"حر بن یزید ریاحی" کے نسخوں کے درمیان فرق
imported>Mabbassi |
imported>Mabbassi م ←توبہ |
||
سطر 48: | سطر 48: | ||
== توبہ== | == توبہ== | ||
حر نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ سخت اقدام کیا تھا۔حتاکہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کی عزت و احترام کی جانب اشارہ کیا۔<ref> بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳، قس ص۱۴، که جمله امام درباره حرّ را پس از کارزار وی میداند</ref> | |||
<!-- | <!-- | ||
== توبه حر در روز عاشورا == | |||
[[پرونده:کتیبه کاشی کاری سر در حرم حربن یزید ریاحی.jpg|بندانگشتی|کاشی کاری سر در حرم حر بن یزید ریاحی.]] | |||
حرّ اگرچه اقدامی سختگیرانه کرد، اما رفتارش با امام محترمانه بود؛ حتی یک بار به حرمت خاص [[فاطمه(س)]] نیز اشاره کرد.<ref>رجوع کنید به بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳، قس ص۱۴، که جمله امام درباره حرّ را پس از کارزار وی میداند</ref> | |||
در روز [[عاشورا]]، [[عمر بن سعد]] لشکر خود را آراست و فرماندهان هر بخش از سپاه را تعیین نمود. او حربن یزید ریاحی را فرمانده [[بنی تمیم]] و [[بنی همدان]] کرد. با آراسته شدن سپاه، لشکر عمر سعد آماده جنگ با سپاه امام حسین(ع) گردید. | |||
حربن یزید چون تصمیم کوفیان را برای جنگ با آن حضرت(ع) جدی دید نزد عمر بن سعد رفت و به او گفت: «آیا تو میخواهی با این مرد (امام حسین(ع)) بجنگی؟» گفت: «آری به خدا قسم چنان جنگی بکنم که آسانترین آن افتادن سرها و بریدن دستها باشد.» حر گفت: «مگر پیشنهادات او خوشایندتان نبود؟» ابن سعد گفت: «اگر کار به دست من بود میپذیرفتم؛ ولی امیر تو (عبیداللَّه) نپذیرفت.» | |||
پس حر، عمر سعد را ترک کرد و در گوشهای از لشکر ایستاد و اندک اندک به سپاه امام(ع) نزدیک شد، [[مهاجر بن اوس]] -که در لشکر عمر سعد بود- به حر گفت: «آیا میخواهی حمله کنی؟» حر در حالی که میلرزید پاسخی نداد. مهاجر که از حال و وضع حر به شک افتاده بود، او را مورد خطاب قرار داد و گفت: «به خدا قسم هرگز در هیچ جنگی تو را به این حال ندیده بودم، اگر از من میپرسیدند: شجاعترین مردم کوفه کیست از تو نمیگذشتم (و تو را نام میبردم) پس این چه حالی است که در تو میبینم؟» | |||
حر گفت: «به درستی که خود را میان [[بهشت]] و [[جهنم]] میبینم و به خدا سوگند اگر تکهتکه شوم و مرا با آتش بسوزانند من جز بهشت چیز دیگری را انتخاب نخواهم کرد.» حر این را گفت و بر اسب خود نهیب زد و به سوی خیمهگاه امام(ع) حرکت کرد. | |||
