امام رضا کا عمران صابی سے مناظره

ویکی شیعہ سے
امام رضا کا عمران صابی سے مناظره
عمومی معلومات
فریق اولامام علی رضا علیہ السلام
فریق دومعمران صابی
موضوعتوحید و صفات خدا
اصلی راویحسن بن محمد نوفلی
مکانمرو، مأمون عباسی کا دربار
شیعہ منابعتوحیدعیون اخبار الرضا
نتیجہعِمران صابی نے امام رضاؑ کے جوابات سے قانع ہوکر کلمہ شہادتین پڑھا اور مسلمان ہوگیا۔
مشہور مناظرے
عیسائی اسقف سے امام محمد باقر کا مناظرہحسن بصری کے ساتھ امام باقر کا مناظرہابوقرۃ کے ساتھ امام رضا کا مناظرہامام رضا کا جاثلیق سے مناظرہامام رضا کا رأس الجالوت سے مناظرہسلیمان مروزی سے امام رضا کا مناظرہامام رضا کا عمران صابی سے مناظرهتوحید پر امام رضا کا مناظرہ


امام رضا کا عمران صابی سے مناظرہ، وجود خدا اور اس کے صفات پر امام رضاؑ کا ایک کلامی مناظرہ ہے۔ یہ مناظرہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جس کے مطابق امام رضاؑ اکثر و بیشتر عباسی سلسلہ کے خلیفہ مامون عباسی کی خواہش کے مطابق عیسائیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کے عظیم علماء سے مناظرہ کیا کرتے تھے۔ اس مناظرے کے دوران عمران صابی نے خداوند عالم کے متعلق بہت سے سوال کئے اور امام رضاؑ نے ان سب کے جوابات اسے عنایت فرمائے۔

اس حدیث کے راوی کے بقول، عمران صابی امام رضاؑ کے جوابات سے قانع ہوا اور اپنی زبان پر شہادتین جاری کرکے مسلمان ہوگیا۔ یہ حدیث متعدد کتابوں جیسا کہ شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) کی کتاب توحید صدوق اور عیون اخبار الرضا وغیرہ میں نقل ہوئی ہے۔

مناظرے کا پس منظر

امام رضاؑ کے مناظرات کے متعلق ایک حدیث میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں مختلف ادیان کے بڑے بڑے علماء سے مناظرے کئے۔[1] اس حدیث کے راوی حسن بن محمد نوفلی، اس مناظرے کے پس منظر کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں: جس وقت امام رضاؑ مدینہ منورہ سے عباسی خلیفہ مامون عباسی کے پاس مرو تشریف لائے تو اس نے مختلف ادیان سے تعلق رکھنے والے متعدد علماء اور متکلمین جیسا کہ جاثَلیق (عیسائیوں کا بڑا عالم)، رأس‌ الجالوت (یہودیوں کا بڑا عالم)، صابئیوں کے بڑے علماء اور اسی طرح ہِربِذ (زرتشتیوں کا بڑا عالم) کو اکھٹا کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ امام رضاؑ کے ساتھ مناظرہ کریں۔[2]

پھر اس نے امام رضاؑ سے کہا کہ اگر آپ کو پسند ہو تو آپ مناظرے میں شرکت فرمائیں۔ امام رضاؑ نے اس کی اس درخواست کو قبول فرمایا اور اگلے دن مامون کے پاس تشریف لے گئے۔[3] امامؑ نے اس مناظرے میں جاثَلیق، رأس‌ الجالوت و ہِربِذ سے گفتگو کرنے اور انہیں مغلوب کرنے کے بعد۔[4] مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا اگر کوئی اسلام کا مخالف ہے تو وہ اپنے سوالات دریافت کر سکتا ہے۔ اسی وقت عمران صابی کہتا ہے کہ میں نے خداوند عالم کی وحدانیت کے بارے میں کوفہ، بصرہ، شام اور جزیرہ کے بہت سے علماء و متکلمین سے گفتگو کی لیکن کوئی بھی اس موضوع پر مجھے قانع کنندہ جواب نہیں دے سکا۔ چنانچہ اس نے امام رضاؑ سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کی درخواست کی جسے امامؑ نے قبول فرما لیا۔[5]

عمران صابی کے سوالات

اس مناظرے میں عمران صابی نے امام رضاؑ سے خداوند عالم کے متعلق بہت سے سوالات دریافت کئے کہ ان میں سے بعض کو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے:

  • ہستی کا سب سے پہلا موجود کون ہے؟[6]
  • کیا اس موجود کو اپنے بارے میں سب کچھ معلوم ہے؟ اور کیا اسے اپنی ذات کا علم ہے؟[7]
  • خدا کیسے خلق کرتا ہے اور خلق کرنے کے معنی کیا ہیں اور خلق کی کتنی اقسام ہیں؟[8]
  • کیا مخلوق کو خلق کرنے سے خدا میں کوئی تغیر و تبدیلی رونما ہوتی ہے؟[9]
  • ہم کس چیز کے ذریعہ، خدا کے وجود تک پہنچتے ہیں؟[10]
  • اس کی حقیقت کیا ہے؟ [11]
  • کیا خدا، مخلوقات کے اندر ہے یا مخلوق اس کے اندر ہے؟[12]
  • خداوند عالم کی وحدانیت، کیا اس ذات کی معرفت سے سمجھ میں آتی ہے یا اس کے صفات کی معرفت سے؟[13]
  • خدا کہاں رہتا ہے؟ کیا کوئی چیز اس کا احاطہ کئے ہوئے ہے؟ اور کیا وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نقل مکانی کرتا ہے؟[14]

مناظرے کا نتیجہ

اس مناظرے کے راوی، حسن بن محمد نوفلى کے بقول، جب امام رضاؑ نے عمران صابی کے تمام سوالات کے جوابات دے دیئے تو وہ قانع ہوگیا اور اس نے کہا: بے شک خدا ویسا ہی ہے جیسا امام رضاؑ نے بتلایا ہے۔ پھر اس کے بعد وہ زبان پرشہادتین جاری کرتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد راوی کہتا ہے کہ مناظرہ ختم ہونے کے بعد امام رضاؑ نے عمران کو شام کے کھانے کے واسطے اپنے بیت الشرف پر مدعو کیا اور کھانے کے بعد ایک قیمتی لباس، ایک سواری اور دس ہزار درہم اسے تحفہ میں دئیے۔[15]

اس روایت کے مطابق، اس مناظرے کے بعد کچھ عرصہ تک، بہت سے علماء و متکلمین عمران صابی کے پاس جاتے اور اس سے بحث و گفتگو کیا کرتے تھے اور وہ ان سب کو مغلوب کر دیتا تھا۔ مامون عباسی نے خوش ہوکر اسے دس ہزار درہم سے نوازا اور امام رضاؑ نے اسے شہر بلخ سے صدقات و زکات اکھٹا کرنے کا ذمہ دار مقرر فرمایا۔[16]

حدیث کے مآخذ

اس مناظرے کے متن کو سب سے پہلے، شیخ صدوق (متوفی 381 ھ) نے اپنی کتاب توحید۔[17] اور عیون اخبار الرضا۔[18] میں نقل فرمایا ہے۔ احمد بن علی طبرسی (چھٹی صدی ہجری کے عالم) نے اس روایت کے خلاصہ کو اپنی کتاب احتجاج میں نقل کیا ہے۔ [19] علامہ مجلسی نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب بحارالانوار میں شیخ صدوق کی دونوں مذکورہ کتابوں کے حوالہ سے نقل فرمایا ہے۔[20]

حدیث کی سند

علمائے رجال کے درمیان اس حدیث کی راویوں کے بارے میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ علماء کی ایک جماعت انھیں ثقہ جانتی ہے جبکہ دوسری جماعت نے انھیں غیر ثقہ شمار کیا ہے۔[21] نیز یہ مانتے ہیں کہ اس حدیث کی سند مُرسَل ہے، یعنی اس حدیث کے سلسلہ سند میں واقع ہونے والے کچھ راویوں کے اسماء ذکر نہیں ہوئے ہیں لہذا سند کے اعتبار سے اس حدیث کو ضعیف جانتے ہیں۔[22] اس کے علاوہ کچھ علماء کا یہ ماننا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہونے کے باوجود مقبول حدیث ہے یعنی صعیف السند ہونے کے باوجود اس کے مضمون پر عمل ہوتا آیا ہے چونکہ شیخ صدوق جیسے معتبر و جید عالم نے اس حدیث کو روایت کی ہے اور شیخ صرف انھیں روایات کو نقل کرنے کے پابند تھے کہ جن کے بارے میں انھیں یہ یقین ہوتا تھا کہ یہ معصوم سے صادر ہوئی ہیں۔[23]

حدیث کا متن اور ترجمہ

متن ترجمہ:
فَقَالَ الرِّضَا ع يَا قَوْمِ إِنْ كَانَ فِيكُمْ أَحَدٌ يُخَالِفُ الْإِسْلَامَ وَ أَرَادَ أَنْ يَسْأَلَ فَلْيَسْأَلْ غَيْرَ مُحْتَشِمٍ فَقَامَ إِلَيْهِ عِمْرَانُ الصَّابِي وَ كَانَ وَاحِداً مِنَ الْمُتَكَلِّمِينَ فَقَالَ يَا عَالِمَ النَّاسِ لَوْ لَا أَنَّكَ دَعَوْتَ إِلَى مَسْأَلَتِكَ لَمْ أُقْدِمْ عَلَيْكَ بِالْمَسَائِلِ فَلَقَدْ دَخَلْتُ بِالْكُوفَةِ وَ الْبَصْرَةِ وَ الشَّامِ وَ الْجَزِيرَةِ وَ لَقِيتُ الْمُتَكَلِّمِينَ فَلَمْ أَقَعْ عَلَى أَحَدٍ يُثْبِتُ لِي وَاحِداً لَيْسَ غَيْرَهُ قَائِماً بِوَحْدَانِيَّتِهِ أَ فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَسْأَلَكَ قَالَ الرِّضَا ع إِنْ كَانَ فِي الْجَمَاعَةِ عِمْرَانُ الصَّابِي فَأَنْتَ هُوَ قَالَ أَنَا هُوَ قَالَ سَلْ يَا عِمْرَانُ وَ عَلَيْكَ بِالنَّصَفَةِ وَ إِيَّاكَ وَ الْخَطَلَ‏ وَ الْجَوْرَ فَقَالَ وَ اللَّهِ يَا سَيِّدِي مَا أُرِيدُ إِلَّا أَنْ تُثْبِتَ لِي شَيْئاً أَتَعَلَّقُ بِهِ‏ فَلَا أَجُوزُهُ قَالَ سَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ فَازْدَحَمَ النَّاسُ وَ انْضَمَّ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ

