملی، وسائل الشیعہ، ج7، ص196۔
  22. حر عاملی، وہی ماخذ، ص193۔
  23. مجلسی، بحار الانوار، ج 91، ص47- 73۔
  24. صدوق، عیون أخبار الرضا، ج1، ص236، ح1۔
  25. حمیری، قُرب الأسناد، ص14۔
  26. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص197۔
  27. مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص49۔
  28. مدنی شیرازی، ریاض السالکین، ج1، ص426۔
  29. بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص62۔
  30. نمازی شاہرودی، مستدرک سفینۃ البحار، ج6، ص367۔
  31. ری شہری، میزان الحکمۃ، ج2، ص1662۔
  32. مجلسی، بحار الأنوار، ج91، ص56، باب 29، حدیث 30۔
  33. شیخ صدوق، الأمالی، ص580۔
  34. شیخ صدوق، علل الشرائع، ج1، ص34۔
  35. الحلی، المحتضَر، ص139۔
  36. حر عاملی، وسائل الشیعۃ، ج7، ص194۔
  37. مجلسی، بحار الانوار، ج12، ص4، ج91، ص54۔
  38. حویزی، نور الثقلین، ج1، ص555۔
  39. قمی مشہدی، کنز الدقائق، ج2، ص635۔
  40. بروجردی، جامع أحادیث الشیعۃ، ج15، ص474۔