گفتهاند که وی با حالی پریشان با امام مواجه شد و با اذعان به اینکه هرگز گمان نمیکرده است که کوفیان کار را به جنگ بکشانند، طلب بخشش کرد. امام برایش استغفار نمود و فرمود که تو در دنیا و آخرت آزادمرد (حرّ) هستی.<ref>رجوع کنید به بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳، قس ص۱۴، که جمله امام درباره حرّ را پس از کارزار وی میداند.</ref> | |||
حر در حالی که سپر خود را وارونه کرده بود به اردوگاه امام(ع) وارد شد. او خدمت امام حسین(ع) آمد و عرض کرد: | |||
{{نقل قول|فدایت شوم یابن رسول الله(ص) من آن کسی هستم که از بازگشت تو (به وطن خود) جلوگیری کردم و تو را همراهی کردم تا به ناچار در این سرزمین فرود آیی؛ من هرگز گمان نمیکردم که آنان پیشنهاد تو را نپذیرند، و به این سرنوشت دچارتان کنند، به خدا قسم اگر میدانستم کار به این جا میکشد، هرگز به چنین کاری دست نمیزدم، و من اکنون از آن چه انجام دادهام به سوی خدا [[توبه]] میکنم، آیا توبه من پذیرفته است؟}} | |||
امام حسین(ع) فرمود: آری خداوند [[توبه]] تو را میپذیرد. | |||
--> | --> | ||
نسخہ بمطابق 19:09، 24 جولائی 2016ء
یہ تحریر توسیع یا بہتری کے مراحل سے گزر رہی ہے۔تکمیل کے بعد آپ بھی اس میں ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ اگر اس صفحے میں پچھلے کئی دنوں سے ترمیم نہیں کی گئی تو یہ سانچہ ہٹا دیں۔اس میں آخری ترمیم [[صارف:imported>Mabbassi|imported>Mabbassi]] ([[Special:Contributions/imported>Mabbassi|حصہ]] · [[Special:Log/imported>Mabbassi|شراکت]]) نے 8 سال قبل کی۔ |
حر بن یزید ریاحی کے نام سے معروف حضرت امام حسین ؑ کے جانثار ہیں جن کا مکمل نام حُرّ بْن یَزید بْن ناجیہ تَمیمی یَرْبوعی ریاحی، ہے۔واقعہ کربلا سے پہلے ایک سپہ سالار کی حیثیت سے ابن زیاد کی جانب سے حضرت امام حسین ؑ کے کارواں کو کوفہ آنے سے روکنے کی ذمہ داری سپرد کی گئی۔لہذا وہ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کیلئے ایک ہزار افراد پر مشتمل لشکر کے ساتھ عازم سفر ہوا۔
عاشورا کے روز حر بن یزید نے جب دیکھا کہ کوفیان امام حسین ؑ کے قتل کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو لشکر کو چھوڑ کر حضرت امام حسین ؑ سے مل گئے۔بالآخر انکی معیت میں جنگ کرتے ہوئے شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ندامت کی وجہ سے کوفی لشکر کو چھوڑ کر حضرت امام حسین سے ملحق ہونے کی اہل شیعہ ان کی نہایت عظمت و احترام کے قائل ہیں۔اسی وجہ سے شیعہ حضرات امید ،وبولیت توبہ اور کامیابی کے نمونے کے طور حضرت حر کو پہچانتے ہیں۔
نسب