فَقَالَ عِمْرَانُ الصَّابِي أَخْبِرْنِي عَنِ الْكَائِنِ الْأَوَّلِ وَ عَمَّا خَلَقَ فَقَالَ لَهُ سَأَلْتَ‏ فَافْهَمْ أَمَّا الْوَاحِدُ فَلَمْ يَزَلْ وَاحِداً كَائِناً لَا شَيْ‏ءَ مَعَهُ بِلَا حُدُودٍ وَ لَا أَعْرَاضٍ وَ لَا يَزَالُ كَذَلِكَ ثُمَّ خَلَقَ خَلْقاً مُبْتَدِعاً مُخْتَلِفاً بِأَعْرَاضٍ وَ حُدُودٍ مُخْتَلِفَةٍ لَا فِي شَيْ‏ءٍ أَقَامَهُ وَ لَا فِي شَيْ‏ءٍ حَدَّهُ وَ لَا عَلَى شَيْ‏ءٍ حَذَاهُ‏ وَ مَثَّلَهُ لَهُ فَجَعَلَ الْخَلْقَ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ صَفْوَةً وَ غَيْرَ صَفْوَةٍ وَ اخْتِلَافاً وَ ائْتِلَافاً وَ أَلْوَاناً وَ ذَوْقاً وَ طَعْماً لَا لِحَاجَةٍ كَانَتْ مِنْهُ إِلَى ذَلِكَ وَ لَا لِفَضْلِ مَنْزِلَةٍ لَمْ يَبْلُغْهَا إِلَّا بِهِ وَ لَا أرى [رَأَى‏] لِنَفْسِهِ فِيمَا خَلَقَ زِيَادَةً وَ لَا نُقْصَاناً تَعْقِلُ هَذَا يَا عِمْرَانُ

قَالَ نَعَمْ وَ اللَّهِ يَا سَيِّدِي قَالَ وَ اعْلَمْ يَا عِمْرَانُ أَنَّهُ لَوْ كَانَ خَلَقَ مَا خَلَقَ لِحَاجَةٍ لَمْ يَخْلُقْ إِلَّا مَنْ يَسْتَعِينُ بِهِ عَلَى حَاجَتِهِ وَ لَكَانَ يَنْبَغِي أَنْ يَخْلُقَ أَضْعَافَ مَا خَلَقَ لِأَنَّ الْأَعْوَانَ كُلَّمَا كَثُرُوا كَانَ صَاحِبُهُمْ أَقْوَى وَ الْحَاجَةُ يَا عِمْرَانُ لَا يَسَعُهَا لِأَنَّهُ كَانَ لَمْ يُحْدِثْ مِنَ الْخَلْقِ شَيْئاً إِلَّا حَدَثَتْ فِيهِ حَاجَةٌ أُخْرَى وَ لِذَلِكَ أَقُولُ لَمْ يَخْلُقِ الْخَلْقَ لِحَاجَةٍ وَ لَكِنْ نَقَلَ‏ بِالْخَلْقِ الْحَوَائِجَ بَعْضَهُمْ إِلَى بَعْضٍ وَ فَضَّلَ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ بِلَا حَاجَةٍ مِنْهُ إِلَى مَنْ فَضَّلَ وَ لَا نَقِمَةٍ مِنْهُ عَلَى مَنْ أَذَلَ‏ فَلِهَذَا خَلَقَ‏

قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي هَلْ كَانَ الْكَائِنُ مَعْلُوماً فِي نَفْسِهِ عِنْدَ نَفْسِهِ قَالَ‏ الرِّضَا ع إِنَّمَا يَكُونُ الْمَعْلَمَةُ بِالشَّيْ‏ءِ لِنَفْيِ خِلَافِهِ وَ لِيَكُونَ الشَّيْ‏ءُ نَفْسُهُ بِمَا نُفِيَ عَنْهُ مَوْجُوداً وَ لَمْ يَكُنْ هُنَاكَ شَيْ‏ءٌ يُخَالِفُهُ فَتَدْعُوهُ الْحَاجَةُ إِلَى نَفْيِ ذَلِكَ الشَّيْ‏ءِ عَنْ نَفْسِهِ بِتَحْدِيدِ مَا عَلِمَ مِنْهَا أَ فَهِمْتَ يَا عِمْرَانُ قَالَ نَعَمْ وَ اللَّهِ يَا سَيِّدِي فَأَخْبِرْنِي بِأَيِّ شَيْ‏ءٍ عَلِمَ مَا عَلِمَ أَ بِضَمِيرٍ أَمْ بِغَيْرِ ذَلِكَ‏ قَالَ الرِّضَا ع أَ رَأَيْتَ إِذَا عَلِمَ بِضَمِيرٍ هَلْ يَجِدُ بُدّاً مِنْ أَنْ يَجْعَلَ لِذَلِكَ الضَّمِيرِ حَدّاً تَنْتَهِي إِلَيْهِ الْمَعْرِفَةُ

قَالَ عِمْرَانُ لَا بُدَّ مِنْ ذَلِكَ قَالَ الرِّضَا ع فَمَا ذَلِكَ الضَّمِيرُ فَانْقَطَعَ وَ لَمْ يُحِرْ جَوَاباً قَالَ الرِّضَا ع لَا بَأْسَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنِ الضَّمِيرِ نَفْسِهِ تَعْرِفُهُ بِضَمِيرٍ آخَرَ فَإِنْ قُلْتَ نَعَمْ أَفْسَدْتَ عَلَيْكَ قَوْلَكَ‏ وَ دَعْوَاكَ يَا عِمْرَانُ أَ لَيْسَ يَنْبَغِي أَنْ تَعْلَمَ أَنَّ الْوَاحِدَ لَيْسَ يُوصَفُ بِضَمِيرٍ وَ لَيْسَ يُقَالُ لَهُ أَكْثَرُ مِنْ فِعْلٍ وَ عَمَلٍ وَ صُنْعٍ وَ لَيْسَ يُتَوَهَّمُ مِنْهُ مَذَاهِبُ وَ تَجْزِيَةٌ كَمَذَاهِبِ الْمَخْلُوقِينَ وَ تَجْزِيَتِهِمْ فَاعْقِلْ ذَلِكَ وَ ابْنِ عَلَيْهِ مَا عَلِمْتَ صَوَاباً

قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنْ حُدُودِ خَلْقِهِ كَيْفَ هِيَ وَ مَا مَعَانِيهَا وَ عَلَى كَمْ نَوْعٍ يَكُونُ قَالَ قَدْ سَأَلْتَ فَاعْلَمْ‏ أَنَّ حُدُودَ خَلْقِهِ عَلَى سِتَّةِ أَنْوَاعٍ‏ مَلْمُوسٍ وَ مَوْزُونٍ وَ مَنْظُورٍ إِلَيْهِ وَ مَا لَا ذَوْقَ لَهُ‏ وَ هُوَ الرُّوحُ وَ مِنْهَا مَنْظُورٌ إِلَيْهِ وَ لَيْسَ لَهُ وَزْنٌ وَ لَا لَمْسٌ وَ لَا حِسُّ وَ لَا لَوْنٌ وَ لَا ذَوْقٌ وَ التَّقْدِيرُ وَ الْأَعْرَاضُ وَ الصُّوَرُ وَ الطُّولُ وَ الْعَرْضُ وَ مِنْهَا الْعَمَلُ وَ الْحَرَكَاتُ الَّتِي تَصْنَعُ الْأَشْيَاءَ وَ تَعْمَلُهَا وَ تُغَيِّرُهَا مِنْ حَالٍ إِلَى حَالٍ وَ تَزِيدُهَا وَ تَنْقُصُهَا فَأَمَّا الْأَعْمَالُ وَ الْحَرَكَاتُ فَإِنَّهَا تَنْطَلِقُ لِأَنَّهُ لَا وَقْتَ لَهَا أَكْثَرَ مِنْ قَدْرِ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الشَّيْ‏ءِ انْطَلَقَ بِالْحَرَكَةِ وَ بَقِيَ الْأَثَرُ وَ يَجْرِي مَجْرَى الْكَلَامِ الَّذِي يَذْهَبُ وَ يَبْقَى أَثَرُهُ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنِ الْخَالِقِ إِذَا كَانَ وَاحِداً لَا شَيْ‏ءَ غَيْرُهُ وَ لَا شَيْ‏ءَ مَعَهُ أَ لَيْسَ قَدْ تَغَيَّرَ بِخَلْقِهِ الْخَلْقَ قَالَ لَهُ الرِّضَا ع قَدِيمٌ لَمْ يَتَغَيَّرْ عَزَّ وَ جَلَّ بِخَلْقِهِ الْخَلْقَ وَ لَكِنَّ الْخَلْقَ يَتَغَيَّرُ بِتَغَيُّرِهِ‏

قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي فَبِأَيِّ شَيْ‏ءٍ عَرَفْنَاهُ قَالَ بِغَيْرِهِ قَالَ فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ غَيْرُهُ قَالَ الرِّضَا ع مَشِيَّتُهُ وَ اسْمُهُ وَ صِفَتُهُ وَ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَ كُلُّ ذَلِكَ مُحْدَثٌ مَخْلُوقٌ مُدَبَّرٌ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي فَأَيُّ شَيْ‏ءٍ هُوَ قَالَ هُوَ نُورٌ بِمَعْنَى أَنَّهُ هَادٍ خَلْقَهُ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ وَ أَهْلِ الْأَرْضِ وَ لَيْسَ لَكَ عَلَى أَكْثَرَ مِنْ تَوْحِيدِي إِيَّاهُ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي أَ لَيْسَ قَدْ كَانَ سَاكِتاً قَبْلَ الْخَلْقِ لَا يَنْطِقُ ثُمَّ نَطَقَ قَالَ الرِّضَا ع لَا يَكُونُ السُّكُوتُ إِلَّا عَنْ نُطْقٍ قَبْلَهُ وَ الْمَثَلُ فِي ذَلِكَ أَنَّهُ لَا يُقَالُ لِلسِّرَاجِ هُوَ سَاكِتٌ لَا يَنْطِقُ‏ وَ لَا يُقَالُ إنَّ السِّرَاجَ لَيُضِي‏ءُ فِيمَا يُرِيدُ أَنْ يَفْعَلَ بِنَا لِأَنَّ الضَّوْءَ مِنَ السِّرَاجِ لَيْسَ بِفِعْلٍ مِنْهُ وَ لَا كَوْنٍ وَ إِنَّمَا هُوَ لَيْسَ شَيْ‏ءٌ غَيْرَهُ فَلَمَّا اسْتَضَاءَ لَنَا قُلْنَا قَدْ أَضَاءَ لَنَا حَتَّى اسْتَضَأْنَا بِهِ فَبِهَذَا تَسْتَبْصِرُ أَمْرَكَ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي فَإِنَّ الَّذِي كَانَ عِنْدِي أَنَّ الْكَائِنَ قَدْ تَغَيَّرَ فِي فِعْلِهِ عَنْ حَالِهِ بِخَلْقِهِ الْخَلْقَ قَالَ الرِّضَا ع أَحَلْتَ‏ يَا عِمْرَانُ فِي قَوْلِكَ إِنَّ الْكَائِنَ يَتَغَيَّرُ فِي وَجْهٍ مِنَ الْوُجُوهِ حَتَّى يُصِيبَ الذَّاتَ مِنْهُ مَا يُغَيِّرُهُ يَا عِمْرَانُ هَلْ تَجِدُ النَّارَ تُغَيِّرُهَا تَغَيُّرَ نَفْسِهَا وَ هَلْ تَجِدُ الْحَرَارَةَ تُحْرِقُ نَفْسَهَا أَوْ هَلْ رَأَيْتَ بَصِيراً قَطُّ رَأَى بَصَرَهُ

قَالَ‏ عِمْرَانُ لَمْ أَرَ هَذَا إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي يَا سَيِّدِي أَ هُوَ فِي الْخَلْقِ أَمِ الْخَلْقُ فِيهِ قَالَ الرِّضَا ع أَجَلُ‏ يَا عِمْرَانُ عَنْ ذَلِكَ لَيْسَ هُوَ فِي الْخَلْقِ وَ لَا الْخَلْقُ فِيهِ تَعَالَى عَنْ ذَلِكَ وَ سَاءَ عِلْمُكَ مَا تَعْرِفُهُ‏ وَ لا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ‏ أَخْبِرْنِي عَنِ الْمِرْآةِ أَنْتَ فِيهَا أَمْ هِيَ فِيكَ فَإِنْ كَانَ لَيْسَ وَاحِدٌ مِنْكُمَا فِي صَاحِبِهِ فَبِأَيِّ شَيْ‏ءٍ اسْتَدْلَلْتَ بِهَا عَلَى نَفْسِكَ يَا عِمْرَانُ قَالَ بِضَوْءٍ بَيْنِي وَ بَيْنَهَا قَالَ الرِّضَا ع هَلْ تَرَى مِنْ ذَلِكَ الضَّوْءِ فِي الْمِرْآةِ أَكْثَرَ مِمَّا تَرَاهُ فِي عَيْنِكَ قَالَ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع فَأَرِنَاهُ فَلَمْ يُحِرْ جَوَاباً قَالَ فَلَا أَرَى النُّورَ إِلَّا وَ قَدْ دَلَّكَ وَ دَلَّ الْمِرْآةَ عَلَى أَنْفُسِكُمَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فِي وَاحِدٍ مِنْكُمَا وَ لِهَذَا أَمْثَالٌ كَثِيرَةٌ غَيْرُ هَذَا لَا يَجِدُ الْجَاهِلُ فِيهَا مَقَالًا وَ لِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلى‏ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى الْمَأْمُونِ فَقَالَ الصَّلَاةُ قَدْ حَضَرَتْ فَقَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي لَا تَقْطَعْ عَلَيَّ مَسْأَلَتِي فَقَدْ رَقَّ قَلْبِي قَالَ الرِّضَا ع نُصَلِّي وَ نَعُودُ فَنَهَضَ وَ نَهَضَ الْمَأْمُونُ فَصَلَّى الرِّضَا ع دَاخِلًا وَ صَلَّى النَّاسُ خَارِجاً خَلْفَ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ثُمَّ خَرَجَا فَعَادَ الرِّضَا ع إِلَى مَجْلِسِهِ وَ دَعَا بِعِمْرَانَ فَقَالَ سَلْ يَا عِمْرَانُ

قَالَ يَا سَيِّدِي أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ هَلْ يُوَحَّدُ بِحَقِيقَةٍ أَوْ يُوَحَّدُ بِوَصْفٍ قَالَ الرِّضَا ع إِنَّ اللَّهَ الْمُبْدِئُ‏ الْوَاحِدُ الْكَائِنُ الْأَوَّلُ لَمْ يَزَلْ وَاحِداً لَا شَيْ‏ءَ مَعَهُ فَرْداً لَا ثَانِيَ مَعَهُ لَا مَعْلُوماً وَ لَا مَجْهُولًا وَ لَا مُحْكَماً وَ لَا مُتَشَابِهاً وَ لَا مَذْكُوراً وَ لَا مَنْسِيّاً وَ لَا شَيْئاً يَقَعُ عَلَيْهِ اسْمُ شَيْ‏ءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ غَيْرِهِ وَ لَا مِنْ وَقْتٍ كَانَ وَ لَا إِلَى وَقْتٍ يَكُونُ وَ لَا بِشَيْ‏ءٍ قَامَ وَ لَا إِلَى شَيْ‏ءٍ يَقُومُ وَ لَا إِلَى شَيْ‏ءٍ اسْتَنَدَ وَ لَا فِي شَيْ‏ءٍ اسْتَكَنَّ وَ ذَلِكَ كُلُّهُ قَبْلَ الْخَلْقِ‏ إِذْ لَا شَيْ‏ءَ غَيْرُهُ وَ مَا أُوقِعَتْ‏ عَلَيْهِ مِنَ الْكُلِّ فَهِيَ صِفَاتٌ مُحْدَثَةٌ وَ تَرْجَمَةٌ يَفْهَمُ بِهَا مَنْ فَهِمَ وَ اعْلَمْ أَنَّ الْإِبْدَاعَ وَ الْمَشِيَّةَ وَ الْإِرَادَةَ مَعْنَاهَا وَاحِدٌ وَ أَسْمَاؤُهَا ثَلَاثَةٌ وَ كَانَ أَوَّلُ إِبْدَاعِهِ وَ إِرَادَتِهِ وَ مَشِيَّتِهِ الْحُرُوفَ الَّتِي جَعَلَهَا أَصْلًا لِكُلِّ شَيْ‏ءٍ وَ دَلِيلًا عَلَى كُلِ‏ مُدْرَكٍ وَ فَاصِلًا لِكُلِّ مُشْكِلٍ‏ وَ بِتِلْكَ الْحُرُوفِ تَفْرِيقُ‏ كُلِّ شَيْ‏ءٍ مِنِ اسْمِ حَقٍّ وَ بَاطِلٍ أَوْ فِعْلٍ‏ أَوْ مَفْعُولٍ أَوْ مَعْنًى أَوْ غَيْرِ مَعْنًى وَ عَلَيْهَا اجْتَمَعَتِ الْأُمُورُ كُلُّهَا وَ لَمْ يَجْعَلْ لِلْحُرُوفِ فِي إِبْدَاعِهِ لَهَا مَعْنًى غَيْرَ أَنْفُسِهَا تَتَنَاهَى وَ لَا وُجُودَ لَهَا لِأَنَّهَا مُبْدَعَةٌ بِالْإِبْدَاعِ وَ النُّورُ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ أَوَّلُ‏ فِعْلِ اللَّهِ الَّذِي هُوَ نُورُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ‏ وَ الْحُرُوفُ هِيَ الْمَفْعُولُ بِذَلِكَ الْفِعْلِ وَ هِيَ الْحُرُوفُ الَّتِي عَلَيْهَا مَدَارُ الْكَلَامِ وَ الْعِبَادَاتُ كُلُّهَا مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ عليها

[عَلَّمَهَا] خَلْقَهُ وَ هِيَ ثَلَاثَةٌ وَ ثَلَاثُونَ حَرْفاً فَمِنْهَا ثَمَانِيَةٌ وَ عِشْرُونَ حَرْفاً تَدُلُّ عَلَى لُغَاتِ الْعَرَبِيَّةِ وَ مِنَ الثَّمَانِيَةِ وَ الْعِشْرِينَ اثْنَانِ وَ عِشْرُونَ حَرْفاً تَدُلُّ عَلَى لُغَاتِ السُّرْيَانِيَّةِ وَ الْعِبْرَانِيَّةِ وَ مِنْهَا خَمْسَةُ أَحْرُفٍ مُتَحَرِّفَةً فِي سَائِرِ اللُّغَاتِ مِنَ الْعَجَمِ وَ الْأَقَالِيمِ وَ اللُّغَاتِ كُلِّهَا وَ هِيَ خَمْسَةُ أَحْرُفٍ تَحَرَّفَتْ مِنَ الثَّمَانِيَةِ وَ الْعِشْرِينَ حَرْفاً مِنَ اللُّغَاتِ فَصَارَتِ الْحُرُوفُ ثَلَاثَةً وَ ثَلَاثِينَ حَرْفاً فَأَمَّا الْخَمْسَةُ الْمُخْتَلِفَةُ فيتجحخ‏ [فَبِحُجَجٍ‏] لَا يَجُوزُ ذِكْرُهَا أَكْثَرَ مِمَّا ذَكَرْنَاهُ ثُمَّ جَعَلَ الْحُرُوفَ بَعْدَ إِحْصَائِهَا وَ إِحْكَامِ عِدَّتِهَا فِعْلًا مِنْهُ كَقَوْلِهِ عَزَّ وَ جَلَ‏ كُنْ فَيَكُونُ‏ وَ كُنْ مِنْهُ صُنْعٌ‏ وَ مَا يَكُونُ‏ بِهِ

