بلعم باعور
بَلْعَم باعور، حضرت موسی کے زمانے کا ایک عالم دین اور مستجاب الدعوہ شخص تھا جو شیطان کے بہکاوے میں آیا تھا۔ احادیث کے مطابق توریت میں بلعم باعور کا تذکرہ آیا ہے۔ اسی طرح بعض مفسرین کہتے ہیں کہ سورہ اعراف کی آیت نمبر 175 بلعم باعور کے بارے میں نازل ہوئی ہے، جس میں آیات الہی (یعنی اسم اعظم یا کتاب خدا سے آگاہ) کے حامل ایک شخص کی گمراہی کے بارے میں بحث کی ہے۔ بلعم باعور کے بارے میں مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں جنہیں بعض مفسرین اسرائیلیات کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔
نام اور محل زندگی
بلعم[1] یا بلعام[2] بنی اسرائیل کا ایک شخص تھا[3] جو سر زمین شام میں زندگی بسر کرتا تھا۔[4] حضرت موسی ان سے مبلّغ کے عنوان سے کام لیتے تھے۔[5]
بلعم کے والد کا نام "باعوراء"[6] "باعور"[7] اور "أور"[8] اور بیوی کا نام "بسوس" ذکر کیا گیا ہے۔[9]
خصوصیات، کتابُ اللہ کا عالم
کتاب خدا سے آگاہی: بعض مفسرین کے مطابق آیت وَ اتْلُ عَلَیہِمْ نَبَأَ الَّذِی ءَاتَینَاہُ ءَایاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْہَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیطَانُ فَکاَنَ مِنَ الْغَاوِین؛ (ترجمہ: (اے رسولؐ) ان لوگوں کے سامنے اس شخص کا واقعہ بیان کرو جس کو ہم نے اپنی بعض نشانیاں عطا کی تھیں مگر وہ ان سے عاری ہوگیا (وہ جامہ اتار دیا) پس شیطان اس کے پیچھے لگ گیا۔ اور آخرکار وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔)[؟–؟][10] بلعم باعور کے واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہے۔[11] البتہ اس آیت میں «آیاتنا» سے مراد کیا ہے؟ مفسرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے اس سے مراد خدا کے اسم اعظم کی نسبت بلعم باعور کی آگاہی قرار دیا ہے۔[12] اسی بنا پر اس کی دعائیں ہمیشہ مستجاب ہوتی تھیں۔[13] ایک اور گروہ اس سے مراد بلعم باعور کا کتاب خدا کے بارے میں عالم ہونا قرار دیتے ہیں نہ اسم اعظم سے آگاہی۔[14]
منحرف ہونا
مذکورہ آیت کی رو سے بلعم باعور باوجود اینکہ آیت الہی کا حامل تھا لیکن شیطان نے اسے فریب دیا اور وہ گمراہ ہوگیا۔[15] اس کی گمراہی کے بارے میں دو نظرئے پائے جاتے ہیں:
- بلعم باعور نے حضرت موسیؑ کی مخالفت میں فرعون کی مدد کی تھی۔[16]
- مسعودی کے مطابق بلعم نے اپنے ملک کے بادشاہ کی مدد کی تھی جس نے حضرت یوشع اور بنی اسرائیل کے ساتھ جنگ کی تھی۔[17]
متفاوت داستانیں
بلعم باعور کے بارے میں مختلف داستانیں نقل ہوئی ہیں۔ بعض مفسرین ان روایات کو اسرائیلیات میں شمار کرتے ہوئے انہیں غیر معتبر سمجھتے ہیں۔[18] ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
- بلعم باعور حضرت موسی کے لشکر کی نابودی کا خواہاں تھا، اس بنا پر اس نے اس وقت کے بادشاہ سے درخواست کیا کہ حضرت موسی کے لشکر کی استقبال کے لئے بنی اسرائیل کی عورتوں کو بھیج دیا جائے تاکہ ان عورتوں کے سبب وہ لوگ زنا میں پڑ جائے اور خدا ان کو نابود کر دے۔[19]
- بلعم باعور کے لئے تین دعاؤں کی استجابت کا وعدہ دیا گیا تھا۔ اس کی بیوی نے ایک دعا ان کے ساتھ مختص کرنے کی درخواست کی۔ بلعم نے اسے قبول کیا۔ اس کی بیوی نے کہا کہ ان کے حق میں دعا کریں کہ وہ بنی اسرائیل کی سب سے خوبصورت عورت بن جائے، بلعم کی دعا کی بدولت وہ ایسی ہی ہو گئی۔ جب اس کی بیوی نے دیکھا کہ بنی اسرائیل میں ان سے خوبصورت کوئی نہیں، تو بلعم باعور سے جدا ہو گئی۔ اس موقع پر بلعم نے اسے کتے کی شکل میں تبدیل ہونے کی دعا کی۔ اس کے بعد ان کی اولاد نے بلعم سے ان کی ماں کو اس حالت سے خارج کرنے پر اصرار کیا اور اس نے دعا کے ذریعے ایسا کیا۔[20]