حرّ بن یزید بن ناجیہ بن قَعْنَب بن عَتّاب بن حارث بن عمرو بن ہَمّام بن بنو ریاح بن یربوع بن حَنْظَلَہ قبیلہ تمیم کی شاخ سے منتسب ہیں [1] اسی وجہ سے انہیں ریاحی، یربوعی، حَنظَلی و تمیمی کہا جاتا ہے .[2] خاندان حرّ کا خاندان زمانۂ جاہلیت اور اسلام کے دور میں بزرگ گنا جاتا تھا.[3]
عاشورا سے پہلے
حر کوفہ کے مشہور ترین جنگی دلاوروں میں سے تھے[4] بعض منابع نے اشتباہ کی وجہ سے انہیں عبید اللہ بن زیاد کے شُرطہ ہونے کے عنوان سے ذکر کیا ہے [5] پس اس بنا پر وہ صاحب شرطہ کے عنوان سے نہیں بلکہ وہ ایک قوجی منصب کے حامل تھے اور انہیں عبیداللّه بن زیاد کی طرف سے تمیم و ہمْدان کے جوانوں پر مشتمل فوج کی سپہ سالاری کے فرائض کے ساتھ امام حسین(ع) کو روکنے کیلئے مامور کیا گیا[6][7]
آپکے فوجی عہدے دار ہونے کے احتمال کی مزید تقویت اس بات سے ہوتی ہے کہ کوفہ کی 60 سالہ زندگی میں کسی قسم کی سیاسی سرگرمی کا ذکر نہیں آیا ہے اور وہ سیاست سے کسی قسم کا سروکار نہیں رکھتے تھے ۔ صرف بلعمی نے ایک مردد روایت کے سہارے کی بنا پر اسے شیعہ کہا کہ جس نے اپنے مذہب کو چھپا کر رکھا ہوا تھا[8]
واقعات | |
---|---|
امام حسینؑ کے نام کوفیوں کے خطوط • حسینی عزیمت، مدینہ سے کربلا تک • واقعۂ عاشورا • واقعۂ عاشورا کی تقویم • روز تاسوعا • روز عاشورا • واقعۂ عاشورا اعداد و شمار کے آئینے میں • شب عاشورا | |
شخصیات | |
امام حسینؑ علی اکبر • علی اصغر • عباس بن علی • زینب کبری • سکینہ بنت الحسین • فاطمہ بنت امام حسین • مسلم بن عقیل • شہدائے واقعہ کربلا • | |
مقامات | |
حرم حسینی • حرم حضرت عباسؑ • تل زینبیہ • قتلگاہ • شریعہ فرات • امام بارگاہ | |
مواقع | |
تاسوعا • عاشورا • عشرہ محرم • اربعین • عشرہ صفر | |
مراسمات | |
زیارت عاشورا • زیارت اربعین • مرثیہ • نوحہ • تباکی • تعزیہ • مجلس • زنجیرزنی • ماتم داری • عَلَم • سبیل • جلوس عزا • شام غریبان • شبیہ تابوت • اربعین کے جلوس |
سپاہ کوفہ کی سپہ سالاری
[عبیدالله بن زیاد]] جبامام حسین(ع) کی کوفہ کی طرف روانگی سے آگاہ ہوا۔اس نے کوفہ بزرگوں اور رؤسا میں سے حرکو طلب کیا اور انہیں 1000 افراد کی سپہ سالاری کے ساتھ حضرت امام حسین کو روکنے کیلئے روانہ کیا .
دیگر روایات کی بنا پر عبیدالله بن زیاد نے حصین بن نمیر تمیمی کو چار ہزار کی نفری کے ساتھ قادسیه اعزام کیا تا کہ وہ قادسیہ سے خفّان تک اور قُطقُطانیہ سے لَعلَع تک کے علاقے کو اپنے زیر نظر رکھیں اس طرح وہ اس علاقے میں آنے جانے والوں سے آگاہ رہ سکیں اور حر اور اسکے ہزار سپاہی اسی ۴۰۰۰ افراد کا حصہ تھے کہ جو حصین بن نمیر کی سرکردگی میں مامور ہوئے تھے .