الْمَصْنُوعُ فَالْخَلْقُ الْأَوَّلُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ الْإِبْدَاعُ لَا وَزْنَ لَهُ وَ لَا حَرَكَةَ وَ لَا سَمْعَ وَ لَا لَوْنَ وَ لَا حِسَّ وَ الْخَلْقُ الثَّانِي الْحُرُوفُ لَا وَزْنَ لَهَا وَ لَا لَوْنَ وَ هِيَ مَسْمُوعَةٌ مَوْصُوفَةٌ غَيْرُ مَنْظُورٍ إِلَيْهَا وَ الْخَلْقُ الثَّالِثُ مَا كَانَ مِنَ الْأَنْوَاعِ كُلِّهَا مَحْسُوساً مَلْمُوساً ذَا ذَوْقٍ مَنْظُوراً إِلَيْهِ وَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى سَابِقٌ لِلْإِبْدَاعِ‏ لِأَنَّهُ لَيْسَ قَبْلَهُ عَزَّ وَ جَلَّ شَيْ‏ءٌ وَ لَا كَانَ مَعَهُ شَيْ‏ءٌ وَ الْإِبْدَاعُ سَابِقٌ لِلْحُرُوفِ وَ الْحُرُوفُ لَا تَدُلُّ عَلَى غَيْرِ نَفْسِهَا قَالَ الْمَأْمُونُ وَ كَيْفَ لَا تَدُلُّ عَلَى غَيْرِ أَنْفُسِهَا قَالَ الرِّضَا ع لِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى لَا يَجْمَعُ مِنْهَا شَيْئاً لِغَيْرِ مَعْنًى‏ أَبَداً فَإِذَا أَلَّفَ مِنْهَا أَحْرُفاً أَرْبَعَةً أَوْ خَمْسَةً أَوْ سِتَّةً أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَقَلَّ لَمْ يُؤَلِّفْهَا بِغَيْرِ مَعْنًى وَ لَمْ يَكُنْ إِلَّا لِمَعْنًى مُحْدَثٍ لَمْ يَكُنْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْ‏ءٌ

قَالَ عِمْرَانُ فَكَيْفَ لَنَا بِمَعْرِفَةِ ذَلِكَ قَالَ الرِّضَا ع أَمَّا الْمَعْرِفَةُ فَوَجْهُ ذَلِكَ وَ بَيَانُهُ‏ أَنَّكَ تَذْكُرُ الْحُرُوفَ إِذَا لَمْ تُرِدْ بِهَا غَيْرَ نَفْسِهَا ذَكَرْتَهَا فَرْداً فَقُلْتَ ا ب ت ث ج ح خ حَتَّى تَأْتِيَ عَلَى آخِرِهَا فَلَمْ تَجِدْ لَهَا مَعْنًى غَيْرَ أَنْفُسِهَا وَ إِذَا أَلَّفْتَهَا وَ جَمَعْتَ مِنْهَا أَحْرُفاً وَ جَعَلْتَهَا اسْماً وَ صِفَةً لِمَعْنَى مَا طَلَبْتَ وَ وَجْهِ مَا عَنَيْتَ‏ كَانَتْ دَلِيلَةً عَلَى مَعَانِيهَا دَاعِيَةً إِلَى الْمَوْصُوفِ بِهَا أَ فَهِمْتَهُ قَالَ نَعَمْ قَالَ الرِّضَا ع وَ اعْلَمْ أَنَّهُ لَا يَكُونُ صِفَةٌ لِغَيْرِ مَوْصُوفٍ وَ لَا اسْمٌ لِغَيْرِ مَعْنًى وَ لَا حَدٌّ لِغَيْرِ مَحْدُودٍ وَ الصِّفَاتُ وَ الْأَسْمَاءُ كُلُّهَا تَدُلُّ عَلَى الْكَمَالِ وَ الْوُجُودِ وَ لَا تَدُلُّ عَلَى الْإِحَاطَةِ كَمَا تَدُلُّ الْحُدُودُ الَّتِي هِيَ التَّرْبِيعُ وَ التَّثْلِيثُ وَ التَّسْدِيسُ لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ تُدْرَكُ مَعْرِفَتُهُ بِالصِّفَاتِ وَ الْأَسْمَاءِ وَ لَا تُدْرَكُ بِالتَّحْدِيدِ بِالطُّولِ وَ الْعَرْضِ وَ الْقِلَّةِ وَ الْكَثْرَةِ وَ اللَّوْنِ وَ الْوَزْنِ وَ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ وَ لَيْسَ يَحُلُ‏ بِاللَّهِ [جَلَ‏] وَ تَقَدَّسَ شَيْ‏ءٌ مِنْ ذَلِكَ حَتَّى يَعْرِفَهُ خَلْقُهُ بِمَعْرِفَتِهِمْ أَنْفُسَهُمْ بِالضَّرُورَةِ الَّتِي‏ ذَكَرْنَا وَ لَكِنْ يُدَلُّ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ بِصِفَاتِهِ وَ يُدْرَكُ بِأَسْمَائِهِ‏ وَ يُسْتَدَلُّ عَلَيْهِ بِخَلْقِهِ حق [حَتَّى‏] لَا يَحْتَاجَ فِي ذَلِكَ الطَّالِبُ الْمُرْتَادُ إِلَى رُؤْيَةِ عَيْنٍ وَ لَا اسْتِمَاعِ أُذُنٍ وَ لَا لَمْسِ كَفٍّ وَ لَا إِحَاطَةٍ بِقَلْبٍ وَ لَوْ كَانَتْ صِفَاتُهُ جَلَّ ثَنَاؤُهُ لَا تَدُلُّ عَلَيْهِ وَ أَسْمَاؤُهُ لَا تَدْعُو إِلَيْهِ وَ الْمَعْلَمَةُ مِنَ الْخَلْقِ لَا تُدْرِكُهُ لِمَعْنَاهُ كَانَتِ‏ الْعِبَادَةُ مِنَ الْخَلْقِ لِأَسْمَائِهِ وَ صِفَاتِهِ دُونَ مَعْنَاهُ فَلَوْ لَا أَنَّ ذَلِكَ كَذَلِكَ لَكَانَ الْمَعْبُودُ الْمُوَحَّدُ غَيْرَ اللَّهِ لِأَنَّ صِفَاتِهِ وَ أَسْمَاءَهُ غَيْرُهُ أَ فَهِمْتَ

قَالَ نَعَمْ يَا سَيِّدِي زِدْنِي قَالَ الرِّضَا ع إِيَّاكَ وَ قَوْلَ الْجُهَّالِ مِنْ أَهْلِ الْعَمَى وَ الضَّلَالِ الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّ اللَّهَ جَلَّ وَ تَقَدَّسَ مَوْجُودٌ فِي الْآخِرَةِ لِلْحِسَابِ فِي الثَّوَابِ وَ الْعِقَابِ وَ لَيْسَ بِمَوْجُودٍ فِي الدُّنْيَا لِلطَّاعَةِ وَ الرَّجَاءِ وَ لَوْ كَانَ فِي الْوُجُودِ لِلَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ نَقْصٌ وَ اهْتِضَامٌ‏ لَمْ يُوجَدْ فِي الْآخِرَةِ أَبَداً وَ لَكِنَّ الْقَوْمَ تَاهُوا وَ عَمُوا وَ صَمُّوا عَنِ الْحَقِّ مِنْ حَيْثُ لَا يَعْلَمُونَ وَ ذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ وَ مَنْ كانَ فِي هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبِيلًا يَعْنِي أَعْمَى عَنِ الْحَقَائِقِ الْمَوْجُودَةِ وَ قَدْ عَلِمَ ذَوُو الْأَلْبَابِ أَنَّ الِاسْتِدْلَالَ عَلَى مَا هُنَاكَ لَا يَكُونُ إِلَّا بِمَا هَاهُنَا وَ مَنْ أَخَذَ عِلْمَ ذَلِكَ بِرَأْيِهِ وَ طَلَبَ وُجُودَهُ وَ إِدْرَاكَهُ عَنْ نَفْسِهِ دُونَ غَيْرِهَا لَمْ يَزْدَدْ مِنْ عِلْمِ ذَلِكَ إِلَّا بُعْداً لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ جَعَلَ عِلْمَ ذَلِكَ خَاصَّةً عِنْدَ قَوْمٍ يَعْقِلُونَ وَ يَعْلَمُونَ وَ يَفْهَمُونَ‏ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي أَ لَا تُخْبِرُنِي عَنِ الْإِبْدَاعِ أَ خَلْقٌ هُوَ أَمْ غَيْرُ خَلْقٍ قَالَ الرِّضَا ع بَلْ خَلْقٌ سَاكِنٌ لَا يُدْرَكُ بِالسُّكُونِ وَ إِنَّمَا صَارَ خَلْقاً لِأَنَّهُ شَيْ‏ءٌ مُحْدَثٌ وَ اللَّهُ تَعَالَى الَّذِي أَحْدَثَهُ فَصَارَ خَلْقاً لَهُ وَ إِنَّمَا هُوَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ خَلْقُهُ لَا ثَالِثَ بَيْنَهُمَا وَ لَا ثَالِثَ غَيْرُهُمَا فَمَا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يَعْدُ أَنْ يَكُونَ خَلْقَهُ وَ قَدْ يَكُونُ الْخَلْقُ سَاكِناً وَ مُتَحَرِّكاً وَ مُخْتَلِفاً وَ مُؤْتَلِفاً وَ مَعْلُوماً وَ مُتَشَابِهاً وَ كُلُّ مَا وَقَعَ عَلَيْهِ حَدٌّ فَهُوَ خَلْقُ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ اعْلَمْ أَنَّ كُلَّ مَا أَوْجَدَتْكَ الْحَوَاسُ‏ فَهُوَ مَعْنًى مُدْرَكٌ لِلْحَوَاسِّ وَ كُلُّ حَاسَّةٍ تَدُلُّ عَلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهَا فِي إِدْرَاكِهَا وَ الْفَهْمُ مِنَ الْقَلْبِ بِجَمِيعِ‏ ذَلِكَ كُلِّهِ وَ اعْلَمْ أَنَّ الْوَاحِدَ الَّذِي هُوَ قَائِمٌ بِغَيْرِ تَقْدِيرٍ وَ لَا تَحْدِيدٍ خَلَقَ خَلْقاً مُقَدَّراً بِتَحْدِيدٍ وَ تَقْدِيرٍ وَ كَانَ الَّذِي خَلَقَ خَلْقَيْنِ اثْنَيْنِ التَّقْدِيرَ وَ الْمُقَدَّرَ وَ لَيْسَ فِي كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا لَوْنٌ وَ لَا وَزْنٌ وَ لَا ذَوْقٌ فَجَعَلَ أَحَدَهُمَا يُدْرَكُ بِالْآخَرِ وَ جَعَلَهُمَا مُدْرَكَيْنِ بِنَفْسِهَا وَ لَمْ يَخْلُقْ شَيْئاً فَرْداً قَائِماً بِنَفْسِهِ دُونَ غَيْرِهِ لِلَّذِي أَرَادَ مِنَ الدَّلَالَةِ عَلَى نَفْسِهِ وَ إِثْبَاتِ وُجُودِهِ فَاللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى فَرْدٌ وَاحِدٌ لَا ثَانِيَ مَعَهُ يُقِيمُهُ وَ لَا يَعْضُدُهُ وَ لَا يَكُنُّهُ وَ الْخَلْقُ يُمْسِكُ بَعْضُهُ بَعْضاً بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى وَ مَشِيَّتِهِ وَ إِنَّمَا اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي هَذَا الْبَابِ حَتَّى تَاهُوا وَ تَحَيَّرُوا وَ طَلَبُوا

