قصیده ابن عرندس حلی

ویکی شیعہ سے
(قصیدہ بن عرندس حلی سے رجوع مکرر)
قصیده ابن‌عرندس حِلّی
کوائف شعر
شعر کا نامقصیده ابن‌عَرَندَس
شاعرابن‌عرندس حلی
قالبقصیدہ
موضوعمرثیہ امام حسینؑ
زبانعربی
تاریخ9ویں صدی ہجری
مکانعراق
تعداد ابیات103
استعمالعزاداری امام حسینؑ
ترجمہفارسی
مآخذالمنتخب: فخرالدین طریحی
مشہور اشعار
قصیدہ لامیہ ابوطالب تائیہ دعبل محتشم کا بارہ بند همائے رحمت بہشت کا ایک ٹکڑا اے اہل حرم با آل علی ہرکہ درافتاد ورافتاد مکن ای صبح طلوع ہا علی بشر کیف بشر


قصیده ابن‌عَرَندَس حِلّی نویں صدی ہجری کے شاعر ابن عرندس حلی کا عربی زبان میں لکھا گیا ایک قصیدہ ہے جس میں اہل بیتؑ کے فضائل و مناقب اور امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب کے مرثیے اشعارکی شکل میں بیان کیے گئے ہیں۔ ادبی حسن اور جذباتیت سے مملو یہ قصیدہ 103 ابیات پر مشتمل ہے۔ اس قصیدے میں کربلا میں امام حسینؑ کی شہادت پرمرثیے، اہل حرم کی اسیری، حضرت فاطمہ(س) پر ڈھائے گئے مظالم اور امام مہدی(عج) کا شہدائے کربلا کے قاتلوں سے انتقام جیسے مطالب کو نظم کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ شاعر نے اس قصیدے کے آخر میں دیگر ائمہؑ کی بھی مدح سرائی کی ہے۔ اس نظم کا فارسی میں ترجمہ کیا گیا ہے اور اس پر شرح بھی لکھی گئی ہے۔

اوصاف اور مقام

ابن عرندس نے اپنے اس شاعرانہ کلام میں عربی زبان میں امام حسینؑ اور آپؑ کے اصحاب کی شہادت پر مرثیہ خوانی اور اہل بیتؑ کی مدح سرائی کی ہے۔[1] بعض محققین کے مطابق اس قصیدے میں ادبی اور شعری فنون کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے اور شاعر اپنے احساسات اور جذبات کا خوب اظہار کیا ہے۔[2] کہتے ہیں کہ ابن عرندس کی قرآن مجید سے انسیت کے بموجب اپنے مافی الضمیر کو بہتر انداز میں بیان کرنے کے لیے قرآن کی آیات سے استفادہ کیا ہے۔[3]

شیعہ عام لوگوں میں مشہور ہے کہ اگر یہ اشعار کسی مجلس میں پڑھے جائیں تو امام مہدی(عج) وہاں حاضر ہوں گے۔[4] اس لیے بعض اوقات امام حسینؑ کی مجالس عزا میں یہ اشعار پڑھے جاتے ہیں۔[5] عبد الزہرا کَعبی سے یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک دفعہ حرم امام حسینؑ میں منعقدہ کسی مجلس میں یہ اشعار پڑھے گئے تو انہوں نے ایک نامعلوم سید کی موجودگی کا مشاہدہ کیا جو یہ اشعار سن کر شدت سے رویے جارہے تھے؛ اختتام مجلس پر وہ دوبارہ نظر نہیں آیا۔ [6]

شاعر

صالح بن عبد الوہاب بن عرندس حلی کا مشہور نام ابن عرندس تھا۔ وہ آٹھویں صدی ہجری کے اواخر میں پیدا ہوئے۔[7] ابن عرندس اس زمانے کے شیعہ فقیہ تھے جن کی فقہ اور اصول فقہ میں کئی تالیفات ہیں۔ کتاب [[کشف اللئالی" ان کی تصانیف میں سے ایک ہے۔[8] ابن عرندس نے اہل بیتؑ کی شان اور مصائب میں بہت سے اشعار پڑھے ہیں۔[9] وہ ایک ہنر مند، توانا اور ایک باذوق شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں جو ادبی فنون و صنائع میں ید طولیٰ رکھتے تھے، علاوہ بر ایں، علم، تقویٰ اور آلِ رسول سے محبت و مودت رکھنے میں بھی زبان زد عام و خاص تھے۔[10] ان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے اشعار کو فضائل و مناقب اہل بیتؑ بیان کرنے تک محدود رکھا ہے۔[11]

ابن عرندس کی تاریخ وفات تقریباً 900ھ یا 840ھ بتائی جاتی ہے۔ [12] ان کی قبر حلہ میں شیعہ زیارت گاہ ہے۔[13]

مضامین

ابن عرندس نے اپنے شعری کلام میں پہلے اہل بیتؑ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے اور اس کے بعد امام حسینؑ کے فضائل بیان کیے ہیں۔ اس کے بعد وہ امام حسینؑ کی شہادت کے سلسلے میں یوں مرثیہ شروع کرتے ہے: امام حسینؑ کو کیسے تشنہ لب کربلا میں شہید کیے گئے؟! جب کہ آپؑ کے والد ماجد حوض کوثر سے پانی پلانے والے ہیں! اور آب فرات آپؑ کی والدہ فاطمہ الزہراءؑ کا حق مہر تھا۔[14]