- بعض منابع کے مطابق جب بلعم باعور حضرت موسیؑ اور ان کی قوم کے خلاف بدعا کرنے جانا چاہا تو ان کے گدھے نے حرکت کرنے سے انکار کیا۔ بلعم نے اسے لات ماری اور یہ عمل تین مرتبہ تکرار ہوا۔ اس کے بعد یہ حیوان خدا کے حکم سے بولنے لگا اور بلعم سے کہا کہ وہ ملائکہ کو دیکھ رہا ہے جو ان کو حرکت کرنے سے منع کر رہے ہیں۔[21] یہ داستان توریت میں بھی آئی ہے۔[22]
حوالہ جات
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۸، ص۲۹۔
- ↑ علامہ مجلسی، بحار الأنوار، ۱۴۰۳ق، ج۱۳،ص۳۷۹۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۵۳۔
- ↑ طبری، تاریخ طبری، ۱۳۸۷ق، ج۱، ص۴۳۷۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ق، ج۷، ص۱۴۔
- ↑ راوندی، قصص الأنبیاء، ۱۴۰۹ق، ص۱۷۳۔
- ↑ کلینی، الکافی، ۱۴۰۷، ج۸، ص۲۹۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۳۹۶۔
- ↑ آلوسی، روح المعانی، ۱۴۱۵ق، ج۵، ص۱۰۴۔
- ↑ سورہ اعراف، آیہ۱۷۵۔
- ↑ مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ، ۱۳۷۴ق، ج۷، ص۱۴؛ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۹، ص۸۲۔
- ↑ عیاشی، التفسیر، ۱۳۸۰ق، ج۲، ص۴۲۔
- ↑ بحرانی، البرہان، ۱۴۱۶ق، ج۲، ص۶۱۵۔
- ↑ فیض کاشانی، تفسیر الصافی، ۱۴۱۵ق، ج۲، ص۲۵۳؛ شیخ طوسی، التبیان، ج۵، ص۳۲۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۴۸۔
- ↑ قمی، تفسیر القمی، ۱۴۰۴ق، ج۱، ص۲۴۸۔
- ↑ مسعودی، اثبات الوصیۃ، ۱۳۸۴ش، ص۶۵۔
- ↑ رشید رضا، المنار،۱۹۹۰م، ج۹، ص۳۴۸۔
- ↑ طبری، جامع البیان، ۱۴۱۲ق، ج۹، ص۸۵۔
- ↑ ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، ۱۴۱۵ق، ج۱۰، ص۳۹۹۔
- ↑ ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ۱۴۱۹ق، ج۳، ص۴۶۰۔
- ↑ توریت، سِفر اعداد، ۲۲: ۲۱-۳۲۔
مآخذ
- ابن عساکر، علی بن حسن، تاریخ مدینۃ دمشق، بیروت، دارالفکر، ۱۴۱۵ق۔
- ابن کثیر دمشقی، اسماعیل بن عمرو، تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: شمس الدین، محمد حسین، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، چاپ اول، ۱۴۱۹ق۔
- آلوسی، سید محمود، روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم، تحقیق: عطیۃ، علی عبدالباری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، چاپ اول، ۱۴۱۵ق۔
- بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، تہران، بنیاد بعثت، چاپ اول، ۱۴۱۶ق۔
- رشید رضا، تفسیر المنار، مصر، الہیئۃ المصریۃ العامۃ للکتاب، ۱۹۹۰م۔
- طبری، محمد بن جریر، جامع البیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار المعرفۃ، چاپ اول، ۱۴۱۲ق۔
- طبری، تاریخ الامم و الملوک، تحقیق محمد أبو الفضل ابراہیم، بیروت، دار التراث، ۱۳۸۷ق،
- عیاشی، محمد بن مسعود، التفسیر، محقق و مصحح، رسولی محلاتی، ہاشم، تہران، المطبعۃ العلمیۃ، چاپ اول، ۱۳۸۰ق۔
- فیض کاشانی، ملا محسن، تفسیر الصافی، تحقیق: اعلمی، حسین، تہران، انتشارات الصدر، چاپ دوم، ۱۴۱۵ق۔
- قطب الدین راوندی، سعید بن ہبۃ اللہ، قصص الأنبیاء علیہم السلام، محقق و مصحح: عرفانیان یزدی، غلام رضا، مشہد، مرکز پژوہشہای اسلامی، چاپ اول، ۱۴۰۹ق۔
- قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، محقق و مصحح: موسوی جزائری، سید طیب، قم، دارالکتاب، چاپ سوم، ۱۴۰۴ق۔
- کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، ۱۴۰۷ق۔
- مسعودی، علی بن حسین، اثبات الوصیۃ للإمام علی بن أبی طالب، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، ۱۳۸۴ش۔
- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، تہران، دار الکتب الإسلامیۃ، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