الْخَلَاصَ مِنَ الظُّلْمَةِ بِالظُّلْمَةِ فِي وَصْفِهِمُ اللَّهَ تَعَالَى بِصِفَةِ أَنْفُسِهِمْ فَازْدَادُوا مِنَ الْحَقِّ بُعْداً وَ لَوْ وَصَفُوا اللَّهَ عَزَّ وَ جَلَّ بِصِفَاتِهِ وَ وَصَفُوا الله الْمَخْلُوقِينَ بِصِفَاتِهِمْ لَقَالُوا بِالْفَهْمِ وَ الْيَقِينِ وَ لَمَا اخْتَلَفُوا فَلَمَّا طَلَبُوا مِنْ ذَلِكَ مَا تَحَيَّرُوا فِيهِ ارْتَكَبُوا وَ اللَّهُ يَهْدِي مَنْ يَشاءُ إِلى‏ صِراطٍ مُسْتَقِيمٍ‏ قَالَ عِمْرَانُ يَا سَيِّدِي أَشْهَدُ أَنَّهُ كَمَا وَصَفْتَ وَ لَكِنْ بَقِيَتْ لِي مَسْأَلَةٌ قَالَ سَلْ عَمَّا أَرَدْتَ قَالَ أَسْأَلُكَ عَنِ الْحَكِيمِ فِي أَيِّ شَيْ‏ءٍ هُوَ وَ هَلْ يُحِيطُ بِهِ شَيْ‏ءٌ وَ هَلْ يَتَحَوَّلُ مِنْ شَيْ‏ءٍ إِلَى شَيْ‏ءٍ أَوْ بِهِ حَاجَةٌ إِلَى شَيْ‏ءٍ قَالَ الرِّضَا ع أُخْبِرُكَ يَا عِمْرَانُ فَاعْقِلْ مَا سَأَلْتَ عَنْهُ فَإِنَّهُ مِنْ أَغْمَضِ‏ مَا يَرِدُ عَلَى الْخَلْقِ‏ فِي مَسَائِلِهِمْ‏ وَ لَيْسَ يَفْهَمُ‏ الْمُتَفَاوِتُ عَقْلُهُ الْعَازِبُ حِلْمُهُ‏ وَ لَا يَعْجِزُ عَنْ فَهِمِهِ أُولُو الْعَقْلِ الْمُنْصِفُونَ أَمَّا أَوَّلُ ذَلِكَ فَلَوْ كَانَ خَلَقَ مَا خَلَقَ لِحَاجَةٍ مِنْهُ لَجَازَ لِقَائِلٍ أَنْ يَقُولَ يَتَحَوَّلُ إِلَى مَا خَلَقَ لِحَاجَتِهِ إِلَى ذَلِكَ وَ لَكِنَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَمْ يَخْلُقْ شَيْئاً لِحَاجَةٍ وَ لَمْ يَزَلْ ثَابِتاً لَا فِي شَيْ‏ءٍ وَ لَا عَلَى شَيْ‏ءٍ إِلَّا أَنَّ الْخَلْقَ يُمْسِكُ بَعْضُهُ بَعْضاً وَ يَدْخُلُ بَعْضُهُ فِي بَعْضٍ وَ يَخْرُجُ مِنْهُ وَ اللَّهُ جَلَّ وَ تَقَدَّسَ بِقُدْرَتِهِ يُمْسِكُ ذَلِكَ كُلَّهُ وَ لَيْسَ يَدْخُلُ فِي شَيْ‏ءٍ وَ لَا يَخْرُجُ مِنْهُ وَ لَا يَئُودُهُ‏ حِفْظُهُ وَ لَا يَعْجِزُ عَنْ إِمْسَاكِهِ وَ لَا يَعْرِفُ أَحَدٌ مِنَ الْخَلْقِ كَيْفَ ذَلِكَ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَ مَنْ أَطْلَعَهُ عَلَيْهِ مِنْ رُسُلِهِ وَ أَهْلِ سِرِّهِ وَ الْمُسْتَحْفِظِينَ لِأَمْرِهِ وَ خُزَّانِهِ الْقَائِمِينَ بِشَرِيعَتِهِ وَ إِنَّمَا أَمْرُهُ‏ كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ‏ إِذَا شَاءَ شَيْئاً فَإِنَّما يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ‏ بِمَشِيَّتِهِ وَ إِرَادَتِهِ وَ لَيْسَ شَيْ‏ءٌ مِنْ خَلْقِهِ أَقْرَبَ إِلَيْهِ مِنْ شَيْ‏ءٍ وَ لَا شَيْ‏ءٌ أَبْعَدَ مِنْهُ مِنْ شَيْ‏ءٍ أَ فَهِمْتَ يَا عِمْرَانُ قَالَ نَعَمْ يَا سَيِّدِي قَدْ فَهِمْتُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَلَى مَا وَصَفْتَ وَ وَحَّدْتَ‏ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً ص عَبْدُهُ الْمَبْعُوثُ بِالْهُدَى وَ دِينِ الْحَقِّ ثُمَّ خَرَّ سَاجِداً نَحْوَ الْقِبْلَةِ وَ أَسْلَمَ.[24]


امام رضاؑ نے مجمع کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اگر آپ لوگوں کے درمیان کوئی شخص اسلام کا مخالف ہو اور وہ کوئی سوال کرنا چاہتا ہو تو وہ بغیر شرم و جھجک کے سوال دریافت کر سکتا ہے۔ اسی وقت مجمع میں سے عمران صابی اٹھا کہ جو خود ایک متکلم تھا اور کہا: اے عالم! اگر آپ نے خود سوال دریافت کرنے کے لئے نہ کہا ہوتا تو میں کبھی آپ سے سوال نہ کرتا۔ چونکہ میں نے کوفہ، شام اور جزیرۃ العرب کا کئی بار سفر کیا اور میں نے بہت سے متکلمین سے گفتگو کی لیکن کوئی بھی خدا کی وحدانیت کے متعلق میرے سوالات کے جواب نہ دے سکا اور کوئی مجھے قانع نہ کرسکا۔ کیا آپ مجھے کچھ سوالات دریافت کرنے کی اجازت دیتے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا اگر اس مجمع میں کوئی عمران صابی ہے تو یقیناً وہ تم ہی ہو۔ اس نے عرض کیا: ہاں میں خود ہی ہوں۔ حضرت نے فرمایا: جو پوچھنا ہو پوچھو! لیکن انصاف کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑنا، اور ناحق و منحرف باتوں سے پرہیز کرنا۔ عمران نے عرض کیا:

اے میرے آقا! خدا کی قسم! میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے اس چیز کو ثابت کیجئے کہ جس سے میں تمسک کر سکوں اور کسی دوسری چیز کے پیچھے نہ جاؤں۔ حضرت نے فرمایا: جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ سارا مجمع متوجہ ہوا اور ایک دوسرے کے قریب آگیا عمران نے سوال کیا: سب سے پہلا موجود کون ہے اور اس نے سب سے پہلے کسے خلق کیا؟ امامؑ نے فرمایا: تم نے اپنا سوال کرلیا لہذا جواب کو خوب غور سے سنو! ’’واحد‘‘ ہمیشہ واحد تھا، وہ ہمیشہ تھا، اور اس کے ساتھ کوئی دوسرا نہ تھا، نہ اس کی کوئی حد ہے نہ کوئی عرض، اور وہ ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔ پھر اس نے بغیر کسی تجربہ اور سابقہ کے ایک مخلوق کو خلق کیا کہ جس کی حدود و اعراض مختلف تھی اس طرح کہ نہ اسے کسی چیز کے اندر قرار دیا اور نہ ہی اسے کسی چیز میں محدود کیا، اور پھر نہ اس کے مانند و مثل کسی چیز کو ایجاد کیا اور نہ کسی چیز کو اس کے جیسا بنایا اور پھر اس کے بعد اس نے دیگر مخلوقات کو مختلف صورتوں، رنگوں اور شکلوں اور ذائقوں میں تخلیق فرمایا بغیر اس کے کہ اسے ان سب کی کوئی ضرورت ہو یا اسے کسی مقام و مرتبہ تک پہونچنے کے لئے ان کا سہارا لینا پڑے اور اس نے اس خلقت میں نہ کسی زیادتی کو پایا اور نہ کسی کمی کو۔ کیا تمہیں یہ باتیں سمجھ میں آرہی ہے ؟ عمران نے کہا: ہاں خدا کی قسم! میرے آقا میں سمجھ رہا ہوں۔

اس کے بعد حضرت نے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا: جان لو کہ اگر خدا کسی ضرورت و احتیاج کے پیش نظر مخلوقات کو خلق کرتا تو وہ صرف انھیں مخلوقات کو وجود بخشتا کہ جن سے اس کی ضرورت پوری ہوپاتی۔ اس کیفیت میں نیز یہ بھی ضروری تھا کہ وہ خلق شدہ مخلوق سے کئی گنا زیادہ مخلوق کو خلق کرتا چونکہ جتنے بھی اعوان و انصار زیادہ ہوتے ہیں مدد کا خواہش مند اتنا ہی قوی ہوتا ہے اور اگر ایسا ہوتا تو کبھی بھی ان حاجتوں کا سلسلہ نہ رکتا چونکہ وہ جتنی بھی مخلوق کو خلق کرتا اسے دیگر مخلوق کی ضرورت محسوس ہوتی لہذا ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ اس نے تمام مخلوقات کو اپنی ضرورت کی تکمیل کے لئے خلق نہیں فرمایا ہے بلکہ اس نے تو متعدد مخلوقات کو خلق کیا ہے اور ان میں سے بعض کو بعض پر برتری و فضیلت دی ہے بغیر اس کے کہ اسے کسی برتر مخلوق کی ضرورت ہو تاکہ وہ کمزور مخلوق سے انتقام لے سکے اور اس جذبے کے تحت اسے خلق کیا ہو۔