بعد ازآں، وہ اصحاب امام حسینؑ کے دفاع میں ان کی شہادت کے لمحات کو یاد کر کے شعر کہتے ہیں۔ پھر پیغمبر اکرمؐ کے خاندان کی اسیری کے بارے میں بیان کرتے ہیں۔[15] اور پھر قیامت کے واقعوں میں حضرت فاطمہؑ پر ہونے والے ظلم و ستم کے دادرسی کو بیان کرتا ہے اور کہتا ہے: قیامت کے دن فاطمہؑ کے ہاتھوں میں دو کپڑے ہونگے، ایک زہر آلود سے کالا ہوچکا ہوگا اور دوسرا خون سے رنگین ہوا ہوگا۔[16]
اس کے بعد شاعر امام مہدی(عج) کی اپنے جد بزرگوار امام حسینؑ کی خون خواہی کے سلسلے میں کچھ اشعار کہتے ہیں اور نظم کے آخری حصے میں دوسرے ائمہ کے فضائل بیان کرتے ہیں۔[17]

اشعار کے چند نمونے

قصیده ابن‌عرندس حلی کا متن:[18]

طَوايا نِظامي في الزَّمانِ لها نَشرُيُعطِّرُها مِنْ طيبِ ذِكراكُمُ نَشرُ
قصائدُ ما خابَتْ لهُنَّ مقاصِدٌبواطِنُها حَمدٌ ظواهِرُها شُكرُ
مطالعُها تَحكي النُّجومَ طوالِعاًفأخلاقُها زَهرٌ وأنوارُها زُهرُ
عرائِسُ تُجلى حينَ تَجلِي قلوبَنااأكاليلُها دُرٌّ وتيجانُها تِبرُ
حِسانٌ لها حَسّانُ بالفضلِ شاهدٌعلى وجهِها بِشرٌ يُزانُ بهِ البِشرُ
أُنظِّمُها نظمَ اللَّئالِي وأسهرُ الـلَّيالي ليحيى لي، بها وبِكُمْ ذِكرُ
فيا ساكني أرضِ الطُّفوفِ عليكُمُسلامُ مُحِبٍ ما لَهُ عنكُمُ صَبرُ
نشرتُ دواوينَ الثَّنا بعدَ طَيِّهاوفي كلِّ طِرسٍ مِن مديحي لكُمْ سَطرُ
فطابق شِعري فيكُمُ دمعَ ناظريفسرُّ غرامي شائعٌ فيكمُ جهرُ
لآلي نظامي في عقيقِ مدامـعيفمُبيضُ ذا نظمٌ ومُحمرُ ذا نثرُ
فلا تتهِموني بالسُّلوِّ فإنَّمامواعيدُ سُلواني وحقِّكُمُ الحشرُ
فذُلِّي بكُمْ عِزٌ وفَقري بكُمْ غِنىًوعُسري بكُمْ يُسرٌ وكَسري بكُمْ جَبرُ
تَروقُ بروقُ السُّحبِ لي مِن ديارِكمفينهَلُّ مِن دمعي لبارقِها القَطرُ
أفعينايَ كالخَنساءَ تجري دموعُهاوقلبي شديدٌ في محبتِكُمْ صخرُ
وقفتُ على الدّارِ التي كُنتُمُ بهافمغْناكُمُ مِن بعدِ معناكُمُ قَفرُ
وقد دُرِسَتْ منها العلوم وطالمابها دُرِّسَ العِلمُ الإلاهِيُّ والذِّكرُ
فَراقَ فِراقُ الروحِ لي بعدَ بُعدِكُمْودارَ برسمِ الدارِ في خاطِري الفِكرُ
وسالتْ عليها مِن دُموعي سحائِبٌإلى أنْ تَرَوّى البانُ بالدمعِ والسِّدرُ
وقد أقلعتْ عنها السحائِبُ، لم تَجُدْولا دَرَّ مِن بعدِ الحسينِ لها دَرُّ
إمامُ الهُدى سِبطُ النُّبوةِ والدُ الـأئمةِ ربُّ النُّهى مولىً لهُ الأمرُ
إمامٌ أبوهُ المُرتضى عَلَمُ الهُدىوصيُّ رسولِ اللهِ والصِّنوُ والصِّهرُ
إمامٌ بكتْهُ الإنسُ والجِنُّ والسَّماووحشُ الفَلا والطيرُ والبَرُّ والبحرُ

طباعت، ترجمہ اور شرح

قصیده ابن‌عرندس کا بعض کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے۔ جیسے علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب (کتاب) اور طریحی کی کتاب المنتخب فی جمع المراثی و الخطب میں یہ قصیدہ آیا ہے۔ اسے مہدی امین‌ فروغی نے "فیض روح‌ القدس" کے عنوان سے[19] اور محمد عظیمی نے "اشک ریزان در مصائب سید شہیدان" کے عنوان سے ترجمہ اور شائع کیا ہے۔[20]