غیبی آواز کا سننا
خود حر روایت کرتے ہیں کہ جب میں قصر ابن زیاد سے باہر نکلا تا کہ حسین کو روکنے کیلئے سفر کا آغاز کروں تو میں نے تین بار اپنے پیچھے سے ایک غیبی ندا سنی کہ جو مجھے کہہ رہی تھی:
- اے حرّ! تہیں جنت کی بشارت مبارک ہو.میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کسی کو اپنے پیچھے نہ پایا اور میں نے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا : یہ کیسے جنت کی بشارت ہو سکتی ہے جبکہ میں امام حسین سے جنگ کرنے کیلئے جا رہا ہوں ۔
اس نے اس بات کو ذہن نشین کیا یہاں تک کہ اس نے اس بات کو حضرت امام حسین کے سامنے بیان کیا تو امام نے کہا :تو نے حقیقت میں نیکی اور خیر کی راہ کو پا لیا ہے [9][10]
امام حسین سے آمنا سامنا
امام حسین(ع) کا ذی حُسم کے مقام پر حر کے روبرو ہوئے.[11] تاریخی منابع کی تصریح کے مطابق حرّ جنگ کیلئے اعزام نہیں ہوئے تھے بلکہ صرف امام حسین کو ابن زیاد کے پاس لانے کیلئے مامور تھے اسی وجہ سے انہوں امام حسین کی قیام گاہ کے سامنے صف آرائی کی .[12] کس طرح سے سپاہ حر امام حسین کے سامنے آئے اس کی کیفیت کو ابومخنف نے حضرت امام حسین کےساتھ ہمراہی کرنے والے بنی اسد قبیلے کے افراد سے یوں نقل کیا ہے:
- جب کاروان امام حسین(ع) نے شراف سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے دور سے دشمن کے لشکر کا مشاہدہ کیا تو امام(ع) اپنے ساتھیوں سے استفسار کیا:
- یہاں نزدیک کوئی پناہ گاہ ہے جہاں ہم پناہ لیں اور انہیں اپنے پشت سر قرار دیں تا کہ ایک طرف سے انکے ساتھ مقابلہ کر سکیں ؟انہوں نے جواب دیا ہاں !بائیں طرف ایک منزل بنام ذو حُسمہے۔
- پس امام نے بائیں طرف سفر کا آغاز کیا جبکہ دشمن نے بھی اسی طرف کا رخ کیا لیکن امام حسین ان سے پہلے اس مقام پر پہنچ گئےاور انہوں نے اپنے خیام نصب کر دئے ۔
- حر بن یزید ریاحی اور اسکے ساتھی ظہر کے وقت پیاس کے عالم میں وہاں پہنچے اور انہوں نے امام حسین ؑ کے سامنے خیام نصب کئے اور انکے سامنے صف آرائی کی ۔ انکے اس دشمنانہ رویے کے باوجود امام حسین ؑ نے ان سے صلح آمیز رویہ اپنایا۔امام نے اپنے ساتھیوں کے حکم دیا کہ انہیں پانی پلائیں ۔حر نے آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی آپ نے اسے قبول فرمایا ۔حر نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا ۔امام نے اسے بتایا کہ مجھے کوفہ کے اہالیان نے دعوت دی ہے میں انکے بلانے پر یہاں آیا ہوں نیز کوفیوں کے مسلسل لکھے ہوئے خطوط سے آگاہ کیا اور انکی پریشانی کا بتایا کہ وہ اپنے کئے پر نادم ہیں ۔