عمران نے سوال کیا: کیا وہ موجود خود اپنے بارے میں علم رکھتا تھا؟ امامؑ نے فرمایا: کیا تم یہ بات قبول کرتے ہو کہ کسی بھی چیز کے بارے میں علم رکھنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اس کے غیر سے جدا و ممتاز کیا جاسکے اور اس کی موجودیت ثابت اور معلوم ہوسکے۔ وہ تو وجود محض تھا ، کوئی دوسرا نہ تھا کہ تمیز و افتراق کی ضرورت پیش آتی۔ وہ تو صرف وجود بسیط اور صرف الوجود تھا کوئی دوسری شئی نہیں تھی کہ جن میں سے ہر ایک کی حد معلوم کرنے کی ضرورت پڑتی۔ اے عمران کیا تم یہ بات سمجھ گئے؟ اس نے عرض کیا: ہاں میرے مولا و آقا! لیکن اب مجھے یہ سمجھائیے کہ وہ جس چیز کو جانتا تھا اسے کس چیز کے ذریعہ جانتا تھا؟ یعنی کس وسیلہ کے ذریعہ اسے علم تھا ؟ کیا وہ ضمیر کے ذریعہ علم رکھتا تھا یا کسی اور چیز کے ذریعہ؟

حضرت نے فرمایا: اگر اس کا علم ’’ضمیر‘‘ کے ذریعہ انجام پایا تو کیا اس ضمیر کے لئے کوئی حد و حدود مقرر کی جا سکتی ہیں کہ جن تک وہ معرفت منتہی ہو؟ اس نے کہا: نہیں ، ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ امامؑ نے فرمایا: وہ ضمیر کیا ہے؟ عمران نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تو پھر آپ نے فرمایا: کوئی بات نہیں ! اب اگر میں تم سے اس ’’ضمیر‘‘ کے متعلق سوال کروں تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ تم اسے دوسرے ’’ضمیر‘‘ سے کیسے جدا کرو گے ؟ اگر تم یہ جواب دوگے کہ ہاں میں پہچانتا ہوں تو تم نے خود اپنے ہی دعوے کو باطل کردیا ۔ اے عمران! کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ تم یہ بات جان لو کہ ’’واحد‘‘ کی صفت ’’ضمیر‘‘ نہیں ہوسکتی؟ اور نہ ہی اس کی طرف ایک سے زیادہ فعل اورعمل کی نسبت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں مخلوقات کی طرح مختلف قسم کی جہات و اجزاء کا وہم و گمان کیا جا سکتا ہے۔ اے عمران! اس مطلب کو اچھی طرح ذہن نشین کرلو اور اسے اپنی تمام معلومات کی بنیاد قرار دو۔

عمران نے پھر سوال کیا: کیا آپ مجھے کیفیت خلقت کے معنی اور اس کی انواع و اقسام کے بارے میں آگاہ فرما سکتے ہیں؟ امامؑ نے فرمایا: تم نے اپنا سوال کرلیا اب جواب پر بہت غور کرو تاکہ صحیح سے سمجھ سکو۔ خلق خدا کی چھ حدود ہیں: کچھ لمس کی جانے والی ، کچھ وزن کی جانے والی اور کچھ آنکھوں سے دکھائی دینے والی، وہ چیز کہ جس میں وزن نہیں ہوتا وہ روح ہے اور ایک دوسری قسم کہ جو قابل رویت ہے لیکن وزن نہیں رکھتی اور نہ ہی لمس اور حس سے معلوم ہوسکتی ہے نہ اس کا کوئی رنگ ہوتا اور نہ ہی اسے چکھ کر دریافت کیا جاسکتا ہے نہ اس کا کوئی اندازہ ہے اور نہ صورت و طول و عرض۔ چنانچہ انھیں مخلوقات میں سے وہ عمل اور حرکات بھی ہیں جن سے اشیاء وجود پاتی ہیں اور انھیں ایک حالت و کیفیت سے دوسری کیفیت کی طرف منتقل کرتی ہیں اور انھیں کم یا زیادہ کرتی ہیں۔ لیکن اعمال و حرکات ختم ہوجاتے ہیں۔ان کے پاس ضرورت سے زیادہ زمانہ نہیں ہوتا ۔ پس جیسے ہی وہ فعل مکمل ہوجاتا ہے وہ نیستی میں بدل جاتا ہے اور اس کا صرف اثر باقی رہ جاتا ہے ۔ اس کی مثال بالکل منھ سے نکلنے والے الفاظ و کلمات کی سی ہے جو ختم ہوجاتے ہیں اور صرف ان کا اثر باقی رہتا ہے۔

عمران نے پھر عرض کیا: آپ یہ بتلائیے اگر خالق ’’واحد‘‘ ہے، اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز بھی اس کے ساتھ نہیں تھی، کیا مخلوقات کی تخلیق سے اس میں تبدیلی پیدا نہیں ہوتی؟ امام رضاؑ نے فرمایا: خدا تھا اور ہے، مخلوق کے اندر تبدیلی ہونے سے وہ تبدیل نہیں ہوتا۔ بلکہ مخلوق خدا کی ایجاد کردہ تغیرات کے ذریعہ تغیر و تبدیل پاتی ہیں۔ اس کے بعد عمران نے سوال کیا: ہم نے خدا کو کس چیز کے ذریعہ پہچانا؟ امامؑ نے جواب دیا: اس کے غیر کے ذریعہ۔ اس نے سوال کیا: وہ غیرہ کیا ہے؟ آپؑ نے فرمایا: اس کی مشیت ۔اس کا اسم و صفت اور ان کے مانند دوسری سب چیزیں یہ سب مخلوق ، حادث اور خدا کی تدبیر سے وجود پانے والی ہیں۔

عمران نے سوال کیا: خدا کی حقیقت کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: وہ نور ہے۔ اس معنی میں کہ وہ اپنی مخلوق (چاہے آسمانی ہو یا زمینی) کو ہدایت کرتا ہے۔ اور مجھ پر اس کی وحدانیت کے بیان و اثبات کے علاوہ کوئی دوسری ذمہ داری نہیں ہے۔ عمران نے پوچھا: کیا ایسا نہیں ہے کہ مخلوقات کی تخلیق سے پہلے وہ خاموش تھا پھر اس کے بعد نطق میں آیا ہو؟ حضرت نے فرمایا: خاموشی اس موقع پر سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں پہلے نطق و کلام ہو مثال کے طور پر چراغ کے لئے خاموشی معنیٰ نہیں رکھتی۔ اور نہ ہی فعل کو چراغ کی طرف نسبت دی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا کہ’’چراغ روشن ہوگیا‘‘؛ چونکہ چراغ سے نکلنے والی ضیاء اس کا فعل شمار نہیں ہوتا۔ بلکہ جس وقت چراغ ہمیں روشنی دیتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ چراغ ہمارے لئے روشن ہوگیا اور ہم نے روشنی حاصل کرلی اور تم اس روشنی سے اپنے کو پا لیتے ہو اور اپنے کام میں بصارت پیدا کر لیتے ہو۔ عمران نے کہا: میرا یہ گمان تھا کہ مخلوق کو خلق کرکے اس کے کام میں تغییر و تبدیل ہو جاتا ہے اور اس کی حالت میں تبدیلی رونما ہوجاتی ہے ۔ حضرت نے فرمایا:

تم نے یہ محال بات کہہ دی چونکہ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی موجود بغیر تغییر کرنے والے کے خود بخود تبدیل ہوجائے۔ کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ آگ کے اندر رونما ہونے والی تبدیلی سے خود آگ کی حقیقت تبدیل ہو جائے؟ کیا تم نے ابھی تک یہ دیکھا ہے کہ حرارت اپنے ہی کو جلا ڈالے؟ کیا تم نے دیکھا ہے کہ کسی بینا شخص نے اپنی بینائی کا مشاہدہ کیا ہو؟

عمران نے جواب دیا: نہیں میں نے نہیں دیکھا۔ اچھا آپ یہ بتلائیے کہ کیا وہ مخلوقات کے اندر ہے یا مخلوقات اس کے اندر ہیں؟ آپؑ نے فرمایا: وہ ان سب باتوں سے بلند و بالا ہے نہ وہ مخلوقات میں ہے اور نہ مخلوقات اس میں ہیں بلکہ وہ بہت اعلی و ارفع ہے۔ اب میں اللہ کی مدد سے تیرے سامنے اس امر کی وضاحت کرتا ہوں ۔اچھا یہ بتاؤ! جب تم آئینہ دیکھتے ہو تو تم آئینہ میں ہوتے ہو یا آئینہ تمہارے اندر؟ اور اگر دونوں میں سے کوئی بھی ایک دوسرے میں نہیں ہوتا تو تم اپنے کو آئینہ میں کیسے دیکھتے ہو؟ اس نے جواب دیا: اس نور کی مدد سے جو میرے اور آئینہ کے درمیان ہوتا ہے۔ حضرت نے فرمایا: کیا تم اس نورکو اپنی آنکھ سے بھی زیادہ اس آئینہ میں پاتے ہو؟ اس نے کہا: ہاں ! حضرت نے فرمایا: اسے ہمیں دکھاؤ! عمران نے کوئی جواب نہ دیا ۔ حضرت نے فرمایا: میری نظر میں، نور نے تمہیں اور آئینہ کو منور کیا ہے بغیر اس کے کہ وہ تم دونوں کے اندر ہو۔ اور اس موضوع کی بہت سی دیگر مثالیں بھی ہیں جن تک کسی جاہل کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ البتہ خدا ان سب سے بلند و بالا ہے۔