وصال کا قصیدہ ابن عرندس کے قصیدے کا ترجمہ اور شرح ہے۔ اسے امیرالعلم پبلشرز نے شائع کیا ہے۔[21]

متعلقہ مضمون

حوالہ جات

  1. شیخ‌الرئیس، و خلیفه شوشتری، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیه ابن‌عرندس با قرآن کریم»، ص135.
  2. شیخ‌الرئیس، و خلیفه شوشتری، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیه ابن‌عرندس با قرآن کریم»، ص136.
  3. شیخ‌الرئیس، و خلیفه شوشتری، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیه ابن‌عرندس با قرآن کریم»، ص142.
  4. السماوی، الطلیعه من شعراء الشیعه، 1422ھ، ج1، ص420؛ علامه امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص24.
  5. علوی، «قصيدة إبن العرندس»، وبسایت مقالات، دروس و آثار سیدمحمد علوی.
  6. غروی، المختار من کلمات الامام المهدی علیه‌السلام، 1414ھ، ج1، ص421-422.
  7. قزوینی، کتاب المزار، 1426ھ، ص231.
  8. جمعی از نویسندگان، موسوعه طبقات الفقهاء، 1376ہجری شمسی، ج9، ص112-113.
  9. علامه امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص24-25؛ الیعقوبی، البابلیات، 1370ھ، ج1، ص144.
  10. شیخ‌الرئیس، و خلیفه شوشتری، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیه ابن‌عرندس با قرآن کریم»، ص136.
  11. السماوی، الطلیعه من شعراء الشیعه، 1422ھ، ج1، ص420؛ الیعقوبی، البابلیات، 1370ھ، ج1، ص144.
  12. الیعقوبی، البابلیات، 1370ھ، ج1، ص147.
  13. علامه امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص24-25؛ امین، اعیان الشیعه، 1368ہجری شمسی، ج7، ص375.
  14. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص26-27.
  15. علامہ امینی، الغدیر، ۱۴۱۶ق، ج۷، ص۲۸.
  16. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص29.
  17. علامہ امینی، الغدیر، 1416ھ، ج7، ص29-31.
  18. الطریحی النجفی، الفخری (المنتخب للطریحی)، 1428ھ، ج2، ص323-327.
  19. شیخ‌الرئیس، و خلیفه شوشتری، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیه ابن‌عرندس با قرآن کریم»، ص137.
  20. «دمعه العینین فی رثاء الحسین (ع): اشک‌ریزان در مصائب سید شهیدان ترجمه قصیده رائیه ابن‌عرندس حلی»، خانه کتاب و ادبیات ایران.
  21. «قصیده وصال»، وبگاه کتابخانه مؤسسه امام خمینی.

مآخذ

  • السماوی، محمد، الطلیعہ من شعراء الشیعہ، بیروت، دار المورخ العربی، چاپ اول، ھ.
  • الطریحی النجفی، فخرالدین، الفخری (المنتخب للطریحی)، بیروت، مؤسسہ التاریخ العربی، چاپ اول، 1428ھ.
  • الیعقوبی، محمدعلی، البابلیات، نجف، مطبعہ الزہراء، 1370ھ.
  • امین، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دار التعارف للمطبوعات، 1368ہجری شمسی.
  • جمعی از نویسندگان، موسوعہ طبقات الفقہاء، قم، مؤسسہ امام صادق، 1376ہجری شمسی.
  • «دمعہ العینین فی رثاء الحسین (ع): اشک‌ریزان در مصائب سید شہیدان ترجمہ قصیدہ رائیہ ابن‌عرندس حلی»، خانہ کتاب و ادبیات ایران، تاریخ بازدید: 11 تیر 1402ہجری شمسی.
  • «شعر زیبای ابن‌عرندس حلی در مدح اہل بیت(ع)»، وبگاہ اکمال، تاریخ بازدید: 12 تیر 1402ہجری شمسی.
  • شیخ‌الرئیس، علی، و خلیفہ شوشتری، محمدابراہیم، «بینامتنیت واژگانی و شخصیتی رائیہ ابن‌عرندس با قرآن کریم»، مجلہ ادب عربی، شمارہ2، تیر 1399ہجری شمسی.
  • علامہ امینی، عبدالحسین، الغدیر، قم، مرکز الغدیر للدراسات الاسلامیہ، چاپ اول، 1416ھ.
  • علوی، سیدمحمد، «قصيدة إبن العرندس»، وبسایت مقالات، دروس و آثار سیدمحمد علوی، تاریخ بازدید: 17 تیر 1402ہجری شمسی.
  • غروی، محمد، المختار من کلمات الامام المہدی علیہ‌السلام، قم، مہر، چاپ اول، 1414ھ.
  • قزوینی، سید مہدی، کتاب المزار، تحقیق جودت قزوینی، بیروت، دار الرافدین، چاپ اول، 1426ھ.
  • «قصیدہ وصال»، وبگاہ کتابخانہ مؤسسہ امام خمینی، تاریخ بازدید: 12 تیر 1402ہجری شمسی.