- حر نے بتایا کہ وہ ان خطوط سے بے خبر ہے۔وہ اور اسکے ساتھ آنے والوں میں کوئی آپکو خطوط لکھنے والوں میں سے نہیں ہے ۔ہمیں کہا گیا ہے کہ آپکو کوفے کے حاکم پاس لے کر جائیں۔ امام نے جب اپنے اصحاب کے ساتھ حرکت کا ارادہ کیا تو حر کوفے جانے اور آپکے واپس حجاز جانے میں رکاوٹ بنا ۔ حر نے امام کو تجویز دی کہ وہ کوفے اور مدینے کے علاوہ کسی اور راستے کا انتخاب کریں تا کہ وہ اس سلسلے میں ابن زیاد سے نئے دستور کو طلب کر سکے ۔حر نے امام سے کہا: آپ سے جنگ کرنا میرا وظیفہ نہیں ہے لیکن مجے کہا گیا ہے کہ میں آپ سے کسی صورت میں جدا نہ ہوں یہانتک کہ میں آپ کو کوفہ لے کر جاؤں۔پس اگر آپ میری ہمراہی سے گریزاں ہیں تو آپ ایسا راستہ اختیار کریں جو آپ کو نہ کوفہ لے کر جائے اور نہ مدینہ ہی لے کر جائے ۔جب تک میں عبید اللہ بن زیاد کو خط لکھتا ہوں اگر آپ چاہتے ہیں تو یزید بن معاویہ کو خط لکھیں تا کہ یہ معاملہ صلح پر ختم ہو جائے ۔میرے خیال میں یہ میرا اپنے آپ کو جنگ و جدال میں ملوث کرنے کی نسبت زیادہ بہتر ہے ۔
- اس کے بعد امام حسین ؑ نے اپنے اصحاب کے ساتھ عُذیب الهجانات اور قادسیه کا راستہ اختیار کیا نیز ::حر بن یزید امام کے ساتھ رہا ۔[13]
حر اگرچہ حر بن یزید ریاحی امام سے جنگ کرنے کیلئے مامور نہیں تھا لیکن وہ شروع سے ہی امام حسین ؑ کو ممکنہ جنگ کی تنبیہ کرتا رہا یہانتک کہ کہتے ہیں کہ اس نے امام کو تنبیہ کی کہ اگر جنگ ہوئی آپ یقینا قتل ہو جائیں گے ۔ جب موقع ملتا پاتا تو امام سے خدا کیلئے آپ اپنی جان کی حفاظت کریں کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ نے جنگ کی تو آپ کا قتل ہونا یقینی ہے ۔لیکن امام نے اسے اس شعر میں جواب دیا:خدا کی راہ میں موت سے کوئی ڈر و خوف نہیں ہے ۔
عذیب کے مقام پر کوفہ سے چار افراد آپ سے ملحق ہونے کیلئے آئے ۔حر نے انہیں گرفتار کرنے یا انہیں کوفہ واپس بھیجنے کا ارادہ کیا لیکن امام اس ارادے میں مانع بنے ۔انہوں نے کوفے کے غیر معمولی حالات اور آپ کے سفیر قَیس بن مُسَهَّر صیداوی کے شہید ہونے کی خبر دی نیز آپ سے جنگ کرنے کیلئے کوفے میں ایک بہت بڑے کی تیاری خبر دی ۔[14]
دو محرم کو حر کی امام کے ساتھ ہمراہی اختتام کو پہنچی۔[15]دونوں گروہ نینوا نامی جگہ پر پہنچے تھے کہ عبید اللہ کا نامہ حر بن یزید ریاحی کو ملا جس میں اسے دستور دیا کہ امام حسین سے سختی کے ساتھ پیش آئے اور اسے کسی صحرا اور بیابان میں پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرے[16] ابن زیاد نے حر کو لکھا:جیسے ہی تمہیں میرا نامہ ملے تم حسین سے سخت گیری سے پیش آؤ اور اسے ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے پر مجبور کرو جہاں پانی وغیرہ نہ ہو۔میں نے اپنے قاصد کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلسل تمہارے ساتھ رہے تا کہ وہ مجھے تمہاری بارے میں خبر دے کہ تم نے میرے دستور کے مطابق عمل کیا ہے۔والسلامحر نے یہ خط امام کی خدمت میں پڑھ کر سنایا۔امام نے کہا ہمیں نینوا یا غاضریہ میں پڑاؤ ڈالنے دو۔