اس کے بعد آپ نے مامون کی طرف رخ کیا اور فرمایا: اب نماز کا وقت ہو چکا ہے۔ عمران نے عرض کی: میرے مولا! میرے سوال کو قطع نہ فرمائیں۔ میرا دل اب نرم ہوچکا ہے، فرمایا: میں نماز پڑھ کر واپس آؤں گا۔ پھر آپ تشریف لے گئے اور مامون بھی اپنی جگہ سے اٹھ گیا۔ حضرت نے اندر جاکر نماز ادا کی جبکہ دیگر لوگوں نے آپ کے چچا (محمد بن جعفر) کی اقتداء میں باہر ہی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور اپنی جگہ پر جلوہ افروز ہوئے، عمران کو بلایا اور فرمایا: اپنے سوالات کو پیش کرو۔ اس نے یہ سوال کیا: کیا خداوند عالم کی وحدانیت حقیقی طور پر درک ہو سکتی ہے یا صرف صفت کے ذریعہ قابل درک ہے؟ حضرت نے فرمایا: خداوند عالم خالق یکتا، وہی موجود کہ جو ازل سے ہے وہ ہمیشہ واحد تھا بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا ہوتا۔ وہ واحد ہے اس کا دوسرا نہیں۔ نہ وہ معلوم ہے نہ مجہول۔ نہ محکم ہے نہ متشابہ۔ نہ وہ یادوں میں ہے اور نہ ہی بھلا دینے کے قابل ہے۔ نہ وہ کوئی ایسی چیز ہے کہ اس کے علاوہ کسی دوسری شئی کا نام و عنوان اس پر صادق آئے۔ وہ ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص زمانے میں اور کسی خاص و معین وقت میں ہو یا کسی دوسری چیز کے ذریعہ اس کا قوام ہو یا وہ کسی دوسری چیز کے سرحد وجود پر واقع ہو۔ اسے کسی چیز کا سہارا نہیں اور نہ ہی وہ کسی چیز میں پوشیدہ ہے اور یہ سب چیزیں مخلوقات کی خلقت سے بھی پہلے سے ہیں۔ چونکہ کوئی چیز اس کے علاوہ نہیں تھی اور تم اسے کسی بھی صفت سے چاہے متصف کرو سب کی سب وہ حادث صفات ہیں البتہ وہ اس کی ذات کو سمجھنے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

جان لو کہ ایجاد، مشیت اور ارادہ، یہ تینوں درحقیقت ایک ہی چیز کے نام ہیں۔ اور سب سے پہلے اس کی ایجاد، مشیت اور ارادہ ایسے حروف تھے کہ جنہیں ہر چیز کی اصل و بنیاد قرار دیا اور ہر ایک مشتبہ امر پر روشن و بین دلیل بنایا، اور ان حروف کے ذریعہ ہر چیز کو ایک دوسرے سے ممتاز قرار دیا ، چاہے وہ حق ہو یا باطل، فعل ہو یا مفعول، معنی دار ہو یا بے معنی۔ اور تمام امور کو ان حروف میں جمع کردیا اور ان حروف کی خلقت میں ان کے انفسی معنی کے علاوہ لا متناہی معنی قرار نہیں دیئے۔چونکہ ابداع و ایجاد کے ذریعہ یہ حروف وجود میں آئے تھے اور اس مقام پر اس خدا کا سب سے پہلا فعل تھا کہ جو خود آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے اور حروف اس کے فعل کے ذریعہ فعلیت تک پہونچے اور یہ وہی حروف ہیں کہ جن پر کلام و عبارات کا دار و مدار تھا اور یہ سب اللہ کی جانب سے ہیں کہ جو اس نے اپنی مخلوق کو سکھائے ہیں۔ اور یہ 33 (تینتیس) حروف ہیں کہ جن میں سے اٹھائیس حروف عربی زبان پر دلالت کرتے ہیں اور پھر ان اٹھائیس میں سے بائیس حرف سریانی اور عبرانی زبان پر دلالت کرتے ہیں اور ان میں سے پانچ باقی ماندہ حروف پوری دنیا کے مخلتف خطوں میں رائج زبانوں کے لئے ہیں اور یہ پانچ حروف اٹھائیس حروف سے علیحدہ ہوئے اور نتیجہ میں یہ مکمل تیتیس حروف کا مجموعہ ہے ۔ اور ان پانچ حروف کے متعلق ہم جتنا بیان کرچکے اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے ۔ پھر اس نے ان حروف کو احصاء و شمار کرنے کے بعد اپنا فعل قرار دیا جیسا کہ اللہ تعالی کا یہ قول: ’’كُنْ فَيَكُونُ‘‘،(ہوجا اور وہ ہوگیا) کن خدا کی صفت اور خلقت ہے اور جو کچھ اس سے ایجاد ہوا وہ مصنوع و مخلوق ہے اور اس طرح اللہ کی سب سے پہلی مخلوق ابداع قرار پاتی ہے۔

کہ نہ جس میں کوئی وزن ہے اور نہ حرکت ، نہ مسموع ہے اور نہ ہی رنگ والی اور نہ ہی قابل حس۔ اس کی دوسری مخلوق وہ حروف ہیں کہ جن کا نہ کوئی وزن ہے اور نہ رنگ، لیکن سننے اور کسی صفت سے متصف کرنے کے لائق ہیں لیکن قابل رویت نہیں ہیں۔ تیسری مخلوق تمام دیگر مخلوق کے درمیان محسوس و ملموس کرنے کے قابل ہے ، جسے چکھا بھی جاسکتا ہے اور دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ اور خداوند عالم اس ابداع سے پہلے تھا چونکہ اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور نہ اس کے ساتھ کوئی دوسرا تھا اور ابداع حروف سے پہلے تھا اور یہ حروف اپنے علاوہ کسی دوسری چیز کی نشان دہی نہیں کرتے۔ مامون نے سوال کیا: کیسے یہ حروف اپنے علاوہ دوسری کسی چیز کی نشاندہی نہیں کرتے؟

امام رضاؑ نے فرمایا: چونکہ خداوند عالم انھیں معنی کے لئے ایک دوسرے سے ملاتا ہے اور جب ان میں چند حروف مثال کے طور پر چار، پانچ ،چھ یا کچھ کم یا زیادہ ایک دوسرے سے ملا دیئے جاتے ہیں تو ان سے جدید اور نئے معنی پیدا ہوتے ہیں کہ جو پہلے نہیں تھے۔ عمران نے سوال کیا: ہم اس مطلب کو کسیے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا: اس مطلب کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ان حروف سے مراد خود یہ حروف ہی ہوں اور کوئی دوسری چیز مراد نہ ہو تو آپ انھیں علیحدہ علیحدہ بیان کرتے ہں اور کہتے ہیں: ا، ب، ت، ث، ج، ح، خ ۔ ۔ ۔ وغیرہ۔ تو تمہیں ان حروف سے صرف یہی سمجھ میں آتے ہیں کوئی چیز نہیں لیکن جب تم انھیں آپس میں ملا کر اپنا مطمع نظر کوئی نام یا صفت بناتے ہو تو یہ اس نام اور موصوف کی صفت پر دلالت کرتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں آگئی ؟ اس نے جواب دیا: ہاں !

اور تم یہ بات جان لو کہ کوئی بھی صفت اپنے موصوف کے بغیر نہیں ہوتی اور اسی طرح کوئی نام بغیرمعنی اور کوئی تعریف کسی معرَّف کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اور صفات و اسماء سب کے سب کمال اور وجود پر دلالت کرتے ہیں لیکن حدود کی طرح ،جیسا کہ تربیع(مربع بنانا) تثلیث(مثلث بنانا)تسدیس(مسدس بنانا) احاطہ اور جامعیت پر دلالت نہیں کرتے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کے اسماء و صفات کے ذریعہ ہوتی ہے اور طول ، عرض،قلت ، کثرت، رنگ و وزن وغیرہ کو حد قرار دے کر اس کی معرفت حاصل نہیں ہوسکتی اور مذکورہ چیزوں میں سے کوئی بھی خداوند عالم کے باب میں صادق نہیں آتی کہ جن کے سبب مخلوقات انھیں اس کی حدود قرار دے کر اسے پہچان سکیں۔ اور بالضرورۃ ، یہ مطلب ہمارے بیان اور دلائل سے ثابت ہوتا ہے ۔اور اللہ تعالیٰ کے صفات، اس کے وجود پر دلیل ہوتے ہیں اور وہ اپنے اسماء کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور مخلوقات کے وجود کے ذریعہ اس کے وجود کے اثبات پر دلیل قائم کی جاتی ہے اس طرح کہ حقیقت کو طلب کرنے والے انسان کو اسے آنکھ سے دیکھنے ، کان سے سننے ، ہاتھ سے چھونے اور قلب و دل سے احاطہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اگر اس کے اسماء اور صفات اس کی ذات تک نہ پہونچاتے اور مخلوق کا علم ان کے معنی کو درک نہ کرتا تو وہ ان اسماء و صفات کی ہی پرستش کرنے لگتے نہ ان کے معنی کی، اور اگر ایسا ہوتا تو ’’اللہ‘‘ کے علاوہ کوئی دیگر معبود ہوتا چونکہ اسماء و صفات اس کے غیر ہیں ۔ کیا تمہیں یہ بات سمجھ میں آگئی؟ عمران نے کہا: ہاں۔ لیکن ابھی مزید وضاحت فرمائیے!

حضرت نے فرمایا : تم کبھی جاہلوں، گمراہ اور دل کے اندھوں کی بات کو زبان پر مت لانا! چونکہ یہ وہی لوگ ہیں جن کا گمان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب و عقاب دینے کے لئے قیامت میں موجود رہے گا لیکن وہ اپنے بندوں سے اطاعت کروانے اور ان کی امید بننے کے لئے دنیا میں حاضر نہیں رہتا۔ جبکہ اگر روز آخرت اس کا حاضر رہنا اس کے لئے باعث نقص ہوتا تو وہ آخرت میں بھی حاضر نہ ہوتا ۔لیکن ایسا گمان رکھنے والے افراد حق سے منحرف ، واقعیت سے بے خبر اور حق کی نسبت دل کے اندھے ہوچکے ہیں اور یہ آیت کریمہ اس مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے: وَ مَنْ کانَ فِی هذِهِ أَعْمى‏ فَهُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمى‏ وَ أَضَلُّ سَبِیلًا[؟؟]؛(اور جو کوئی اس دنیا میں اندھا بنا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا ہی ہوگا اور بڑا راہ گم کردہ ہوگا۔ (سوره اِسراء، آیت 72)۔ اس آیت میں اندھے پن سے مراد حقائق کو نہ دیکھنا ہے ۔ اور صاحبان عقل جانتے ہیں کہ اس عالَم پر صرف، اس دنیا میں موجود اشیاء کے ذریعہ ہی استدلال کرنا ممکن ہے۔ اور جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی رائے کے ذریعہ اس عالَم کو درک کرے تو وہ اس کام کے ذریعہ اس عالَم کے حقائق سے دور ہی ہوتا جائے گا چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان حقائق کا علم ان افراد کو دیا ہے کہ جو صاحبان عقل، علم اور اہل فہم ہیں۔ عمران نے دریافت کیا: مولا یہ بتلائیے کہ کیا ’’ابداع‘‘ مخلوق ہے یا غیر مخلوق؟

امام رضاؑ نے فرمایا: ابداع، خلق ساکن ہے لیکن اس کا ادراک سکون کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اور اس عنوان سے مخلوق ہے چونکہ وہ ایک حادث شئی ہے اور اللہ تعالی نے اسے وجود بخشا ہے لہذا وہ اللہ کی مخلوق ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس طرح سمجھو کہ صرف خدا ہے اور اس کی مخلوقات، اور تیسری کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اور جس چیز کو بھی خدا خلق کرتا ہے وہ اپنے مخلوق ہونے کا انکار ہی نہیں کرسکتی۔ اور جان لو کہ اللہ تعالی کی مخلوق یا ساکن ہے یا متحرک، یا مختلف ہے یا یکساں، یا معلوم ہے یا مشتبہ، اور جو بھی دائرہ حد و تعریف میں آجائے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مخلوق ہے۔

اور جان لو کہ جو چیز تمہارے حواس کے ذریعہ وجود میں آتی ہے اس کے معنی حواس کے ذریعہ ہی قابل درک و حصول ہے اور ہر قوہ حسی اسی چیز کی نشان دہی کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے جو چیز اس کے واسطے ادراک میں قرار دی ہے اور فہم کا سرچشمہ قلب ہوتا ہے۔ اور جان لو وہ ذات واحد کہ جو بغیر اندازے اور حدود کے ہمشہ قائم و دائم ہے اس نے با اندازہ اور معین حدود کے ساتھ مخلوق تخلیق فرمائی ہے۔ اور اس نے جو کچھ خلق فرمایا وہ دو چیزیں تھیں ایک اندازہ اور دوسرے اندازے والی چیز، اور ان میں سے کسی میں بھی رنگ، وزن اور ذائقہ نہیں تھا۔ اور اس نے ان میں ہر ایک کو دوسری کے ادراک کا ذریعہ قرار دیا اور ان دونوں کو اس طرح بنایا کہ دونوں خود بخود درک ہوجائیں اور اس نے ان میں سے کسی کو بھی قائم بالنفس قرار نہیں دیا بلکہ ان کے قوام و قیام کو اپنی ذات سے مربوط رکھا چونکہ اس کی مشیت یہ تھی کہ وہ چیز خود اس (خدا)کے وجود پر دلیل بن سکے اور اس کے وجود کو ثابت کرنے میں کام آ سکے۔

خداوند عالم واحد و یکتا ہے ۔ کوئی اس کا ثانی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ قائم رہ سکے یا وہ اس کی مدد اور حفاظت کرسکے۔ لیکن مخلوقات اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیت سے ایک دوسرے کے مددگار اور ان کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ لوگوں نے اس مسئلہ میں شدید اختلاف کیا یہاں تک کہ وہ سرگردانی اور حیرت میں مبتلا ہوگئے اور گویا اندھیرے سے نکلنے کے لئے خود اندھیرے کا ہی سہارا لینے لگے چونکہ انھوں نے خداوند عالم کو اپنے اوصاف سے متصف کرنا شروع کردیا( اور نتیجہ میں ہدایت پانے، منزل مقصود تک پہونچنے کے بجائے گمراہی میں مبتلا ہوگئے) اور حق سے دور ہوگئے۔ اور اگر وہ خدا کو اس کے صفات اور مخلوق کو ان کے صفات سے متصف کرتے تو ان کا کلام حق پر مبنی ہوتا اور ان میں کبھی اختلاف بھی پیدا نہ ہوتا۔ اور چونکہ انھوں نے جان بوجھ کر حیرت و سرگردانی کا راستہ چنا تھا اسی لئے ان کا یہ حال ہوا ، جبکہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو ہدایت کا راستہ دکھاتا ہے جو ہدایت کا طلب گار ہوتا۔

عمران نے عرض کیا: میرے آقا و مولا! میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ایسا ہی ہے جیسی آپ نے اس کی توصیف بیان فرمائی ہے لیکن ابھی بھی میرا ایک سوال باقی ہے۔ امامؑ نے فرمایا: پوچھو! عمران نے عرض کیا: خدائے حکیم کس جگہ ہے ؟ کیا کسی چیز نے اس کا احاطہ کر رکھا ہے؟ کیا وہ ایک چیز سے دوسری چیز میں یا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے؟ کیا اسے کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: یہ مطلب لوگوں کے پیچیدہ ترین سوالات میں سے ایک ہے۔ اور جن لوگوں کے پاس عقل، علم اور فہم کا فقدان ہوتا ہے وہ اس مسئلہ کو نہیں سمجھتے جبکہ منصف صاحبان عقل اس کے درک سے عاجز نہیں رہتے۔ پس عمران میرے کلام کو غور سے سنو اور اسے سمجھو!

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو اپنی ضرورت کے پیش نظر خلق کیا ہوتا تو ہمارے لئے یہ بات کہنا جائز تھی کہ اس نے اپنی مخلوقات کی جانب تغیر مکان کیا ہے، چونکہ اسے ان کی ضرورت تھی۔ لیکن اس نے کسی بھی شئی کو اپنی ضرورت کے پیش نظر خلق نہیں فرمایا لہذا وہ ہمیشہ ثابت ہے نہ وہ کسی چیز کے اندر ہے اور نہ کسی چیز کے اوپر؛ لیکن مخلوق ایک دوسرے کا سہارا بنتی ہیں اور بعض بعض میں داخل ہوتی ہیں اور بعض بعض سے خارج ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ان سب کو سنبھالتا ہے اور نہ وہ کسی چیز میں داخل ہوتا ہے اور نہ کسی چیز سے خارج ہوتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے اس پر خستگی طاری ہوتی ہے اور نہ اس کام سے وہ عاجز آتا ہے اور مخلوقات میں سے کوئی بھی اس کیفیت کو درک نہیں کرسکتا مگر یہ کہ صرف وہ افراد، جنھیں اللہ اس کیفیت سے آگاہ کرنا چاہے جیسا کہ انبیائے الہی، خاصان خدا، اس کے اسرار سے واقف اور اس کی شریعت کے حفاظت کرنے والے۔ اس کے احکام پلک جھپکنے یا اس سے بھی کم وقت میں نافذ ہوجاتے ہیں اور وہ جس چیز کا بھی ارادہ کرتا ہے اس سے کہتا ہے: ہوجا اور وہ شئی اس کی مشیت و ارادے سے وجود پا لیتی ہے۔ اور اس کی مخلوق میں سے کوئی بھی چیز دوسری شئی کی نسبت اس سے زیادہ نزدیک نہیں ہے اور اور کوئی بھی چیز دوسری چیز کی نسبت اس سے دور نہیں ہے۔ عمران! کیا تم سمجھ گئے؟

اس نے جواب دیا: ہاں میرے مولا! میں سمجھ گیا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خداوند عالم ویسا ہی ہے جیسا آپ نے بیان فرمایا اور اس کی وحدانیت اور صفات کو بیان فرمایا، اور میں گواہی دیتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا بندہ ہے کہ جسے اس نے نور ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ پھر اس کے بعد عمران رو بہ قبلہ ہوا اور سجدہ کیا اور اسلام لے آیا۔[25]

متعلقہ مضامین

حوالہ جات

  1. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص417-441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص154-175۔
  2. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص417-418؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص154-155۔
  3. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص417-418؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص154-155۔
  4. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص417-441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص154-175۔
  5. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص430؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص168۔
  6. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص169۔
  7. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص169۔
  8. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص170۔
  9. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔
  10. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔
  11. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص171۔
  12. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص173۔
  13. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ، ج1، ص172۔
  14. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص176۔
  15. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص178۔
  16. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ ، ص441؛ شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص178۔
  17. شیخ صدوق، توحید، 1398ھ، ص417-441۔
  18. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ھ ، ج1، ص154-175۔
  19. طبرسی، الاحتجاج، 1403ھ، ج2، ص415-425۔
  20. مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ ، ج10، ص299-318۔
  21. خسرویان، بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضا(ع) در عراق و خراسان، ص112-113، 116-125۔
  22. خسرویان، ’’بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضا(ع) در عراق و خراسان‘‘، ص126۔
  23. خسرویان، بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضا(ع) در عراق و خراسان، ص126۔
  24. شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، 1378ق، ج1، ص168-177.
  25. شیخ صدوق، ترجمہ عیون اخبار الرضا، 1372 ش، ص340-358۔

مآخذ

  • خسرویان قلہ ‌زو، جعفر، ’’بررسی و تحلیل سند مناظرات امام رضا(ع) در عراق و خراسان‘‘، در پژوہش ہای قرآن و حدیث، شماره 1، 1397 ہجری شمسی۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، التوحید، تحقیق و تصحیح ہاشم حسینی، قم، دفتر انتشارات اسلامی وابستہ بہ جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم، چاپ اول، 1398ھ ۔
  • شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، تحقیق و تصحیح مہدی لاجوردی، تہران، نشر جہان، چاپ اول، 1378 ہجری شمسی۔
  • طبرسی، احمد بن علی، الاحتجاج علی اہل اللجاج، تحقیق و تصحیح محمد باقر خرسان، مشہد، نشر مرتضی، چاپ اول، 1403ھ ۔
  • مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار الجامعۃ لدرر اخبار الآئمۃ الاطہار، بیروت، دار احیاء‌ التراث العربی، چاپ دوم، 1403ھ ۔