عبید اللہ بن زیاد کی جاسوسی کی وجہ سے حر بن یزید ریاحی سختی میں تھا لہذا اس نے امام کو روک دیا اور امام کی درخواست کے باوجود انہیں نینوا کے پاس پڑاؤ ڈالنے سے منع کیا ۔امام نے مجبور ہو کر کربلا کے میں اپنے خیام نصب کئے ۔ بعض روایات کی بنا پر عقر گاؤں کے پاس فرات کے قریب خیام نصب کیے ۔ [17] زہیر بن قین نے امام سے کہا :خدا کی قسم ! جیسا میں دیکھ رہا ہوں کہ اس گروہ کے بعد آنے والوں کی نسبت اس گروہ سے ہمارے لیے جنگ کرنا آسانترہے ۔اپنی جان کی قسم!انکے بعد آنے والوں کے ساتھ ہم جنگ کرنے کی سکت نہیں ہے ۔ امام نے جواب دیا ہاں درست کہہ رہے ہو لیکن میں جنگ میں پہل نہیں کرنے والا نہیں ہونگا۔
حضرت امام حسین حر کے ساتھ چلتے ہوئے کربلا پہنچے تو حر کے لشکر کے ان کا راستہ روک لیا اور یہیں فرات کے کنارے پڑاؤ ڈالیں۔ امام نے کہا اس جگہ کا نام کیا ہے ؟کہا : کربلا۔ امام نے یہیں پڑاؤ ڈال دیا ۔حر کے ساتھیوں نے ایک طرف خیام نصب کر دیے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے پڑاؤ ڈالنے پر حر نے ابن زیاد کو خط لکھا اور ان کے کربلا میں ٹھہرنے کی خبر دی ۔
توبہ
حر نے احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ سخت اقدام کیا تھا۔حتاکہ ایک مرتبہ حضرت فاطمہ کی عزت و احترام کی جانب اشارہ کیا۔[18]
- ↑ ابنكلبی، ج۱، ص۲۱۳، ۲۱۶؛ دواداری، ج۴، ص۸۷، ۸۹ نے اسکا نام جَریر بن یزید، یافعی، ج۱، ص۱۰۸ نے حارث بن یزید اور ابنعماد، ج۱، ص۶۷.
- ↑ رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۲، ۴۷۶، ۴۸۹؛ دینوری، ص۲۴۹؛ طبری، ج۵، ص۴۲۲
- ↑ رجوع کریں:سماوی، ص۲۰۳.
- ↑ رجوع کریں: طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۷؛ ابنكثیر، ج۸، ص۱۹۵.
- ↑ رجوع کریں:ابن جوزی، ج۵، ص۳۳۵؛ ابنوردی، ج۱،(ص).۲۳۱
- ↑ طبری، ج۵، ص۴۲۲.
- ↑ رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳؛ دینوری، ص۲۵۲؛ طبری، ج۵، ص۴۰۲ـ۴۰۳.
- ↑ ج ۴، ص۷۰۴
- ↑ مثیرالاحزان، ص۴۴
- ↑ نفس المہموم، ص۲۳۱
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۴۷۲؛ طبری، ج۵، ص۴۰۰؛ مفید، ج۲، ص۶۹، ۷۸؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۲۷، ۳۳۰.
- ↑ رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳؛ دینوری، ص۲۴۹ـ۲۵۰؛ مفید، ج۲، ص۸۰؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۲.
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۴۷۲ـ۴۷۳؛ دینوری، ص۲۴۹ـ۲۵۰؛ طبری، ج۵، ص۴۰۲ـ۴۰۳؛ مفید، ج۲، ص۷۸ـ۸۰.
- ↑ رجوع کریں: بلاذری، ج۲، ص۴۷۳ـ۴۷۴؛ طبری، ج۵، ص۴۰۳ـ۴۰۶؛ اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۱ـ۳۳۳
- ↑ قیس دینوری، ص:۲۵۳ اول محرّم
- ↑ دینوری، ص۲۵۱؛ طبری، ج۵، ص۴۰۸ـ ۴۰۹؛ مفید، ج۲، ص۸۱ـ۸۴؛ قس اخطب خوارزم، ج۱، ص۳۳۴.
- ↑ دینوری، ص۲۵۱ـ۲۵۲؛ طبری، ایضا؛ مفید، ج۲، ص۸۴؛ اخطب خوارزم، ایضا.
- ↑ بلاذری، ج۲، ص۴۷۵ـ۴۷۶، ۴۷۹؛ طبری، ج۵، ص۳۹۲، ۴۲۲، ۴۲۷ـ۴۲۸؛ مفید، ج۲، ص۱۰۰ـ۱۰۱؛ اخطب خوارزم، ج۲، ص۱۲ـ۱۳، قس ص۱۴، که جمله امام درباره حرّ را پس از کارزار وی میداند